امتِ مسلمہ: ایک جاں، ہزار قالب

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ہم ایک خواب کی کرچیاں چن رہے ہیں… ایک ایسا خواب جسے تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں کہیں سجا کر رکھ دیا گیا ہو۔

مگر نہیں، یہ خواب نہیں، یہ ایک روحانی حقیقت ہے… ایک عقیدہ، ایک احساس، ایک رشتہ، جو دلوں کو جوڑتا ہے، آنکھوں کو نم کرتا ہے، اور اذان کے ہر ترنم میں بازگشت دیتا ہے کہ:

"إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ..."  (الأنبیاء: 92)

یہ امتِ مسلمہ ہے...
نہ قوم کی قید میں، نہ رنگ و نسل کی زنجیروں میں...
بلکہ سجدوں کی روانی میں، روزوں کی تھکن میں، اور حج کے لباسِ سفید میں سمٹی ہوئی ایک جیتی جاگتی اکائی۔

🕌 جہاں وقت تھم جاتا ہے: امت کے روحانی لمحات

رمضان کی پہلی رات کو جب چاند طلوع ہوتا ہے، تب کوئی اعلان نہیں ہوتا، کوئی عالمی معاہدہ طے نہیں پاتا، مگر حیرت انگیز طور پر دنیا بھر کے مسلمان ایک ساتھ سحری کے لیے اٹھتے ہیں، افطار کرتے ہیں، اور سجدے میں گرتے ہیں۔

یہ وہ منظر ہے جہاں سیاسی سرحدیں پسِ منظر میں چلی جاتی ہیں اور امت کی روح بیدار ہوتی ہے۔

اور پھر حج...
لبیک کی صدا میں نہ کوئی عرب ہے، نہ عجم، نہ کالا، نہ گورا۔
بس ایک آواز، ایک لباس، ایک خدا...
یہی تو ہے امت کا اصل چہرہ —
جو کبھی مسجدِ نبویؐ کے صحن میں،
کبھی مکہ کے صحنِ حرم میں،
اور کبھی کسی ویران مسجد میں آہستگی سے آنکھوں میں نمی لے آتا ہے۔

🌍 تو کیا امت ختم ہو چکی؟

نہیں، امت ختم نہیں ہوئی...
وہ بس دھندلا دی گئی ہے — سیاست کی دھند، جغرافیے کی دیواریں، مفادات کی گرد میں لپٹی ہوئی۔

کیا تم نے کبھی محسوس کیا ہے کہ ایک فلسطینی بچی کی چیخ سن کر تمہارے دل میں درد کیوں اٹھتا ہے؟
کیا کبھی کسی شامی بوڑھے کی آہوں نے تمہیں بےچین کر دیا؟
کیوں تمہیں روہنگیا کے مہاجر بچوں کی آنکھوں میں اپنا بچپن دکھائی دیتا ہے؟

کیونکہ ہم امت ہیں —
ایک جسم، جس کا ہر زخم دوسرے حصے کو رلا دیتا ہے۔
یہ وحدت، یہ اخوت، یہ روح کا رشتہ نہ اقوام متحدہ کے نقشے میں ملتا ہے، نہ کسی پاسپورٹ پر،
یہ تو دل کی مسجد میں لکھا ہوا ایک آفاقی کلمہ ہے۔

🕊 امت کا دکھ: بکھرے ہوئے جگنو

ہاں، مانتا ہوں...
ہم بکھر چکے ہیں۔
کبھی قوم پرستی کے سیلاب میں،
کبھی فرقہ واریت کی آگ میں،
کبھی سیاست کی چالوں میں۔

لیکن یہ بکھراؤ صرف ظاہری ہے۔
امت ایک بہتا ہوا دریا ہے جسے بند باندھ کر روکا جا رہا ہے —
مگر دریا کا مقدر ہے کہ وہ ایک دن بند توڑ دیتا ہے۔

🌱 امید کی شاخ: امت کا مستقبل

یہ امت آج بھی زندہ ہے — اس کی دعاؤں میں، اس کی زبانوں پر، اس کے خوابوں میں۔
یہ بچے جو سجدے کرتے ہیں، یہ مائیں جو قرآن سناتی ہیں، یہ نوجوان جو کلمے پر جان نچھاور کرتے ہیں —
یہ سب امت کے چراغ ہیں۔

ہمیں صرف دل کی آنکھیں کھولنی ہیں…
امت کو پھر سے "نصاب" سے نکال کر "نفس" میں اتارنا ہے۔
یہ نہ صرف ممکن ہے، بلکہ ناگزیر بھی۔

📖 حاصل کلام : امت — ایک وعدہ، ایک دعا

امت مسلمہ کوئی ماضی کی کہانی نہیں،
یہ تو ایک وعدہ ہے جو قرآن نے کیا،
ایک دعا ہے جو رسول ﷺ نے مانگی،
اور ایک خواب ہے جو ہر مومن کے دل میں دھڑکتا ہے۔

بس شرط یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو "قوم" نہیں، "امت" سمجھیں —
جہاں دکھ سانجھا ہو، خوشی مشترک، اور درد وحدت کا عنوان۔

تو آؤ...
اس دھند سے نکل کر،
امت کے سورج کو پھر سے طلوع کریں۔