عجم کا شعر
شعر کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ وہ خدا کی محبت کی پرورش کرے اور اسے یہاں تک ترقی دے کہ انسان کی خودی باطل کو فنا کرنے کے لئے تلوار کی طرح تیز ہو جائے جس کی وجہ سے انسان دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لئے پرجوش زور دار اور انقلاب آفریں عمل پر آمادہ بن سکے۔ اگر مرغ سحر خیز کا نغمہ گلستان میں رونق نہیں لاتا بلکہ اسے اور بے رونق کر دیتا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ خاموش ہی رہے۔ کائنات کی رونق یہ ہے کہ اس میں حسن اور نیکی اور صداقت کا دور دورہ ہو۔ اگر شاعر کا شعر خدا کی اس کائنات میں بدی اور زشتی کو دور کر کے نیکی اور حسن اور صداقت کے اوصاف کو جو خدا کی محبت کے مقام کمال ہی سے صادر ہو سکتے ہیں، پھیلانے اور عملی طور پر موثر کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو شعر کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ مانا کہ عجم کاشعر بڑا دلکش اور دل آویز اور بڑا زور دار اور موثر ہے یہاں تک کہ پہاڑ کے ٹکڑے اڑا دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ شمشیر خودی کو تیز نہیں کرتا اور اگر ایک پرویز کی سلطنت یعنی باطل کی قوت اس سے شکستہ نہیں ہوتی تو اس کا اثر کس کام کا ہے۔
ہے شعر عجم گرچہ طربناک و دل آویز
اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز
افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستان
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز
وہ ضرب اگر کوہ شکن کبھی ہو تو کیا ہے
جس سے متزلزل نہ ہوئی دولت پرویز
سرود حرام
فقیہوں میں یہ بحث چلی آتی ہے کہ سرود حلال ہے یا حرام لیکن اگر ہم اسرار حیات یا خودی کے اوصاف و خواص کی روشنی میں دیکھیں تو اس بحث کا فیصلہ آسان ہے۔ وہ سرود جو خدا کی محبت سے بیگانہ کرنے والا ہو حرام ہے کیونکہ وہ خودی کے لئے موت کا پیغام ہے اور ظاہر ہے کہ زندگی موت پر مقدم ہے اور ہم زندگی دے کر موت کو خرید نہیں سکتے۔
اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام
حرام میری نگاہوں میں نالے و چنگ و رباب
خودی کے اوصاف و خواص کے پیش نظر خدا کی محبت سے محرومی انسان کے لئے موت ہے۔
ان کہ بے حق زیست جز مردار نیست
گرچہ کس در ماتم او زار نیست
بے شک گانے والے کی لے کی بلندی اور پستی سے جو گانے میں دلکشی پیدا ہوتی ہے اس سے دل کو بڑی مسرت حاصل ہوتی ہے اور اگر دل میں غم یا خوف کی کیفیت موجود ہو تو جاتی رہتی ہے۔ لیکن اگر مغنی کا سرود خدا کی محبت کے جذبہ کو کچلنے والا ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سننے والے کا دل مر جائے گا اور زندہ اور پائندہ نہ رہے گا۔ اگر دل خود ہی مر گیا تو دل کی کشود کس کام آئے گی اگر نوا ایسے دل سے نکلے جس میں خدا کی سچی محبت کا سوز در حقیقت موجود ہو تو اس نوا کے اثر سے ستاروں کا وجود بھی جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کی قسمتوں پر حکمران ہیں پگھل سکتا ہے اور پوری دنیا مغنی کی مرضی کے مطابق بدل سکتی ہے۔ اگرچہ ایسی نوا کائنات میں بالقوہ موجود ہے اور کائنات کی ممکنات میں پوشیدہ ہے۔ تاہم ابھی بافعل اور آشکار نہیں ہوئی۔ ایسا سرود جس کی تاثیر سے آدم مستقل طور پر غم اور خوف سے نجات پا کر
لاخوف علیھم ولا ہم یحزنون
کا مصداق بن جائے اور ایازی یعنی غلامی اور شخص پرستی کا مقام محمود غزنوی یعنی بادشاہت اور بت شکنی کے مقام میں بدل جائے اور یہ پوری کائنات جو مہ و انجم کا ایک حیرت خانہ ہے لا موجود میں شمار ہونے لگے اور صرف تو باقی رہ جائے یا تیرا یہ اعلان کہ سوائے خدا کے اور کوئی موجود نہیں۔ یعنی یہ پرانی کائنات مٹ جائے اور ایک نئی کائنات وجود میں آئے جو تیری اور تیرے محبوب خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ دوسرے لفظوں میں ایسا سرود جسے عارفان خودی جائز اور مشروع سمجھتے ہیں۔ ابھی کسی مطرب کا منتظر ہے۔ مراد یہ ہے کہ کائنات خدا کی مرضی کے مطابق ضرور بدل کر رہے گی۔ لیکن اس تبدیلی کا ذریعہ ایک ایسا نغمہ ہی ہو سکتا ہے جس کی تاثیر سے لوگوں کے دل خدا کی محبت کے سوز سے پگھل جائیں۔
کھل تو جاتا ہے مغنی کے بم و زیر سے دل
نہ رہا زندہ و پائندہ تو کیا دل کی کشود،
ہے ابھی سینہ افلاک میں پنہاں وہ نوا،
جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود
جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک
اور پیدا ہو ایازی سے مقام محمود
مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے،
تو رہے اور ترا زمزمہ لا موجود،
جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہاں خودی
منظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود