علامہ شبلی نعمانی ؒ اور تحریک ندوۃ العلماء

 1857ء  کے بعد


اٹھارہ سو ستاون کا دور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے خصوصاً بڑی آزمائش کا دو رتھا ۔ اس کی وجہ بہت صاف یہ تھی کہ 1857میں ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے ہندوستانیوں کی طرف سے ایک متحدہ اور منظم بڑی کوشش ہوئی ،جس میں مسلمان پیش پیش تھے۔ اس بڑی کوشش کو انگریزوں نے شاطرانہ طورپرغدر کانام دیا، لیکن اس غدر میں مسلمان پورے طور پر کامیاب نہیں ہوسکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں اور خصوصاً علمائے کرام کو سولیوں پر چڑھایا گیا اور عبرت ناک سزائیں دی گئیں۔ لیکن مسلم لیڈران اور علمائے کرام ہار ماننے والے نہ تھے ، قربانیاں دیتے رہے اور کمرٹوٹی قوم کو سہارا دینے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کوششوں نے کبھی دارالعلوم دیوبند کی شکل اختیار کی تو کبھی علی گڑھ کالج کی اور کبھی تحریک ندوۃ العلما کی۔

تحریک ندوۃ العلماء 


یہ تمام تحریکیں اورکوششیں دراصل قوم کے تن مردہ میں شاہین کا جگر پیدا کرنے کا خواب سجائے ہوئے تھیں۔ انہیں رہنمائوں میں سے ایک بڑا نام حضرت مولانا شبلی نعمانی کا ہے۔ ان کی اہم ترین خصوصیات میں ملت اسلامیہ کی موجودہ پسماندگی سے بے چینی، ملت کے شاندار ماضی کی یاد اور اس کی بحالی کے لیے کچھ نہ کچھ کرڈالنے کا جذبہ اور زمانے کے قدیم وجدید کے درمیان ایک متوازن ربط پیدا کرنے کی خواہش موجزن تھی، جس کو انہوںنے اپنی مؤثر اور بلیغ منظومات اور مصنفات و مضامین میں پیش کیا ۔ علامہ شبلی کے دور میں ایک بہت بڑی بدنصیبی یہ رہی ہے کہ ایک طرف انگریزوں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا تھا تو دوسری طرف مسلمان خود آپس کی مسلکی لڑائیوں میں گتھم گتھا تھے ۔ ان حالات نے سنجیدہ طبقہ علماء کو بڑا رنجیدہ کیا  اور سرجوڑ کر کچھ نہ کچھ کر ڈالنے کی فکریں ہونے لگیں۔ انہیں دنوں 1892میں مدرسہ فیض عام کانپور میں طلبہ کا جلسۂ دستاربندی ہوا۔

اس موقع پر سر برآوردہ اور فکر مند علماء مجتمع تھے۔ چنانچہ اسی اجلاس میں سب کے باہمی مشورے سے یہ طے پایا کہ مسلمانوں کو انتشار سے دور کرنے اور انہیں متحد رکھنے کے لیے علماء کی ایک مشترکہ مجلس قائم کی جائے۔ چنانچہ ندوۃ العلماء کے نام سے یہ مجلس قائم ہوئی، جس میں خصوصیت کے ساتھ ہر مسلک کے علماء کو نمائندگی دی گئی۔ ندوۃ العلماء کی روح پرورآواز جب قوم کے کانوں سے ٹکرائی، تو مسلمانوں میں جوش و خروش کی ایک لہر دوڑ گئی ، علماء ہر طرف سے آکر اس میں شریک ہونے لگے اور بقول علامہ سید سلیمان ندویؒ، اس صدا پر سب سے پہلے لبیک کہنے والوں میں ایک نام اس کا بھی تھا، جس کے دل میں رہ رہ کر ان مدرسوں کی زبوں حالی ابتری اورضروریات زمانہ سے بے خبری کا درد اٹھتاتھا (یعنی علامہ شبلی نعمانی)۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء 


 ندوۃ العلماء کا پہلا اجلاس 22اپریل1894میںکانپور میں ہوا، جس میں علامہ شبلی نے مولانا لطف اللہ صاحب کی صدارت کی تحریک کی اور مولانا محمد حسین صاحب الہ آبادی نے تائید کی، خاص بات یہ رہی کہ اس میں ہر فرقے کے صنادید علماء شریک ہوئے۔

دوسرا اجلاس لکھنؤ1895میں ہوا ، جس میں علامہ نے علماء کے فرائض پر ایسی مؤثر تقریر کی کہ آج بھی وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

 تیسرا اجلاس اپریل1896 میں بانس بریلی میں ہوا ۔ اس اجلاس کے جلسۂ خاص میں ندوۃ العلماء کے تحت ایک دارالعلوم اور دارالعلوم کے لیے ایک الگ مجلس کی تجویز منظور ہوئی۔ اس مجلس کے قواعد علامہ شبلی نعمانی نے تیار کیے او روہ اراکین کے پاس بھیجے گئے۔

 ندوہ کا چوتھاجلسہ مارچ 1897میں میرٹھ میں ہوا تھا۔ اس جلسے میں حضرت علامہ نے دارالعلوم کی ضرورت اور مقصد پر ڈیڑھ گھنٹے کی ایک نہایت مفید اور اثر انگیز تقریر فرمائی ، جس کو سن کر ہر فرد جوش اور فرط انبساط سے محو حیرت تھا ۔ اس اجلاس میں مولانا شاہ سلیمان صاحب پھلواری نے ایک تجویز یہ پیش کی کہ ندوے کے ذہین طلبا کو علوم کی مزید تکمیل کے لیے مصر بھیجا جائے ۔ علامہ شبلی نے اس کی تائید کی اور قوم سے اس کے لیے علیحدہ چند کی تحریک کی، جس پر عمل بھی ہو ا۔

دارالعلوم کی تجویز تو منظور ہوچکی تھی اور کانپور میں بالفعل کام شروع بھی کردیا گیا تھا۔ تاہم اب تک کوئی مستقل جگہ ندوے کو نہیں ملی تھی۔

 پانچویں اجلاس ندوہ میں ناظم ندوہ مولانا سید علی صاحب کی تحریک پر ایک وفد اسی غرض کو لے کر لکھنؤ روانہ ہوا۔ اس وفد میں علامہ بھی شامل تھے۔ جب ندوہ کی شہرت کے پھول کھلنے لگے ، تو حکومت کو اس سے کچھ بد گمانی ہوئی۔ چنانچہ علامہ شبلی کی تحریک پر منشی محمد اطہر علی صاحب اور رئیس سندیلہ چودھری نصرت علی کو حکومت کے پاس بھیجا گیا ۔ بدگمانیاں نہ صرف یہ کہ دور ہوئیں بلکہ گورنمنٹ نے 500روپے ماہانہ کی امداد بھی منظور کی۔ اس طرح دارالعلوم کے ابتدائی درجوں کے مصارف کے سلسلے میں علامہ نے خود علماء سے چندے کیے اورایک شاندار روایت کی بنیاد ڈالی اور علما کے سرسے یہ الزام رفع کیا کہ وہ صرف چندہ مانگتے ہیں چندہ دیتے نہیں۔

ندوہ علامہ کی تمام دلچسپیوں کا مرکز بناہوا تھا ، تاہم ندوے میں مستقل قیام کی نوبت اب تک نہیں آئی تھی۔ علامہ کا ندوے میں مستقل قیام اور تشریف آوری اپریل 1905 میں بحیثیت معتمد تعلیمات ہوئی۔ اس بات سے ہر ایک کو بے پناہ خوشی ہوئی۔ جوش اشتیاق اور فرط مسرت میں طلبا نے تقاریب منعقد کیں، تقریریں ہوئیں نظمیں کہی گئیں۔ شبلی ایک دیدہ ور اور بیدار مغز انسان کانام تھا، جہاں تک ان کی نگاہیں پہنچی تھیں، دوسروں کی نگاہیں وہاں تک پہنچنے سے عموما قاصر رہتی تھیں۔ وہ سرعت ادراک میںد وسروں سے بہت بڑھے ہوئے تھے۔ وہ ایک طرف یورپ کی علمی وسیاسی طاقت وقوت کا مشاہدہ کررہے تھے، تو دوسری طرف مشرق کی علمی بیبضاعتی اور سیاسی پسماندگی کو دیکھ رہے تھے۔ وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ مستشرقین نے اسلام اوراہل اسلام کی تاریخ کو مسخ کرنے کا بیڑہ اٹھار کھا ہے اوراندرون ملک یہ حالت کہ مسلمانوں کو آپسی سر پھٹول ہی سے فرصت نہیں تھی، جب کہ عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کی دین وایمان پر ڈاکہ زنی نت نئے گل کھلارہی تھی۔ ان حالات نے بجا طورپر علامہ کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ قوم کو جو صلاحیتیں اس وقت درکار ہیں، قدیمی نصاب سے کما حقہ وہ ممکن نہیں ۔ اور ندوۃ العلماء کو جس چیز نے مولانا کو اپنا نصب العین بنالینے پر آمادہ کیا تھا ، وہ خصوصاً تھی بھی یہی، جو مسلمانوں کے لیے ایک جامع تعلیم کی ایسی صورت بن سکے جس سے قدیم صالح اور جدید نافع کے حامل افراد وجود میں آسکیں اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرسکیں۔

اصلاح نصاب 


لہٰذا مولانا نے اصلاح نصاب کا انقلابی قدم اٹھایا، ترجمان ندوہ ’’الندوہ‘‘ میں اس کی خوب وضاحتیں فرمائیں ۔ تقریروں میں اس کے فائدوں پر کھل کر روشنی دالی، لیکن مولانا کی یہ باتیں عموماً قوم کے سمجھ میں نہیں آئیں ۔ بڑی لے دے ہوئی، دقتوں اور مباحثوں کی سنگلاخ وادیوں سے گزرنا پڑا۔ تاہم مولانا کے جنوں کے سامنے سب کو اپنے ہتھیار رکھنے پڑے۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ رقم طراز ہیں، ’’زمانے کے پے درپے انقلابات کے بعد آخر ان علمائے کرام کو بھی، جن کو شروع میں قدیم نصاب عربی کی اصلاح کی تجویزوں سے اختلاف تھا ، علامہ کا ہم نوا ہونا پڑا۔ 

جمعیۃ العلماء کے اجلاس لاہور منعقد 4/3/2ربیع الثانی1361ھ میں جناب مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند کی تائید سے یہ تجویز ہمارے سامنے ہے۔‘‘ بحوالہ حیات شبلی345

لہٰذا جنوری1904میں مدراس میں ایک جلسہ ہوا، جس میں طے ہو اکہ ملا عبدالقیوم، مولوی سید عبدالحئی اور علامہ شبلی باہم ملکر ایک نصاب بنائیں۔ چنانچہ وہ نصاب بنایا گیا، جس میں جز غالب علامہ کی ترمیمات کا تھا، منطق و فلسفہ کی ضرورت سے زائد کتابوں کو نکال دیا گیا اور انگریزی ، سائنس ، جدید فلسفہ اور ریاضی کو شامل نصاب کیا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مولوی ضیا الحق علوی، مولاناسید سلیمان ندوی،ؒ مولاناعبدالباری ندوی، مولوی زین العابدین ندوی، مولوی احمد اللہ ندوی، پروفیسر مظفرالدین ندوی ، حاجی معین الدین ندوی وغیرہ نے انگریزوں کے ذریعہ گرانقدر اور وقیع دینی خدمات انجام دیں۔ علامہ نے باقاعدہ ایک پنڈت جی کو رکھ کر طلبا میں ہندی وسنسکرت کی مہارت پید اکرائی، جس میں لائق وفائق طلبا تیار ہوئے۔

عربی زبان کا جدید نصاب


آپ کی شروع ہی سے ایک خاص کوشش یہ رہی کہ عربی زبان کو ایک زندہ زبان کی حیثیت سے ہم اپنی زندگی میں برتنے والے بن جائیں۔ لہٰذا اس کا معقول انتظام فرما کر اس کا ہیڈ اس شعبے کے شایان شان اپنے مایہ ناز شاگرد علامہ سید سلیمان ندوی کو بنایا۔ یہ پورے ملک میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا، جس نے جدید عربی زبان کے بولنے اور سمجھنے میں پوری شہرت حاصل کی اور بحمداللہ آج بھی اس کا یہ امتیاز قائم ہے۔ ترجمہ و تالیف کے لیے بھی طلبہ کی ایک ہونہار ٹیم کا انتخاب کیا ، جن کی آگے چل کر ایک امتیازی شناخت بنی ۔ دنیا ان کو مولانا جواد علی عبدالسلام ندوی سید سلیمان ندوی وغیرہ کے نام سے جانتی  پہچانتی ہے۔

اساتذہ اور طلبہ کی اختصاصی تربیت 


اچھی تعلیم کے لیے اچھے اساتذہ کی بڑی سخت ضرورت ہوتی ہے، جس کے لیے علامہ نے بڑی جگر سوزی سے کام لیا اوراس کے لیے قاضی تلمذ حسین صاحب ایم اے، مولانا شیرعلی شمس العلمائ، مفتی عبداللہ صاحب ٹونکی ، مولانا فاروق صاحب چریا کوٹی ، شیخ محمد طیب صاحب عربی مکی اور مولانا شبلی جیراجپوری جیسے باکمال اہل علم وفضل سے ندوے کے آسمان علم و ادب پر ایک کہکشاں سجادی۔ علامہ کے اختراعی کارناموں میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے تکمیل کے دو سالہ درجات کھولے، جس کا مقصد یہ تھا کہ عالمیت کے بعد جس فن میں بھی طالب علم خصوصی مہارت اور اختصاص حاصل کرنا چاہے، وہ دوسال مزید محنت کرکے اپنی صلاحیتوں کو نکھارے ا وردرجہ فضیلت حاصل کرے۔ آج اس کی اتباع سے کسی ادارے کو چارہ کار نہیں۔ علامہ کے دماغ میں یہ بات خوب اچھی طرح بیٹھی ہوئی تھی کہ کسی تعلیمی ادارے کے لیے کتب خانہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

وسیع کتب خانہ کی بنیاد 


چنانچہ کتب خانہ کا نظام بھی عمل میں آیا، جس میں بڑے بڑے مشاہیرنے ا پنی نادرونایاب کتابیں وقف کیں۔ خود علامہ نے 1907میں اعظم گڑھ سے اپنا قیمتی کتب خانہ منگواکر ندوے کی نذر کیا۔ آپ کی خصوصی محبت اور توجہ کے نتیجے میں 1909میں کتابوں کی تعداد6282 تک پہنچ چکی تھی۔1913میں جب آپ ندوے سے الگ ہوئے تو یہ تعداد دونی سے اوپر ہوچکی تھی۔

رسالہ " الندوہ " 


علامہ کو ندوے کے ایک ترجمان رسالہ کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس ہورہی تھی۔ چنانچہ 1903 میں ’’الندوہ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ کااجراء عمل میں آیا۔ شروع میں مولانا حبیب الرحمن شیروانی ایڈیٹر رہے، پھر 1905میں خودعلامہ پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی، جن کی مساعی جمیلہ سے رسالہ اور قوم دونوں کو بے شمار قیمتی علمی وادبی مذہبی و تعلیمی تنقیدی و تاریخی فلسفیانہ وسیاسی سوغاتیں ملیں۔ مضامین کی اس رنگا رنگی کو دیکھ کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ علا مہ کی شخصیت ایک ایسے چمنستان کی تھی، جو گلہائے رنگ رنگ کی دلفریبیوں اور خوشیوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔ وہ انوکھے تھے، ان کی تحریر بھی انوکھی تھی، بقول سرسید کے’’ اگر مضمون کو دس شخص بھی لکھیں تو مولوی شبلی کی تحریر نرالی ہوگی۔‘‘

مالی انتظام 


مولانا کو ندوے کی مالیات کی بھی بڑی فکر رہا کرتی۔ اس کے لیے وہ برابر کوشاں رہتے اور کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔ اس کے لیے وہ بھوپال، بمبئی ، حیدرآباد اور مظفرپور وغیرہ کے مستقل اسفار کرتے ۔ اپنے علمی اسفار میں بھی قدیم وجدید ہر قسم کے لوگوں کو اس کی اعانت کی جانب متوجہ کرتے ۔ انہیں کوششوں کی ایک اہم کڑی بلکہ ان کا بڑا کارنامہ یہ رہا کہ ندوہ کی شاندار مرکزی عمارت کے لیے انہیں ریاست بھاول پور سے 50ہزار کی رقم ملی۔ نومبر1908میں عمارت کی بنیاد رکھنے کے لیے مولانا نے ملک کے مختلف الخیال سربرآوردہ لوگوں کو جمع کیا۔ جنوری1910میں سرآغا خان یہاں تشریف لائے ۔ 1912میں ندوے کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے لیے مصر کے مشہور ادیب اور معروف اہل علم وفضل سید رشید رضا مصری کو مدعو فرمایا ۔ 

لاریب علامہ کی ان تمام جگر کا ویوں اور سرگرمیوں نے ندوے کو بے حد فائدہ پہنچایا اور چار دانگ ملک کے بعد چاردانگ عالم میں شہرت کے سامان فراہم کیے۔