ٓمصنوعی ذہانت (AI ) کے دورمیں چند اہم سوالات جو ہر نوجوان کو خود سے پوچھنے چاہییں۔

مہارتیں یا مطابقت پذیری(Adaptability) ؟ — مستقبل کی دوڑ میں اصل ضرورت کیا ہے؟

دنیا ہمیشہ سے بدلتی رہی ہے، مگر آج کی دنیا کچھ زیادہ ہی تیز ہو گئی ہے۔ وہ دنیا جس میں ہم صبح آنکھ کھولتے ہیں، شام تک کچھ اور ہو چکی ہوتی ہے۔ نہ علوم وہی رہے، نہ تقاضے۔ ایسے میں سوال یہ نہیں کہ آپ کے پاس کون سی مہارت ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا آپ بدلنے کے لیے تیار ہیں؟

یہی وہ نکتہ ہے جسے ماہرین آج بار بار دہرا رہے ہیں:

"معیشت میں، سکلز سے زیادہ مطابقت پذیری (Adaptability) اہم ہو گی۔"

لیکن آخر یہ بات کہی کیوں جا رہی ہے؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟ آئیے، اس فکری دریا میں اترتے ہیں۔

مہارتیں: ایک بدلتی ہوئی حقیقت

آج سے کچھ دہائیاں پہلے، اگر کوئی شخص ٹائپنگ سیکھ لیتا، مشین چلانا جان لیتا، یا کسی فیکٹری میں ایک خاص ہنر میں ماہر ہوتا، تو وہ عمر بھر کے روزگار کا یقین رکھتا تھا۔ مہارت ایک طرح کی "نوکری کی گارنٹی" ہوتی تھی۔

مگر اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔

ایک نئی ایپ، ایک مصنوعی ذہانت کا ماڈیول، یا ایک خودکار سسٹم ایک لمحے میں وہ کام کر دیتا ہے جسے سیکھنے میں ہمیں سال لگتے تھے۔

تو کیا سکلز کی اہمیت ختم ہو گئی؟
نہیں!
مگر سکلز کی نوعیت اب عارضی (Temporary) ہو چکی ہے۔ وہ مہارت جو آج کارآمد ہے، وہ کل "غیر متعلق" ہو سکتی ہے۔

مطابقت پذیری: وقت کی اصل ضرورت

اب وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو نہ صرف سیکھتے ہیں بلکہ نئی چیزیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ایسے لوگ جو نئے حالات، ٹیکنالوجی، اور چیلنجز کے مطابق خود کو ازسرِنو تشکیل دے سکتے ہیں۔

یہی ہے "مطابقت پذیری" — یعنی adaptability۔

یہ ایک سادہ سی مگر نہایت طاقتور ذہنی و جذباتی صلاحیت ہے:

❝میں سیکھنے کے لیے تیار ہوں، چاہے کچھ بھی ہو۔❞

 کیوں صرف مہارت کافی نہیں؟

فرض کریں آپ نے ویب ڈویلپمنٹ سیکھ لی۔
لیکن دو سال بعد AI ایسے ٹولز لا دے جو ویب سائٹ خود بناتے ہیں۔

تو پھر کیا ہو گا؟
کیا آپ بیٹھ کر نوحہ پڑھیں گے؟
یا اپنی سوچ، علم، اور مہارت کو اپ گریڈ کریں گے؟

یہ وہ مقام ہے جہاں مطابقت پذیری آپ کا سب سے بڑا ہتھیار بن جاتی ہے۔

 مطابقت پذیری صرف معاشی نہیں — یہ روحانی کیفیت بھی ہے

مطابقت پذیری صرف مارکیٹ کی ضرورت نہیں — یہ ایک داخلی وسعت ہے۔
یہ خود کو "محدود" سے "لا محدود" کی طرف لے جانے کی کاوش ہے۔
یہ انسان کے اندر کا وہ ارتقائی سفر ہے جو اسے جامد سوچ سے نکال کر رواں دھارے میں لے آتا ہے۔

جو شخص سیکھنے سے ڈرتا ہے، وہ جینے سے کتراتا ہے۔

چند اہم سوالات جو ہر نوجوان کو خود سے پوچھنے چاہییں:

  1. کیا میری موجودہ سکلز اگلے پانچ سال میں بھی کارآمد رہیں گی؟

  2. کیا میں نئے رجحانات، علوم، اور مہارتوں کو سیکھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوں؟

  3. کیا میں وقت کے ساتھ ساتھ خود کو بھی بدلنے کا حوصلہ رکھتا ہوں؟

  4. کیا میں اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر دوبارہ "طالب علم" بننے کو تیار ہوں؟

اگر ان میں سے کسی سوال کا جواب نفی میں ہے، تو وقت آ چکا ہے کہ خود پر کام کیا جائے۔

خلاصہ کلام 

ہم ایک تیز رفتار دنیا میں زندہ ہیں، جہاں صرف وہی باقی رہے گا جو خود کو بدلنے کی ہمت رکھتا ہے۔
آج کی دنیا میں زندہ رہنے کا مطلب ہے: سیکھتے رہنا، بدلتے رہنا، آگے بڑھتے رہنا۔

لہٰذا، آج ہی خود سے وعدہ کیجیے:

"میں سیکھنے سے نہیں گھبراؤں گا۔"
"میں حالات سے ڈر کر پیچھے نہیں ہٹوں گا۔"
"میں خود کو ہر دن بہتر بناؤں گا۔"
"میں خود کو زمانے کے ساتھ ہم آہنگ رکھوں گا، مگر اپنی اصل پہچان کو نہیں کھوؤں گا۔"

کیونکہ آئندہ کی دنیا اُنہی کی ہے جو مطابقت رکھتے ہیں — صرف مہارت نہیں۔

یہ بھی پڑھیں ! 

ٓمصنوعی ذہانت: انسانی عظمت کا مظہر یا پر خطر چیلنج؟ – ایک قرآنی تجزیہ