انسان کی کہانی کا پہلا ورق، پہلا سوال… اور شاید آخری بھی —
خاموشی میں کچھ سوال ہوتے ہیں، جو بولتے نہیں، مگر اندر کہیں گونجتے رہتے ہیں۔ یہ سوال کوئی آواز نہیں رکھتے، مگر زندگی کی ہر سانس میں اپنا عکس چھوڑ جاتے ہیں۔ انہی میں ایک سوال ہے — شاید سب سے پہلا، سب سے پُراسرار، اور سب سے قریب: "میں کون ہوں؟"
کیا میں فقط گوشت پوست کا ایک ڈھانچہ ہوں؟ یا وہ سوچ ہوں جو میرے دل میں پلتی ہے؟ کیا میں وہ چہرہ ہوں جو آئینے میں نظر آتا ہے؟ یا وہ احساس جو کسی کی آنکھوں میں جھانک کر بیدار ہوتا ہے؟
کبھی بچپن میں کھیلتے ہوئے، کبھی تنہائی میں چھت پر تکتے ہوئے، کبھی کسی موت پر لرزتے ہوئے، اور کبھی کسی محبت میں بھیگتے ہوئے… یہ سوال دبے پاؤں آتا ہے، دل کے اندر بیٹھ جاتا ہے، اور پھر کبھی پوری عمر وہاں سے جاتا ہی نہیں۔
لیکن اس سوال کا مطلب صرف خود کو پہچاننا نہیں، بلکہ اس پوری کہانی کو سمجھنا ہے جس میں میں ایک کردار ہوں، اور شاید مرکزی کردار — ایک مکمل داستان، جس کا ہر صفحہ میری سانسوں سے لکھا جا رہا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
"وفی أنفسکم، أفلا تبصرون"
یہ آیت گویا آئنہ ہے، جو انسان کو خود میں جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔ جیسے خود شناسی ہی سب سے بڑی معرفت ہے، اور سب سے پہلا دروازہ بھی۔
سائنس، اپنی تمام تر ترقی کے باوجود، انسان کو ڈی این اے، خلیے، نیورون، اور دماغی لہروں میں تو ماپ سکی، مگر "میں" کی اصل ماہیت… وہ اب تک ایک راز ہے۔ ایک ایسا راز، جو بظاہر سامنے ہے، مگر چھُپا ہوا ہے؛ جیسے آنکھ خود کو نہیں دیکھ سکتی۔
ثقافتیں، مذاہب، اور تہذیبیں — سب نے اس سوال کے اپنے اپنے جواب دیے۔ کہیں کہا گیا کہ انسان خاکی ہے، کہیں کہا گیا کہ وہ آسمانی ہے۔ کوئی کہتا ہے انسان حادثہ ہے، کوئی کہتا ہے کہ وہ ارادہ ہے۔ مگر سب اس بات پر متفق ہیں کہ انسان محض وجود نہیں، ایک معنی ہے — ایک سوال جو جواب بننا چاہتا ہے۔
میری آواز، میری حس، میرا ضمیر… یہ سب مل کر ایک ایسی ہستی بناتے ہیں جو نہ صرف دنیا کو محسوس کرتی ہے، بلکہ خود کو بھی۔ اور یہی شعور، یہی آگاہی مجھے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ میں وہ ہوں جو سوچ سکتا ہے، خواب دیکھ سکتا ہے، محبت کر سکتا ہے، اور… سوال کر سکتا ہے۔
ہو سکتا ہے، "میں کون ہوں؟" کا کوئی ایک جواب نہ ہو — کیونکہ میں ساکت نہیں، متحرک ہوں؛ جامد نہیں، رواں ہوں؛ مکمل نہیں، مسلسل تخلیق میں ہوں۔
کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ میں ایک نامکمل نظم ہوں، جو خود کو مکمل کرنے کے لیے سفر پر نکلی ہے۔ ایک دعا ہوں، جو ہونٹوں سے نہیں، دل سے نکلی ہے۔ ایک آئینہ ہوں، جو خود میں جھانکنے کی کوشش کر رہا ہے۔