سائنس اور وجدان
جب سائنس دان کے پاس نام نہاد ’’مشاہداتی حقائق‘‘ (Observed Facts)(جن کو درحقیقت ہمارا وجدان صورت پذیر کرتا ہے) کی کچھ تعداد فراہم ہو جاتی ہے تو وہ محسوس کرتاہے کہ ان کی تشریح کے لیے بالفاظ دیگر ان کو منظم کر کے ایک وحدت بنانے کے لیے اسے ایک مفروضہ (Hypothesis)یا نظریہ (Theory)کی یا ایک وجدانی یا اعتقادی تصور کی ضرورت ہے۔ لہٰذا وہ اس قس کا ایک وجدانی مفروضہ ایجاد کرتا ہے۔ اگر یہ مفروضہ جو درحقیقت مابعدالطبیعیات کی دنیا سے لایا جاتا ہے فی الواقع ان تمام حقائق کی معقول تشریح کرتا ہو یعنی ان کو منظم کر کے ایک وحدت بناتا ہو تو وہ مفروضہ بھی جب تک کہ ان حقائق کی معقول تشریح کرتا ہو یعنی ان کو ایک منظم کر کے ایک وحدت بناتا ہو تو وہ مفروضہ بھی جب تک کہ ان حقائق کی معقول تشیرح کر رہا ہو ایک ایسی ہی ناقابل یقین حقیقت شمار کیا جا سکتا ہے جیسی کہ کوئی اور علمی حقیقت جس کو سائنس دان مشاہدہ قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ حقیقت سائنس دانوں کے اپنے نقطہ نظر کے مطابق کبھی مشاہدہ میں نہ آئی ہو کیونکہ اس صورت میں کوئی دوسرا مفروضہ ان حقائق کی تشریح نہیں کر سکتا اور اس مفروضہ کی جگہ نہیںلے سکتا۔ گویا سائنس دان ایک غائب چیز کی موجودگی پر اس کے نتائج و اثرات کی وجہ سے یقی کر لیتا ہے۔ یعنی ایمان بالغیب ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے۔
"ویومنون بالغیب"
(وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں)
وجدانی مفروضات کی ضرورت
سائنس دان پر ہی موقوف نہیں ہم اپنی روز مرہ زندگی میں مفروضات ایجاد کرتے رہتے ہیں یعنی بعض تصورات پر ایمان لاتے رہتے ہیں مثلاً یہ کہ کل سورج طلوع ہو گا ۔ یا یہ کہ میرا دوست سخی ہے۔ حالانکہ سور ج کا طلوع ہونا تو یاک مشاہداتی علم ہے لیکن اس کا کل طلوع ہونا ایک مفروضہ ہے جس پر ایمان لانا اہم اپنے بہت سے کام کرتے ہیں۔ اس طرح سے میرے دوست نے آ تک سخاوت کے بہت سے کام کیے ہیں۔ لیکن میرا یہ علم سخاوت اس کی طبیعت کا ایک جزو ہے اور وہ بھی آج کے بعد بھی کوئی کام سخاوت کا کرے گا ایک مشاہداتی علم ہرگز نہیں بلکہ ایک مفروضہ ہے یا وجدانی علم ہے ہماری ساری زندگی عملی دارومدار اسی قسم کے غائب از نظر مابعد الطبیعیاتی یا وجدانی حقائق پر ہے۔ مابعد الطبیعیات ہماری عملی زدنگی کی جان ہے اور اس کے بغیر ہم اپنی زندگی کے راستہ پرایک قدم بھ نہیں چل سکتے۔ بعض لوگوں کو مابعد الطبیعیات سے خواہ مخواہ نفرت ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عملی زندگی مشاہداتی یا معروضی حقائق پر مبنی ہے۔ حالانکہ اگر ان کی عملی زندگی سے مابعد الطبیعیات کو ایک لمحہ کے لیے بھی الگ کر دیا جائے تو ان کی بیشتر حرکات و سکنات یک دم موقوف ہو جائیں۔ ہر وہ حقیقت جس پر ہم یقین کرتے ہیں شروع میں ایک مفروضہ ہی ہوتی ہے پھر جوں جوں نئے نئے حقائق منکشف ہو کر اس مفروضہ کی تائید کرتے جاتے ہیں وہ مفروضہ ہمارے لیے ایک حقیقت میں تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ا س پر ہمارا یقین حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر حقائق جو آشکار ہوتے جاتے ہیں اس مفروضہ کی تائدی نہ کریں تو ہم اس مفروضہ کو غطل سمجھ کر ترک کر دیتے ہیں اور اس قسم کی ناقابل انکار حقیقت کی ایک مثال جس پر سائنس دان ایمان بالغیب رکھتا ہے ’’ایٹم‘‘ ہے جس کے اندرانی نظام کو آج تک دیکھا نہیں گیا ’’ایٹم‘‘ کو ایک مفروضہ کے طور پر آج سے صدیوں پہلے پیش کیا گیا تھا لیکن ان صدیوں میں ہم نے ایتم کے نتائج و ذرات کا یعنی ان وحدتوں کا جن کو ایٹم کا وجدانی تصور جوڑ کر ایک نئی وحدت بناتا ہے جو تجربہ کیا ہے اس نے ایٹم کو آج تک ایک ناقابل علمی حقیقت بنا دیا ہے اور اس حقیقت کا علم یہاں تک موثر ہے کہ ہمیں ناگاساکی اور ہیروشیما کو آن واحد میں تباہ کرنے پر قادر بنا سکتا ہے۔ سائنس دان ایک مفروضہ کو جو اس کے مشاہداتی حقائق کی معقول تشریح کر رہا ہو اسے مشاہداتی حقائق سے کم درجہ کی علمی حقیقت نہیں سمجھ سکتا۔ وہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مشاہداتی حقائق تو سائنس ہیں لیکن یہ مفروضہ جو ان کو منظم کرتا ہے یا ان کی تشریح کرتا ہے سائنس نہیں ۔ بعض وقت الگ تھلگ مشاہداتی حقائق سے زیادہ یہ مفروضہ اس کے کام آتا ہے کیونکہ اس کو اپنی تحقیق او ر تجسس کو جاری رکھنے کے لیے اور نئے نئے مشاہداتی حقائق کو سمجھنے کے لیے ایک بنیادی یا راہ نما تصور کا کام دیتاہے اور اس مفروضہ کے بغیر اس کے مشاہداتی حقائق کی بھی کوئی زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