تعلیم نبوت کے ایک ورق کی چوری
تاہم نوع انسانی کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی یہ دعوت اپنی عملی زندگی کوخدا کی عبادت کے لیے وقف کرو۔ انسان کی فطر ت سے عین مطابقت رکھتی ہے۔ کیونکہ انسان کی ساری زندگی حقیقت حدا کی محبت کے الیے ایک زور دار جذبہ کے لیے سوائے اور کچھ نہیں کہ لہٰذا یہ دعوت جسے مذہب کہا جاتا ہے ایک افیون نہیں بلکہ ایک روشنی ہے جس کے بغیر انسان اپنا راستہ نہیں دیکھ سکتا۔ سوشلزم نے اسی روشنی کی ایک کرن سے کام لے کر اپنے انقلاب کو کامیاب کیا ہے اور اپنے گھر کو سجایا ہے کیونکہ سوشلزم کا دعویٰ ہے کہ وہ زندگی کے معاشی حالات میں عدل اور انصاف اور دیانتداری کے اصولوں کو نافذ کرتا ہے اور عد ل اور انصاف اور دیانت داری ایسی اقدار ہیں جن کی تعلیم سب سے پہلے نبوت نے دی ہے۔ نبوت نے ہی سب سے پہلے کہاتھا کہ خدا سے محبت کرو اور خدا کی رضامندی کی جستجو کرو اور خدا کو خوش کرنے کی ایک شرط یہ ہے کہ عدل و انصاف سے کام لو۔ کسی کا مال ناحق نہ کھائو۔ لوٹ کھسوٹ اورچور ی اور بدیانتی سے مجنتب رہو۔ اگر نبوت کی یہ تعلیم عام نہ ہو چکی ہوتی تو سوشلزم کبھی یہ معلوم نہ کر دسکتا کہ ظلم کیا چیز ہے اور کہاں ہو رہا ہے ۔ سرمایہ دار کیا بددیانتی کر رہا ہے ۔ اور مزدر وکے ساتھ کیا نا انصافی ہو رہی ہے۔ اگر سوشلزم عدل و انصاف کا نعرہ نہ لگاتا تو ناممکن تھا ک کوئی انسان اس کی آواز سنتا اور اس کے انقلاب کو ذرہ بھر کامیابی نصیب نہ ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی خودی جو فقط خدا اور خدا کی صٖات کی محبت کا ایک جذبہ ہے فقط خدا اور خدا کی صفات کی جستجو کے لیے حرکت میں آکر کوئی نیا عمل کر سکتی ہے۔ ورنہ کوئی عمل نہیں کر سکتی۔ تاریخ کا ہر انقلاب جو کامیاب ہوا ہے اس کے پیچھے خدا کی کسی صفت کا اظہار اور اجراء کی دعوت تھی۔ اگر فرانسیسی انقلاب خدا کی صفت عدل کے مطابق سیاسی حالات کو بدنے کی دعوت تھی تو روسی انقلاب خدا کی اسی صفت کے مطابق معاشی حالات کو بدلنے کی دعوت ھتی اسی طرح سوشلزم نے خد ا کی محبت کے اس جذبہ کو اپنے قدرتی ماحول سے الگ کر کے ناجائز طور پر استعمال کرنے کا اقدام کیا ہے۔ جس سے انسا ن کی خودی عبارت ہے۔ اسنے گویا کتاب نبوت کا ایک ورق چرانے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن کتاب نبوت کا کوئی ورق چرایا نہیں جا سکتا۔ سوشلزم مجبور ہو گا کہ یا تو نبوت کی پوری کتاب کو لے لے ار یا پھر اس ورق کو بھی واپس کر دے جو اس نے چرایا ہے۔ ہم خدا کی صفت میں سے کسی ایک صفت کو لے کر اسے انسانی زندگی کے اندر کامیابی کے ساتھ موثر اور فعال نہیںبنا سکتے۔ جب تک کہ ہم خدا کی باقی صفات کو بھی ساتھ نہ رکھیں اور انہیں بھی موثر اور فعال بنانے کی کوشش نہ کریں۔ انسانی خودی یا خدا کی محبت کا انسانی جذبہ ۔ ایک وحدت ہے جس کا کوئی ٹکڑا اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ حق کو حق سے الگ کیا جائے تو وہ باطل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ پھر اس کی کمی کو باطل سے پورا کرنا پڑتا ہے اور حق اور باطل کی شرکت باطل ہو جاتی ہے۔
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول‘
اسی لیے مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ اسلام میں پوری طرح سے داخل ہوجائو۔ ایسا نہ تم اپنی مرضی کی کچھ باتیں اسلام سے لے لو اور کچھ کفر سے ایسی حالت میں تمہارااسلام بھی کفر بن کر رہ جائے گا۔
یاایھا الذین امنوا ادخلو فی السلم کانہ (۷۔۲:۲)
یہودیوں کے خلاف خدا کو ایک شکایت ہے کہ وہ حق کے ساتھ باطل کی آمیزش کر تے ہیں اور اس طرح سے حق کو بھی باطل بنا دیتے ہیں۔
