ڈاکٹر محمد عبد اللہ دراز(1894ء–1958ء) : مصر کے ممتاز عالم، مفسر، محدث اور فلسفی

شیخ محمد عبد اللہ دراز (1894ء–1958ء) مصر کے ممتاز عالم، مفسر، محدث اور فلسفی تھے جو جامعہ ازہر سے وابستہ رہے۔ آپ نے قرآن، اخلاقیات اور مذاہبِ عالم پر گہرے علمی اور روحانی مضامین تحریر کیے۔ ان کی خاص پہچان قرآن کو موضوعاتی اور وحدانی انداز میں سمجھنے کی علمی بصیرت تھی۔ انہوں نے اسلامی فکر کو مغربی فلسفے کے مقابل ایک مضبوط فکری و اخلاقی متبادل کے طور پر پیش کیا، اور اپنی مشہور کتاب "دستور الأخلاق في القرآن" کے ذریعے اسلامی اخلاقیات کا علمی و فلسفیانہ دفاع کیا۔

ابتدائی زندگی 

 محمد عبد اللہ دراز 8 نومبر 1894ء کو مصر کے موجودہ صوبہ کفر الشیخ کے ایک گاؤں "محلۃ دیائے" میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ عبد اللہ دراز ایک فقیہ اور ماہر لسانیات تھے، جنہوں نے امام شاطبی کی مشہور کتاب "الموافقات" پر شروحات تحریر کیں۔

آپ نے 1905ء میں اسکندریہ کے دینی مدرسے میں داخلہ لیا۔ 1912ء میں الازہر سے ثانویہ (ثانوی تعلیم) کی سند حاصل کی، اور 1916ء میں "شہادتِ عالمیہ" (عالمیت کی ڈگری) حاصل کی۔ 1928ء میں آپ کو الازہر کے اعلیٰ شعبے میں تدریس کے لیے منتخب کیا گیا۔ 1946ء میں آپ کو علمی بعثت کے تحت فرانس بھیجا گیا، اور 1947ء میں پیرس کی مشہور جامعہ سوربون سے آپ نے اعلیٰ اعزاز کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔

فرانس سے واپسی کے بعد آپ نے جامعہ قاہرہ، دارالعلوم، اور کلیہ زبان عربیہ (کلیہ اللغۃ العربیۃ) میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 1949ء میں آپ کو "ہیئۃ کبار العلماء" (بزرگ علماء کی مجلس) کی رکنیت عطا ہوئی۔

1958ء میں، جب آپ پاکستان کے شہر لاہور میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شریک تھے، تو وہیں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ فرانس سے واپسی سے لے کر وفات تک آپ نے کئی اہم ذمہ داریاں نبھائیں، جن میں اعلیٰ تعلیمی پالیسی کی کمیٹی، اعلیٰ نشریاتی کونسل، اور الازہر کی ثقافتی مشاورتی کمیٹی کی رکنیت شامل ہے۔ نیز، وزارتِ عظمٰی کے اجلاسوں میں آپ کا نام منصبِ شیخ الازہر کے لیے زیر غور آیا تھا، جس کے بعد شیخ التونسی خضر حسین کو منتخب کیا گیا۔

علمی سفر

شیخ عبد اللہ درازکو 1928ء میں مدرس مقرر کیا گیا، پھر تفسیر کے پروفیسر کی حیثیت سے کلیہ اصول الدین میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 1936ء میں انہوں نے حج کیا، اور اسی سال انہیں فرانسیسی جامعہ سوربون میں تعلیم کے لیے ایک وظیفہ ملا، چنانچہ وہ فرانس چلے گئے جہاں انہوں نے بارہ سال قیام کیا۔ اس دوران وہ مغربی ثقافت کو اس کے اصل منابع سے جذب کرنے میں پوری سنجیدگی اور انہماک سے مشغول رہے، اور ساتھ ہی ساتھ ان افکار کو قرآن مجید میں علمِ اخلاق کے اصولوں سے تقابلی انداز میں پرکھتے رہے۔

