عرب کی قدیم تاریخ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عرب کی قدیم تاریخ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

سیرت : روشنی کا سفر (قسط ۱)

قاری کے نام چند کلمات

یہ کوئی عام سیرت کی کتاب نہیں، بلکہ ایک منفرد اور دلنشین بیانیہ ہے، جو آپ کو چودہ صدیاں پیچھے لے جائے گا۔ ہم نے اسلوب کی روایتی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے سیرتِ طیبہ ﷺ کو ایک جذباتی، مؤثر، اور کہانی نما انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ محض ایک تاریخی بیان نہیں، بلکہ ایک ایسا تخلیقی سفر ہے جو آپ کو محسوس کرائے گا کہ جیسے آپ خود اس دور میں موجود ہیں، ان گلیوں میں چل رہے ہیں جہاں نبی اکرم ﷺ کے قدموں کے نشان ثبت ہوئے، ان آسمانوں کو دیکھ رہے ہیں جو آپ ﷺ کی پیدائش کی رات جگمگا اٹھے، اور ان لوگوں کے درمیان کھڑے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس نور کی کرنوں کو محسوس کیا۔

یہ ایک منفرد تخلیقی پراجیکٹ ہے، جس میں ہم سیرت کو محض معلومات کے لیے نہیں، بلکہ دلوں پر اثر ڈالنے کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ آپ اسے پڑھتے ہوئے اس مبارک سفر کا حصہ بنیں گے اور اس سے وہ روشنی اخذ کریں گے جو صدیوں سے قلوب کو منور کرتی آ رہی ہے۔

قبل از اسلام مکہ: زمانہ جاہلیت کا مذہبی، سیاسی اور ثقافتی منظر نامہ

 دنیا کی تاریخ میں بعض ادوار ایسے آتے ہیں، جب انسانی معاشرہ تہذیب و تمدن کے بجائے تاریکی اور انحطاط کی گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک دور کو قرآن مجید نے "جاہلیت" کا نام دیا۔ قبل از اسلام، مکہ مکرمہ کا معاشرہ بھی اسی جاہلیت میں گِھرا ہوا تھا۔ یہ جاہلیت صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی ہر پہلو سے نمایاں تھی۔ یہ مضمون اس دور کی تصویر کشی کرتا ہے اور ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتا ہے جن پر قرآن اور تاریخ نے روشنی ڈالی ہے۔


مذہبی جاہلیت: شرک اور باطل عقائد
قبل از اسلام مکہ 

بت پرستی اور مشرکانہ نظام

قبل از اسلام عرب معاشرے میں سب سے بڑی گمراہی بت پرستی تھی۔ مکہ کے لوگ حضرت ابراہیمؑ کی توحیدی تعلیمات کو بھلا چکے تھے اور اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کو معبود بنا لیا تھا۔ قرآن نے ان کے اس شرک پر تبصرہ کیا:

"وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ"
(یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع، اور کہتے ہیں: یہ اللہ کے نزدیک ہمارے سفارشی ہیں۔) (یونس: 18)

بتوں کے نام اور ان کے گرد رسوم

مکہ میں مختلف قبائل کے الگ الگ بت تھے، جن میں لات، عزیٰ، منات، ہبل، اساف اور نائلہ زیادہ مشہور تھے۔ ان کے گرد مختلف جاہلانہ رسوم رائج تھیں، جیسے:

  • قربانی کے جانوروں پر مخصوص نشان لگانا (بحیرہ، سائبہ، وصیلہ، حام)

  • فال کے تیر نکالنا تاکہ نصیب کا فیصلہ معلوم ہو

  • مقدس مہینوں میں بھی جنگ کو حلال کرنا

عبدالمطلب کی دعا، ابابیل کا حملہ اور ’عذاب کا مقام‘: کعبہ پر ابرہہ کی لشکر کشی کا قصہ


 وقار مصطفیٰ
عہدہ,صحافی، محقق
بی بی سی اردو تاریخ : 31/1/2025

سنہ 632 میں دورانِ حج پیغمبرِاسلام اپنے ہمراہ موجود اصحاب کو حج کے طریقے سکھا رہے تھے کیونکہ اُن کا کہنا تھا کہ ’شاید میں اِس سال کے بعد حج نہ کر سکوں۔‘

مُزدلفہ کے مقام سے شیطانوں یا جَمرات کو مارنے کے لیے کنکریاں چُن کر نمازِ فجرکے بعد مِنیٰ کو لوٹتے ہوئے جب وہ ’وادی مُحَسّر‘ سے گزرے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دی۔

یہ پیغمبر اسلام کا آخری حج تھا۔ اُن کی تعلیمات پر چلتے ہوئے حجاج آج بھی دو کلومیٹر طویل اور 10 سے 20 میٹر چوڑی، اس وادی (وادیِ مُحَسّر) میں رُکتے نہیں بلکہ تیزی سے گزر جاتے ہیں کہ یہ ’عذاب کا مقام‘ ہے۔بھلا کیسے، یہ جاننے کے لیے تاریخ میں کچھ اور پیچھے چلنا پڑے گا۔

ایڈورڈ گرانویل براؤن اپنی کتاب ’اے لٹریری ہسٹری آف پرشیا‘ میں لکھتے ہیں کہ چھٹی صدی کے اوائل میں ’وسطی عرب کے لوگ مختلف قبائل میں بٹے ہوئے تھے۔ وہ لڑتے، گاتے، لُوٹ مار کرتے اور ہمسایہ ریاستوں کی کم ہی پروا کرتے تھے۔ اُن کے مغرب میں غَسان کی بادشاہت بازنطینی سلطنت اور مشرق میں حیرہ کی بادشاہت فارس کی ماتحتی کو کسی حد تک تسلیم کرتی تھیں۔ جنوب میں یمن کی قدیم اور خوشحال حِمیری بادشاہت تھی۔‘

’اِسی شاہی سلسلے کے آخری بادشاہ ذونواس نے جب یہودیت اختیار کی تو وہ نجران کے مسیحیوں پر ظلم ڈھانے لگے۔ اور جب یہ خبر (لگ بھگ 1100 کلومیٹر دور) حبشہ پہنچی تو وہاں کے حکمران (جن کا لقب نجاشی یا نگوس تھا) نے اپنے ہم مذہبوں کا بدلہ لینے کے لیے فوج بھیجی۔‘

بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس نجاشی حکمران کا نام کالب تھا، جنھیں ایلیسبان بھی کہا جاتا ہے اور وہ موجودہ ایتھوپیا اور اریٹیریا کے علاقے میں بادشاہ تھے۔براؤن کے مطابق ’(نجاشی بادشاہ کی جانب سے) اریاط اور ابرہہ کی قیادت میں بھیجی گئی افواج نے ذونواس کو بُری طرح شکست دی۔ اپنی شکست کو یقینی جان کر ذونواس نے اپنے گھوڑے کو سمندر میں ڈال دیا اور ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔‘