زندگی کی دھوپ

دن کے عین وسط میں، جب سورج آسمان کے کنگن میں سب سے اونچا ہوتا ہے، تب دنیا پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب زندگی اپنی پوری توانائی کے ساتھ دھڑک رہی ہوتی ہے — جیسے فطرت نے خود کو دھوپ کی شکل میں ظاہر کر دیا ہو۔

دھوپ صرف روشنی نہیں، ایک احساس ہے۔ یہ تپش میں چھپی محنت کی علامت ہے۔ دوپہر کا وقت ہمیں زندگی کی سب سے بڑی حقیقت سے روشناس کراتا ہے: "زندگی، ایک مسلسل کوشش کا نام ہے۔" یہ وہ لمحہ ہے جب انسان دفتر کی میز پر جھکا ہوا ہوتا ہے، کسان کھیت میں پسینے سے شرابور ہوتا ہے، ماں چولہے کے سامنے کھڑی ہوتی ہے، اور مزدور سڑک پر کسی دیوار کی چھاؤں ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔

پرندے اب خاموش ہو چکے ہیں، درخت بھی اپنی شاخوں میں ایک عجب سکوت سمیٹے کھڑے ہیں۔ فطرت جیسے تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گئی ہو، تاکہ انسان کو اس کی آزمائش یاد دلائی جا سکے۔ یہ وقت محنت، عزم، صبر اور برداشت کا ہے۔ اگر صبح نویدِ تازگی تھی، تو دوپہر امتحانِ زندگی ہے۔

دھوپ ہمیں جھلساتی ضرور ہے، لیکن یہ وہی دھوپ ہے جو فصلوں کو پکا دیتی ہے، زمین سے نمی کھینچ کر بادلوں کو جنم دیتی ہے، اور آخرکار بارش کا پیغام بن کر واپس آتی ہے۔ زندگی کی دھوپ بھی ایسی ہی ہے — تھکا دیتی ہے، لیکن پختہ بھی کرتی ہے۔

اس وقت میں ایک اور خاص پہلو ہے: تنہائی۔ دنیا بھاگ رہی ہے، لیکن دل کہیں رُک سا جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان چاہتا ہے کہ تھوڑا سا سایہ ملے — شاید کسی درخت کے نیچے، کسی مسجد کی ٹھنڈی دیوار سے لگ کر، یا کسی آیت کی تلاوت میں سکون تلاش کر کے۔ یہ سایہ فقط جسم کے لیے نہیں، روح کے لیے بھی ہوتا ہے۔

دوپہر کا وقت ہمیں بتاتا ہے کہ ہر روشنی، ہر کامیابی، ایک قیمت مانگتی ہے۔ لیکن وہ قیمت ہمیشہ قربانی کی صورت میں ہوتی ہے — وقت کی، آرام کی، اور کبھی کبھی خوابوں کی۔

زندگی کی دھوپ ہر روز آتی ہے۔ وہ ہمیں جلاتی ہے، تھکاتی ہے، مگر آخرکار ہمیں نکھارتی بھی ہے۔ اور شام کی ٹھنڈک اسی کے بعد آتی ہے، جیسے فطرت نے وعدہ کیا ہو:
"جو محنت کرے گا، اسے سکون ضرور ملے گا۔"


(احمد طیب)

یہ بھی پڑھیں !