فرانس میں انہوں نے مشہور مستشرقین جیسے لیوی بروفنسال، لوئس ماسینیون، اور لوسن جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا، حتیٰ کہ 1947ء میں "فلسفۂ ادیان" میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری "درجہ اولیٰ" (بہترین امتیاز) کے ساتھ حاصل کی۔

ان کی ڈاکٹریٹ کی تحقیق دو حصوں پر مشتمل تھی:
پہلا حصہ "مدخل إلى القرآن الكريم" (قرآن کریم کا تعارفی مطالعہ) تھا، جو ایک مختصر مقدمہ ہے جس میں انہوں نے قرآن کی تاریخ پر روشنی ڈالی؛
دوسرا حصہ "دستور الأخلاق في القرآن الكريم" (قرآن میں اخلاقیات کا دستور) تھا، جو تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل ایک ضخیم تصنیف ہے۔ اس میں انہوں نے قرآنی اخلاقیات کے نظری اور عملی دونوں پہلوؤں پر مشتمل ایک مکمل تصور پیش کیا۔

اس تحقیقی کارنامے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ دراز نے پہلی مرتبہ قرآن سے اخلاقی شریعت کو مکمل طور پر اخذ کر کے اسے ایک مربوط اور خودمختار نظریاتی نظام کے طور پر پیش کیا، جو دیگر قریبی شعبوں سے الگ ایک جامع فکری کُل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوں انہوں نے قرآنی اخلاقیات کو محض وعظی ہدایات سے بلند کر کے علم و معرفت کے ایک باقاعدہ دائرے میں منتقل کر دیا۔

اگرچہ انہوں نے سوربون میں تعلیم حاصل کی اور مستشرقین سے گہرا رابطہ رہا، لیکن ان کی ازہری تربیت، علمی ثقافت، اور دینی ورثے نے ان کی سوچ پر گہرا اثرڈھالا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ایک مسلم محقق کی ذمہ داری محض ورثے کو زندہ کرنا نہیں بلکہ اسے جدید انداز میں پیش کرنا اور اس میں اضافہ کرنا بھی ہے۔

اسی نظریے کے تحت انہوں نے اپنی وفات سے قبل ایک اہم کتاب "الميزان بين السنة والبدعة" لکھنی شروع کی، جس کا مقصد امام شاطبی کی مشہور کتاب "الاعتصام" کو عصری سیاق میں نیا قالب دینا تھا، لیکن اجل نے انہیں اس عظیم مقصد کو مکمل کرنے کا موقع نہ دیا۔

انہوں نے کل 14 علمی و فکری تصنیفات چھوڑی ہیں، جن میں کتابیں اور تحقیقی مقالات شامل ہیں۔ ان کی معروف کتب میں:

  • النبأ العظيم

  • الدين: بحوث ممهدة لتاريخ الأديان

جبکہ ان کے تحقیقی مقالات میں شامل ہیں:

  • الربا في نظر القانون الإسلامي

  • مبادئ القانون الدولي العام في الإسلام

  • حول المؤتمرات العالمية للأديان

اگرچہ ان کی تصانیف کی تعداد کم ہے، لیکن وہ علمی و فکری لحاظ سے ایسی وقیع تحریریں ہیں جنہوں نے اسلامی فلسفہ، علمِ کلام، اور تاریخِ ادیان جیسے اہم میدانوں میں ایک واضح علمی خلا کو پُر کیا۔

فکر و بصیرت

دراز کو اسلامی اور مغربی دونوں تہذیبوں کا مطالعہ ان کے اصل ماخذات سے کرنے کا موقع ملا، جس کی بدولت انہوں نے ایک تحقیقی، تجزیاتی اور مرکب فکر کی تشکیل کی، جو سطحی سادہ کاری اور اُس "ذہنی بدہضمی" سے پاک تھی جو ان لوگوں کو لاحق ہو جاتی ہے جو یا تو جمود زدہ موروثی فکر میں قید ہو جاتے ہیں یا بیرونی ثقافتوں سے متاثر ہو کر گمراہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

وہ روحانیات میں امام غزالی، حکیم ترمذی اور ابو طالب مکی کے افکار میں گہری بصیرت رکھتے تھے، اور ساتھ ہی ڈیکارٹ، کانٹ اور ہنری برگساں جیسے مغربی فلسفیوں کی فکر سے بھی واقف تھے۔ اس فکری ترکیب نے انہیں وسعتِ نظر، گہرے تجزیے، اور دلیل و استدلال کی دقت عطا کی۔ ان کا اندازِ گفتگو قوی و مؤثر تھا، اور ان کی فصاحت و بلاغت کو قرآن کریم کی بلاغت سے توانائی ملتی تھی۔

قرآن کریم سے ان کا خصوصی تعلق

قرآن مجید سے ان کا تعلق ایسا مرکز و منبع تھا جہاں سے ان کی تمام علمی و عملی برکات پھوٹتی تھیں۔ ان کی علمی توجہ مکمل طور پر قرآن پر مرکوز تھی، اور ان کی کوئی بھی علمی کاوش قرآن سے خالی نہیں۔ وہ اللہ کی کتاب سے اس درجہ محبت رکھتے تھے کہ اسے چھپانا بھی ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ وہ قرآن کے الفاظ کی پیروی اس عاشق کی مانند کرتے تھے جو اپنے محبوب کی ہر بات پر فریفتہ ہو، اور وہ قرآن کے الفاظ کو "موتیوں کے دانے" کہا کرتے تھے۔

دراز ہر روز بلا تھکن قرآن کے چھ حصے (چھ پارے) پڑھا کرتے تھے۔ وہ قرآن کے بہت معزز قاری تھے، تلاوت کے دوران سجدۂ تلاوت ضرور کرتے، چاہے وہ تفسیر کا درس ہی کیوں نہ دے رہے ہوں۔ اپنے طلبہ سے وہ تاکید کرتے کہ درس سے پہلے وضو کر کے آئیں تاکہ وہ تلاوتِ قرآن کے لیے تیار ہوں۔

ان کے ہم سفر شیخ محمد ابو زہرہ نے لاہور میں اسلامی کانفرنس کے دوران لکھا:

"وہ ہمیں نمازِ عشاء پڑھاتے، پھر ہم سب اپنے بستروں کی طرف چلے جاتے اور وہ اپنی نماز اور قرآن کی طرف۔ میں نے انہیں ہمیشہ یا تو تلاوت کرتے یا نماز پڑھتے ہی دیکھا۔"

منہج (طریقِ کار):

شیخ دراز کا منہج اعتدال پر مبنی تھا، جس کی جھلک ان کے مختلف فکری و علمی موضوعات کے درمیان توازن سے ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے کئی فکری "ثنائیات" جیسے عقل و نقل، سنت و بدعت، جبر و اختیار، امن و جنگ، علم و دین، اور اخلاق و قانون جیسے موضوعات کو "معتدل اسلامی نقطہ نظر" سے سمجھا اور پیش کیا۔

ان کے نزدیک نیکی اور بدی کے درمیان تمیز ایک اندرونی الہام ہے جو انسانی فطرت میں ودیعت ہے، اس سے پہلے کہ یہ کوئی آسمانی شریعت ہو۔ تاہم، وہ یہ بھی مانتے تھے کہ الٰہی شریعت، فطری اخلاقی قانون کی تکمیل ہے—ایسی تکمیل جو انسانی فطرت کے لیے ضروری ہے، کیونکہ فطرت بعض اوقات انحرافات، شکوک، یا باطنی اندھیروں کا شکار ہو جاتی ہے۔

شیخ دراز کے مطابق، اگر وحی کا نور نہ ہو، تو انسان نیکی و بدی کے مفاہیم پر مسلسل جھگڑتا رہے گا، کیونکہ "عقول کا مقابلہ عقول سے ہوگا، اور جذبات کا مقابلہ جذبات سے"۔ انسانی تاریخ کے تجربات اس الجھن کے شاہد ہیں، جیسا کہ بدھ مت کی ترک دنیا پر مبنی نروانای نظریہ اور یونانی رواقی مکتب کی اباحیت۔ یہ سب گواہ ہیں کہ وحی اور فطرت دونوں کے نور کو ساتھ ساتھ رہنا چاہیے، جیسا کہ ان دونوں کا خالق چاہتا ہے۔

تجدید (نئے علمی شعبے اور طرز فکر):

شیخ دراز نے تجدیدی کاموں میں گہری دلچسپی لی، اور اس میں انہوں نے دو نئے علمی شعبے قائم کیے:

  1. قرآن کا اخلاقی علم (علم "أخلاق القرآن")، جس پر ان کی معروف کتاب" دستور الأخلاق في القرآن" ہے۔

  2. قرآن کا ماخذی علم (علم "مصدر القرآن")، جس پر انہوں نے" النبأ العظيم" اور "مدخل إلى القرآن الكريم" جیسی بنیادی کتب تصنیف کیں۔

انہیں بخوبی احساس تھا کہ وہ ایک غیر مروجہ راستہ اختیار کر رہے ہیں، اور اس لیے انہیں بنیاد سے کام شروع کرنا ہوگا۔ ان کی تجدیدی کوششیں قرآنی علوم میں نمایاں تھیں، خاص طور پر اس لحاظ سے کہ انہوں نے قرآن کو منطقی اور تاریخی تجزیاتی طریقے سے پڑھا، جو مروّجہ مفسرانہ اسلوب سے مختلف تھا۔

شیخ دراز نے قرآن کو صرف عربی ثقافتی سیاق تک محدود نہ رکھا، بلکہ اسے عالمی سیاق میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی—جو ایک نظریاتی انقلاب تھا۔

قومی کردار:

شیخ دراز اپنے وطن اور امت کے مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ 1919ء کی انقلابی تحریک کے دوران وہ مصر میں موجود غیر ملکی سفارت خانوں میں گئے اور وہاں فرانسیسی زبان میں مصر کے مقدمے پر لیکچرز دیے، جس زبان کو انہوں نے اسی مقصد کے لیے سیکھا تھا۔

1951ء میں مصر و برطانیہ کے درمیان معاہدے کی منسوخی کی وہ پرزور حمایت کرتے تھے، اور انہوں نے طلبہ کی ایک فوجی جماعت کی تیاری میں بھی حصہ لیا، جو نہر سویز میں برطانوی افواج کے خلاف مزاحمت میں شریک ہوئی۔ مصری انقلاب کے بعد جب آزاد افسران نے انہیں شیخ الازہر کا منصب پیش کیا تو انہوں نے قبول کرنے سے پہلے آزادیِ عمل اور اصلاحات کی مکمل اجازت کی شرط رکھی، اور جب یہ مہیا نہ کی گئی، تو منصب قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

وطن کے مسائل سے آگے بڑھ کر وہ امت مسلمہ کے عالمی مسائل میں بھی سرگرم رہے۔ جب وہ فرانس میں تھے تو انہوں نے فلسطینی، مراکشی اور الجزائری آزادی کی تحریکوں کی علانیہ حمایت کی۔ ان کی خصوصی وابستگی جمعیۃ العلماء الجزائریین سے تھی۔ وہ پیرس میں ان کی دعوتی و ثقافتی سرگرمیوں میں شریک ہوئے، اور مالک بن نبی سے قریبی تعلقات قائم کیے، جنہوں نے شیخ دراز سے اپنی کچھ تحریروں پر مقدمہ لکھنے کی درخواست کی۔

اسی طرح انہوں نے امام عبد الحمید بن بادیس سے بھی رابطہ رکھا اور الجزائر کے طلبہ کو جامعہ ازہر میں داخلے کے لیے ان کے حق میں سفارش کی۔

تالیفات:

شیخ محمد عبد اللہ دراز کی متعدد علمی، فکری اور تحقیقی تصانیف ہیں، جن میں سے نمایاں درج ذیل ہیں:

  1. النبأ العظيم:
    یہ کتاب قرآن مجید پر ان کی گہری نظر اور عقلی، تاریخی اور معاصر دلائل کے ساتھ قرآن کے الٰہی کلام ہونے کو ثابت کرتی ہے۔ اس میں وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ قرآن نہ جھوٹا ہو سکتا ہے، نہ گھڑا گیا ہے، نہ ہی اس میں تحریف ہوئی ہے۔

  2. الدين – بحوث ممهدة لدراسة تاريخ الأديان:
    یہ کتاب فلسفۂ دین اور ادیان کی تاریخ پر ان کا غیر معمولی علمی کارنامہ ہے، جو عربی زبان میں اس موضوع پر ایک انتہائی اہم حوالہ بن چکی ہے۔ یہاں تک کہ یہ کام مغربی فلسفۂ دین کے مروجہ مباحث پر بھی فائق نظر آتا ہے۔

  3. دستور الأخلاق في القرآن (فرانسیسی زبان میں، بعد ازاں عربی ترجمہ):
    یہ ان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا، جو انہوں نے جامعۂ سوربون میں فرانسیسی زبان میں پیش کیا۔ اس کی پہلی اشاعت 1950ء میں جامعہ ازہر کے خرچ پر ہوئی۔
    عربی میں اس کا ترجمہ، تحقیق اور تعلیقات ڈاکٹر عبد الصبور شاہین نے کیے، جبکہ نظرثانی ڈاکٹر محمد السید بدوی نے کی۔ یہ ایک جامع جلد میں ہے اور اس کے صفحات کی تعداد 800 سے زائد ہے۔

  4. مدخل إلى القرآن الكريم – (فرانسیسی زبان میں، عربی ترجمہ موجود):
    یہ بھی ان کا تحقیقی مقالہ ہے، جو انہوں نے قرآن کو تاریخی اور تقابلی انداز میں پیش کرنے کے لیے تحریر کیا۔

  5. من خلق القرآن؟:
    اس کتاب میں انہوں نے اس سوال کا تجزیہ کیا کہ کیا قرآن مخلوق ہے یا کلامِ الٰہی؟

  6. المختار من كنوز السنة النبوية:
    اس میں چالیس منتخب احادیث کی شرح کی گئی ہے، جو اصولِ دین سے متعلق ہیں۔

  7. نظرات في الإسلام:
    اسلام کے مختلف پہلوؤں پر فکری و تنقیدی نگاہ۔

  8. أصل الإسلام:
    اسلام کی ابتدائی تعلیمات اور بنیادوں پر ایک تحقیقی جائزہ۔

  9. العبادات: الصلاة - الزكاة - الصوم - الحج:
    چار بنیادی عبادات کی حکمت، روحانیت اور فقہی تفصیل۔

  10. الصوم تربية وجهاد:
    روزے کی روحانی تربیت اور اس کے جہادی پہلوؤں پر روشنی۔

  11. زاد المسلم للدين والحياة:
    مسلمان کی دینی و دنیاوی زندگی کے لیے رہنما افکار و ہدایات۔


علمی کانفرنسوں کے لیے لکھی گئی تحریریں:

  • الربا (سود) پر ایک تفصیلی مقالہ، جو انہوں نے 1951ء میں پیرس میں بین الاقوامی قانون کانفرنس میں پیش کیا۔

  • الإسلام والعلاقات الدولية (اسلام اور بین الاقوامی تعلقات) پر ان کا علمی موقف۔

  • موقف الإسلام من الأديان الأخرى (دیگر مذاہب کے متعلق اسلام کا نقطۂ نظر)۔


نامکمل مگر اہم منصوبے:

  • الميزان بين السنة والبدعة:
    اس کتاب کے کچھ اجزاء اور مسودات شائع ہو چکے تھے، مگر مکمل نہ ہو سکی۔


دیگر اہم کام:

  • المختار (ایک انتخابی مجموعہ)

  • رأي الإسلام في القتال

  • بين المثالية والواقعية (مثالیت اور حقیقت پسندی کے درمیان)

  • الأزهر الجامعة القديمة الحديثة

  • دین و اخلاق پر ریڈیو تقاریر کا مجموعہ

  • مختلف علمی و فکری لیکچرز اور مضامین کا مجموعہ

یہ تمام تالیفات اور افکار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ شیخ دراز ایک ہمہ جہت محقق، مفکر، اور مجدد تھے جنہوں نے اسلامی علوم کو جدید دنیا سے جوڑنے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔

تحریری خصوصیات

شیخ محمد عبد اللہ دراز نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف "دستور الأخلاق في القرآن" کے آغاز میں لکھا:

"اگر ہمارا یہ کام مشرق و مغرب کی دنیا میں کوئی نیا پہلو سامنے نہ لا سکے، تو یہ محض وقت کا ضیاع، بوجھ اور بے فائدہ ہجوم ہوگا۔"

اس جملے کے ذریعے انہوں نے اپنی تحریری جدوجہد کو ایک اصول کا پابند بنایا: یعنی نیا اور مفید علمی مواد پیش کرنا، اور محض پرانے افکار کو دہرا دینا ان کے نزدیک قابلِ قبول نہ تھا۔ یہی اصول ان کی تمام تحریروں کا نمایاں وصف ہے۔

ان کی تحریر کے باقی نمایاں اوصاف درج ذیل ہیں:

اول: مربوط اور منظّم اسلوبِ تحریر

شیخ دراز کی تحریر میں صرف خوبصورت جملوں کی قطار نہیں ہوتی، جو صرف بلاغی حسن کی غرض سے لکھی گئی ہو، بلکہ ان کا طرزِ تحریر ایک عمارت کی مانند ہے، جس کا ہر منزلہ پچھلے منزل پر استوار ہے۔
ان کی تحریر کا یہ انداز ہے کہ:

  • آپ کسی ایک پیراگراف کو نکال کر باقی پڑھ نہیں سکتے؛

  • نہ ہی آپ کسی جملے کو آگے پیچھے کر سکتے ہیں؛

  • ہر فقرہ اور پیراگراف پچھلے کو ثابت کرتی ہے اور اگلے کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔

گویا ان کی تحریر منطقی تسلسل، فکری انسجام، اور ساختیاتی ربط کا اعلیٰ نمونہ ہے۔

دوم: تجریدی اندازِ فکر

شیخ دراز کی تحریروں پر تجریدیت (Abstraction) کا رنگ غالب ہے، اور تجرید کا مطلب ہے:

  • کسی شے کے جوہری اور اصل پہلو کو نمایاں کرنا؛

  • ثانوی و فروعی چیزوں کو الگ کر دینا؛

  • اور غیر اہم اجزاء کو حذف کر کے حقیقت کے لب و لباب تک رسائی حاصل کرنا۔

اس تجریدی تجزیے کے ذریعے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ:

قرآن صرف دو بڑے موضوعات کو موضوعِ سخن بناتا ہے: "اعلیٰ ترین حق (اللہ)" اور "اخلاقی فضیلت"۔

باقی تمام آیات و مضامین انہی دو مرکزی موضوعات کی تفصیل، توضیح یا تقویت کے لیے ہیں۔

سوم: منطقی استدلال اور درجہ بہ درجہ دلیل سازی

شیخ دراز کی تحریر میں آپ کو کہیں بے دلیل نتیجہ یا حکم نہیں ملے گا۔ وہ ہر بات کو منطقی، عقلی اور شرعی دلائل سے ثابت کرتے ہیں۔

ان کے استدلال کا نظام تین درجوں پر مشتمل ہوتا ہے:

  1. شرعی دلائل (قرآن و سنت)

  2. تاریخی دلائل (واقعاتی شواہد)

  3. عقلی و منطقی دلائل (فلسفیانہ و فکری براهین)

وہ صرف قرآنی آیات کو پیش کر کے بات ختم نہیں کرتے، بلکہ:

  • پہلے عقل و منطق کے ذریعے مقدمہ قائم کرتے؛

  • پھر تاریخی شواہد سے اس کی تائید کرتے؛

  • اور آخر میں قرآنی آیات سے اس کا حتمی اثبات کرتے۔

اکثر اوقات وہ قرآنی دلیل کو مؤخر کرتے ہیں، تاکہ قاری خود یہ محسوس کرے کہ عقل و منطق اسے خود قرآن کی صداقت کی طرف لے جا رہی ہے۔

یہ سب خصوصیات مل کر ثابت کرتی ہیں کہ شیخ دراز نہ صرف گہرے مطالعے کے حامل محقق تھے بلکہ وہ ایک اصولی، منظم اور تجدیدی مفکر بھی تھے، جنہوں نے اسلامی علوم میں ایک نیا فکری باب رقم کیا۔

