ریاست پاکستان کے لیے قانون سازی کا چیلنج

پاکستان کی بنیاد ایک ایسی نظریاتی اساس پر رکھی گئی تھی جسے دو قومی نظریہ کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، برصغیر میں مسلمان ایک الگ قوم ہیں جن کا مذہب، ثقافت، تاریخ، اور معاشرت ہندوؤں سے جداگانہ ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا، جس کا مطلب تھا کہ نئی ریاست میں اکثریتی مذہب — یعنی اسلام — کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔

پاکستان کو آئینی لحاظ سے ایک قومی ریاست تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس قومی ریاست میں قوم کی اکثریت مسلمان ہے، لہٰذا یہاں اسلام ایک قومی مذہب کے طور پر نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ ریاستی ڈھانچے، قانون سازی، اور پالیسی سازی میں اس کا اثر بھی نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ آئینِ پاکستان کے مطابق بھی کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ اصول بظاہر سادہ ہے لیکن عملاً نہایت پیچیدہ اور نازک ہے ۔

قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا سوال یہ ابھرا کہ "اسلامی قانون" سے مراد کیا ہے؟ کون سا اسلامی فقہی مکتبہ فکر ریاستی قانون سازی کی بنیاد بنے گا؟ پاکستان میں فقہ حنفیہ کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، لیکن دیگر فقہی مکاتب بھی موجود ہیں، جیسے فقہ جعفریہ، شافعی، اہل حدیث وغیرہ۔ یہی نہیں، جدید دور میں کچھ علماء مثلاً مولانا امین احسن اصلاحی،جاوید احمد غامدی، اور دیگر اسکالرز ایسے بھی ہیں جن کی آراء کسی مخصوص فقہی دبستان سے بالاتر ہو کر اجتہاد کے اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اسی طرح مفتی تقی عثمانی صاحب جیسے علماء بھی بعض معاملات میں کلاسیکی فقہ سے ہٹ کر عصری اجتہاد کی راہیں دکھاتے ہیں۔

یہی تنوع جب قانون سازی کے میدان میں آتا ہے تو وہ مسائل جنہیں مذہبی بنیاد پر حل کیا جانا ہو، شدید اختلافات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً:

سود کا مسئلہ: بعض علماء اسے مکمل طور پر غیر شرعی قرار دیتے ہیں، جب کہ دیگر معاصر علماء بعض مالیاتی نظام کو اسلامی معیشت کے قریب تصور کرتے ہیں۔

تین طلاق کا مسئلہ: بعض مکاتب فکر اسے فوری نافذ شدہ اور تین تصور کرتے ہیں، جب کہ دیگر علماء اصلاحی طرز پر اسے ایک طلاق مانتے ہیں۔

حدود و قصاص: یہ ایک حساس موضوع ہے، جس پر عملدرآمد نہ صرف شرعی معیارات بلکہ عدالتی، سماجی اور بین الاقوامی تنقید کے پہلو سے بھی زیر غور آتا ہے۔

کم عمری کی شادی: بعض علماء بلوغت کو شرط مانتے ہیں، بعض عمر کی قانونی حد کو ضروری سمجھتے ہیں، جبکہ ریاستی سطح پر انسانی حقوق کا تناظر بھی شامل ہو جاتا ہے۔

اسی تناظر میں حدود آرڈیننس کا نفاذ بھی ایک اہم مثال ہے۔ اس کا مقصد شرعی سزاؤں کا نفاذ تھا، مگر عملی طور پر یہ قانون عدالتی نظام کے لیے پیچیدگی اور عوام کے لیے مسائل کا باعث بنا۔ خصوصاً زنا کے مقدمات میں خواتین انصاف کے بجائے خود ملزم بننے لگیں، کیونکہ چار گواہوں کی شرط پوری نہ ہونے پر اُن پر ہی حد لگتی تھی۔ اس قانون نے ثابت کیا کہ فقہی احکام کا بغیر تدبر اور مؤثر نظام کے نفاذ نہ صرف انصاف کو متاثر کرتا ہے بلکہ معاشرتی انتشار کو جنم دیتا ہے۔

اسی طرح اسلامیات کی نصاب سازی میں بھی مختلف مکاتب فکر کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ہر مکتب فکر چاہتا ہے کہ اس کی تعبیرات اور عقائد کو نصاب میں شامل کیا جائے، جس کے باعث نہ صرف نصابی مواد میں تضادات پیدا ہوئے بلکہ فرقہ وارانہ حساسیت بھی بڑھی۔ یہی وجہ ہے کہ متفقہ، جامع اور غیر متنازع نصاب کی تشکیل آج تک ایک چیلنج بنا ہوا ہے، جو قومی وحدت اور دینی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے۔

یہ تمام مثالیں ہمیں ایک ہی حقیقت کی طرف لے جاتی ہیں: پاکستان میں مذہبی قانون سازی اور قومی اتفاق رائی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ فقہی اختلاف اور اجتہادی تنوع ہے۔ جب بھی کوئی مذہبی معاملہ پارلیمان یا عدالت میں آتا ہے تو بحث صرف اصولی نہیں بلکہ فقہی سطح پر اٹک جاتی ہے، اور یوں کوئی واضح، اجتماعی، اور قابلِ عمل قانون سامنے نہیں آپاتا۔
یہاں سوال یہ نہیں کہ اختلاف کیوں ہے، بلکہ یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود قانونی وحدت اور قومی اتفاق رائی کیسے قائم کی جائے؟ کیا پاکستان کی قانون ساز اسمبلی صرف اکثریتی فقہ (حنفیہ) پر قانون سازی کرے؟ کیا مختلف فقہی آراء کے درمیان کوئی "متفق علیہ" اصول تلاش کیے جا سکتے ہیں؟ یا پھر جدید اسلامی اجتہاد کے اصولوں کی بنیاد پر ایک نیا دینی و قانونی تصور مرتب کیا جائے؟

اگرچہ علماء کرام اور ماہرین شریعت کی آراء اپنی جگہ محترم ہیں، مگر ریاست کے لیے لازم ہے کہ وہ قومی سطح پر ایسے ادارے اور پلیٹ فارم قائم کرے جہاں ان تمام آراء کو سن کر، ایک عملی، متوازن اور قابلِ اطلاق قانون سازی کی راہ ہموار کی جا سکے۔

پاکستان ایک قومی ریاست ہے، مگر اس کی روح اسلام ہے۔ اس اسلامی روح کو زندہ رکھنے کے لیے لازم ہے کہ ہم فقہی اختلافات کو باہمی احترام کے ساتھ ایک جامع قانونی و فکری نظام میں ڈھالنے کی کوشش کریں — ورنہ نہ مذہب محفوظ رہے گا نہ ریاست مضبوط ہو گی۔