یونیورسٹی کی شام تھی۔
بوسٹن کی ہوا میں خزاں کا پہلا لمس محسوس ہو رہا تھا۔ کیمپس کے درخت پیلے اور نارنجی پتوں سے لَدی شاخوں کے ساتھ کھڑے تھے، جیسے وہ بھی کسی آفت کا انتظار کر رہے ہوں۔ ایلَن جیمز نے لائبریری کے باہر بنچ پر بیٹھے بیٹھے اپنا موبائل فون کھولا، اور سکرولنگ شروع کر دی — ایک عادت، جو بےفکری کا لبادہ اوڑھے رکھتی ہے۔
لیکن آج کی اسکرین پر کچھ اور تھا۔
ایک تصویر۔
ایک بچہ — مٹی میں لت پت، خون آلود، اور اُس کی آنکھیں... بند۔
نیچے لکھا تھا: "غزہ — گزشتہ رات کے حملے میں یہ پانچ سالہ یوسف اپنی ماں کی گود میں شہید ہو گیا۔"
ایلن کی انگلیاں رک گئیں۔ دل میں ایک انجانی گھبراہٹ سی محسوس ہوئی، جیسے کسی نے اُس کے اندر ایک بند کمرے کا دروازہ کھولا ہو جہاں برسوں سے دھول جمی ہو۔ اس نے فوراً فون بند کر دیا، لیکن وہ چہرہ... اُس کی آنکھوں میں رہ گیا۔
اُسی رات یونیورسٹی کی کینٹین میں فلسطینی طلبہ کی جانب سے ایک تعزیتی و احتجاجی تقریب ہو رہی تھی۔
ایلن وہاں جا پہنچا — نہ کسی دعوت پر، نہ کسی ہمدردی کے دعوے کے ساتھ، بلکہ ایک بےچین سوال کے ساتھ:
"یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ اور ہم خاموش کیوں ہیں؟"
تقریب میں ایک طالبہ بول رہی تھی — اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن آواز میں لوہے کی سی سختی:
"ہم صرف یہ نہیں چاہتے کہ آپ فلسطین کے لیے بولیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے ضمیر کے لیے جاگیں!"
یہ جملہ، ایلَن کے دل کے پردے پر کیل کی طرح لگا۔
اسے یاد آیا — اُس کے فلسفے کے پروفیسر نے ایک بار کہا تھا:
"The most dangerous silence is the silence of those who know the truth."
(سب سے خطرناک خاموشی اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو سچ جانتے ہیں۔)
اُس رات وہ دیر تک سڑکوں پر چہل قدمی کرتا رہا۔
آسمان پر بادل چھائے تھے، اور نیچے زمین پر — اُس کے دل میں بھی۔