عالمی تنازعات اور اسلحہ سازوں کی ’چاندی‘: وہ کمپنیاں جنھوں نے صرف ایک سال میں 632 ارب ڈالر کمائے



شکیل اختر
عہدہ,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
دنیا بھر میں جاری تنازعات یوکرین، روس اور اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگوں کا سب سے زیادہ فائدہ اسلحہ بنانے والی امریکی کمپنیوں کو ہوا ہے۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹٹیوٹ (سپری) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سنہ 2023 میں دنیا بھر میں فروخت ہونے والا 50 فیصد جنگی سامان صرف امریکی کمپنیوں نے بنایا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس امریکی کمپنیوں نے 317 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔

سپری کے مطابق امریکہ کے بعد اس فہرست میں دوسرے نمبر پر چین ہے جس کی کمپنیوں نے گذشتہ برس دنیا بھر میں 130 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کیے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں ہتھیار بنانے والی دنیا کی ٹاپ 100 کمپنیوں نے 632 ارب ڈالر کا جنگی ساز و سامان فروخت کیا جو کہ 2022 کے مقابلے میں چار اعشاریہ دو فیصد زیادہ ہے۔

دنیا بھر میں جاری تنازعات کے سبب روس اور اسرائیل میں واقع چھوٹی کمپنیوں کے منافع میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

سپری سے منسلک عسکری اخراجات اور ہتھیاروں کی پیداوار پر گہری نظر رکھنے والے محقق لورینزو سکریزیٹو نے رپورٹ میں پیش گوئی کی ہے کہ ’سنہ 2023 میں ہتھیاروں سے ہونے والی آمدنی میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے اور یہ اضافہ 2024 میں بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔‘

واضح رہے کہ سپری کی جانب سے جن سو کمپنیوں کی فہرست جاری کی گئی ہے ان میں دو انڈین کمپنیاں بھی شامل ہیں تاہم پاکستان کی کوئی کمپنی موجود نہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دنیا کی 100 بڑی کمنپیوں کے جو اعداد وشمار سامنے آئے ہیں وہ ہتھیاروں کی بھاری عالمی مانگ کی صحیح تصویر نہیں پیش کر رہے ہیں۔ بہت سی کمپنیوں نے ٹیکنیشنز اور انجیںئرز کی بھرتی شروع کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں ہتھیاروں کی فروخت میں مزید اضافے کی امید کر رہے ہیں۔‘

لورینزو کے ادارے نے ایک علیحدہ رپورٹ بھی جاری کی ہے جس میں ہتھیار بنانے والی دنیا کی 100 بڑی کمپنیوں کے نام موجود ہیں۔

سپری کے مطابق ہتھیار بنانے والی دنیا کی 100 بڑی کمپنیوں میں سنہ 2018 سے پانچ امریکی کمپنیاں سرِفہرست ہیں، جبکہ ان کمپنیوں میں مجموعی امریکی کمپنیوں کی تعداد 41 ہے۔

گذشتہ برس ان کمپنیوں نے مجموعی طور پر 317 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے ہیں۔

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد امریکہ کے محکمہ دفاع نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں گذشتہ برس عسکری ساز و سامان کی فروخت میں اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق 2023 میں زیادہ تر عسکری ساز و سامان یوروپی اور اتحادی ممالک کو فروخت کیا گیا ہے۔

محکمہ دفاع کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہتھیاروں کی فروخت میں اضافے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بہت سے ممالک اپنی فوج کو نئے جنگی ساز وسامان اور ہتھیاروں سے لیس کر رہے ہیں، اسی وجہ سے جدید ہتھاروں کی مانگ میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے ۔

امریکہ کی کمپنیاں جنگی جہاز، راکٹ، مزائل، ٹینک اور ڈرونز وغیرہ بناتی ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار راہُل بیدی کہتے ہیں ’ماضی کے مقابلے میں اب جنگی ساز و سامان بہت مہنگا ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ کے جیولن میزائل کی مثال لے لیجیے، یہ ایک بہت عمدہ اینٹی ٹینک میزائل ہے۔ صرف ایک میزائل کی پاکستانی روپے میں قیمت تقر یباً پانچ کروڑ ہے۔‘

’یہ جو امریکی کمپنیوں کی آمدن 317 ارب ڈالر دکھائی گئی ہے اصل منافع اس سے کہیں زیادہ ہو گا کیونکہ ہتھیاروں کا کاروبار بلیک اینڈ وائٹ میں نہیں بلکہ گرے ایریا میں آتا ہے۔ اس میں بہت سے سودے خفیہ رکھے جاتے ہیں جن کے بارے میں تفصیل سامنے نہیں آ پاتی۔‘اہُل بیدی کہتے ہیں کہ امریکہ میں دفاعی ہتھیاروں کی صنعت نجی شعبے کے ہاتھ میں ہے اور ’ہتھیاروں کی ایک لابی ہے جس کے بارے میں بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ لابی دراصل امریکی سرکار چلاتی ہے۔‘

دنیا میں ہتھیار بنانے والی ٹاپ 10 کمپنیوں میں چین کی تین اور روس اور برطانیہ کی ایک، ایک کمپنی شامل ہے۔ اس فہرست میں یورپ کی 27 کمپنیاں ہیں، جن کی 2023 میں مجموعی آمدن 133 ارب ڈالر رہی ہے۔

سپری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’یوکرین کی جنگ سے جنگی سامان بنانے والی روس کی کمپنیوں کو بھاری فائدہ ہوا ہے۔‘ اس ادارے کے تخمینے کے مطابق 2023 میں روسی کمپنیوں کی آمدن میں 40 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور انھوں ںے 25 ارب ڈالر سے زیادہ کے ہتھیار فروخت کیے ہیں۔

چین کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ وہاں معیشت سست روی کی طرف مائل ہے اس لیے 2023 میں ہتھیاروں سے ہونے والی آمدن میں سب سے کم اعشاریہ 7 فیصد کا اضافہ ہوا۔

100 کمپنیوں کی فہرست میں نو چینی کمپنیاں شامل ہیں، جن کی 2023 میں مجموعی آمدنی 103 ارب ڈالر بتائی گئی ہے۔

راہل بیدی کہتے ہیں کہ ’سیاسی وجوہات کی وجہ سے چین اور روس بہت قریب آ گئے ہیں۔ روس کی دفاعی ٹیکنالوجی بہت جدید ہے اور وہ میزائل اور آبدوزوں کی ٹیکنالوجی جیسے کئی شعبوں میں امریکہ اور یوروپ سے بھی آگے ہے۔

’اسے اب چین کی صنعتی صلاحیت کا ساتھ مل رہا ہے اور یہ ایک انتہائی خطرناک ملاپ بن کر ابھر رہا ہے ۔‘ہتھیار بنانے والی دنیا کی بڑی کمپنیوں میں اسرائیل کی تین کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ 2023 میں غزہ کی جنگ کی شروعات کے بعد ان کمپنیوں کی مجموعی فروخت 13 ارب 60 کروڑ ڈالر رہی ہے، جو کہ ان کی تاریخ کی سب سے بڑی فروخت ہے۔

سپری کے سینئیر محقق ڈاکٹر لوپیز ڈا سلوا کے خیال میں ان کمپنیوں کی سیل 2023 میں غیر معمولی اونچائی پر پہنچی تھی اور یہ رحجان جاری رہنے کی توقع ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر 2023 کے ریکارڈ کو مدنظر رکھیں اور جس طرح سے غزہ میں جنگ ابھی تک بھڑکی ہوئی ہے تو یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہتھیار بنانے والی اسرائیلی کمپنیوں کو اس برس پہلے سے بھی کہیں زیادہ جنگی سازو سامان کے آرڈر ملیں گے۔‘

ترکی کی تین کمپنیوں نے بھی 2023 میں ہتھیاروں کی فروخت میں 24 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔

راہل بیدی کے مطابق’ ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے۔ اسے نیٹو ممالک سے ٹیکنالوجی ملتی ہے اور وہ حالیہ برسوں میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے ابھر رہا ہے۔ ترکی کی ہتھیاروں کی صنعت بہت جدید ہے ‘

انڈیا ہتھیار بنانے اور فروخت کرنے والے ممالک کی فہرست میں سب سے چھوٹے ملکوں کے زمرے میں آتا ہے۔ سنہ 2023 میں اس کی تین کمپنیوں کی مجموعی آمدنی چھ ارب سات کروڑ ڈالر رہی تھی۔

تجزیہ کار راہل بیدی کا کہنا ہے ’پوری دنیا میں صرف دس ممالک ہیں جن کی ہتھیاروں کے کاروبار پر اجارہ داری ہے۔ ان میں امریکہ، چین، روس، فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، اسرائیل، جنوبی کوریا اور سپین شامل ہیں ۔‘

سپری کے مطابق ان ممالک سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کا ہتھیاروں کی عالمی مارکیٹ پر 90 فیصد کنٹرول ہے۔

راہل بیدی کا خیال ہے کہ ٹکراؤ، جنگ اور دنیا کے کئی خطوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور سیاسی غیر یقینی کی فضا کے سبب رواں برس اور آئندہ برس بھی ہتھیاروں کی فروخت مزید بڑھے گی۔

’دفاعی ماہرین امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورِ صدارت شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہتھیاروں کے بازار میں اتار چڑھاؤ کا رحجان اور بہت کچھ ان پر منحصر کرے گا کہ وہ کس طرح کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔‘