جس دور پہ نازاں تھی دنیا، اب ہم وہ زمانہ بھول گئے ۔ مولانا انور صابری ؒ کی ایک نظم

(مولانا انور صابری معروف صوفی شاعر، عالم ، دانشور ، مجاہد آزادی، کارکن مجلس احرار الاسلام، خطیب، اپنی شاعری میں مستانہ روی اور صوفیانہ رنگ کے لیے )
مولانا انور صابری
مجاہر تحریک آزادی معروف صوفی شاعر 

جس دور پہ نازاں تھی دنیا، اب ہم وہ زمانہ بھول گئے
دنیا کی کہانی یاد رہی، اور اپنا فسانہ بھول گئے

منہ دیکھ لیا آئینے میں، پر داغ نہ دیکھے سینے میں
دل ایسا لگایا جینے میں، مرنے کو مسلماں بھول گئے

اغیار کا جادو چل بھی چکا، ہم ایک تماشا بن بھی گئے
دنیا کا جگانا یاد رہا، خود ہوش میں آنا بھول گئے

فرعون نہیں، شِداد نہیں، کیا دنیا میں قومِ عاد نہیں؟
کیا لُوط کی امت یاد نہیں، کیا نوح کا طوفاں بھول گئے؟

وہ ذکرِ حسیں، رحمت کا امیں، کہتے ہیں جسے قرآنِ مُبیں
دنیا کے لیے نئے نغمے سیکھے، اللہ کا ترانہ بھول گئے

انجامِ آزادی کیا کہیے، بربادی ہی بربادی ہے
جو درس شاہِ بطحا نے دیا، دنیا کو پڑھانا بھول گئے

دنیا کا گھر آباد کیا، عُقبٰی کا مگر برباد کیا
مشکل میں خدا کو یاد کیا، مشکل ہوئی آساں بھول گئے

اذان تو اب بھی ہوتی ہے مسجد کی فظا میں اے انور !
جس ضرب سے دل ہل جاتے تھے، وہ ضرب لگانا بھول گئے

جس دور پہ نازاں تھی دنیا، اب ہم وہ زمانہ بھول گئے
دنیا کی کہانی یاد رہی، اور اپنا فسانہ بھول گئے