کرنسی نوٹ اور اس کا تاریخی پس منظر

 کرنسی سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے دوسری چیزیں خریدی یا بیچی جا سکیں۔ اور اگر یہ چیز کاغذ کی بنی ہو تو یہ کاغذی کرنسی کہلاتی ہے۔

ابراهیم بن اغلب (800ء-812ء) اور عباسی
خلیفہ مامون الرشید (813ء-832ء)
کے دور کا چاندی کا درہم۔

ماضی میں کرنسی مختلف دھاتوں کی بنی ہوتی تھی اور اب بھی چھوٹی مالیت کے سِکّے دھاتوں سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد کاغذی کرنسی بتدریج ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔  مذہب کی طرح کرنسی بھی انسان کو کنٹرول کرتی ہے۔ لیکن مذہب کے برعکس کرنسی حکومتوں کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔

ساڑھے تین سال کی مدت میں 5600 میل کا سفر طے کر کے جب مئی، 1275ء میں مارکو پولو پہلی دفعہ چین پہنچا تو چار چیزیں دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ یہ چیزیں تھیں: جلنے والا پتھر( کوئلہ)، نہ جلنے والے کپڑے کا دسترخوان (ایسبسٹوس) ،کاغذی کرنسی اور شاہی ڈاک کا نظام۔ مارکو پولو لکھتا ہے "آپ کہہ سکتے ہیں کہ ( قبلائی ) خان کو کیمیا گری ( یعنی سونا بنانے کے فن ) میں مہارت حاصل تھی۔ بغیر کسی خرچ کے خان ہر سال یہ دولت اتنی بڑی مقدار میں بنا لیتا تھا جو دنیا کے سارے خزانوں کے برابر ہوتی تھی۔ لیکن چین سے بھی پہلے کاغذی کرنسی جاپان میں استعمال ہوئی۔ جاپان میں یہ کاغذی کرنسی کسی بینک یا بادشاہ نے نہیں بلکہ پگوڈا نے جاری کی تھی۔

مارکوپولو وہ پہلا آدمی تھا جس نے چین میں سینٹرل بینکنگ سیکھی اور وینس واپس آ کریورپ والوں کو سیکھائی۔ اس طرح یورپ میں سینٹرل بینکنگ کا آغاز ہوا جو رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔

کہا جاتا ہے کہ کاغذی کرنسی موجودہ دنیا کا سب سے بڑا دھوکا ہے۔ جولائی، 2006ء کے ایک جریدہ وسہل بلور کے ایک مضمون کا عنوان ہے کہ ڈالر جاری کرنے والا امریکی سینٹرل بینک "فیڈرل ریزرو اس صدی کا سب سے بڑا دھوکا ہے"۔ مشہور برطانوی ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ مسلسل نوٹ چھاپ کر حکومت نہایت خاموشی اور رازداری سے اپنے عوام کی دولت کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہ طریقہ اکثریت کو غریب بنا دیتا ہے مگر چند لوگ امیر ہو جاتے ہیں۔ 1927ء میں بینک آف انگلینڈ کے گورنر جوسیہ سٹیمپ ( جو انگلستان کا دوسرا امیر ترین فرد تھا ) نے کہا تھا کہ"جدید بینکاری نظام بغیر کسی خرچ کے رقم (کرنسی) بناتا ہے۔ یہ غالباً آج تک بنائی گئی سب سے بڑی شعبدہ بازی ہے۔ بینک مالکان پوری دنیا کے مالک ہیں۔ اگر یہ دنیا ان سے چھن بھی جائے لیکن ان کے پاس کرنسی بنانے کا اختیار باقی رہے تو وہ ایک جنبش قلم سے اتنی کرنسی بنا لیں گے کہ دوبارہ دنیا خرید لیں۔.. اگر تم چاہتے ہو کہ بینک مالکان کی غلامی کرتے رہو اور اپنی غلامی کی قیمت بھی ادا کرتے رہو تو بینک مالکان کو کرنسی بنانے دو اور قرضے کنٹرول کرنے دو ۔ بنجمن ڈی اسرائیلی نے کہا تھا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ملک کے عوام بینکاری اور مالیاتی نظام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ اگر وہ یہ سب کچھ جانتے تو مجھے یقین ہے کہ کل صبح سے پہلے بغاوت ہو جاتی۔  روتھسچائلڈ نے 1838 میں کہا تھا کہ مجھے کسی ملک کی کرنسی کنٹرول کرنے دو۔ پھر مجھے پروا نہیں کہ قانون کون بناتا ہے ۔

زر یا زر مبالہ : 

  • روپیہ، پیسہ، نقدی، رقم سکّہ یا کرنسی سے مراد ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے دوسری چیز خریدی یا بیچی جا سکے۔
  • خدمت خریدی یا بیچی جا سکے۔ (خدمت کا معاوضہ، اجرت، مزدوری، تنخواہ، فیس، کمیشن ادا کیا جا سکے۔)
  • کرایہ، قرض، بھتہ اور محصول دیا اور لیا جا سکے۔
  • تحفہ، رشوت، چندہ، خیرات وغیرہ دی اور لی جا سکے۔
  • خون بہا اور مہر ادا کیا جا سکے۔
  • بچت کی جا سکے۔ یہ وہ واحد شرط ہے جو بہت کم کرنسیوں میں ممکن ہوتی ہے۔

کرنسی کو زر یا زرمبادلہ بھی کہتے ہیں۔ روپیہ کی ایجاد سے پہلے لین دین اور تجارت "چیز کے بدلے چیز" (یعنی بارٹر نظام) کے تحت ہوتی تھی مثلاً گندم کی کچھ بوریوں کے عوض ایک گائے خریدی جا سکتی تھی۔ اسی طرح خدمت کے بدلے خدمت یا کوئی چیز ادا کی جاتی تھی۔ لیکن گندم اور گائے کی صورت میں لمبی مدت کے لیے بچت ممکن نہیں ہوتی۔ اس لیے کسی دوسری کرنسی کی ضرورت موجود تھی جس میں بچت بھی آسان ہو۔

کرنسی کی خوبیاں

ہر کرنسی میں چار خوبیاں ہونی چاہئیں:

  • فوری لین دین کی صلاحیت یعنی وسیلۂ مبادلہ; کرنسی میں یہ صلاحیت لوگوں کے اعتبار سے آتی ہے جو ماضی کے تجربات پر منحصر ہوتا ہے۔
  • بچت کی صورت میں قدر کی برقراری یعنی Store of value; کاغذی کرنسی مبادلے کی صلاحیت تو رکھتی ہے مگر قدر کی برقراری نہیں رکھتی ( یعنی وقت گزرنے کے ساتھ اس کی قوت خرید کم ہوتی چلی جاتی ہے)۔ اس کے برعکس سونا قدر کی برقراری تو بہت اچھی رکھتا ہے مگر چھوٹے لین دین کے لیے مناسب نہیں ہے۔
  • منتقلی یا نقل و حمل کی آسانی; مکان اور زمین، اثاثہ تو ہوتے ہیں مگر غیر منقولہ ہونے کی وجہ سے کرنسی نہیں بن سکتے جبکہ الیکٹرونک کرنسی صرف منتقلی کی آسانی کی وجہ سے مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ ماضی میں مویشیوں کو بطور کرنسی صرف اس لیے استعمال کرتے تھے کہ انہیں ضرورت کی جگہ پر ہانک کر منتقل کرنا آسان اور کم خرچ ہوتا تھا۔ دوسرے الفاظ میں کرنسی قوت خرید کو منتقل اور موخّر کرنے کا ذریعہ ہے۔ (Money is a transmitter of value through space and time)
  • کرنسی قابل تقسیم ہونی چاہیے; اگر سونے کے ایک ٹکڑے کے دس حصے کر دیے جائیں تو یہ دس ٹکڑے مل کرلگ بھگ اسی قیمت کے ہوں گے۔ لیکن اگر کسی قالین یا ہیرے کے دس ٹکڑے کر دیے جائیں تو ان ٹکڑوں کی مجموعی قیمت بری طرح گر جائے گی۔

روپیہ، ڈالر یا کسی بھی کرنسی کو اگرچہ تبادلے کا وسیلہ (Medium of Exchange) سمجھا جاتا ہے مگر کرنسی محض ایک خیال کا نام ہے جس پر سب کو اعتبار ہو (Money is an Idea, backed by confidence)۔ لوگوں کا یہ اعتبار ہی کاغذ، پلاسٹک، دھات یا کریڈٹ کارڈ کو کرنسی کا درجہ دیتا ہے۔

مالیات کی زبان میں کرنسی کو اکثر circulating medium کہا جاتا ہے۔ کاغذی کرنسی گردشی قرضوں کی ایک قسم ہوتی ہے۔

"paper money – privately-produced circulating debt"

فروری 2010ء میں امریکی فیڈرل ریزرو کے چیرمین بن برنانکے نے سینٹ کی فائینینس کمیٹی کے سامنے یہ بیان دیا تھا کہ "کرنسی محض بے معنی سماجی رواج ہے"  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کاغذی کرنسی کا رواج قانونی جبر کے ذریعے نافذکیا گیا۔

 قانونی اعتبار سے کرنسی دو طرح کی ہوتی ہیں۔

  • ایسی کرنسی جسے قبول کرنے سے انکار کیا جا سکے مثلاً بینک کا چیک یا انعامی بونڈ ۔ 
  •  ایسی کرنسی جسے قبول کرنے سے انکار کرنا جرم ہو۔ ایسی کرنسی "لیگل ٹینڈر" کہلاتی ہے۔ فرانس میں کاغذی کرنسی کو 10 اپریل 1717ء میں لیگل ٹینڈر قرار دیا گیا۔ 

اگلے سال یہ برطانیہ میں لیگل ٹینڈر بنی۔ ہندوستانی چاندی کا روپیہ 1818ء میں قانونی ٹینڈربنا۔  بینک آف انگلینڈ کے جاری کردہ نوٹوں کو 1833ء میں لیگل ٹینڈر قرار دیا گیا۔

" Money is a social construct....a social tool that acts as an intermediary in transactions."

جب سکے سونے چاندی کے وزن کے لحاظ سے ہوا کرتے تھے اس وقت کرنسی واقعی سماجی رواج (social construct) ہوا کرتی تھی۔ لیکن حکومت اور بینک کے گٹھ جوڑ سے بنی کاغذی یا ڈیجیٹل کرنسی سماجی بناوٹ کی بجائے قانونی مجبوری (legal construct) بن کر رہ گئی ہے۔

کرنسی ایک حق کا نام ہے۔ کرنسی کسی دوسرے سے کچھ طلب کرنے کا حق دیتی ہے۔

" Money is a Right to demand something from someone else."

کرنسی ایک حق ہے جبکہ قرض ایک ذمہ داری ہے۔

" Money is a Right but Debt is a Duty." 

بغیر محنت کرنسی تخلیق کرنے کا حق صرف بینکوں کے پاس ہے۔ جبکہ محنت مشقت کر کے قرض ادا کرنے کی ذمہ داری صرف عوام کے کندھوں پر ہوتی ہے۔ اگر عوام قرض نہ لیں تو بھی انہیں حکومت کا لیا ہوا قرضہ بھرنا پڑتا ہے۔ حکومتی قرض وہ واحد قرض ہے جسے لینے والا کوئی اور ہوتا ہے اور بھرنے والا کوئی اور۔ حکومتی قرضوں نے اُن بچوں کو بھی مقروض بنا دیتا ہے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔

کاغذی کرنسی زبردستی دیا جانے والا قرض ہے جو صرف حکومتی طاقت پر قائم ہے۔ کاغذی کرنسی بددیانتی، بدعنوانی اور فریب کا جال ہے جو مکاروں کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔

Fiat paper money exists only through the monopolistic force of the state. Paper money is dishonest, corrupt, deceitful, and is managed by a cartel.[Debt without consent: The tragedy of monopolized fiat money]

کاغذی دولت کا دوہرا کردار

کرنسی چھاپنے والا شخص، ادارہ یا ملک ایک عجیب و غریب صلاحیت کا مالک بن جاتا ہے۔ وہ مارکیٹ سے کوئی بھی چیز خرید کر اسے کم قیمت میں فروخت کر سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے نقصان کو نوٹ چھاپ کر پورا کر سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی اور یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس طرح وہ مارکیٹ میں کسی بھی چیز کی قیمت گرا سکتا ہے۔

“It’s a controlled market – this is not a free market! Energy is probably the most controlled market in the world, food being second.”[  The World of Central Banker Asset Price Manipulation]

The idea of colonising, to purchase, at a dearer rate, the tropical productions, is quite new.[ Zachary Macaulay - 1827 - ‎Antislavery movements]

یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا کی پیداوار کی قیمت گرتی جا رہی ہے جبکہ کیپیٹلسٹ ممالک کی پیداوار مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جا رہی ہیں۔ جب تک کرنسی سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی تب تک یہ ممکن نہ تھا۔

کرنسی تخلیق کرنے والا اسٹاک مارکیٹ میں کسی بھی شیئر کی قیمت گرا یا بڑھا سکتا ہے۔

Central banks in the US, Japan, Europe, and elsewhere have enormous powers that they have used without batting an eye, rigging and manipulating markets, destroying livelihoods on one side and shifting enormous wealth to a small number of players on the other side.[ Central banks are 'rigging and manipulating markets'-Business insider, The Three Pillars]

یہی وجہ ہے جس ملک میں بھی کاغذی یا ڈیجیٹل کرنسی تخلیق کرنے والا سینٹرل بینک موجود ہوتا ہے وہاں اسٹاک مارکیٹ لازماً موجود ہوتی ہے۔

9 اپریل 2020ء تک امریکی سینٹرل بینک کی بیلنس شیٹ ڈیجیٹل کرنسی تخلیق کر کے صرف ایک مہینے میں 4000 ارب ڈالر سے بڑھ کر 6000 ارب ڈالر ہو گئی ہے تاکہ اسٹاک اور بونڈ مارکیٹ کے ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔

1919ء میں ہٹلر یہ جان کر سخت حیران ہوا تھا کہ اسٹاک ایکسچینج میں استعمال ہونے والے کیپیٹل (بینکنگ کریڈٹ) اور (معیشت کو) قرض دیے جانے والے کیپیٹل (تجارتی کریڈٹ) میں بڑا فرق ہے۔ اُسے سمجھ میں آ گیا تھا کہ بین الاقوامی سرمائے سے اپنے ملک کو بچانے کے لیے ملکی معیشت کو اسٹاک مارکیٹ سے الگ رکھنا پڑے گا۔ 1926ء میں اپنی خودنوشت  مائن کیمف (میری جدوجہد) میں وہ لکھتا ہے ۔ 

"For the first time in my life I heard a discussion which dealt with the principles of stock exchange capital and capital "which was used for loan activities.[ The Great Story Never Told]

عوام کی کرنسی اور بینک کی کرنسی (کریڈٹ) دو بالکل مختلف چیزیں ہوتی ہیں۔ عوام نوٹ یا سکے استعمال کرتے ہیں لیکن بینک کھاتہ کرنسی  (زر اعتبار) استعمال کرتے ہیں جیسے چیک، ڈرافٹ وغیرہ ۔ 

Money is medium of exchange (for people) and a record of account (for bankers)۔ Demand (and thus value) for a money increases if it is easy to transfer with low transaction/storage costs, and have low risk and high returns (when invested)۔[ Why Don't the U.S. Dollar and Bitcoin Drop to Their Tangible Value, i.e. Zero?]

عوام کے لیے کرنسی تبادلے کا وسیلہ ہوتی ہے لیکن جاری کنندہ کے لیے کرنسی عوام کی دولت چوسنے کا آلہ ہوتی ہے۔

کاغذی کرنسی کا جاری ہونا زبردستی قرضے کی بدترین مثال ہے۔ لینن

" issuing of paper money constitutes the worst form of compulsory loan " [ Inflation as a Tool of the Radical Left]

کاغذی دولت پوری دنیا کو کنٹرول کرنے کا ایک بہترین اوزار ہے۔

money as we know it is actually nothing but an illusion and is one of – if not the, biggest tools of control for the ruling elite of our world today.[ the illuminati and money]

"مقروض آدمی با آسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ مقروض ملک بھی با آسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ قرض کا جال خفیہ ہوتا ہے اور اس مفروضے پر انحصار رکھتا ہے کہ یہ سب کی آزادانہ مرضی ہے جبکہ یہ سب (خود ساختہ) 'قانون' کے بوجھ تلے ہوتا ہے۔۔۔ قرض کی بنیاد پر کرنسی کے اجرا نے پچھلے ہزار سالوں میں معاشرت کو بالکل بدل ڈالا۔ اس نے زبردستی کی غلامی کو رضاکارانہ غلامی میں تبدیل کر دیا جس کا فائیدہ صرف چند بینکرز کو ہوتا ہے۔"

"A person in debt is a person controlled…A nation in debt is a nation controlled. The debt trap is especially insidious, and it relies on the illusion of free will combined with the full weight of ‘the law.’ ...the introduction of debt-based money was arguably the most course-altering invention of the past thousand years. It transformed millions of human slaves kept in check by threat of power and physical coercion (if not death) into billions of humans perfectly willing to hand over their labor to a very few elites at the top who did little to no work themselves."[ The End Of Our Empire Approaches]

"دنیا میں درحقیقت صرف ایک حکومت ہے اور وہ سرمائے کی حکومت ہے۔ ہر حکومت جو کاغذی سرمائے کو اپنی معیشت میں داخل ہونے دیتی ہے وہ سرمائے کی حکومت کی غلام ہے۔"

Every nation that allows capital to flow into its economy is subservient to the Empire of Finance. Every nation with capital and debt markets exposed to (or dependent on) global financial flows is just another fiefdom in the Empire of Finance.[ There Is Only One Empire: Finance]

ماضی کی کرنسیاں

ماضی میں بہت ساری مختلف اشیا رقم یا کرنسی کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں جن میں مختلف طرح کی سیپیاں، چاول، نمک، مصالحے، خوبصورت پتھر، اوزار، گھریلو جانور اور انسان (غلام، کنیز) شامل ہیں۔

  • حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے زمانے تک چین میں چاقو کرنسی کی حیثیت رکھتا تھا۔
  • افریقہ میں ہاتھی کے دانت کرنسی کا درجہ رکھتے تھے۔
  • پہلی جنگ عظیم تک نمک اور بندوق کے کارتوس امریکا اور افریقہ کے بعض حصوں میں کرنسی کے طور پر استعمال ہوتے رہے۔
  • دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد آسٹریا میں فلیٹ کا ماہانہ کرایہ سگریٹ کے دو پیکٹ تھا۔
  • جزائر فجی میں انیسویں صدی تک سفید حوت (sperm whale) کے دانت بطور کرنسی استعمال ہوتے تھے۔ ایک دانت کے بدلے ایک کشتی خریدی جا سکتی تھی یا خون بہا یا مہر ادا کیا جا سکتا تھا۔
  • انگولا کی خانہ جنگی (1975ء سے 2002ء) کے دوران میں بیئر کی بوتلیں بطور کرنسی استعمال ہوئیں۔
  • ایران میں کبھی کبھار ادائیگی زعفران کی شکل میں کی جاتی تھی۔
  • ماضی میں تمباکو، خشک مچھلی، چائے، چینی اور چمڑے کے ٹکڑے بطور کرنسی استعمال ہو چکے ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ

  • سونا بادشاہوں کی کرنسی رہا ہے۔
  • چاندی امرا اور شرفاء کی کرنسی ہوا کرتی تھی۔
  • چیز کے بدلے چیز کا نظام یعنی بارٹر سسٹم کسانوں اور مزدوروں کی کرنسی تھی اور
  • قرض غلاموں کی کرنسی ہوا کرتی تھی۔

ادائیگی کا وعدہ

ادائیگی کا التوا دولت سازی کے مترادف ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ ادائیگی کا وعدہ، خواہ زبانی ہی کیوں نہ ہو، کرنسی کے برابر ہوتا ہے، گرچہ کہ صرف دو آدمیوں کے درمیان میں ہوتا ہے۔ اور تحریری وعدہ تو کرنسی کی طرح زیر گردش (circulation) بھی آ سکتا ہے (جیسے حامل ٰہذا کو مطالبے پر ادا کروں گا)۔ دوسرے الفاظ میں قرض (کریڈٹ) بھی کرنسی ہی کی ایک قسم ہے۔  لیکن فوری ادائیگی (spot trade) کے برعکس قرضہ (ادائیگی کا وعدہ) ڈوب سکتا ہے۔

سونے چاندی یا دوسری دھاتوں کے ذریعہ کی جانے والی لین دین مقایضہ نظام (Barter System) ہی کی ایک شکل ہوتی ہے جس میں ادائیگی مکمل ہو جاتی ہے (یعنی قوت خرید منتقل ہوتی ہے)۔ کاغذی کرنسی سے کی جانے والی ادائیگی درحقیقت ادائیگی نہیں بلکہ محض آئندہ ادائیگی کا وعدہ ہوتی ہے جو کبھی پورا نہیں ہوتا۔ یعنی کاغذی کرنسی میں ادائیگی دراصل قرض کی منتقلی ہوتی ہے۔ اس قرض کی ادائیگی کا ضامن سینٹرل بینک ہوتا ہے جس کی پشت پناہی حکومت کرتی ہے۔ بینک کے قوانین ہر چند سال بعد تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن سونا ہزار سال بعد بھی تبدیل نہیں ہوتا۔

جب بارٹر سسٹم کے تحت لین دین ہوتی ہے تو خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان میں کوئی بینکر نہیں ہوتا۔ لیکن جب کاغذی کرنسی کے تحت ادائیگی کی جاتی ہے تو نظر نہ آنے کے باوجود خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان میں نہ صرف بینکر موجود ہوتا ہے بلکہ اپنے حصے کا منافع وصول بھی کرتا ہے۔ اگر جاپان قطر سے تیل خریدے اور ڈالر میں ادائیگی کرے تو امریکی بینکاروں کو اس سودے پر اپنے حصے کا منافع خودبخود مل جاتا ہے۔

دھاتی کرنسی یا بارٹر سسٹم کے ذریعے اجنبیوں کے درمیان میں بھی لین دین ہو سکتی ہے۔

قرض اور ادائیگی کے وعدے کے ذریعے اجنبی اُس وقت تک آپس میں خرید و فروخت نہیں کر سکتے جب تک درمیان میں کوئی ضامن نہ ہو۔  یعنی اگر کرنسی ہارڈ ہو تو ضامن قدر کھو دیتا ہے۔ اس لیے سینٹرل بینک ہارڈ کرنسی کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام (capitalism) کی بنیاد امید ہے۔ امید کہ انویسٹر کو اپنی سرمایہ کاری پر زیادہ سود ملے گا۔ اور اسی امید پر ہی لوگ اپنی اصل دولت بینکاروں کے حوالے کر دیتے ہیں جو رقم بڑھا کر ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے۔

ہر پونزی اسکیم کا لازمی جز ادائیگی کا وعدہ ہوتا ہے (جو امید قائم رکھتا ہے)۔ اگر ادائیگی فوری ہو (یعنی spot trade) تو کوئی بھی پونزی اسکیم پنپ نہیں سکتی۔ ادائیگی کا وعدہ درحقیقت چور دروازہ کھلا رکھتا ہے۔

