پتھروں کے بیچ ایک گلاب "بادشاہ خان"

خان عبد الغفار خان 
شمال کی خشک پہاڑیوں میں، جہاں صدیوں سے تلوار ہی انصاف کی زبان سمجھی جاتی تھی، ایک مختلف انسان نے جنم لیا — بلند قامت، نرم گفتار اور فولادی ارادے والا۔ اس کا نام عبدالغفار خان تھا، مگر لوگ اُسے محبت سے "بادشاہ خان" کہتے تھے۔ کچھ نے اُسے "فرنٹیئر گاندھی" بھی پکارا — کیونکہ وہ پٹھانوں کے بیچ عدم تشدد کا چراغ جلانے والا پہلا مردِ مجاہد تھا۔

بچپن سے ہی وہ پٹھانوں کی جہالت، انتقام اور خونریزی سے دکھی تھا۔ اُس نے سوچا: کیا میری قوم صرف لڑنے کے لیے پیدا ہوئی ہے؟ تبھی اُس نے تعلیم اور خدمت کا راستہ چنا۔ جب انگریز حکمرانوں نے بندوق سے حکومت قائم کر رکھی تھی، تب بادشاہ خان نے ہاتھ میں قرآن اور دل میں عدم تشدد کا پیغام لے کر ایک تحریک چلائی — خدائی خدمت گار۔

وہ قید و بند کی صعوبتوں سے نہ گھبرایا، حتیٰ کہ 27 سال جیل کی کال کوٹھریوں میں گزار دیے، مگر اپنے اصول نہ چھوڑے۔ وہ کہتے تھے: "عدم تشدد کمزوروں کا ہتھیار نہیں، یہ بہادروں کا راستہ ہے۔"

گاندھی جی کے دوست، مگر تقسیم کے مخالف — جب ہندوستان بٹ رہا تھا، تو وہ درد میں ڈوبا کھڑا رہا۔ پاکستان بننے کے بعد وفاداری کا حلف اٹھایا، مگر پھر بھی ’’غدار‘‘ کہلایا، قید کیا گیا، جلاوطن ہوا، مگر نفرت نہ پھیلائی۔

افغانستان کی سرد فضاؤں میں رہتے ہوئے بھی اس کے دل میں اپنے لوگوں کے لیے محبت دھڑکتی رہی۔ ایک بار کہا: "میں ایک سرحدی پٹھان ہوں، لیکن میری سرحد انسانیت ہے۔"

جب وہ آخری بار بھارت گیا تو اندرا گاندھی نے اُس کے ہاتھ سے گٹھری لینا چاہی، مگر وہ مسکرا کر بولا: "تم پہلے ہی بہت بڑا بوجھ اٹھا رہی ہو، یہ میرا حصہ مجھے اٹھانے دو۔"

یہ کہانی اُس شخص کی ہے جو تلواروں کی سرزمین میں امن کا پیغمبر بن کر اُبھرا — خان عبدالغفار خان، وہ گلاب جو پتھروں کے بیچ بھی مہکنا جانتا تھا۔