نزولِ حرفِ کن

یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے، جو علم کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر حق کو پالینا چاہتا تھا، مگر جتنا زیادہ وہ تلاش کرتا گیا، اتنا ہی وہ بھٹکتا چلا گیا۔ یہ ایک جستجو کی داستان ہے، جو ایک علمی تجسس سے شروع ہوتی ہے اور روحانی بیداری پر منتج ہوتی ہے۔

 تلاش

سنہ 1752، مغلیہ سلطنت کے زوال کا دور تھا۔ ہندوستان کی گلیوں میں بے چینی تھی۔ کہیں مغرب کے نظریات سر اٹھا رہے تھے، کہیں مدرسوں میں روایت پرستی کا غلبہ تھا، اور کہیں تصوف کے چراغ ٹمٹما رہے تھے۔

دہلی کے ایک مشہور مدرسے میں ایک نوجوان طالب علم زاہد علی بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے مختلف تفسیریں کھلی پڑی تھیں:

  • تفسیرِ کبیر (فخر الدین رازی)

  • الکشاف (زمخشری)

  • مدارک التنزیل (نسفی)

ہر صفحہ پلٹنے کے ساتھ، اس کے ذہن میں سوالات بڑھتے جا رہے تھے۔ اس کے اساتذہ اسے یقین دلاتے کہ حق یہی ہے، مگر اس کا دل کسی اور سچائی کی تلاش میں تھا۔

"کیا قرآن کی حکمت کو محض تفاسیر میں مقید کیا جا سکتا ہے؟" وہ سوچتا۔

سوالات کا سمندر

ایک رات، مدرسے کی قدیم لائبریری میں اسے ایک بوسیدہ مسودہ ملا۔ اس پر لکھا تھا:

"اگر قرآن تمہیں زندگی نہ دے، تو جان لو کہ تم نے اسے کتابوں میں کھو دیا ہے!"

یہ جملہ اس کے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح گرا۔

"کیا میں قرآن کو سمجھنے کے بجائے، محض اس کی تفسیروں میں الجھ گیا ہوں؟"

اس الجھن کو دور کرنے کے لیے، اس نے اساتذہ کی طرف رخ کیا۔

  • پیر ابو بکر لاہوری نے کہا: "حق بس مفسرین کی تشریحات میں ہے، ان سے آگے مت جانا۔"

  • یوسف افندی نے سمجھایا: "عقل و منطق سے قرآن کی تفہیم ممکن ہے، مگر بغیر فلسفے کے یہ معانی کھل نہیں سکتے۔"

  • شیخ نعمان نے مشورہ دیا: "علم کو چھوڑو، دل کو کھولو، قرآن خود تم سے بات کرے گا۔"

لیکن زاہد کسی بھی جواب سے مطمئن نہ ہوا۔

 ازلی سچائی

پھر ایک دن، زاہد علی کی ملاقات رابعہ بی بی نامی ایک بوڑھی خاتون سے ہوئی، جو گلی کے کونے پر بیٹھی قرآنی آیات کو دہراتی تھیں۔

"تم کون ہو؟" زاہد نے سوال کیا۔

"بس ایک مسافر، جو اپنے رب کی نشانیوں میں زندگی بسر کرتی ہے۔"

"کیا تم نے رازی اور کشاف پڑھی ہیں؟" زاہد نے پوچھا۔

"نہیں بیٹا، مگر میں قرآن کو ہر روز اپنی زندگی میں دیکھتی ہوں۔ جب کوئی بھوکا آتا ہے، میں کھلاتی ہوں، جب کوئی پریشان ہوتا ہے، میں تسلی دیتی ہوں۔ یہی میرا علم ہے۔"

زاہد ششدر رہ گیا۔

یہ عورت نہ فلسفہ جانتی تھی، نہ منطق، مگر قرآن اس کی روح میں بسا ہوا تھا۔

ضمیر پر نزولِ قرآن

اُسی رات، زاہد علی نے قرآن کھولا۔ مگر اس بار، وہ اسے ایک "کتاب" کے طور پر نہیں، ایک زندہ حقیقت کے طور پر دیکھ رہا تھا۔

  • "کیا میں قرآن کو پڑھنے کے بجائے، اسے جینا شروع کر سکتا ہوں؟"

اس سوال نے اس کے اندر ایک انقلاب برپا کر دیا۔

اگلی صبح، مدرسے کے طلبہ نے دیکھا کہ زاہد علی وہی پرانا شخص نہیں رہا تھا۔ اب وہ نہ صرف علم رکھتا تھا، بلکہ اس علم کو عمل میں ڈھالنے والا بن گیا تھا۔

اور پہلی بار، اس نے قرآن کو پڑھنے کے بجائے، قرآن کو جینا شروع کیا۔