باب پنجم: اٹھو، اور خبردار کرو!
غارِ حرا سے واپسی کے بعد
نزولِ وحی کے بعد کچھ وقت ایسا تھا جیسے کائنات تھم سی گئی ہو۔ فرشتے خاموش تھے، آسمان پر ساکت سکوت تھا، اور محمد ﷺ انتظار میں تھے۔ نہ جبرائیلؑ آ رہے تھے، نہ کوئی نیا پیغام۔
یہ وقت آزمائش کا تھا۔ لیکن محمد ﷺ ڈٹے رہے، تنہائی میں، خاموشی میں، رب سے جڑے رہے۔
اور پھر… وہ لمحہ آیا۔
جبرائیلؑ دوبارہ نازل ہوئے۔
فضا ایک بار پھر لرز گئی۔
آسمانی حکم نازل ہوا:
"يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ
قُمْ فَأَنْذِرْ
وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ
وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ
وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ"
(سورۃ المدثر: 1–5)
اے چادر اوڑھنے والے!
اٹھو، اور لوگوں کو خبردار کرو۔
اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔
اپنے لباس کو پاک رکھو۔
دعوت کا آغاز
یہ وحی ایک نیا آغاز تھی۔ اب تنہائی ختم ہو چکی تھی۔ اب خاموشی کی جگہ اعلان نے لینا تھا۔ اب محمد ﷺ کو صرف محمد نہیں، رسول اللہ کہا جانا تھا۔
آپ ﷺ نے سب سے پہلے اپنے قریبی لوگوں کو دعوت دی۔
سب سے پہلے جس دل نے لبیک کہا، وہ حضرت خدیجہؓ کا تھا۔
انہوں نے کہا:
"میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔"
پھر حضرت علیؓ، جو اس وقت ابھی نوعمر لڑکے تھے، ایمان لائے۔
پھر زید بن حارثہؓ، جنہیں نبی ﷺ نے آزاد کر کے بیٹا بنایا تھا۔
پھر ابوبکر صدیقؓ— وہ دوست، جو ہر حال میں نبی ﷺ کے ساتھ کھڑے تھے۔
اب قافلہ بن رہا تھا۔ آہستہ آہستہ، مگر مضبوطی سے۔
علانیہ دعوت
تین برس تک یہ دعوت خاموشی سے جاری رہی، پھر ایک دن نبی ﷺ کو حکم ملا کہ اب اپنے قریبی رشتہ داروں کو کھلے عام خبردار کرو۔
صفا پہاڑی پر چڑھ کر آپ ﷺ نے آواز دی:
"یا بنی فِہر! یا بنی عدی!"
(اے فِہر کے بیٹو! اے عدی کے بیٹو!)
قریش حیران ہو کر جمع ہو گئے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
"اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کو تیار ہے، تو کیا تم میری بات مانو گے؟"
سب نے کہا:
"ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا!"
آپ ﷺ نے فرمایا:
"تو سنو! میں تمہیں ایک بڑے عذاب سے خبردار کرنے آیا ہوں!"
فضا میں سنّاٹا چھا گیا۔
ابو لہب نے منہ بگاڑ کر کہا:
"تبًّا لَكَ! أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا؟"
(ہلاکت ہو تم پر! کیا اسی لیے ہمیں جمع کیا تھا؟)
اس پر ایک وحی نازل ہوئی جو قیامت تک ابو لہب کی مذمت کا نشان بن گئی:
"تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ..." (سورۃ المسد)
مخالفت کا آغاز
اب طوفان آنے والا تھا۔ قریش، جو پہلے نبی ﷺ کو صادق اور امین کہتے تھے، اب مذاق اڑانے لگے، جھٹلانے لگے، طعنہ دینے لگے۔
کبھی پتھر پھینکتے، کبھی راستے میں کانٹے بچھاتے، کبھی طائف کے لڑکوں کو پیچھے لگا دیتے۔
مگر نبی ﷺ کی زبان سے ایک شکوہ نہ نکلا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے، مگر زبان پر صبر ہوتا۔
حضرت خدیجہؓ ان کا سہارا تھیں۔ وہ جب بھی تھک کر آتے، ان کا چہرہ پڑھتیں اور تسلی دیتیں:
"اللہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا!"
ابوبکرؓ، علیؓ، زیدؓ، بلالؓ، خبابؓ، اور بے شمار دوسرے مظلوم مسلمان— سب نے اپنے حصے کا درد چپ چاپ جھیلا، مگر دینِ حق سے پیچھے نہ ہٹے۔
ایک انقلاب کی آہٹ
مکہ کی گلیاں گواہ تھیں کہ ایک سچا انسان، سچ کا پیغام لیے کھڑا ہو گیا تھا۔
اب قریش کو صرف خطرہ نہیں، خوف محسوس ہونے لگا تھا۔
یہ صرف ایک دعوت نہ تھی، یہ ایک سوچ کی بیداری تھی۔ ایک انقلاب کی آہٹ تھی، جو بتوں کی حکومت کو ہلا دینے والا تھا۔
سوچنے کے لیے سوالات:
-
"قُم فَأَنذِر" کے حکم کا مطلب کیا تھا؟
-
سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں کون کون شامل تھے؟
-
صفا پہاڑی پر نبی کریم ﷺ کی پہلی تقریر نے قریش پر کیا اثر ڈالا؟
-
مخالفت کے باوجود نبی ﷺ نے کیا طرزِ عمل اپنایا؟
-
حضرت خدیجہؓ کا کردار اس دور میں کیسا رہا؟
اگلی قسط میں:
مکہ کا محاصرہ سخت ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں پر ظلم کی شدت بڑھ چکی ہے۔ اب اللہ تعالیٰ ایک ایسی رات لانے والا ہے، جس کی تاریکی میں ایک روشنی چمکے گی…
"سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ..."
(معراج کی رات، اور آسمانوں کا سفر!)
(جاری ہے…)