مستقبلیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مستقبلیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ڈیپ سیک اور چیٹ جی پی ٹی کے درمیان موازنہ: دوڑ میں کون آگے؟


گراہم فریزر
عہدہ,ٹیکنالوجی رپورٹر
29 جنوری 2025
چین نے مصنوعی ذہانت کی اپنی ایپ ڈیپ سیک کو لانچ کیا کیا کہ دنیا بھر کی مالیاتی منڈیوں میں ہلچل پیدا ہو گئی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسے امریکی ٹیک انڈسٹری کے لیے ’خطرے کی گھنٹی‘ کہنے پر مجبور ہو گئے۔

ڈیپ سیک کا دعویٰ ہے کہ اس کی مصنوعی ذہانت کا ماڈل آر-1 ان کے حریفوں کے ماڈل کی لاگت کے مقابلے میں انتہائی کم لاگت میں تیار کیا گیا ہے۔ اس دعوے نے پوری صنعت کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں اور اس کی وجہ سے دنیا کی کچھ بڑی کمپنیوں کی قدر میں کمی بھی واقع ہوئی ہے۔

ڈیپ سیک لانچ ہونے کے صرف ایک ہفتے بعد امریکہ میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی مفت ایپ بن گئی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پہلے سے مستحکم اور بظاہر بہت زیادہ مہنگے اپنے امریکی حریفوں جیسے اوپن اے آئی، چیٹ جی پی ٹی، اور گوگل کے جیمنائی کے مقابلے میں کہاں کھڑی ہے۔

لکھنے میں معاونت

جب آپ چیٹ جی پی ٹی سے پوچھتے ہیں کہ اس کے استعمال کی سب سے بڑی وجوہات کیا ہیں تو وہ ان وجوہات میں لوگوں کی لکھنے میں مدد کا دعوی کرتا ہے۔
یہ اپنے استعمال کرنے والوں کے لیے ایک مددگار فارمیٹ میں معلومات اکٹھا کرنے، ان کا خلاصہ پیش کرنے سے لے کر بہت سارے موضوع پر بلاگ پوسٹ لکھنے تک کا آلہ بن گيا ہے۔

اس طرح یہ بہت سے لوگوں کے لیے ان کے دفتری کاموں میں معاون ساتھی بن گيا ہے۔

سکاٹ لینڈ کی فٹبال ٹیم کے ایک قابل فخر پرستار کے طور پر میں نے چیٹ بوٹس سے ’تاریخ کے بہترین سکاٹش فٹبال کھلاڑیوں کے خلاصہ پر مبنی ایک بلاگ پوسٹ کا مسودہ تیار کرنے‘ کا کہا۔ ایسا ہی میں نے چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک سے کہا کہ وہ سکاٹش فٹبال کے بہترین کھلاڑیوں کا خلاصہ پیش کریں۔ڈیپ سیک نے سیکنڈوں میں جواب دیا اور چوٹی کے دس بہترین کھلاڑیوں کی فہرست تیار کر دی جس میں لیورپول اور سیلٹک کے کینی ڈالگلش کو پہلے نمبر پر رکھا گيا تھا۔ اس نے ان کھلاڑیوں کے بارے میں یہ معلومات بھی فراہم کی کہ وہ کون سی پوزیشن سے کھیلتے ہیں اور ان کے کلب کون کون سے ہیں جبکہ کہ ان کی نمایاں کارکردگیوں کا خلاصہ بھی پیش کیا۔

کرپٹو کرنسی اور مصنوعی ذہانت سمیت سال 2025 میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں کیا کچھ ہو گا؟

 

بی بی سی اردو 
6 جنبوری 2025 ء 

سنہ 2024 میں بٹ کوائن 100،000 ڈالر سے تجاوز کر گیا اور مصنوعی ذہانت سے آراستہ ڈیوائسز اور ایپس ہماری جیبوں اور فونز میں داخل ہو رہی ہیں، اب اس نئے سال میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہمارے لیے کیا کچھ ہو گا؟

