نسیمِ سحر کی سرگوشی

صبح کی نرم سی آہٹ ہے۔

سورج ابھی افق کے پیچھے چھپا ہے، جیسے کوئی شرمیلا بچہ پردے سے جھانک رہا ہو۔ آسمان پر ہلکی ہلکی روشنی کا رس گھل رہا ہے۔ کمرے کی کھڑکی سے آنے والی ٹھنڈی ہوا، جیسے کوئی نرم ہاتھ ماتھے پر پیار سے رکھ دے۔

درختوں پر پرندے جاگ چکے ہیں۔ کوئی کوّی کوکنے لگا ہے، کوئی چڑیا چہک رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے فطرت نے اپنی زبان میں دن کا خیرمقدم کیا ہو۔ ہر شاخ پر نغمگی ہے، ہر پتا سرگوشی میں کچھ کہہ رہا ہے۔ زمین شبنم کی چادر اوڑھے خاموش کھڑی ہے، اور ہوا میں سبزے کی خوشبو رچی ہوئی ہے۔

یہ صبح محض ایک وقت نہیں، ایک کیفیت ہے۔
دن کا آغاز… اور دل کا سکون۔
یہ لمحہ دل کو چھو جاتا ہے، جیسے قدرت نے اپنی انگلی سے روح پر کوئی نقش بنا دیا ہو۔

ایسے میں انسان خود کو بہت چھوٹا محسوس کرتا ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسی چھوٹے پن میں ایک عظمت چھپی ہے۔
کیونکہ وہ دیکھتا ہے…
خالق کی کاریگری۔
ہر رنگ، ہر آواز، ہر خوشبو — اُسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

یہ صبح ہمیں ایک پیغام دیتی ہے:
زندگی ہر دن نئی ہوتی ہے، جیسے سورج روز نیا طلوع ہوتا ہے۔
غم کی رات کٹتی ہے، اور روشنی کی کرن پردہ چاک کر دیتی ہے۔

قاری محترم!
اگر آپ ابھی کھڑکی کھولیں، تو یہ صبح آپ کو بلا رہی ہوگی۔
ہوا کی خوشبو، پرندوں کی آواز، سورج کا ابھرتا نور — سب کچھ آپ سے مخاطب ہے۔
ایک لمحہ ٹھہریں۔
اس لمحے کو جئیں۔
یہی وہ پل ہے جس میں فطرت اپنی بانہیں پھیلائے آپ کو گلے لگانا چاہتی ہے۔

یہ صبح کا لمحہ، ایک دعا جیسا ہے۔
ایک قبولیت کی گھڑی۔
ایک وعدہ — کہ دن اچھا گزرے گا، اگر ہم فطرت کے سنگ قدم ملا کر چلیں۔



(احمد طیب)

یہ بھی پڑھیں !