جب لگ بھگ 1440ء میں چھاپہ خانہ ایجاد ہوا تو پڑھے لکھے لوگوں نے کتابیں، رسالے، اخبارات وغیرہ لکھ کر کچھ پیسہ کمایا۔ لیکن چالاک لوگوں نے بونڈ، شیئر اور کرنسی چھاپ کر بے تحاشہ پیسہ بنایا۔ انیسویں صدی کے وسط میں جب ٹیلی گرافی ایجاد ہوئی تو لوگوں نے اسے خبریں بھیجنے کے لیے استعمال کیا۔ لیکن بینکوں نے ٹیلی گرافک ٹرانسفر کے ذریعے ساری دنیا کی دولت لوٹی۔ درحقیقت سمندروں کی تہ میں ہزاروں میل لمبی ٹیلی گرافی کی لائینیں بچھانے والے لوگ یہی بینکار تھے۔ 1870ء تک لندن سے بمبئی تک ٹیلی گراف لائن کام شروع کر چکی تھی جو صرف چند منٹ میں پیغام یا بینک ڈرافٹ (ادائیگی کا تحریری وعدہ) ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچا دیتی تھی۔  ٹیلی گرافک ٹرانسفر کی ایجاد سے پہلے شرح تبادلہ (exchange rate) طلب و رسد کے مطابق مارکیٹ میں طے ہوتی تھی۔ لیکن اس ایجاد نے یہ حق مارکیٹ سے چھین کر بینکاروں کے حوالے کر دیا اور مارکٹیں بینکاروں کے ماتحت ہو گئیں  ۔ اسی کے بعد چاندی کی قیمت بلحاظ سونا تیزی سے گرنے لگی۔

ٹیلی گرافی نے بینکنگ انڈسٹری میں پہلا انقلاب لا کر دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا۔

The financial world was changed forever when the telegraph gave the banking industry its first technological breakthrough. [ Breakthrough Banking: The Technology Is Here, the Revolution Has Begun]

the telegraph fostered modern financial instruments such as telegraphic transfer and settlement

ٹیلی گرافی اپنی نئی اور ترقی یافتہ شکل میں آج بھی بینکوں کو حاکمیت عطا کرتی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت SWIFT ہے جسے امریکا دوسرے ممالک کو دھمکی دینے کے لیے کھلم کھلا استعمال کرتا ہے۔

اگلے دور میں سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (CBDC) بھی ایسا ہی کوئی گُل کھلائے گی۔

پانچ ہزار سال قبل چاندی کے خام ڈلے بطور کرنسی استعمال ہوئے۔ هيرودوت کے مطابق سب سے پہلے ترکی کے صوبے مانیسہ کے ایک علاقے لیڈیا میں سونے اور چاندی پر مہر لگا کر سکّے بنانے کا کام 600 صدی قبل از مسیح شروع کیا گیا تھا۔ سکے بنانے سے تولنے کی ضرورت ختم ہو گئی اور محض گن کر کام چلایا جانے لگا۔ سکوں پر موجود مہر اس کے وزن اور خالصیت کی ضمانت ہوتی تھی۔

سکّوں کی تاریخ

پانچ ہزار سال قبل چاندی کے خام ڈلے بطور کرنسی استعمال ہوئے۔ هيرودوت کے مطابق سب سے پہلے ترکی کے صوبے مانیسہ کے ایک علاقے لیڈیا میں سونے اور چاندی پر مہر لگا کر سکّے بنانے کا کام 600 صدی قبل از مسیح شروع کیا گیا تھا۔ سکے بنانے سے تولنے کی ضرورت ختم ہو گئی اور محض گن کر کام چلایا جانے لگا۔ سکوں پر موجود مہر اس کے وزن اور خالصیت کی ضمانت ہوتی تھی۔ 

قدیم چین کے سکّے گول ہوتے تھے جن میں چوکور سراخ ہوتا تھا جس کی مدد سے یہ ڈوری یا تار میں پروے جا سکتے تھے۔ چین میں یہ سکے کیش کہلاتے تھے۔

امریکی ڈالر بھی کسی زمانے میں چاندی کا سکہ ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح برطانوی پاونڈ سے مراد ایک پاونڈ وزن کی چاندی (Sterling) ہوا کرتی تھی۔