اتلبسون الحق بالباطل ۷۱:۳
غیر خدا کی محبت کے ساتھ خدا کی صفات کا اظہار ممکن نہیں
ممکن نہیں کہ انسان خدا کی پوری محبت کے بغیر خدا کی کوئی صفت اپنے عمل میں پوری طرح سے آشکار کر کے دکھا سکے۔ ہو نہیں سکتا کہ کسی شخص کا محبوب اور معبود تو خدا کے سوائے کوئی اور ہو اور اس کا عمل خدا کی کسی صفت کا آئینہ دار ہو جائے۔ اس کا وہ باطل اور پست اور ذلیل معبود اس صفت کے اظہار میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرے گا اور وہ ہر حالت میں اپنی پستی اور کمینگی کا رنگ اس پر چڑھائے گا اور ایسا کرنے سے اسے باطل بنا دے گا اور جب اس کا عمل باطل ہو جائے گا تو سارے باطل کی راہ سے فنا کے گھاٹ اتر جائے گا اور اسی لیے سوشلزم ایک ناپائیدار اور عارضی نظریہ حیات ہے جس کے خلاف زود یا بدیر انسان کی فطرت رد عمل کرے گی۔
اسلام کا اقتصادی نظام خدا کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے
بعض مسلمان اسلام کے اقتصادی نظام کا سوشلزم کے اقتصادی نظام سے مقابلہ کر کے یہ دکھاتے ہیں کہ اسلام کا اقتصادی نظام سوشلزم سے بہتر ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ایک اقتصادی نظام کی حیثیت سے اسلام بہترہے یا سوشلزم۔ سوال یہ ہے کہ آیا سوشلزم اسلام کے بغیر وہ اقتصادی مساوات جسے برپا کرنے کا دعویٰ وہ کرتی ہے قائم رکھ سکتی ہے یا نہیں ۔ اس سوال کا جواب نفی میں ہے اورسوشلزم کی سطحی اور عارضی کامیابی اس جواب کو تادیر پردہ خفامیں نہیں رکھ سکتی۔ آخر کار وہی نظریہ حیات دنیا میں کامیاب ہو گا جو پوری طرح سے انسان کی فطرت کے مطابق ہو گا اور انسان کی فطرت کی سب سے بڑی اصلی اور بنیادی ضرورت خدا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے اقتصادی قوانین بظاہر اقتصادی ہیں لیکن حقیقت میں روحانی ہیں۔ کیونکہ ان کامدعا انسان کی خودی کی تربیت ہے لہٰذا تھوڑی بہت ظاہری مماثلت کے باوجود وہ سوشلزم کے اقتصادی قوانین سے بالکل مختلف ہیں اور ان کا باہمی مقابلہ بے معنی ہے۔
عقل و دل نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دین بتکدہ تصورات
اسلام کا اقتصادی نظام خدا کی محبت سے سرزد ہوتا ہے اور خدا کی محبت کی نشوونما کرتاہے۔ وہ خدا کی محبت سے نکلا ہے اور خداکی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ اگر اسے خدا کی محبت سے الگ کر دیں تو اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا سوشلزم ایسے ایک بے خدا اقتصادی نظام سے جو ایک بت کدہ تصورات اور بے جان قوانین کا ایک ڈھانچہ ہے اس کا کوئی مقابلہ ممکن نہیں ۔
حرکت تاریخ کی منزل اسلام ہے
سوشلزم کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ اس نے حرکت تاریخ اور ا س کے مدعا اور مقصد کو سمجھ لیا ہے۔ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ عمل تاریخ کی قوت محرکہ بھی ہے اور وہ قوت فقط خدا کی محبت کا جذبہ ہے۔ ناممکن ہے کہ انسان کوئی عمل ایسا کر سکے جو خدا کی محبت کی تکمیل اور تشفی کے لیے نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان کا خدا کبھی سچا خدا ہوتا ہے اور کبھی کوئی بت۔ لیکن اس جذبہ کی کارفرمائی سے وج جو غلط نظریات پیدا ہوتے جائیں گے وہ مٹتے جائیں گے۔ اوربالاخر دنیا بھر میں ایک ایسا نظام زندگی قائم ہو گا جو خدا کے عقیدہ پر مبنی ہو گا۔ یہی نظام رحمتہ اللعالمین کا عطا کیا ہوا اسلام ہے اور یہی حرکت تاریخ کا مقصود اور مدعا ہے کاش کہ وہ اپنے آپ کو پراگریسو ترقی پسند کہنے والے حضرات فطرت انسانی اور تاریخ انسانی کے ٹھوس حقائق کی روشنی میں اس بات پر غور کریں کہ نوع انسانی کی پراگریس یا ترقی کس سمت میں ہو رہی ہے اور اس کی منزل کیا ہے۔
بے بنیاد دعویٰ
بعض سوشلزم کے حامی سوشلزم کی تائید میں یہ دلیل لایا کرتے ہیں کہ جسم کی ضرورتوں کو پورا کرنا بقائے حیات کے لے ضروری ہے۔ لہٰذا جب تک ان کو پورا نہ کیا جائے خودی کی ضرورتیں پوری نہیں کی جا سکتیں۔ کیونکہ انسان زندہ رہے گا تو ان کو پورا کرے گا۔ یہ بات درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم جسم کی ضرورتوں کو خودی کے مقاصد کے لیے ذریعہ کے طور پر اوراس ذریعہ کی حد تک پورا کرنا چاہتے ہیں ۔ تاکہ انسان زندہ رہے اور خدا کی عبادت اور اطاعت کرتا رہے یا ہم کو ان کے ایک ذریعہ کے طور پر نہیں بلکہ خود ایک مقصود حیات کے طور پر پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ دوسری بات درست ہے تو پھر یہ سوشلزم کا مقصود حیات ہے اسلام کا نہیں اور اگر پہلی بات درست ہے تو کیا ہم نے اطمینان کر لیا ہے تو لوگ واقعی اسے ایک ذریعہ سمجھیں گے کیا اسلام اور اس کے عزائم اور مقاصد کی صداقت اور اہمیت کا پختہ یقین درحقیقت لوگوں کے دلوں میں موجود ہے۔ کیا واقعی لوگ خودی کی ضرورتوں کو اس وقت اول درجہ کی اہمیت کا مقام دیتے ہیں اور پیش پیش رکھتے ہیں۔ اور بعد میں بھی اول درجہ کامقام دینے اور پیش پیش رکھنے کا عزم رکھتے ہیں کیا لوگ فی الواقع خودی کی ضرورتوں کی تکمیل اور تشفی کے کام میں اس قدر ذوق و شوق اور سرور اور انہماک رکھتے ہیں کہ یہ یقین کیا جا سکے کہ وہ جسم کی ضرورتوں کو خودی کی ضرورتوں کے ماتحت ضمناً اور مجبوراً اور بقدر کفایت و ضرورت پورا کرنا چاہتے ہیں اگر یہ صورت حال موجود نہیں تو پھر یہ کہنے کی ضرورت کیا ہے کہ جب تک جسم کی ضرورتوں کے ذکر کے پیچھے درحقیقت خدا پرستی کا نہیں بلکہ جسم پرستی کا کوئی جذبہ کام کر رہا ہے۔ اس صورت میں ہمیں سب سے پہلے لوگوں میں تعلیم کے ذریعہ سے اسلام کی صداقت اور خودی کی ضرورتوں کی اول درجہ کی اہمیت کا پختہ یقین پیدا کرنا چاہیے۔ ورنہ جسم کی ضرورتیں لوگوں کے نزدیک درجہ اول کی اہمیت حاصل کر لیں گی اور وہ
ضل سعیھم فی الحیوۃ الدنیا
کامصداق بن کر رہ جائیں گے اور اسلام کے تقاضوں اور خودی کی ضرورتوں کا نام برائے نام ان کی زبانوں پر رہ جائے گا۔
عبرت انگیز مثالیں
جن مسلمانوں نے صحیح قسم کی تعلیم کے ذریعہ سے خدا اور اسلام کی محبت کی خاطر خواہ نشوونما کرنے کے بغیر اپنے ملکوںمیں سوشلزم کا نفاذ کیا تھا۔ ان کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ وہاں صحیح قسم کی تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے اسلام کی صداقت اور ضرورت پر یقین پہلے ہی مضحمل ہو چکا تھا۔ طبیعتیں اسلامی ضابطہ اخلاق کی نفس شکن پابندیوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ تھیں اور اسلام پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے حرص و ہوا کے محرکات زوروں پر تھے اور معاشرتی ناہمواریاں اور بے انصافیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ لہٰذا ایک نظریاتی خلامحسوس کیا جا رہا تھا جس کو پر کر نے کے لیے اسلام کی طرف واپس آنے کی بجائے سوشلسٹ نظام نافذ کیا گیا اور پھر سارا زور سوشلزم کے طور طریقوں کے مطابق جسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے صرف کیا جانے لگا۔ اور اسلام کا نام فقط برائے نام زبانوں پر رہ گیا۔ کیونکہ اسلام کو نہ جاننے اور نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ فرض کر لیا گیا کہ سوشلزم نے وہی کر دیا ہے کہ جو اسلام چاہتا تھا۔ لہٰذا اب عملی طور پر اسلام اور کس کام آئے گا۔