عنوان : سلام
ذکرِ مظلوم کو انعام میں رکھا گیا ہے
ظلم کو زمرۂ دشنام میں رکھا گیا ہے
از ازل، تا بہ ابد سارے یزیدوں کا حساب
ایک ہی دفترِ بدنام میں رکھا گیا ہے
تا قیامت کسی ظالم کو نہ ہو جرأتِ ظلم
صبر کو منزلِ اقدام میں رکھا گیا ہے
کربلا ہو، کہ نجف ہو، کہ مدینہ‘ سب کو
نور کے سلسلۂ عام میں رکھا گیا ہے
میں نے تقویمِ شہادت پہ نظر کی توکھُلا
خاک کو شیشۂ ایّام میں رکھا گیا ہے
صبرِ مخدومۂ کونین کی وارث زینبؑ
اِک نشانی کہ جسے شام میں رکھا گیا ہے
مفتخر ہوں تو یہ فیضانِ کرم ہے اُن کا
اُن کی نسبت کو مرے نام میں رکھا گیا ہے