انسان کی کہانی کا پہلا ورق، پہلا سوال… اور شاید آخری بھی —
خاموشی میں کچھ سوال ہوتے ہیں، جو بولتے نہیں، مگر اندر کہیں گونجتے رہتے ہیں۔ یہ سوال کوئی آواز نہیں رکھتے، مگر زندگی کی ہر سانس میں اپنا عکس چھوڑ جاتے ہیں۔ انہی میں ایک سوال ہے — شاید سب سے پہلا، سب سے پُراسرار، اور سب سے قریب: "میں کون ہوں؟"
کیا میں فقط گوشت پوست کا ایک ڈھانچہ ہوں؟ یا وہ سوچ ہوں جو میرے دل میں پلتی ہے؟ کیا میں وہ چہرہ ہوں جو آئینے میں نظر آتا ہے؟ یا وہ احساس جو کسی کی آنکھوں میں جھانک کر بیدار ہوتا ہے؟
کبھی بچپن میں کھیلتے ہوئے، کبھی تنہائی میں چھت پر تکتے ہوئے، کبھی کسی موت پر لرزتے ہوئے، اور کبھی کسی محبت میں بھیگتے ہوئے… یہ سوال دبے پاؤں آتا ہے، دل کے اندر بیٹھ جاتا ہے، اور پھر کبھی پوری عمر وہاں سے جاتا ہی نہیں۔
لیکن اس سوال کا مطلب صرف خود کو پہچاننا نہیں، بلکہ اس پوری کہانی کو سمجھنا ہے جس میں میں ایک کردار ہوں، اور شاید مرکزی کردار — ایک مکمل داستان، جس کا ہر صفحہ میری سانسوں سے لکھا جا رہا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
"وفی أنفسکم، أفلا تبصرون"(اور تمہارے نفسوں میں بھی [ہماری نشانیاں ہیں]، کیا تم غور نہیں کرتے؟)