یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار کو امانت کے بجائے دولت، طاقت اور ذاتی مفاد کا ذریعہ سمجھ بیٹھا ہے۔ ان کے اندر بددیانتی، علمی و فکری جہالت، اخلاقی پستی، ظلم و جبر، کرپشن، اقربا پروری، عوامی رائے کے استحصال، اور آزادی اظہار کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ قوموں کے لیے جو قیادت بصیرت، صداقت، عدل، خدمت اور قربانی کی علامت ہوتی ہے، مسلم دنیا میں وہی قیادت بدنامی، ظلم اور خوف کی علامت بن چکی ہے۔
آج جب فلسطین کے نہتے عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، جب ماؤں کی گود اجڑ رہی ہے، جب معصوم بچوں کی لاشیں زمین پر بکھری پڑی ہیں، تو ایسے میں ۵۵ سے زائد مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بے حسی، بزدلی اور منافقت امت کے لیے کسی زخم سے کم نہیں۔ زبانی مذمتوں، رسمی بیانات اور اقوام متحدہ کے کمرے میں چند لمحوں کی خاموشی سے نہ فلسطینیوں کے زخم بھر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے شہداء کو انصاف مل سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلم حکمران مغربی طاقتوں کے غلامانہ مفادات میں اس قدر جکڑے جا چکے ہیں کہ نہ وہ آزاد پالیسی اپنا سکتے ہیں، نہ مظلوموں کے لیے عملی قدم اٹھا سکتے ہیں، اور نہ ہی امت کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ ان کے دلوں سے خوفِ خدا اور احساسِ امت رخصت ہو چکا ہے، اور ان کے ایوانوں میں صرف اقتدار کی ہوس، کرسی کی سیاست اور مال و دولت کی بندر بانٹ کا شور سنائی دیتا ہے۔
کیا یہ وہی امت ہے جس کے لیے قرآن نے فرمایا تھا: "کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ"؟ کیا یہ وہی قیادت ہے جس نے کبھی عدلِ عمر، زہدِ علی، حکمتِ معاویہ اور بصیرتِ عمر بن عبدالعزیز کے نقوش ثبت کیے تھے؟
آج ہمیں یہ سوال کرنا ہو گا: مسلم دنیا کی یہ ذلت، یہ بے بسی، یہ غلامی آخر کب تک؟ ہمیں صرف دشمنوں کی سازشوں کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنے زخموں پر مرہم نہیں رکھنا، بلکہ ان داخلی بیماریوں کی نشاندہی کرنا ہوگی جنہوں نے ہماری قوم کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اور ان بیماریوں کا سب سے بڑا منبع وہ حکمران طبقہ ہے جس نے امت کو بربادی کی راہ پر ڈال دیا۔
وقت آ گیا ہے کہ امتِ مسلمہ اپنے حقیقی دشمنوں کو پہچانے — وہ دشمن جو باہر سے نہیں، بلکہ اپنے اندر سے اٹھتے ہیں؛ جو تاج و تخت کے پردے میں امت کی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ ہمیں اس بے حس قیادت کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی، شعور کو بیدار کرنا ہوگا، اور ایک نئی نسل کو ایسی فکری اور روحانی بنیادیں دینی ہوں گی جو آنے والے کل کی قیادت سنبھال سکے — قیادت جو امت کی نہیں، انسانیت کی نجات کا ذریعہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں !