خاموش گواہ

 پیش لفظ 

آج نماز فجر کے بعد جب میں نے  سورۃ غافر کی وہ آیت پڑھی، جس میں ایک مردِ مومن اپنے دل کی روشنی کو زبان کی جرأت میں ڈھالتا ہے، تو مجھے یوں لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ جیسے صدیاں پیچھے پلٹ کر مجھے ایک لمحے میں کھینچ لائیں — وہاں، فرعون کے ایوان میں، ساز و رقص کی گونج میں، خوف اور غرور کی بُو میں، ایک آدمی خاموشی سے کھڑا ہے۔ بولنا چاہتا ہے، ڈرتا ہے، پھر بول پڑتا ہے — اور وقت گواہ بن جاتا ہے۔

میں دیر تک سوچتا رہا: کیا ہم میں سے ہر ایک کے اندر ایک مردِ مومن چھپا ہوا ہے؟ وہ جو سچ جانتا ہے مگر مناسب لمحے کا انتظار کرتا ہے؟ اور کیا سچ کی سب سے خوبصورت صدا وہی نہیں جو ظلم کی گونج میں گم ہو کر بھی تاریخ کا چراغ بن جاتی ہے؟

یہ ناولچہ — خاموش گواہ — میرے دل کے ایک گہرے گوشے سے نکلی ہوئی تحریر ہے۔ یہ فقط ایک تاریخی بیان نہیں، بلکہ میرے احساس کا وہ عکس ہے جو میں نے قرآن کی تلاوت کے دوران محسوس کیا۔ جب میں نے مردِ مومن کی باتیں پڑھیں، تو مجھے لگا جیسے وہ مجھ سے مخاطب ہے — جیسے کہہ رہا ہو:
"ڈرو مت، کہو سچ، چاہے تمہیں اکیلا ہی کیوں نہ بولنا پڑے۔"

میں نے اس داستان کو افسانوی روپ دیا، مگر دل میں اس کی حقیقت کی روشنی برابر جلتی رہی۔ میں چاہتا ہوں کہ قاری نہ صرف اسے پڑھے، بلکہ محسوس کرے — یوں جیسے وہ خود ایوانِ فرعون میں کھڑا ہو، یا خاموش گواہ کی زبان سے بول رہا ہو۔

یہ پیش لفظ نہیں، ایک دعائیہ عرض ہے:
اے اللہ! ہمیں بھی اُن لوگوں میں شامل فرما جو سچ بولتے ہیں، چاہے وقت کے فرعونوں کی تلواریں ہماری طرف ہی کیوں نہ اٹھی ہوں۔ آمین۔

احمد طیب 

۷ اپریل ۲۰۲۵ 

واہ کینٹ 



 تخت و تاج کے سائے میں

سنہری ستونوں سے سجا ایوانِ شاہی، جہاں ہر دیوار فرعون کے غرور کی گواہی دیتی تھی۔ ہر صبح غلاموں کی قطار، سازندوں کے نغمے اور حکمران کی چمکتی آنکھیں۔ مصر کا سورج جیسے صرف اُس کے لیے طلوع ہوتا تھا۔

ایک دن، اسی ایوان میں ایک مرد داخل ہوا۔ چہرے پر وقت کی دھوپ، مگر آنکھوں میں روشنی۔ وہ تھا موسیٰ ؑ۔

"اے فرعون! میں رب العالمین کا نمائندہ ہوں، بنی اسرائیل کو آزاد کر دے۔"

دربار میں سناٹا چھا گیا۔ فرعون کی آواز گونجی:

"تو وہی ہے جسے ہم نے پالا؟ اور اب ہمارا دشمن بن آیا ہے؟"

موسیٰ نے نرمی سے جواب دیا:

"میں نے خطا کی، مگر میرے رب نے معاف کر دیا۔ اب میں سچ لے کر آیا ہوں۔ وہی سچ جو تمہارے غرور کو چکناچور کر دے گا۔"

پاس کھڑا ایک درباری، نرم نگاہوں والا شخص — مردِ مومن — خاموشی سے سب کچھ سن رہا تھا۔ دل کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں، مگر زبان بند تھی۔

 راز کی روشنی

وہ مرد دن کو فرعون کا وفادار دکھتا، مگر راتوں کو محل کی چھت پر تنہا آسمان سے سرگوشی کرتا۔

"اے میرے رب! میرا دل گواہی دیتا ہے کہ موسیٰ حق پر ہے، مگر زبان کیسے کھولوں؟ اگر بول پڑا تو جان سے جاؤں گا۔"

چاندنی راتوں میں وہ ستاروں کو دیکھتا اور یوں محسوس کرتا جیسے وہی اسے حوصلہ دیتے ہوں۔

 طوفان کا آغاز

ایک دن فرعون نے دربار میں اعلان کیا:

"مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں۔ وہ اپنے رب کو پکار لے!"

اسی لمحے، وہ مرد جو مدتوں خاموش تھا، آہستہ سے قدم بڑھاتا ہے۔ تمام نگاہیں اس کی طرف مڑ جاتی ہیں۔

وہ گویا ہوا:

"کیا جناب! ایک انسان کو صرف اس لیے قتل کریں گے کہ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے پاس نشانیاں لا چکا ہے!"

فرعون کی آنکھوں میں غصے کی چمک آئی:

"کیا تُو بھی موسیٰ کا ساتھی ہے؟"

مردِ مومن کی آواز بلند ہوتی ہے:

"اگر وہ جھوٹا ہے، تو اس کا جھوٹ اسی پر۔ اور اگر سچا نکلا تو تم پر عذاب آ پڑے گا۔"

 للکار

"اے میری قوم! آج تمہیں دنیا کی سلطنتیں عزیز ہیں، کل قیامت کے دن کیا کرو گے؟ جب کوئی بادشاہ نہ ہو گا، نہ وزیر، نہ لشکر! صرف ایک رب کی سلطنت ہو گی۔"

ایوان میں شور اٹھتا ہے۔ کچھ لوگ چپ، کچھ غصے میں، کچھ شک میں۔ فرعون خاموش ہو جاتا ہے۔ شاید لمحہ بھر کو ڈر گیا۔

انجام کی چاپ

موسیٰ نے معجزات دکھائے۔ طوفان آئے، خون بہا، مینڈکوں نے حملہ کیا، پانی زہر ہوا۔ مگر فرعون کا دل سخت رہا۔

آخرکار، رات آئی جب بنی اسرائیل نکلے۔ دریا ان کے سامنے تھا، فرعون پیچھے۔

موسیٰ نے دریا پر عصا مارا — پانی چیر گیا۔ قوم نجات پا گئی۔

فرعون نے پیچھا کیا — پانی پلٹا اور وہ ڈوب گیا۔

 خاموشی کی گواہی

دریا کے کنارے ایک بوڑھا شخص کھڑا تھا۔ چہرے پر نور، آنکھوں میں سکون۔ وہی مردِ مومن۔

اس نے آسمان کی طرف دیکھا:

"اے میرے رب! میں نے گواہی دی، جب سب خاموش تھے۔ اب مجھے اپنا قرب عطا فرما۔"

فضا میں ہلکی ہوا چلی۔ جیسے فرشتے اس کی روح کو لے جا رہے ہوں۔

یہ داستان فقط فرعون، موسیٰ اور مردِ مومن کی نہیں۔ یہ ہر دور کے اُن لوگوں کی ہے جو ایوانِ ظلم میں سچ بولنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جو خاموش رہتے ہیں، وقت کے منتظر، اور جب وقت آ جائے، تو خاموشی کو ایمان کی للکار میں بدل دیتے ہیں۔