جب دل نے سوال کیا: "میں کون ہوں؟"
تو آسمان کی وسعتوں سے آواز آئی: "تو وہ ہے جو رب کو پہچاننے کے لیے پیدا کیا گیا۔"
جب روح نے سرگوشی کی: "میں کہاں سے آئی ہوں اور کہاں جا رہی ہوں؟"
تو صدائے ازل نے جواب دیا: "تو اس راستے کی مسافر ہے جس کا سنگ میل ایمان ہے، اور زادِ سفر عمل۔"
انسان ازل سے ہی روشنی کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے — وہ روشنی جو صرف آنکھوں سے نہیں، دل سے دیکھی جاتی ہے۔ وہ جو لفظوں میں نہیں، احساس میں سماتی ہے۔ وہ جو دلیل سے نہیں، یقین سے جگمگاتی ہے۔ یہی روشنی ایمان ہے۔ اور یہی روشنی جب عمل سے جڑتی ہے، تو ایک ایسا سفر شروع ہوتا ہے جو بندگی کی پہچان بن جاتا ہے۔
یہ روشنی (نور) کہاں سے آئے گا؟
کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم اتنے بے سکون، بے چین کیوں ہیں؟ ہمارے دل کیوں تاریک ہیں؟ گھروں میں روشنی ہے، گلیوں میں بلب جگمگا رہے ہیں، موبائل کی اسکرینیں چمک رہی ہیں، لیکن پھر بھی زندگی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
"اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے" (سورۃ النور: 35)
یعنی اللہ ہی اصل روشنی کا سرچشمہ ہے۔ ہر ہدایت، ہر علم، ہر خیر اسی سے پھوٹتی ہے۔ ہم نے اس نور کو چھوڑ کر دنیا کی چمک دمک کو اپنا رہنما بنا لیا ہے۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ نہ دل مطمئن ہے، نہ گھروں میں سکون ہے، نہ معاشرے میں امن ہے۔
اللہ نے ہمیں ایک اور روشنی عطا کی — قرآن۔
قرآن کو "نور" کہا گیا:
قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ
"تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور اور واضح کتاب آ چکی ہے"
(سورۃ المائدہ: 15)
ہم نے قرآن کو محض تعویذ، رسم، یا برکت کی کتاب سمجھ لیا ہے۔ پڑھتے ہیں، سمجھتے نہیں۔ سنتے ہیں، عمل نہیں کرتے۔ نتیجہ؟ دل اندھیرے میں، معاشرہ بے راہ روی کا شکار۔
پھر اللہ نے رسولِ اکرم ﷺ کو "روشن چراغ" قرار دے کر بھیجا:
وَسِرَاجًا مُّنِيرًا
"اور روشن چراغ" (سورۃ الأحزاب: 46)
یعنی نبی ﷺ کی زندگی خود ایک چراغ ہے، جو قرآن کے نور کو ہمارے سامنے مجسم کر کے دکھاتا ہے۔
اگر ہم واقعی روشنی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے دل، اپنے گھر، اور اپنی زندگی میں تین نور واپس لانے ہوں گے:
اللہ کا تعلق — دعا، خشیت، ذکر
قرآن کی روشنی — فہم، عمل، تلاوت
سیرتِ نبوی ﷺ — اخلاق، سنت، طرزِ حیات
جب تک یہ تین نور ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے، ہم جتنے بھی لائٹیں لگا لیں، دل روشن نہیں ہوں گے۔
تو آئیے...
اب ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں:
نور کہاں سے آئے گا؟
اور پھر خود جواب دیں:
اللہ سے، قرآن سے، رسول ﷺ سے۔