اختلافِ رائے یا طوفانِ بدتمیزی؟

دنیا ایک نازک دور سے گزر رہی ہے، اور مسلم دنیا اس نازک موڑ پر سب سے زیادہ زخمی، سب سے زیادہ مجبور اور سب سے زیادہ بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ خاص طور پر غزہ کا المیہ، جس میں معصوم بچوں، عورتوں اور نہتے انسانوں کی لاشوں پر عالمی ضمیر خاموش ہے، ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے جذبات بھڑک اٹھیں، یہ فطری ہے۔ لیکن اس جذباتی سیلاب میں عقل، حکمت اور تدبر کی آوازیں اگر دبنے لگیں تو یہ صرف افسوسناک ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی ہے۔

حال ہی میں ممتاز مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی صاحب نے غزہ کے تناظر میں بعض علما کے "جہاد کے فتووں" پر سنجیدہ سوالات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر منظم اور غیر متوازن طریقے سے جہاد کا اعلان دراصل خودکشی کے مترادف ہے، اور جب تک امت مسلمہ اجتماعی طور پر اس قابل نہ ہو جائے کہ وہ عالمی طاقتوں کا سامنا کر سکے، اس وقت تک حکمت، صبر، اور تعمیرِ ملت کی راہ اختیار کرنا ہی دین کی تعلیم اور نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔

غامدی صاحب کا یہ موقف جذبات سے نہیں بلکہ عقل، فہمِ دین، اور نبوی حکمت سے لبریز ہے۔ یہ رائے نہ تو غزہ کے مظلوموں کی حمایت سے انکار ہے، نہ جہاد کی شرعی حیثیت سے فرار، بلکہ یہ طاقت کے بغیر تلوار اٹھانے کی حماقت پر تنبیہ ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس علمی موقف پر سنجیدہ علمی نقد کے بجائے ذاتی حملوں، طعن و تشنیع، اور تمسخر کے تیروں سے حملہ کیا گیا۔

کیا اختلافِ رائے کا یہی اسلوب رہ گیا ہے؟
کیا یہ وہی امت ہے جو امام ابو حنیفہ امام شافعی اور امام مالک امام احمد جیسے اکابرین کی علمی روایات کی وارث کہلاتی ہے؟
جہاں ہر اختلاف کو "کفر"، "غلامی"، "مغرب پرستی" اور "بزدلی" کا لیبل دے کر رد کیا جاتا ہے، وہاں علمی ترقی اور فکری اجتہاد کس طرح ممکن ہو گا؟

غامدی صاحب نے اگر ایک علمی بات کہی ہے تو اس کا علمی جواب دیا جانا چاہیے۔ اگر آپ کو ان کی رائے سے اختلاف ہے تو دلیل سے جواب دیں، گالی سے نہیں۔ کسی بھی قوم کی زوال پذیری کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ وہاں علمی اختلاف جرم بن جاتا ہے، اور مفکرین کے خلاف فتویٰ بردار گروہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم خود سے سوال کریں:

کیا ہم واقعی ایک مہذب علمی اور معتدل امت ہیں؟
کیا ہم اپنی علمی روایت کی لاج رکھ رہے ہیں؟
کیا ہم اختلاف کو برداشت کرنے کا ظرف رکھتے ہیں؟

غامدی صاحب کے مؤقف کو مسترد کرنا آپ کا حق ہے، مگر اس کو فتنہ قرار دینا، ان کی نیت پر حملہ کرنا، یا ان کو مغرب کا ایجنٹ کہنا آپ کے علمی دیوالیہ پن کی علامت ہے، نہ کہ دینی غیرت کی۔

آیئے، ہم اس غبار آلود ماحول میں دلیل، مکالمہ اور اخلاقی وقار کی شمع روشن کریں۔ یہی دین کی اصل روح ہے، یہی اصلاح کا راستہ ہے، اور یہی وہ مزاج ہے جس نے کبھی امت کو بامِ عروج پر پہنچایا تھا۔