آسمان کے نیلے گنبد تلے، بادیہ کی گرم ہواؤں میں ایک پرندہ پرواز کر رہا تھا۔ وہ ہدہد تھا، ایک ننھا مسافر، مگر اپنے مشاہدے میں بے مثال۔ وہ سلیمانؑ کے لشکر کا ایک ادنیٰ سپاہی تھا، مگر اپنی پرواز میں آزاد اور اپنی نگاہ میں گہرا۔ وہ بادشاہ سلیمانؑ کی جانب سے زمین کی سلطنتوں کا حال معلوم کرنے پر مامور تھا، اور اسی جستجو میں وہ ایک ایسی سرزمین پر جا پہنچا جو حیرت انگیز شان و شوکت کی حامل تھی۔ یہ سبا کی سلطنت تھی، اور اس کی ملکہ بلقیس، جس کا جاہ و جلال اپنی مثال آپ تھا۔
ہدہد نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جو سورج کی پرستش کرتی تھی۔ وہ حیران ہوا کہ کس طرح ایک دانش مند حکمران اور اس کی رعایا روشنی کے دھوکے میں حقیقت سے منہ موڑ چکی تھی۔ اس نے فوراً سلیمانؑ کی بارگاہ میں واپسی کا قصد کیا۔ جب وہ سلیمانؑ کی خدمت میں پہنچا، تو سر جھکایا اور عرض کیا:
"میں نے وہ کچھ دیکھا ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ میں سبا کی ایک عظیم سلطنت سے آیا ہوں جہاں ایک عورت حکمرانی کر رہی ہے۔ اسے ہر چیز دی گئی ہے، ایک عظیم تخت بھی رکھتی ہے۔ میں نے اسے اور اس کی قوم کو سورج کو سجدہ کرتے پایا، جبکہ شیطان نے ان کے اعمال انہیں خوشنما بنا دیے ہیں اور وہ سیدھے راستے سے روک دیے گئے ہیں۔"
سلیمانؑ نے غور سے سنا، پھر فرمایا:
"ہم دیکھیں گے آیا تم نے سچ کہا یا تم جھوٹے ہو۔ میرا یہ خط لے جا اور ان کے پاس ڈال دے، پھر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔"
ہدہد برق رفتاری سے سبا پہنچا اور خط محل کے اندر جا گرایا۔ ملکہ بلقیس تخت پر براجمان تھی، اس نے خط اٹھایا اور بلند آواز میں پڑھا:
"بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ سُلَیْمٰنَ کی طرف سے ہے اور یہ کہ تم میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہو کر میرے پاس آ جاؤ۔"
ملکہ کے چہرے پر حیرت کی جھلک تھی۔ اس نے فوراً اپنے وزیروں اور سرداروں کو طلب کیا اور ان سے کہا:
"اے سردارو! میرے پاس ایک معزز خط ڈالا گیا ہے۔ یہ سلیمان کی طرف سے ہے اور اس میں مجھے اطاعت کی دعوت دی گئی ہے۔ تمہاری کیا رائے ہے؟"
وزیروں نے جواب دیا:
"ہم قوت والے اور شدید جنگجو ہیں، اور اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے، سو آپ غور کر لیجیے کہ ہمیں کیا حکم دیتی ہیں۔"
ملکہ نے فہم و فراست سے کام لیا اور کہا:
"بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں اور وہاں کے عزت داروں کو ذلیل کر دیتے ہیں۔ میں انہیں تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لے کر آتا ہے۔"
تحفے سلیمانؑ کی بارگاہ میں پہنچائے گئے، مگر انہوں نے انہیں حقیر جانا اور فرمایا:
"کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو؟ جو کچھ اللہ نے مجھے دیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہارے پاس ہے۔ جاؤ، تم اپنے تحفے واپس لے جاؤ! ہم ایسے لشکر لے کر آئیں گے جس کا تم مقابلہ نہ کر سکو گے، اور ہم تمہیں ذلیل کر کے نکال دیں گے۔"
جب یہ پیغام بلقیس تک پہنچا، تو وہ سلیمانؑ کی حکمت اور قوت کی عظمت کو سمجھ گئی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود جاکر حقیقت حال معلوم کرے۔ سلیمانؑ کو اس کے آنے کی اطلاع ملی، تو انہوں نے اپنے درباریوں سے پوچھا:
"تم میں سے کون ہے جو اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ فرمانبردار ہو کر میرے پاس پہنچے؟"
ایک قوی جن نے کہا:
"میں اسے آپ کے پاس لے آؤں گا قبل اس کے کہ آپ اپنی مجلس سے اٹھیں، اور میں اس پر قادر ہوں۔"
لیکن ایک اور شخص، جس کے پاس کتاب کا علم تھا، بولا:
"میں اسے آپ کے پاس پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا۔"
چنانچہ جب سلیمانؑ نے تخت کو اپنے سامنے رکھا پایا، تو فرمایا:
"یہ میرے رب کے فضل میں سے ہے، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں۔"
پھر سلیمانؑ نے حکم دیا کہ بلقیس کے تخت میں کچھ تبدیلی کر دی جائے تاکہ دیکھا جائے کہ وہ اسے پہچانتی ہے یا نہیں۔ جب وہ پہنچی تو اس سے پوچھا گیا:
"کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے؟"
اس نے حیرت سے جواب دیا:
"یہ تو گویا وہی ہے۔"
اسے سمجھ آگئی کہ سلیمانؑ کا علم اور طاقت کسی عام بادشاہ کی طاقت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ پھر اسے سلیمانؑ کے محل میں داخل ہونے کو کہا گیا، جہاں ایک شفاف فرش تھا جو پانی کی طرح نظر آتا تھا۔ جب بلقیس نے اسے دیکھا، تو اپنی ساقیں کھول دیں کہ شاید یہ پانی ہے۔ سلیمانؑ نے فرمایا:
"یہ شفاف شیشہ ہے۔"
تب بلقیس نے اعتراف کیا:
"اے میرے رب! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اور اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔"
یوں روشنی اور تاریکی کی سرحد پر کھڑی ایک حکمران، حقیقت کی روشنی میں داخل ہو گئی اور ایمان کی دولت سے سرفراز ہوئی۔ سلیمانؑ کی حکمت، اللہ کی عطا کردہ طاقت، اور بلقیس کی عقل و تدبر نے اسے حق کی طرف مائل کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں !