شریف عثمان بن ہادی (Sharif Osman Bin Hadi)، جو عثمان ہادی کے نام سے مشہور تھے، بنگلہ دیش کے ایک ابھرتے ہوئے نوجوان سیاسی رہنما اور سماجی کارکن تھے جن کی المناک شہادت نے ملک کی موجودہ اور مستقبل کی سیاست پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ جولائی 2024 کے طلبہ کی زیرقیادت تحریک کے ایک اہم اور مقبول چہرے تھے، جس کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔
سیاسی جدوجہد اور عروج
32 سالہ عثمان ہادی نے "انقلاب منچ" (Inqilab Mancha) نامی طلبہ سیاسی پلیٹ فارم کے شریک بانی اور ترجمان کے طور پر قومی سطح پر مقبولیت حاصل کی۔ ان کی جدوجہد کی نمایاں خصوصیات درج ذیل تھیں:جولائی انقلاب: وہ جولائی 2024 کی اس عوامی اور طلبہ تحریک میں صف اول کے رہنماؤں میں شامل تھے، جس نے حسینہ واجد کی 15 سالہ آمرانہ حکومت کا خاتمہ کیا۔
بھارت مخالف موقف: ہادی بھارت کی مبینہ "بالادستی" کے سخت ناقد تھے اور "گریٹر بنگلہ دیش" کے پرجوش حامی تھے۔ ان کا یہ موقف انہیں نوجوانوں اور حکومت مخالف حلقوں میں خاصا مقبول بناتا تھا۔
جمہوریت اور احتساب: ان کا پلیٹ فارم پرانے سیاسی نظام کے خلاف تھا اور "جولائی کے شہداء" کے لیے انصاف اور عوامی لیگ کو سیاست سے مکمل طور پر بے دخل کرنے کا مطالبہ کرتا تھا۔
انتخابی سیاست: حسینہ حکومت کے خاتمے اور نگران حکومت کے قیام کے بعد، ہادی نے فروری 2026 میں ہونے والے عام انتخابات میں ڈھاکہ سے آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔
قاتلانہ حملہ اور شہادت
12 دسمبر 2025 کو، عثمان ہادی پر ڈھاکہ کے بیجوی نگر (Bijoynagar) علاقے میں اس وقت قاتلانہ حملہ ہوا جب وہ اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک رکشے میں سفر کر رہے تھے۔ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم نقاب پوش حملہ آوروں نے ان کے سر میں گولی ماری اور فرار ہو گئے۔
شدید زخمی حالت میں انہیں پہلے ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال اور پھر ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا۔ حالت انتہائی تشویشناک ہونے پر، انہیں 15 دسمبر کو سنگاپور کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ چھ دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد 18 دسمبر 2025 کو شہید ہو گئے۔ ان کی میت کی وطن واپسی کے طیارے کو فلائٹ ٹریکنگ ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ ٹریک کیا گیا، جو ان کی مقبولیت کا ثبوت تھا۔
بنگلہ دیش کی موجودہ اور مستقبل کی سیاسی صورتحال
عثمان ہادی کی شہادت نے بنگلہ دیش میں جاری سیاسی بحران اور بھارت مخالف جذبات کو مزید ہوا دی ہے۔ ان کی موت کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے، جن میں اخبارات کے دفاتر اور ہندو برادری کے افراد کو نشانہ بنایا گیا۔
موجودہ حالات:ملک بھر میں شدید تناؤ پایا جاتا ہے اور سکیورٹی فورسز تعینات ہیں۔
نگران حکومت کے سربراہ، نوبل انعام یافتہ محمد یونس نے ہادی کی موت کو "قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان" قرار دیا اور ایک روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا۔
قاتلانہ حملے کی تحقیقات جاری ہیں اور کئی افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ قاتلوں کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
مستقبل کے ممکنہ اثرات:شہادت کا اثر: ہادی کی موت نے انہیں ایک "شہید" اور مزاحمت کی علامت بنا دیا ہے، جس سے ان کے نظریات اور پیغام کو مزید تقویت ملی ہے اور ان کی موت ان کی تحریک کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔
انتخابی منظر نامہ: ان کے قتل سے فروری میں ہونے والے انتخابات سے قبل سیاسی عدم استحکام بڑھ گیا ہے۔ نگران حکومت نے خبردار کیا ہے کہ تشدد انتخابات کو پٹڑی سے نہیں اتار سکتا۔
بھارت مخالف جذبات میں اضافہ: چونکہ ہادی بھارت کے ایک نمایاں ناقد تھے اور انہیں سرحد پار سے دھمکیاں مل رہی تھیں، اس لیے ان کے قتل نے بنگلہ دیش میں بھارت مخالف جذبات کو شدید تر کر دیا ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
نوجوانوں کی سیاست میں شمولیت: ان کی قربانی لاکھوں نوجوانوں کو تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکتی ہے، جس سے بنگلہ دیش کی سیاست میں نوجوانوں کا کردار مزید اہم ہو جائے گا۔
عثمان ہادی کی شہادت نے بنگلہ دیش کی سیاست کو ایک نئے اور غیر یقینی موڑ پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں ان کی میراث ملک کے مستقبل کی سیاسی جدوجہد کی شکل و صورت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
عثمان ہادی کے افکار :
عثمان ہادی نے ڈھاکہ میں پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اپنی تعلیمی قابلیت کو سیاسی شعور اور سماجی
تبدیلی کے لیے استعمال کیا۔ ان کے افکار کی بنیاد دو اہم ستونوں پر تھی:
جمہوری احتساب اور بدعنوانی کا خاتمہ: وہ عوامی لیگ کی سابقہ حکومت کے آمرانہ طرز عمل اور ملک میں پھیلتی بدعنوانی کے سخت خلاف تھے، اور ایک شفاف، احتساب پر مبنی جمہوری نظام کے قیام کے حامی تھے۔
قومی خودمختاری اور بھارت مخالف موقف: ان کا سب سے نمایاں فکری پہلو بھارت کی علاقائی پالیسیوں کے خلاف ان کا دوٹوک موقف تھا، وہ "گریٹر بنگلہ دیش" اور مکمل قومی خودمختاری کے پرجوش علمبردار تھے، جس کی وجہ سے وہ نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہوئے۔
