لا إله إلا الله، محمد رسول الله: امت کی فکری وحدت کا منشور

کہیں دور افق پر سورج ابھرتا ہے تو ایک اذان سنائی دیتی ہے...
پھر کہیں مغرب کے ساحلوں سے بھی وہی صدا بلند ہوتی ہے...
اور قطب شمالی کی سرد وادیوں سے لے کر صحراۓ افریقہ کی تپتی ریت تک،
ایک ہی نعرہ، ایک ہی اعلان، ایک ہی نسبت، ایک ہی ایمان:
"لا إله إلا الله، محمد رسول الله"

یہ محض کلمات نہیں، یہ کائنات کے شعور کی صدا ہیں۔
یہ امت کی شناخت، اس کی روح، اس کا عہدِ وفا، اور اس کا فکری منشور ہیں۔
یہ کلمہ، کوئی رسم نہیں... ایک رشتہ ہے
دنیا میں قومیں مٹی سے بنتی ہیں، زبان سے بندھتی ہیں، نسل سے جڑتی ہیں۔
مگر امت مسلمہ کی تخلیق روح سے ہوئی ہے — اس روح کا نام ہے:
"لا إله إلا الله" — کوئی معبود، کوئی حاکم، کوئی مطاع نہیں، سوائے ایک کے۔
اور اس روح کو شکل دینے والا پیکرِ کامل —
"محمد رسول الله" — جس نے بندگی کو عبادت سے نکال کر تہذیب بنا دیا،
جس نے عشق کو قانون سے جوڑا، اور وفا کو نظام کی بنیاد بنایا۔

یہ کلمہ، مسجد کی دیوار پر نہیں، دل کی دیوار پر لکھا جاتا ہے
جب ایک حبشی بلال پہاڑوں پر اذان دیتا ہے
اور ایک ایرانی سلمان رسول کا قریبی مشیر بنتا ہے
اور ایک یمنی اویس اپنے فقر سے تاریخ بدل دیتا ہے
تو جان لیجیے، یہ کوئی جغرافیائی قوم نہیں —
یہ ایک نظریاتی برادری ہے۔
ایسی برادری، جس کے رشتے رنگ و نسل سے نہیں، کلمے سے جُڑے ہیں۔

 امت کی فکری وحدت کا مرکز
آج دنیا منتشر ہے۔
اقوام اپنے اپنے جھنڈوں کے نیچے جمع ہیں،
اپنے اپنے مفادات کے گیت گا رہی ہیں۔
اور ہم؟
ہم جنہیں ایک ایسا منشور ملا تھا
جو دلوں کو جوڑتا تھا، قوموں کو پگھلا دیتا تھا،
آج ہم وہی منشور بھول بیٹھے ہیں۔

ہم نے اپنے بیچ کے جغرافیے کو دیوار بنا لیا،
اپنی زبانوں کو تفاخر کا جال،
اپنے مسالک کو فصیل،
اور اپنے فرقوں کو شناخت کا نشان۔

جب کہ ہمارا اصل نشان تو صرف ایک ہے:
"لا إله إلا الله، محمد رسول الله"
یہ وہ روحانی پاسپورٹ ہے، جو ہمیں اندلس سے بخارا تک،
افریقہ سے انڈونیشیا تک، ایک ہی ملت کا فرد بناتا ہے۔

امت کے لیے تجدیدِ عہد کی گھڑی
یہ کلمہ ہمیں صرف عبادات کے لیے جمع نہیں کرتا،
یہ ہمیں ایک تہذیب، ایک سیاست، ایک معیشت، ایک اخلاق، ایک فکر، ایک شعور میں جوڑتا ہے۔
یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارا اتحاد کسی کانفرنس، کسی تنظیم، کسی معاہدے کا مرہونِ منت نہیں —
بلکہ دل کی گہرائی میں اترے ایک سچے ایمان کا نتیجہ ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس کلمے کو پھر سے پڑھیں —
نہ صرف زبان سے، بلکہ ضمیر سے۔
اسے اپنے نظام میں اتاریں،
اپنی تعلیم میں، اپنی معیشت میں، اپنی سیاست میں، اپنی شناخت میں۔

کیونکہ جب تک یہ کلمہ محض عبادت کا نعرہ ہے،
امت منتشر ہے۔
اور جب یہ کلمہ زندگی کا منشور بنے گا،
تو امت ایک ہو جائے گی —
کہ یہی ہے:
"امت کی فکری وحدت کا منشور"

"وَاعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًۭا وَلَا تَفَرَّقُوا۟" (القرآن)
(اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور تفرقہ مت ڈالو)