اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جنسی اشارات کی بھر مار اور اس کے نتائج

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جنسی اشارات کی بھر مار اور اس کے نتائج 

ایک اخباری  رپوٹ  کے مطابق جنسی رجحانا ت کا امکان ان بچوں میں زیادہ بڑھ جاتا ہے  جو جنسی رجحانات یا کردار پر مشتمل ویڈیوگیمز کھیلتے ہیں ،  اس تحقیق میں  کہا گیا کہ آج کل ہمارے اشتہارات ، ٹی وی اور سینما جنسی اشاروں سے بھرا پڑا ہے ایسے میں ویڈیو گیمز بھی اس سے محفوظ  نہیں ۔ محققین نے یہ بھی کہا کہ فیلم ڈرامہ  اور ویڈیو گیمز میں عورت کو عموما مدد کی طلب گار ،یا  کسی جنسی شی کے روپ میں پیش کیا جا تاہے ۔ان کی تحقیقی اعدا د و شمار سے یہ نتیجہ ثابت ہوا کہ ویڈیو گیمز ، یا جنسی اشارات پر مبنی اشتہارات،  ٹی وی، سینما   سب کاجنسی رجحانا ت سے گہرا تعلق ہے ، محققین نے خبر دار کیا کہ یہ اشارات صر ف  اسکرین تک محدود نہیں رہتے بلکہ دیکھنے والوں کے  ذہن  اور ان کے معمولا ت زندگی کو بھی متاثر کر تے ہیں ۔ یہ تو اس معاشرہ میں رہنے والوں کی بات ہے جہا ں ہر طرح کی جنسی  آزادی ہے ، لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہنے والے 20 کروڑ مسلمانوں کو  کیاہوگیا کہ وہ بھی اپنے ہاتوں سے اپنے نونہالوں کو  اس جنسی دلدل میں دھکیل رہے ہیں ، یہاں تو ایسی  صورت حال ہے کہ کسی بھی ٹی وی چینل  کو لے لیں  خاص کر موبائل کمپنیوں کے اشتہارات نے تو  تباہی مچادی   کہ ایک شریف النفس انسان کے لے بچوں اور فیملی کی موجودگی میں ٹی وی آن کرنا  ناممکن  ہو گیا ۔حالانکہ نیوز چینل جس کو ہر انسان دیکھتا ہے ۔اس کی حالت بھی ناقابل بیان ہے ۔ سوال یہ  پیدا ہوتا ہے کہ کس قانون کے تحت ان کو اجازت دے دی گی کہ وہ جس طرح چاہے اپنے من مانے اشتہارات کے زریعےروز انہ  اخلاق اور شرافت کا جنازہ نکالے ،ایک طرف تو  اس بیانیہ  پر  اعتراض  ہے جس میں پاکستانی معاشرہ  کو اسلامی معاشرہ  میں بدلنے کی  ترغیب دی گی  یعنی قرار داد مقاصد  ۔دوسری طرف ریا ست کی طرف سے  ان لوگوں  کے  خلاف کوئی بیانیہ کیوں مرتب نہیں ہو سکا   جو روزانہ لاکھوں  پاکستانیوں  کے   اخلاق ، شرافت، شرم وحیا   کا جنازہ نکالنے والے کو لگام دیتا ۔اس کے علاوہ  یہ بھی  ایک معمول ہے کہ ہر حکومت کی طرف سے  زور دیا جا تا ہے کہ مرد کسی صورت  عورت کو جنسی تشدد  کا نشانہ نہ بنائے ، عورت کے تحفظ  کے لے قانون سازی بھی کی جاتی ہے  لیکن مرد اور عورت کو جنسی بے راہ روی کی طرف لے جانی والے  راستوں کو  بند کرنے پر  کوئی دھیان نہیں دیا جاتا ۔
 کسی بھی معاشرہ کی ترقی و خوشحالی کی علامت صر ف مادی ترقی ، خوش نما عمارات ، وسیع پارک ، بہترین سڑکیں نہیں  بلکہ مہذب انسان ،نیک انسان بھی  ہے ، اگر معاشرہ  اچھے شریف النفس انسان سے خالی ہو تو ایسا معاشرہ حیوانات رہنے والا جنگل ہی  ہو گا ۔کسی بھی انسانی معاشرہ کی دیرپا ترقی اور خوشحالی کی ضمانت انسانی کردار اور اخلاق   پر ہے ۔اس لے دین اسلام  سب سے زیادہ تعمیر انسان  پر زور دیتاہے اور پاک دامنی ، عفت و عصمت  کو پامال کرنےوالوں کے لے سزا مقرر کرتا ہے ، تہمت ، فحش گوئی ، مرد وزن کے اختلاط کی ممانعت  اور دیگر  احکام اس لے ہیں تا کہ انسانی  معاشرہ  حیوانی جنگل  نہ  بنے   ۔( قرآن نے :" زنا کے قریب ہی مت جاؤ " کہ کر تمام جنسی رجحانات کا سد باب کردیا ہے ، بد قسمتی سے پاکستان جو  اسلامی  احکام پر عمل کے لے ایک تجربہ  گاہ کے طور پر وجود میں آیا تھا اس کاحشر بھی جنسی بے راہ روی کے شکار معاشرے سے مختلف نہیں،  اس کے سد باب کے لے شروع دن سے جو اقدامات ضروری تھے نہیں کیے گیے،جب کہ  اس کے برعکس دن بدن جنسی اشارات پر مبنی اشتہارات میں مسلسل اضافہ  مزید تباہی کا باعث  بنا ،  آج اس کے نتائج کا اندازہ  مختلف اخباری  رپورٹس اور  خبروں سے  لگایا جاسکتاہے ۔ پاکستانی معاشرہ  کو جنسی بے راہ روی سے محفوظ رکھنے ،  ایک نیک معاشرہ میں بدلنے کے لے سخت اقدامات کی ضرورت ہے ، تمام جنسی اشارات اور ترغیبات پر فوری پابندی ہونی چاہیے ۔ ایک پاکیزہ معاشرہ ہی ملک کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے ۔ معاشرہ کی اصلاح  ترقی اور  خوشحالی  کے لے سب سے پہلے  اہل علم ، دانشوروں اور صحافیوں  اور علماء کرام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے  یہی لوگ  معاشرے  کے مستقبل کا رخ متعین کرتے ہیں ۔