اسلام کا اولیں گہوارہ اور ثقافتی منصوبہ بندی - مفکراسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ


ہم کو مرکزِ اسلام اور دعوتِ اسلام کے اولیں گہوارے میں تمدنی یا ثقافتی منصوبہ بندی کی بات کرتے ہوئے یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اس کی ایک ابدی اور ممتاز حیثیت وشخصیت بھی ہے، جسے اولین مقام ملنا چاہیے، اور تمام پروگراموں اور منصوبوں، اصلاح وترقی کی ساری کوششوں اور زمان و مکان کی تمام رعایتوں کو اس کے تابع اور ماتحت ہونا چاہیے، اور رد و قبول اور مغربی تہذیب اور عصری سہولتوں سے اخذ و استفادہ کے ہر موقع پر اس کی اصلیت ہی کو اساس و اصول بنانا چاہیے،اور اس ثقافتی و تربیتی، تعلیمی و تہذیبی منصوبہ سازی کا ایسا مناسب لباس تیار کرنا چاہیے جو اس کی قامت موزوں پر راست آئے اور اس کی معنوی قدرو قیمت اور اس کے اس پیغام سے مطابقت و مناسبت رکھتا ہو جسے وہ ساری انسانیت تک ہر زمانے میں پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔

اسی طرح یہ بات اصول موضوعہ کی طرح طے شدہ رہنی چاہیے کہ جزیرۃ العرب محمد رسول اللہ ﷺ کا لگایا ہوا باغ اور آپ کی دعوت و محنت کا ثمرہ ہے، اس لئے اس پر صرف ان کا، ان کے اصحاب اور ان کی دعوت پر ایمان رکھنے والوں ہی کا حق ہے، اس بنا پر اس جزیرے میں جو اصول اور طرزِ عمل، پروگرام اور منصوبہ اختیار کیا جائے، اس کو اس حقیقت کا آئینہ دار اور اس کے مطابق ہونا چاہیے، اس سرزمین کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر ایسی چیز سے بالکل دور ہو جو اس کی فکری و ایمانی سالمیت کی مخالف ہو اور کی شخصیت کو کمزور کرتی ہو، رسول اللہ ﷺ کی دوربیں نگاہوں نے مستقبل کے اس خطرے کو دیکھتے ہوئے ہی جزیرۃ العرب سے یہود و نصاریٰ کو باہر کردینے کی وصیت فرمائی تھی، اور اس سے منع فرمایا تھا کہ وہاں اسلام کے سوا کسی دوسرے دین ومذہب کا وجود ہو،( ملاحظہ ہو صحیح مسلم اور حدیث کی کتابیں۔) ۱ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی پیمبرانہ وحکیمانہ وصیت صرف جسمانی طور پر ہی غیرمسلموں کے اخراج پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ وہ ان کے ہرقسم کے اثر و رسوخ، اور ان کی دعوت و ثقافت کے اخراج پر مشتمل ہے، جسے ہر ذی شعور سمجھ سکتا ہے۔ 


اس کے علاوہ اس جزیرے میں حرمین شریفین واقع ہیں، یہیں وہ بلدِ امین ہے، جہاں رسول اکرم ﷺ پیدا اور رسالت سے سرفراز ہوئے، اور جہاں حج کا فریضہ اور اس کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں، اسی سرزمین میں وہ محبوب شہر (مدینہ) ہے، جہاں رسول اللہﷺ نے ہجرت فرمائی، جہاں آپ کی مسجد و درس گاہ بنی اور پہلا مثالی اسلامی معاشرہ برپا ہوا اور جہاں سے اسلامی دعوت اور اس کی فتوحات کا آغاز ہوا، یہ ایک عظیم اور ابدی ذمہ داری ہے، اس لئے اس ماحول کو اسلامی زندگی کا صحیح گہوارہ اور اس کا شفاف آئینہ ہونا چاہیے جہاں پہنچ کر ہر شخص کو محسوس ہونا چاہیے کہ وہ اسلام کے گہوارہ میں ہے، جہاں اس کے اصل مذاق و مزاج کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کو ہمیشہ کے لئے مرکز حج اور مسلمانوں کا سالانہ مرجع و ماویٰ بنا دیا ہے، اس لئے انہیں یہ یقین رکھنے کا پورا حق ہے کہ وہ ایک ایسے شہر کا قصد کررہے ہیں جو پاکیزگی کا معدن، دین کا گہوارہ، اور اسلام کا اخلاقی و روحانی دار السلطنت ہے، اور قدرتی طور پر اسلام دشمن رجحانات اور اس کی تعلیم کے مخالف اثرات سے اتنا دور ہے،جس کا عہد حاضر میں تصور کیا جاسکتا ہے، اور اس نے مغربی تہذیب کے آگے عالم اسلام سے دور افتادہ کسی ملک کی طرح ہتھیار نہیں ڈالے جو اس امتیاز اور ذمہ داری کا حامل نہیں۔


اس منصوبہ بندی میں سادگی، اصلیت اور کسی قدر زہد و تقشف کی رعایت بھی رہنی چاہیے جس سے دور دراز مقامات سے آنے والے اس ماحول اور فضا کو محسوس کرسکیں جس میں اگلے مسلمان اپنا حج ادا کرتے تھے، اور ان میں ان جیسا شعور بیدار رہے، ایسا نہ ہو کہ حرم شریف ہی عبادت و سکینت کا ایک مخصوص جزیرہ بن کر رہ جائے، جس کے اردگرد مادی تہذیب کا سمندر موجیں مار رہا ہو، اور اس کی سرکش لہریں ان کی دیواروں سے ٹکرا رہی ہوں اور بڑھتی چلی آتی ہوں۔

-------------------------------------------------------------------------------------------------------

(ماخوز از " مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش" ، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )