عالمی انقلابات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عالمی انقلابات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

انڈیا کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے وہ اقدامات جنھوں نے انڈیا کو بدل کر رکھ دیا

ابھینو گویل
عہدہ,بی بی سی ہندی، نئی دہلی

سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ سنہ 2004 سے 2014 تک انڈیا کے وزیر اعظم رہے۔ انھیں اگر دنیا بھر میں اقتصادی ماہر کے طور پر دیکھا جاتا ہے تو انڈیا میں انھیں اقتصادی لبرلائزیشن کے ہیرو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

منموہن سنگھ کو سنہ 1991 میں اس وقت کے وزیر وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی قیادت والی کانگریس پارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔

سنہ 1999 اور 2004 میں انھوں نے لوک سبھا کے انتخابات میں بطور کانگریس امیدوار شرکت کی لیکن انھیں کامیابی نہ مل سکی تاہم جب اکثریت حاصل کرنے والی کانگریس پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی نے وزیر اعظم بننے کی دوڑ سے کنارہ کشی اختیار کر لی تو یہ ذمہ داری ڈاکٹر منموہن سنگھ کو سونپی گئی۔

ان کے دس سالہ دور میں کئی بڑے فیصلے کیے گئے جو سنگ میل ثابت ہوئے۔ ہم یہاں ان کے سات اہم کاموں کا ذکر کر رہے ہیں۔

1۔ معلومات کا حق


معلومات کا حق یعنی رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں 12 اکتوبر سنہ 2005 کو ملک میں نافذ کیا گیا۔

اس قانون کے تحت انڈین شہریوں کو سرکاری اہلکاروں اور اداروں سے معلومات حاصل کرنے کا حق ملا۔

یہ وہ حق ہے جو شہریوں کو باخبر فیصلے کرنے اور مرضی کے مطابق طاقت استعمال کرنے والوں سے سوال کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

آر ٹی آئی کا اثر پنچائیت سے لے کر پارلیمنٹ تک ثابت ہو چکا ہے۔ اس سے نہ صرف افسر شاہی کو ہٹانے میں مدد ملی بلکہ بیوروکریسی کے تاخیر کرنے والے رویے کو بھی دور کرنے میں مدد ملی۔

اسلامی احیاء کا مسئلہ ۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر | ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، اگست ۲۰۲۴ | مذاکرہ: اسلامی احیاء کا مسئلہ


یہ سوال کہ عصر ِحاضر میں ایک جانب مسلم اکثریتی ملکوں میں اور دوسری طرف مسلم اقلیتی ممالک میں، اسلامی احیاء کے لیے کیا فکری اور عملی اقدامات کیے جانے چاہییں؟ایک بڑا وسیع موضوع ہے جس کے دوحصے ہیں :


الف: اسلامی احیاء کے لیے مسلم اکثریتی ملکوں میں ممکنہ فکری اور عملی اقدامات۔
ب: مسلم اقلیتی ممالک میں اسلامی احیاء کے لیے ممکنہ فکری اور عملی اقدامات۔

مسلم اقلیتی ممالک میں احیائے اسلام:  سوال کے دوسرے حصے کا جواب ان دانش وروں سے حاصل کرنا چاہیے، جو ایسے مغربی ممالک میں مقیم ہیں جہاں مسلمان محض ایک اقلیت ہیں۔وہاں کے مسائل و امکانات کا جائزہ وہی بہتر طور پر لے کر تجاویز پیش کرسکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک میں رہنے والے ’سسٹم‘ کے قیدی ہیں۔یہ قیدی اپنی سلاخیں توڑ کر فرار تو ہوسکتا ہے،مگر پورے نظام کی قلب ماہیت نہیںکرسکتا۔

مغربی ممالک میں رہنے والی مسلم اقلیت اپنی کیمونٹی کی حدتک توہاتھ پاؤں مارسکتی ہے، اُس سے آگے وہ کچھ نہیں کرسکتی۔ یعنی ان ممالک کے قوانین کے آگے وہ بے دست و پا ہے بلکہ اپنی اولاد تک کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے، ایسے میں اسلامی احیاء کی بات تو بہت دُور کی کوڑی ہے۔ اگر وہاں کوئی مسلمان بڑے سیاسی یا انتظامی عہدے پر پہنچ جائے تب بھی وہ کچھ نہیں کرسکتا کیو نکہ وہ سسٹم کے آگے بے بس ہے۔ ان کے آقا ان سے زیادہ بیدار مغز اور ہوشیار ہیں۔ مغرب میں کتنے ہی مسلمان ہیں جو بہت کام کررہے ہیں، لیکن کسی ایسی ’تبدیلی‘ کہ جس کے ڈانڈے ’مسلم احیاء‘ سے ملتے ہوں، وہ اُس کے نہ محرک ہیں اور نہ بن سکتے ہیں۔ ان کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ وہ نظام (System) ہے، جو نہ صرف یہ کہ سوچ سمجھ کر بنا یا گیا ہے بلکہ سامراجی مفاداتی سوچ اس کی نگرانی اور رکھوالی بھی کرتی ہے۔

مسلم اکثریتی ممالک میں احیائے اسلام: اب آجائیے مسلم اکثریتی ممالک کی طرف ،یہ بھی ایک بڑا وسیع موضوع ہے۔ یہ ایک دوملکوں کی بات نہیں تقریباً ستّر مسلم ممالک کی بات ہے۔ ان کے سیاسی نظام ،تمدنی معاملات اور معیشت میں اتنا فرق ہے کہ ان سب کے لیے ایک ہی فارمولا طے نہیں کیا جاسکتا۔ جن مسلم ممالک میں بادشاہت ہے(مثلاً اردن، سعودی عرب وغیرہ) وہاں بھی ایک نوع کی غلامی ہے اور ؎

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

جن مسلم ممالک میں ’تھیوکریسی‘ ہے، مثال ایران، تو وہ بھی غلامی ہی کی ایک قسم ہے۔ جو معاشرے جمہوری روایات کے حامل ہیں، وہ ’عالمی غلامی‘ کے اسیر ہیں۔جن کے لیے ’اسلام‘سب سے بڑا خطرہ ہے اور عوامی ووٹ سے آئی ہوئی منتخب جمہوری حکومتوں کو بھی وہ چٹکی میں اڑا کررکھ دیتے ہیں، جس کی مثالیں مصر میں محمد مرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹنا اور غزہ میں حماس کی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے۔ایسی مثالوں کی کمی نہیں۔ گویاایک بات طے ہوئی کہ مسلم اقلیتی معاشرے ہوں یا مسلم اکثریتی ممالک، بنیادی مسئلہ’غلامی‘ ہے۔ کہیں مقامی سیاسی نظام کی جکڑبندی ہے، کہیں مذہبی طبقے کی گرفت ہے اورکہیں عالمی سامراجی نظام کی۔

آزادی ایک ایسی بنیاد ہے، جس پر قوموں کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ یہ بنیاد جتنی مستحکم ہوگی ،اتنی ہی مضبو ط اور عظیم عمارت تعمیر ہوگی ۔آزاد قوموں میں ہی مذہب کا پیغام پھیلتا ہے (جیسے جزیرہ نمائے عرب میں پھیلا تھا) ،نظریات وافکار کو فروغ حاصل ہوتا ہے، تہذیب وتمدن اور ادب وثقافت پروان چڑھتے ہیں۔ بصیرت ،صرف آزاد لوگوں کا حصہ ہے،صرف آزاد قومیں ہی بصیرت کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔ گویا احیاء کے لیے پہلا قدم، طوقِ غلامی سے آزادی ہے۔

کیا روس، یوکرین جنگ دنیا پر امریکہ کی بالادستی اور موجودہ عالمی نظام کے خاتمے کا آغاز ہے؟

زبیر احمد
عہدہ,بی بی سی نیوز
مقام دہلی
3 مار چ 2023
یوکرین پر روس کے حملے کا دوسرا سال شروع ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مغربی ممالک کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اس جنگ نے موجودہ عالمی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کا نظام اصولوں پر قائم ہے اور ان قوانین میں تبدیلی کے واضح آثار اب موجود ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک (امریکہ اور یورپی ممالک) انڈیا، چین، جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے ترقی پذیر ممالک کو روسی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لیے اپنا ساتھ دینے پر راضی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

مغربی ممالک یوکرین پر روس کے حملے کو نہ صرف یورپ پر حملہ بلکہ جمہوری دنیا پر حملہ قرار دے رہے ہیں اور اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقتیں یوکرین پر حملے کی وجہ سے روس کی مذمت کریں۔

لیکن انڈیا اور چین کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک بھی روس اور یوکرین کی جنگ کو پوری دنیا کے لیے درد سر نہیں سمجھتے۔ یہ ممالک بڑی حد تک اس جنگ کو یورپ کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

گذشتہ برس سلوواکیہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے، انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے یورپ پر زور دیا کہ وہ اس ذہنیت سے اوپر اٹھے کہ ’یورپ کے مسائل دنیا کا درد سر ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

فری میسنز سے جڑی تنظیم نائٹس ٹیمپلر کی تاریخ اور فرانس میں ان کی باقیات

ایڈیسن نیوجنٹ
بی بی سی، پیرس
31 جولائی 2019
پیرس کے علاقے ماریز میں آج بھی پہلی صلیبی جنگ کے دوران وجود میں آنے والی پراسرار جنگجوؤں کی تنظیم نائٹس ٹیمپلر کی باقیات خوبصورت گلیوں کے بیچ و بیچ آسانی سے مل سکتی ہے۔ ایک زمانے میں یہ علاقہ یورپ میں ان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

تنظیم کی علامتی نشان
معروف فلم ’انڈیانا جونز‘ سے لے کر ’دی ڈاونشی کوڈ‘ تک، ہمارے جدید تخیل میں نائٹس ٹیمپلر کے افسانوی کردار چھائے ہوئے ہیں لیکن ان کرداروں کے پس پشت کئی صدیوں پر محیط ایک ایسی داستان ہے جو ایک سے زیادہ براعظموں پر پھیلی ہوئی ہے۔

یہ کہانی فرانس کے دارالحکومت پیرس پر اختتام پذیر ہوئی جہاں نائٹس ٹیمپلر کے آخری برسوں کی نشانیاں مل سکتی ہیں۔ لیکن یہ نشانیاں صرف انھیں نظر آتی ہیں جو انھیں ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔

نائٹس ٹیمپلر کون تھے؟

نائٹس ٹیمپلر کی کہانی 1099 میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران شروع ہوتی ہے جب یورپ سے تعلق رکھنے والے مسیحی فرقے رومن کیتھولک کی افواج نے مسلمانوں سے یروشلم چھین لیا۔ نتیجے میں یورپ کے زائِرِین بڑی تعداد میں اس 'مقدس زمین' میں بس گئے۔

لیکن کئی لوگوں کو مسلمانوں کے قبضے والے علاقوں سے گزرتے ہوئے لوٹ مار یا قتل کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سنہ 1118 کے آس پاس فرانسیسی کمانڈر ہیوز ڈے پیانز نے اپنے علاوہ آٹھ فوجیوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ تشکیل دیا جس کا نام پوور نائٹس آف کرائسٹ آف دی ٹیمپل آف سولومن رکھا گیا۔ یہ گروہ بعد میں نائٹس ٹیمپلر کہلایا۔

نائٹس ٹیمپلر اعلیٰ سطحی کمانڈرز یا نائٹس تھے جن کا ہیڈکوارٹرز یروشلم کے مقدس ماؤنٹ ٹیمپل پر بنایا گیا۔ ان کا بنیادی مقصد شہر میں مسیحی زائِرِین کی حفاظت کرنا تھا۔

اگر افسانوی کہانیوں کو مانا جائے تو یہ نائٹس ٹیمپلر کے ہی کچھ اراکین تھے جنھوں نے 14ویں صدی کے دوران فرانس سے بھاگ کر برطانیہ میں فری میسن نامی تنظیم شروع کی۔

لینن کون تھے ؟

 لینن

 خدا کے حضور میں

(شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ )

اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات

میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات

محرم نہیں فطرت کے سرود ازلی سے
بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات

آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت
میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات

ہم بند شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
تو خالق اعصار و نگارندۂ آنات!

اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں
حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات

جب تک میں جیا خیمۂ افلاک کے نیچے
کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات

گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات

وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود
وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیر سماوات؟

مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندۂ فلزات

یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات

رعنائی تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات

ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات

یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم مساوات

بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات

میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات

چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات


  لینن کون تھے ؟ 

لیون ٹراٹسکی

ترجمہ: حسن جان

انقلابِ روس کے قائد ولادیمیر لینن کی 152 ویں سالگرہ کے موقع پر اُن کی مختصر سوانح حیات، جو لیون ٹراٹسکی نے 1929ء میں تحریر کی،  قارئین کے لئے خصوصی طور پر شائع کی جا رہی ہے۔

لینن کون تھے ؟

سوویت جمہوریہ اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے بانی اور روح رواں، مارکس کے شاگرد، بالشویک پارٹی کے رہنما اور روس میں اکتوبر انقلاب کے منتظم ولادیمیر لینن 9 اپریل 1870ء کو سمبرسک کے قصبے (موجودہ الیانوسک) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد الیانکولاوچ ایک سکول ماسٹر تھے۔ اس کی والدہ ماریہ الیگزنڈرانوا برگ نامی ایک ڈاکٹر کی بیٹی تھی۔ بڑا بھائی ایک انقلابی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا اور الیگزنڈر دوئم کی زندگی پر ناکام حملوں میں حصہ لیا۔ اسے 1891ء میں پھانسی دے دی گئی۔ یہ لینن کی زندگی میں فیصلہ کن عنصر ثابت ہوا۔

ابتدائی زندگی

چھ افراد کے خاندان میں تیسرے لینن نے 1887ء میں سمبرسک جمنازیم سے گولڈ میڈل جیت کر اپنا کورس مکمل کیا۔ اس نے قانون کی تعلیم کے لیے کازان یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن طلبہ کے اجتماعات میں حصہ لینے کی پاداش میں اُسی سال یونیورسٹی سے نکال دیا گیا اور مضافاتی علاقے میں بھیج دیا گیا۔ 1889ء کے موسم خزاں میں اسے کازان واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ جہاں اس نے مارکس کا باقاعدہ مطالعہ شروع کیا اور مقامی مارکسی سرکل کے ممبران سے ملاقات کی۔ 1891ء میں لینن نے سینٹ پیٹرزبرگ یونیورسٹی سے قانون کا امتحان پاس کیا اور 1892ء میں سمارا میں ایک بیرسٹر کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی اور کئی مقدمات میں وکیل صفائی کے طور پر پیش ہوا۔ لیکن وہ مارکسزم کے مطالعے، روس اور بعد ازاں پوری دنیا کے معاشی اور سیاسی ارتقا پر اس کے اطلاق میں مصروف رہا۔