2025 ء میں حج سے محروم 60 ہزار پاکستانی

 حج سے محروم 60 ہزار پاکستانی: یہ صرف ایک انتظامی ناکامی نہیں، بلکہ ایک دینی، اخلاقی اور قومی جرم ہے!

کیا ہم نے سوچا ہے کہ جس فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے ایک مسلمان پوری زندگی خواہش اور دعاؤں کے ساتھ جیتا ہے، وہ بھی ہماری سستی، غفلت اور بدانتظامی کی نذر ہو رہا ہے؟
کیا ہم نے کبھی محسوس کیا ہے کہ جن بوڑھے ماں باپ نے ساٹھ سال کی عمر کے بعد اللہ کے دربار کی حاضری کی امید میں زندگی کے ہر لمحے کو نیکی اور بچت کے ساتھ گزارا، ان کے دل کس طرح ٹوٹے ہوں گے جب انھیں یہ بتایا گیا کہ:
"آپ کا ویزا نہیں لگا، آپ کا حج ممکن نہیں"؟

وفاقی وزیر مذہبی امور کے بقول، سرکاری اسکیم نے وقت پر تمام لوازمات پورے کر دیے، مگر پرائیویٹ حج آپریٹرز یہ تقاضے پورے نہ کر سکے۔
سوال یہ ہے: اگر نجی حج آپریٹرز نااہل تھے تو وزارت نے پورے سال کیا کیا؟
کیا صرف حج فارم بانٹنا اور وزراء کی تصویریں شائع کرنا ہی اس وزارت کی ذمہ داری ہے؟
کیا وقت پر مانیٹرنگ، سرٹیفکیشن، اور اہلیت کی جانچ ان کا فرض نہیں؟

یہ معاملہ صرف ایک ائیر ٹکٹ یا ہوٹل کی بکنگ کا نہیں —
یہ امت مسلمہ کی عبادت، عقیدت اور دعا کا سوال ہے۔
یہ ان ہزاروں پاکستانیوں کے آنسوؤں کا سوال ہے، جو زندگی بھر کی جمع پونجی لے کر اللہ کے گھر جانے نکلے تھے اور واپس مایوسی، دھوکہ اور ناانصافی لے کر لوٹے۔

ہم کب سمجھیں گے کہ ہماری بدانتظامی اب صرف دنیاوی نقصانات نہیں، بلکہ دینی معاملات پر بھی حملہ آور ہو چکی ہے؟
کیا یہ وقت نہیں کہ ہم اجتماعی طور پر مطالبہ کریں کہ اس نااہلی کی تحقیقات صرف کاغذوں میں نہ ہوں، بلکہ ذمہ داروں کو عدالتی و اخلاقی کٹہرے میں لایا جائے؟
کیا وزارت مذہبی امور کو اب احساس نہیں ہونا چاہیے کہ وہ صرف ایک دفتر نہیں بلکہ اللہ کے گھر کے مہمانوں کے انتظام کا امین ادارہ ہے؟

آئیے، اس قوم کو جگائیں —
تاکہ کل کو کوئی اور حاجی زاہد خان کی طرح صرف اس لیے حج سے محروم نہ ہو جائے کہ ہماری غفلت نے اس کا خواب چھین لیا۔