یوال نوح حراری ایک اسرائیلی مؤرخ، مفکر، اور فلسفی ہیں، جنہوں نے تاریخ، انسانیت، اور مستقبل کے حوالے سے غیر معمولی شہرت پائی ہے۔ وہ عبرانی یونیورسٹی یروشلم میں تاریخ کے پروفیسر ہیں اور ان کی تحریریں انسانی تہذیب، مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل دنیا، اور ارتقائی نفسیات جیسے موضوعات کو گہرائی سے چھوتی ہیں۔
![]() |
یوال نوح حراری |
حراری کی تین عالمی شہرت یافتہ کتابیں:
-
Sapiens: A Brief History of Humankind – انسانی تاریخ کا ارتقائی جائزہ
-
Homo Deus: A Brief History of Tomorrow – انسان کا مستقبل اور مصنوعی ذہانت کی حکمرانی
-
21 Lessons for the 21st Century – اکیسویں صدی کے فکری، اخلاقی، اور سماجی چیلنجز
وہ مذہب، قوم پرستی، سرمایہ داری، اور ڈیجیٹل کنٹرول جیسے موضوعات پر تنقیدی اور فکری انداز میں گفتگو کرتے ہیں، اور ان کا انداز تحریر سادہ مگر فکری طور پر گہرا ہوتا ہے۔ ان کے بقول:
"کہانیوں اور افسانوں کی طاقت نے انسان کو جانوروں سے ممتاز کیا، اور یہی کہانیاں آج بھی دنیا پر حکومت کر رہی ہیں۔"
آئیے اب ہم یوال نوح حراری کے خیالات، فلسفے، اور دنیا کے بارے میں ان کے وژن پر مبنی ایک فرضی مگر حقیقت پر مبنی مکالمہ ترتیب دیتے ہیں۔ اس مکالمے کا اسلوب ایسا ہو گا گویا کوئی معروف دانشور یا صحافی ان کا انٹرویو کر رہا ہو، اور ان کے خیالات انہی کی زبان سے سامنے آ رہے ہوں — جیسے کسی عالمی فکری ٹاک شو کا سیگمنٹ ہو۔
یوال نوح حراری سے ایک فکری گفتگو
عنوان: "انسان، ڈیٹا، اور مستقبل کا خدا: یوال نوح حراری کی زبانی"
میزبان: حراری صاحب، آپ کی کتاب Sapiens نے انسانی تاریخ کو نئے زاویے سے پیش کیا۔ آپ کا بنیادی نظریہ کیا ہے کہ انسان باقی جانوروں سے کیسے مختلف ہوا؟
میزبان: آپ Homo Deus میں کہتے ہیں کہ انسان خود کو "خدا" بنانا چاہتا ہے۔ آپ کا مطلب کیا ہے؟
میزبان: 21 Lessons for the 21st Century میں آپ نے موجودہ دور کے خطرات اور چیلنجز کی بات کی ہے۔ سب سے بڑا خطرہ کیا ہے؟
میزبان: مذہب کے بارے میں آپ کے خیالات بہت متنازع رہے ہیں۔ آپ مذہب کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں؟
میزبان: آپ تعلیم، معیشت، اور سیاست کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
میزبان: آپ فلسطین، یوکرین، کشمیر، اور افغانستان جیسے سیاسی تنازعات پر کیا کہیں گے؟
میزبان: مصنوعی ذہانت (AI) اور انسانیت کا مستقبل؟ قوانین و اخلاقیات کا کیا ہوگا؟
میزبان: آخر میں، آپ نوجوان نسل کو کیا پیغام دیں گے؟
خلاصۂ نظریات: یوال نوح حراری
-
انسان ایک "قصہ گو مخلوق" ہے
-
ڈیٹا اور معلومات، جدید طاقت کے منبع ہیں
-
مذہب، ریاست، اور سرمایہ داری افسانوی بیانیے ہیں
-
AI اور بایو ٹیک انسانیت کو ازسرنو تشکیل دے سکتے ہیں
-
تعلیم، معیشت، اور سیاست میں گلوبل وژن اور اخلاقیات کی ضرورت ہے
اسلامی تناظر میں حراری کے افکار پر تنقیدی تبصرہ
یوال نوح حراری جیسے مفکرین جدید دنیا کے فکری بحران کو بیان ضرور کرتے ہیں، لیکن ان کے تصورات کو حرفِ آخر مان لینا ایک نئے دھوکے کی ابتدا ہو سکتی ہے — خاص طور پر جب وہ خدا، مذہب، وحی، اور انسانی اخلاقیات کو محض "افسانوی بیانیے" قرار دیتے ہیں۔
لہٰذا، آپ کی رہنمائی کے لے، ذیل میں ایک اسلامی اور قرآنی نقطۂ نظر سے تنقیدی تبصرہ تحریر کیا گیا ہے، جو آپ حراری کے مکالمے کے ساتھ بطور فکری نوٹ یا تجزیہ ملاحظہ کر سکتے ہیں:
یوال نوح حراری کے خیالات، بلا شبہ موجودہ فکری دنیا میں ارتعاش پیدا کرتے ہیں۔ ان کی کتابیں انسان، تاریخ، اور مستقبل کے بارے میں چونکا دینے والے سوالات اٹھاتی ہیں۔ لیکن جہاں ان کی فکر بصیرت بخش ہے، وہیں یہ وحی کے انکار، روحانیت کی تنسیخ، اور الٰہی حقیقتوں کے انکار کی طرف بھی مائل نظر آتی ہے۔