دین اور اسلام

شیخ محمد عبداللہ دراز نے اسلام اور دیگر ادیان کے باہمی تعلق پر گہری توجہ دی ہے۔ اس موضوع میں ان کی آراء براہِ راست قرآن مجید سے اخذ کردہ ہیں، نہ کہ کسی تاریخی یا معاصر علمی روایت سے ماخوذ۔ ان کی تحقیق کا نقطۂ آغاز "اسلام" اور "دین" کے مفاہیم کی تعیین ہے۔

اسلام: تمام آسمانی ادیان کا مشترکہ نام

شیخ دراز کے مطابق، "اسلام" محض وہ دین نہیں جو نبی کریم ﷺ پر نازل ہوا، بلکہ یہ تمام رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات کا مشترکہ نام ہے۔ یہ کوئی خاص لیبل نہیں جس کا اطلاق صرف محمد ﷺ کی شریعت پر ہو۔

بلکہ اسلام وہ مشترکہ وصف ہے جو ان تمام آسمانی ادیان پر صادق آتا ہے جنہیں انسانی تحریف سے محفوظ رکھا گیا ہو۔
لہٰذا، دراز کے بقول:

اسلام اور دیگر آسمانی ادیان کے درمیان تعلق پر سوال ہی نہیں اٹھایا جا سکتا، کیونکہ یہ سب "ایک ہی حقیقت" کے مختلف مظاہر ہیں۔ یہاں فرق یا انقسام کی گنجائش نہیں، بلکہ وحدتِ اصل اور اتحادِ ماخذ کا اعلان ہے۔

اسلام: واحد مقبول دین

شیخ دراز فرماتے ہیں کہ اسلام ہی واحد دین ہے جسے اللہ نے قبول فرمایا، اور دنیا میں صرف ایک ہی سچا دین پایا جاتا ہے، جسے تمام ادوار میں مؤمنین نے اپنایا۔ اس کے علاوہ جو بھی ہو، وہ: قرآن کی قطعی نصوص کا انکار ہے؛اور حق سے انحراف کے مترادف۔

"دین" کا ارتقائی تصور

دراز واضح کرتے ہیں کہ "دین" کا تصور ایک جامد تصور نہیں تھا، بلکہ ہر نازل شدہ وحی اس دین کی ایک ایک نئی اینٹ یا پہلو تھی۔ یہ ارتقاء رسالتِ محمدی ﷺ پر مکمل ہوا۔

لہٰذا: تمام رسول اور تمام وحی دینِ واحد کا حصہ ہیں؛ ان سب میں برابری ہے؛ انبیاء کے مابین تفریق کرنا کفر ہے؛ اور کسی نبی کو جذباتی تعصب یا قومیت کی بنیاد پر دوسرے سے افضل قرار دینا عقیدے کی بنیاد کو متزلزل کرتا ہے اور وحدتِ الٰہی پیغام کو پارہ پارہ کر دیتا ہے۔

مراحلِ وحی اور قرآن کی حیثیت

شیخ دراز آسمانی کتب (تورات، انجیل، قرآن) کے باہمی تعلق کو دو مراحل میں تقسیم کرتے ہیں:

1. مرحلہ ما قبلِ تحریف:

اس مرحلے میں قرآن نے پچھلی کتب کی تصدیق کی؛ تصدیق کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن نے کچھ نیا اضافہ نہیں کیا، کیونکہ: انجیل نے تورات کی کچھ سختیاں ختم کیں؛ قرآن نے انجیل کی بعض پابندیاں رفع کیں۔ یہ تبدیلیاں پچھلی تعلیمات کی نفی یا انکار نہیں بلکہ ان کے حالاتِ زمانی کی رعایت تھیں۔

2. مرحلہ ما بعدِ تحریف:

اس دور میں قرآن، پچھلی کتب پر "محافظ" اور "مُہَیْمِن" بن کر آیا؛ اس کا کام صرف حق کی تائید کرنا نہیں، بلکہ: غلط تاویلات کا رد کرنا؛ تحریفات اور جھوٹے انتسابات کو ختم کرنا؛ اور آسمانی ورثے کو اصلی صورت میں محفوظ رکھنا ہے۔ قرآن نے یہ کر کے انسانیت پر عظیم احسان کیا کہ اس نے آسمانی پیغام کو خالص، واضح اور محفوظ صورت میں دوبارہ پیش کر دیا۔

القرآن: ایک سورت کی روشنی میں

شیخ محمد عبداللہ دراز کو ان کے قرآنی مطالعہ کے منفرد زاویے کی بنا پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے موضوعی (علمی و منہجی) تجزیے اور ذاتی ایمانی تجربے کے درمیان نہایت خوبصورت توازن قائم کیا۔ ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ قرآن کو ایک مکمل کل کے طور پر دیکھتے، جس کے تمام اجزاء آپس میں مربوط ہیں، اور بظاہر بکھری ہوئی آیات کے پیچھے ایک وحدت تلاش کرتے جو انہیں ایک ہم آہنگ نظام میں پرو دیتی ہے۔

سورۂ فاتحہ: شیخ دراز نے سورۂ فاتحہ کو محض اس کی آیات یا معنی تک محدود ہو کر نہیں دیکھا، بلکہ اسے پورے قرآن کے ساتھ مربوط کر کے سمجھا۔ ان کا موقف تھا کہ: اگرچہ سورۂ فاتحہ مختصر ہے، لیکن اس میں قرآن کے تمام اساسی مقاصد اجمالاً موجود ہیں۔جبکہ باقی تمام سورتیں، اسی اجمال کی تفصیل ہیں۔

قرآنی مقاصد: نظری اور عملی

شیخ دراز کے مطابق، قرآن کے بنیادی مقاصد چار ہیں: 

دو نظری یا علمی :  حق کی معرفت اور خیر (بھلائی) کی معرفت

دو عملی : جو حق کی معرفت سے پیدا ہوتا ہے: پہلا :  اس کا تقدس اور تعظیم جو خیر کی معرفت سے جنم لیتا ہے: پھر اس سے  اس کا عملی التزام وجود میں آتا ہے ۔ 


سورۂ فاتحہ کا داخلی ترتیب و ربط

سورہ کی ابتدائی تین آیات دراز کے مطابق، حق تعالیٰ کی نظریاتی پہچان فراہم کرتی ہیں:

  1. ابتداء (الحمد لله رب العالمين): توحید کا بیان

  2. واسطہ (الرحمن الرحيم): نبوت اور رحمت کا ذریعہ

  3. معاد (مالك يوم الدين): جزا و سزا کا تصور

یہ تین اجزاء عقیدۂ اسلامی کے بنیادی ستون ہیں:
توحید، نبوت، معاد۔

ان عقائد سے ایک عملی حقیقت جنم لیتی ہے:

عبودیت اور استعانت – یعنی اللہ کی بندگی اور اس سے مدد طلبی۔

انسانی عمل کی جہت

سورۂ فاتحہ کا دوسرا حصہ انسانی عمل سے متعلق ہے:

  • صراطِ مستقیم اختیار کرنے والے

  • گمراہ ہونے والے

  • منحرف (جنہوں نے راہِ حق چھوڑ دی)۔

یہ انسانی کردار اخلاقی بنیاد پر پرکھے جاتے ہیں، اور سورہ کا نچوڑ ہے:  ہدایت کی طلب: "اِهدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيم" جو کہ انسانی علمِ نظری کا عملی اظہار ہے۔

خطاب کا اسلوب: انفرادیت

دراز نے سورہ فاتحہ کو قرآن کے عمومی خطاب کے تناظر میں بھی پرکھا۔ انہوں نے یہ نکتہ نمایاں کیا کہ:

سورۂ فاتحہ واحد سورت ہے جو انسانی زبان سے ادا کی گئی ہے،
جبکہ باقی قرآن الہی خطاب پر مشتمل ہے۔

اس فرق کی تعبیر دراز یوں کرتے ہیں:

  • فاتحہ: انسان کی طرف سے دعاء اور طلبِ ہدایت

  • باقی قرآن: اللہ کی طرف سے ہدایت کا جواب


وفات

شیخ محمد عبداللہ دراز جنوری 1958 میں لاہور میں منعقدہ بین المذاہب کانفرنس کے دوران وفات پا گئے۔