بی بی سی ٹیکنالوجی آف بزنس ایڈیٹر بین مورس اور بی بی سی ٹیکنالوجی ایڈیٹر زوئی کلین مین نے آنے والے سال کے ٹاپ ٹرینڈز کا جائزہ لیا ہے۔

بین مورس، بی بی سی کے ٹیکنالوجی بزنس کے ایڈیٹر

جیسے جیسے 2022 اختتام کو پہنچا کرپٹو کرنسی کے کاروبار کے لیے یہ مایوس کن تھا۔ اس کی معروف ترین فرموں میں سے ایک ایف ٹی ایکس صارفین کے آٹھ ارب ڈالر کے فنڈز کے ساتھ دیوالیہ ہو گئی تھی۔مارچ 2024 میں کمپنی کے شریک بانی سیم بینکمین فریڈ کو صارفین اور سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے کے جرم میں 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس سکینڈل نے پورے شعبے میں اعتماد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ کرپٹو کرنسیاں ایک خاص پروڈکٹ ہی رہیں گی، جس میں نسبتاً محدود ترقی ہو گی۔

لیکن صرف چند ماہ بعد اس صنعت میں ایک بار پھر امید جاگی۔ اس پرجوش ترقی کی لہر کے پیچھے پانچ نومبر کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی تھی۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کرپٹو کرنسی کے شعبے کے لیے زیادہ سازگار ہوں گے اور اب تک ایسا لگتا ہے۔

دسمبر کے اوائل میں نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) کے سابق کمشنر پال ایٹکنز کو وال سٹریٹ ریگولیٹر کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے لیے نامزد کریں گے۔

ایٹکنز کو، وال سٹریٹ ریگولیٹر کے چیئرمین کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے سربراہ گیری جینسلر کے مقابلے میں کہیں زیادہ کرپٹو کرنسی کے حامی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس اعلان نے ایک بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ ڈالر تک بڑھانے میں مدد کی۔

سٹینڈرڈ چارٹرڈ میں ڈیجیٹل اثاثوں کی تحقیق کے عالمی سربراہ جیفری کینڈرک کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ کی جیت کے بعد آپ تصور کر سکتے ہیں کہ 2025 میں آپ کو فعال ضابطے ملے گا۔ کچھ منفی ضوابط کو ختم کر دیا جائے گا جس کے بعد بینکوں اور دیگر اداروں کو شامل ہونے کی اجازت ملے گی۔‘

دنیا آج سے 30 سال بعد 2055 میں کیسی ہوگی؟



گراہم فریزر
عہدہ,ٹیکنالوجی رپورٹر
2 جنوری 2025
یہ سنہ 1995 کی بات ہے جب بی بی سی کے ’ٹوماروز ورلڈ‘ پروگرام یعنی مستقبل کی دنیا پر مبنی پروگرام میں یہ پیش گوئی کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ 30 سال بعد سنہ 2025 میں دنیا کیسی ہوگی۔

اگرچہ یہ شو اب نشر نہیں کیا جاتا ہے لیکن سنہ 1995 میں اس وقت کے سب سے مشہور سائنسدانوں میں سے ایک پروفیسر سٹیفن ہاکنگ نے پیش گوئی کی تھی کہ ’2025 تک ہم بڑی تبدیلیوں کی توقع کر سکتے ہیں۔‘

پروگرام کی ٹیم کو ان کی پیش گوئی سے اتفاق ہے کیونکہ اس دوران ہولوگرام سرجری سے لے کر دنیا کو متحیر کر دینے والی متعدد اختراعات ہوئیں۔

ایسے میں کچھ ماہرین کی مدد سے اور تین دہائیوں کے درمیان ہونے والی اختراعات کی روشنی میں ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ’ٹوماروز ورلڈ‘ نامی پروگرام میں جو پیش گوئی کی گئی تھی اس میں سے کتنی سچ ثابت ہوئی ہیں۔

2005 ’سائبر سپیس فسادات‘

سنہ 1995 میں ورلڈ وائڈ ویب نے حقیقت کا روپ دھار لیا تھا اور اس پیش رفت کے بارے میں ’ٹوماروز ورلڈ‘ میں یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ یہ مستقبل میں مصیبت لائے گی۔

اس میں یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ ’بزنس بیرنز‘ اور بینک سنہ 2000 تک انٹرنیٹ کا کنٹرول سنبھال لیں گے، وہ ایک ’سپر نیٹ‘ قائم کریں گے اور اس تک سب کی رسائی نہیں ہوگی۔

اس کی وجہ سے ہیکنگ ہوگی، وائرس پھیلائے جائیں گے، یہاں تک کہ فسادات بھی ہو سکتے ہیں۔

’عظیم تعمیرنو منصوبہ‘ اور مستقبل کی دُنیا

حسان احمد | ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن | جولائی 2024

 گذشتہ صدی کے آخر میں ’نئے عالمی نظام‘ [New World Order]، ’تہذیبوں کے تصادم‘ [Clash of Civilization] اور اختتام تاریخ [End of History] کی بحثوں کا شور برپا تھا۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں مغرب میں ’عظیم تعمیرِنو‘ [The Great Reset] کی بحث نہ صرف پوری قوت سے جاری ہے بلکہ دنیا کے طاقت ور افراد کھل کر اس کے حق میں یا مخالفت میں اپنی اپنی رائے کا اظہار بھی کررہے ہیں بلکہ اپنی دولت اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر اپنے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں بھی لگے ہیں۔

دنیا کے مال دار ترین امریکی سیٹھ ایلون مسک نے گذشتہ دنوں اپنی ایکس پوسٹ میں کہا :

The True battle is Extinctionists who want a holocaust for all of Humanity. Vs Expansionists who want to reach the stars and Understand the Universe.

اصل لڑائی دو قوتوں کے درمیان ہے: ’معدومیت پسند‘ ،کہ جو پوری انسانیت کے لیے ہولوکاسٹ چاہتے ہیں، اور’ توسیع پسند‘، کہ جو ستاروں تک پہنچنا اور کائنات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

یہ ذومعنی ’ٹویٹ‘ یا ’پوسٹ‘ گذشتہ کئی عشروں سے جاری 'تہذیبی تصادم کے تناظر میں نظر آئے گی، لیکن ایلون مسک نے اگلے ٹویٹ میں اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا:

Now Imagine if the Extinctionist philosophy is programmed into Al- No need to imagine - this is already the case with Gemini and ChatGPT.

اب ذرا تصور کریں کہ اگر ’معدومیت پسندوں‘ کے فلسفے کو ’مصنوعی ذہانت‘ [کے پروگرام] میں شامل کردیا جائے۔ [بلکہ] تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کام جیمینی [گوگل کا ’اے آئی‘ پروگرام ] اور چیٹ جی پی ٹی [Chat GPT] پہلے ہی کررہے ہیں۔

ایلون مسک نے یہ پوسٹ ایک خبر کے جواب میں کی ہے، جس کے مطابق ایک مشہور انگریزی فلم [Planet of The Apes] کے اداکاروں نے ایک انٹرویو میں کہا: ’’یوں تو وہ فلم میں انسانوں کو بندروں سے بچاتے نظر آتے ہیں، لیکن حقیقی زندگی میں وہ بندروں کے ساتھ شامل ہونا پسند کریں گے، تاکہ بندروں کے ساتھ مل کر انسانوں کا خاتمہ کرسکیں کیونکہ انسانوں نے دنیا کو برباد کردیا ہے۔ بظاہر تو یہ پوری گفتگو ہی بے معنی اور بےتکی لگتی ہے۔ لیکن صورتِ حال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایلون مسک نے ہنسی مذاق کے ماحول میں ہونے والی اس گفتگو کے پیچھے اُس اصل سوچ پر تنقید کی ہے، جو زمین کے بچائو کے لیے انسانوں کے خاتمے کی حامی ہے۔