1. خدا کو 'افسانہ' کہنا – ایک فکری لغزش
حراری فرماتے ہیں کہ خدا کا تصور ایک "اجتماعی افسانہ" ہے، جو انسان نے سماجی نظم کے لیے گھڑ لیا۔ یہ دعویٰ نہ صرف ایمان اور وحی کی نفی کرتا ہے بلکہ انسان کے فطری تجسس، روحانی تقاضے، اور اس کے ماورائے مادی شعور کا بھی انکار ہے۔
قرآن کہتا ہے:
"أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ؟""کیا اللہ کے بارے میں کوئی شک ہے؟ وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا!" (سورہ ابراہیم 10)
خدا کا تصور نہ افسانہ ہے، نہ تاریخی فریب، بلکہ انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ سچائی ہے:
"فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا""یہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے، جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا۔" (سورہ الروم 30)
2. مذہب کو اختراعی بیانیہ کہنا – ایک تہذیبی تکبر
حراری مذہب کو محض کہانیوں اور بیانیوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں، جبکہ قرآن مذہب کو "ہدایت"، "نور"، اور "روح" قرار دیتا ہے۔ وحی انسانی تمدن کی اختراع نہیں بلکہ خالقِ کائنات کی طرف سے نازل کردہ علم ہے:
"وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ""وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے، یہ تو وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔" (سورہ النجم 4)
اسلامی فکر میں مذہب صرف نظمِ اجتماعی کا ذریعہ نہیں، بلکہ روح کی نجات، عدل کا قیام، اور حقیقتِ مطلقہ کا شعور ہے۔
3. انسان کا "خدا بننے" کا خواب – شیطانی خواہش؟
حراری لکھتے ہیں کہ انسان اب "Homo Deus" یعنی خدا بننا چاہتا ہے۔ وہ موت، دکھ، بیماری، اور جینوم پر قابو پا کر انسانیت کا نیا خالق بننا چاہتا ہے۔ یہ تصور ہمیں ابلیس کی پہلی سرکشی یاد دلاتا ہے:
"قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ""اس نے کہا: میں اس (آدم) سے بہتر ہوں!" (سورہ ص 76)
اور پھر شیطان کا یہ وسوسہ:
"مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ""تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے روکا صرف اس لیے کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ جینے والے نہ بن جاؤ!" (سورہ الاعراف 20)
یعنی خدا بننے کا خواب، شیطانی فریب کا تسلسل ہے۔
4. ڈیجیٹل آمریت کا خطرہ – لیکن اخلاقی ضابطے کہاں سے؟
قرآن فرماتا ہے:
﴿ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ ٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾پھر ہم نے تمہیں (اے نبی ﷺ) ایک واضح شریعت (طریقۂ کار) پر قائم کر دیا، لہٰذا تم اسی کی پیروی کرو، اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔ (سورہ الجاثیہ 45:18)
خلاصہ کلام
یوال نوح حراری کے خیالات جدید انسان کے فکری سفر کی عکاسی کرتے ہیں، لیکن وہ انسان کو اس کے اصل منبع — وحی، خدا، اور آخرت — سے کاٹ کر ایک نئی مخلوق بنانا چاہتے ہیں جو علم تو رکھتی ہو، مگر ہدایت سے خالی ہو۔
اسلام کا پیغام یہ ہے کہ علم، ترقی، اور سائنسی شعور ضرور اپناؤ — مگر روح کو خدا سے جوڑ کر، عقل کو وحی کے تابع رکھ کر، اور آزادی کو اخلاقی حدود میں رکھ کر۔
"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ""اور میں نے جن و انسان کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔" (سورہ الذاریات :56)
احمد طیب
8 اپریل 2025
واہ کینٹ
یہ بھی پڑھیں !