مستقبلیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مستقبلیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

دنیا آج سے 30 سال بعد 2055 میں کیسی ہوگی؟



گراہم فریزر
عہدہ,ٹیکنالوجی رپورٹر
2 جنوری 2025
یہ سنہ 1995 کی بات ہے جب بی بی سی کے ’ٹوماروز ورلڈ‘ پروگرام یعنی مستقبل کی دنیا پر مبنی پروگرام میں یہ پیش گوئی کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ 30 سال بعد سنہ 2025 میں دنیا کیسی ہوگی۔

اگرچہ یہ شو اب نشر نہیں کیا جاتا ہے لیکن سنہ 1995 میں اس وقت کے سب سے مشہور سائنسدانوں میں سے ایک پروفیسر سٹیفن ہاکنگ نے پیش گوئی کی تھی کہ ’2025 تک ہم بڑی تبدیلیوں کی توقع کر سکتے ہیں۔‘

پروگرام کی ٹیم کو ان کی پیش گوئی سے اتفاق ہے کیونکہ اس دوران ہولوگرام سرجری سے لے کر دنیا کو متحیر کر دینے والی متعدد اختراعات ہوئیں۔

ایسے میں کچھ ماہرین کی مدد سے اور تین دہائیوں کے درمیان ہونے والی اختراعات کی روشنی میں ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ’ٹوماروز ورلڈ‘ نامی پروگرام میں جو پیش گوئی کی گئی تھی اس میں سے کتنی سچ ثابت ہوئی ہیں۔

2005 ’سائبر سپیس فسادات‘

سنہ 1995 میں ورلڈ وائڈ ویب نے حقیقت کا روپ دھار لیا تھا اور اس پیش رفت کے بارے میں ’ٹوماروز ورلڈ‘ میں یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ یہ مستقبل میں مصیبت لائے گی۔

اس میں یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ ’بزنس بیرنز‘ اور بینک سنہ 2000 تک انٹرنیٹ کا کنٹرول سنبھال لیں گے، وہ ایک ’سپر نیٹ‘ قائم کریں گے اور اس تک سب کی رسائی نہیں ہوگی۔

اس کی وجہ سے ہیکنگ ہوگی، وائرس پھیلائے جائیں گے، یہاں تک کہ فسادات بھی ہو سکتے ہیں۔

’عظیم تعمیرنو منصوبہ‘ اور مستقبل کی دُنیا

حسان احمد | ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن | جولائی 2024

 گذشتہ صدی کے آخر میں ’نئے عالمی نظام‘ [New World Order]، ’تہذیبوں کے تصادم‘ [Clash of Civilization] اور اختتام تاریخ [End of History] کی بحثوں کا شور برپا تھا۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں مغرب میں ’عظیم تعمیرِنو‘ [The Great Reset] کی بحث نہ صرف پوری قوت سے جاری ہے بلکہ دنیا کے طاقت ور افراد کھل کر اس کے حق میں یا مخالفت میں اپنی اپنی رائے کا اظہار بھی کررہے ہیں بلکہ اپنی دولت اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر اپنے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں بھی لگے ہیں۔

دنیا کے مال دار ترین امریکی سیٹھ ایلون مسک نے گذشتہ دنوں اپنی ایکس پوسٹ میں کہا :

The True battle is Extinctionists who want a holocaust for all of Humanity. Vs Expansionists who want to reach the stars and Understand the Universe.

اصل لڑائی دو قوتوں کے درمیان ہے: ’معدومیت پسند‘ ،کہ جو پوری انسانیت کے لیے ہولوکاسٹ چاہتے ہیں، اور’ توسیع پسند‘، کہ جو ستاروں تک پہنچنا اور کائنات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

یہ ذومعنی ’ٹویٹ‘ یا ’پوسٹ‘ گذشتہ کئی عشروں سے جاری 'تہذیبی تصادم کے تناظر میں نظر آئے گی، لیکن ایلون مسک نے اگلے ٹویٹ میں اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا:

Now Imagine if the Extinctionist philosophy is programmed into Al- No need to imagine - this is already the case with Gemini and ChatGPT.

اب ذرا تصور کریں کہ اگر ’معدومیت پسندوں‘ کے فلسفے کو ’مصنوعی ذہانت‘ [کے پروگرام] میں شامل کردیا جائے۔ [بلکہ] تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کام جیمینی [گوگل کا ’اے آئی‘ پروگرام ] اور چیٹ جی پی ٹی [Chat GPT] پہلے ہی کررہے ہیں۔

ایلون مسک نے یہ پوسٹ ایک خبر کے جواب میں کی ہے، جس کے مطابق ایک مشہور انگریزی فلم [Planet of The Apes] کے اداکاروں نے ایک انٹرویو میں کہا: ’’یوں تو وہ فلم میں انسانوں کو بندروں سے بچاتے نظر آتے ہیں، لیکن حقیقی زندگی میں وہ بندروں کے ساتھ شامل ہونا پسند کریں گے، تاکہ بندروں کے ساتھ مل کر انسانوں کا خاتمہ کرسکیں کیونکہ انسانوں نے دنیا کو برباد کردیا ہے۔ بظاہر تو یہ پوری گفتگو ہی بے معنی اور بےتکی لگتی ہے۔ لیکن صورتِ حال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایلون مسک نے ہنسی مذاق کے ماحول میں ہونے والی اس گفتگو کے پیچھے اُس اصل سوچ پر تنقید کی ہے، جو زمین کے بچائو کے لیے انسانوں کے خاتمے کی حامی ہے۔