خدا کی آرزو اور آرٹ کا تعلق، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خدا کی آرزو اور آرٹ کا تعلق
فن کی ہر قسم خواہ وہ مصوری (رنگ) ہو یا تعمیر (خشت) ہو یا مجسمہ سازی (سنگ) ہو یا موسیقی (چنگ) ہو یا شاعری (حرف) ہو یا گانا (صوت) ہو انسان کی آرزوئے حسن سے پیدا ہوتی ہے جس کا اصل مقصود خدا اور صرف خدا ہے۔ اقبال اسی آرزوئے حسن یا خدا کی محبت کو کبھی خون جگر کبھی خون دل اور کبھی جنون کہتا ہے۔ آرزوئے حسن پتھر کی سل کو ایک مجسمہ کی صورت میں تبدیل کر کے دل (یعنی جذبات محبت کا مرکز) بنا دیتی ہے۔ یہی آرزوئے حسن صدا کو پرسوز اور پر سرور بنا کر ایک گانے میں تبدیل کر دیتی ہے۔
فن کے تمام نقوش جو آرزوئے حسن کے اصل مقصود یعنی خدا کی سچی محبت سے بے تعلق ہوں، ناقص اور ناتمام رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح سے وہ نغمہ بھی جو آرزوئے حسن کے اصل مقصود سے بیگانہ ہو بے اثر اور بے سود ہے اور سودائے خام سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ وہ مردہ اور بے معنی ہے اور ایک ایسی آگ کی طرح ہے جو بجھ کر راکھ بن چکی ہو۔ ایسی آگ میں سوز کہاں ہوتا ہے لیکن وہ نغمہ جو خدا کی محبت کے سوز میں ڈوبا ہوا ہو اس کے اثر کی وجہ سے اسے خون دل میں حل کی ہوئی آتش سوزان کہنا چاہئے۔
رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صورت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود،
قطرہ خون جگر سل کو بناتا ہے دل
خون جگر سے صدا، سوز و سرور و سرود
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
٭٭٭
نغمہ مے باید جنون پروردہ
آتشے در خون دل حل کردہ،
نغمہ گر معنی ندارد مردہ ایست
سوز آواز آتش افسردہ ایست
صحیح تصور حقیقت یعنی خدا کے تصور میں وہ سارا حسن موجود ہے جس کی خودی کو آرزو ہے۔ لہٰذا خدا کے ذکر اور فعل جمیل کے ذریعہ سے خودی اس قابل ہو جاتی ہے کہ اپنی آرزوئے حسن کو پوری طرح سے مطمئن کرے اور اس طرح سے اپنی محبت کو درجہ کمال پر پہنچا دے۔ اس مقام پر پہنچ کر خودی کو ذکر اور فکر اور فعل جمیل سے ایسا سرور حاصل ہوتا ہے جو بیان سے باہر ہے۔ لہٰذا جو شخص اس مقام پر پہنچ جاتا ہے اسے وہ سرور ہیچ نظر آتا ہے۔ جو اکثر اشخاص آرٹ یا فن سے حاصل کرتے ہیں اور ایسا شخص اگر فنکار ہو تو وہ اپنے فن سے خود ایسا سرور حاصل کرتا ہے اور اس کو دوسروں کے لئے بھی ایسے سرور سے بھر دیتا ہے جو کسی ایسے فنکار کے لئے ممکن نہیں ہوتا جو خدا کو نہ مانتا ہو یا خدا کو ماننے کے باوجود اپنی محبت کی پوری پوری نشوونما کرنے سے محروم رہ گیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص کا فن اس کے لئے مشاہدہ حسن کی اس لذت کو پھر زندہ کر دیتا ہے جس سے وہ پہلے آشنا ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کا فن محض فن کی حیثیت سے درجہ کمال پر ہوتا ہے۔ بعض اشخاص زندگی کی پریشانیوں سے عارضی طور پر نجات پانے اور تفریح حاصل کرنے کے لئے فن کی پناہ لیتے ہیں۔ ایسے لوگ اس لذت سے نا آشنا ہوتے ہیں جو خدا کی مخلصانہ عبادت میں انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ اگرچہ تمنائے حسن یا خدا کی محبت کے اظہار سے خودی کو جو لذت حاصل ہوتی ہے اس کی نوعیت میں اظہار تمنا کے طریق کے بدل جانے سے کوئی فرق نہیں آتا تاہم تمنائے حسن کے اظہار کے بعض طریقے اس تمنا کی تسکین اور تشفی کے لئے دوسرے طریقوں سے زیادہ موثر ہیں۔ مثلاً خدا کے ذکر کے ذریعہ سے خودی جس قدر اپنی تمنائے حسن کی تشفی یا تسکین کر سکتی ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو آرٹ کے ذریعہ سے ممکن ہوتی ہے۔ لہٰذا ذکر کے ذریعہ سے اس تشفی اور تسکین کے عمل کے دوران خودی کو جو سرور حاصل ہوتا ہے وہ بھی اس سے بہت بڑھ کر ہوتا ہے جو آرٹ کے ذریعہ سے اسے حاصل ہو سکتا ہے۔