اٹھارویں صدی میں ہسپانوی ڈالر یورپ امریکا اور مشرق بعید میں تجارت کے لیے بہت استعمال ہوتا تھا۔ یہ چاندی کا سکّہ تھا جس میں 25.56 گرام خالص چاندی ہوتی تھی۔ اسی کی طرز پر بعد میں امریکی ڈالر بنایا گیا تھا۔

پہلا امریکی ڈالر 1794ء میں بنایا گیا جس میں 89.25% چاندی (21.42 قیراط) اور 10.75% تانبہ ہوتا تھا۔

امریکا کے 1792ء کے سکوں سے متعلق قانون کے مطابق ایک امریکی ڈالر کے سکے میں 24.1 گرام خالص چاندی ہوتی تھی۔ 1792ء سے 1873ء تک سونا چاندی سے 15 گنا مہنگا ہوتا تھا۔[73] امریکا کی دریافت کے بعد جیسے جیسے چاندی کی نئی کانیں دریافت ہوتی چلی گئیں چاندی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اب سونا چاندی سے 70 گنا سے زیادہ مہنگا ہے۔

سنہ 1900ء میں امریکا میں طلائی معیار (گولڈ اسٹینڈرڈ) کا قانون لاگو ہوا جس پر صدر ولیم میک کنلے کے دستخط تھے۔ اس قانون کے تحت صرف سونا کرنسی قرار پایا اور چاندی سے سونے کا تبادلہ روک دیا گیا کیونکہ چاندی کی قیمتیں گر رہی تھیں اور چاندی کی دستیابی بڑھنے کی وجہ سے بڑے بینکوں کے لیے چاندی پر اجارہ داری برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا اور کاغذی کرنسی کے رواج کو مستحکم کرنے کی ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھیں۔ اس قانون کے مطابق 20.67 ڈالر ایک ٹرائے اونس (31.1 گرام) سونے کے برابر قرار پائے۔ 25 اپریل 1933ء کو امریکا اور کینیڈا نے معیار سونا ترک کر دیا کیونکہ اس سال امریکا میں عوام پہ سونا رکھنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

پہلے سکّے اپنی اصل مالیت کے ہوا کرتے تھے یعنی ان میں جتنے کی دھات ہوتی تھی اتنی ہی قدر ان پر لکھی ہوتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ سکّے جاری کرنے والی حکومتیں کم قیمت کی دھات پر زیادہ قدر لکھنے لگیں۔ آج کل سِکّوں پر لکھی ہوئی قدر ان کی اصل قیمت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے سکے ٹوکن منی کہلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک یورو کے سکے میں موجود دھات کی قیمت ایک یورو کا بیسواں حصہ ہوتی ہے۔

اگر کسی وجہ سے سکّوں پر لکھی ہوئی رقم دھات کی مالیت سے کم ہو جائے تو لوگ سکّے پگھلا کر استعمال کی دوسری دھاتی چیزیں بنا لیتے ہیں۔ 1917ء میں ہندوستانی روپیہ پگھلا کر لوگوں نے بڑی مقدار میں چاندی اسمگل کی۔

1947ء میں جب آزادی برطانوی ہند عمل میں آئی تو پاکستانی کرنسی کا وجود نہ تھا اس لیے برطانوی ہند کے روپیہ پر پاکستان کی مہر لگا کر استعمال کیا گیا۔[74] 1948ء میں پاکستان نے اپنی کاغذی کرنسی چھاپی اور دھاتی سکّے بھی جاری کیے۔ اس وقت ایک روپیہ میں سولہ آنے ہوتے تھے اور ہر آنے میں چار پیسے۔ ایک پیسہ تین پائ کے برابر تھا یعنی ایک روپے میں 64 پیسے یا 192 پائی ہوتی تھیں۔

سکّے

ہزاروں سال پہلے جو (barley) رقم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مگر ایسی چیزوں کو رقم کے طور پر استعمال کرنے میں یہ خرابی تھی کہ انہیں عرصے تک محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا اس لیے دھاتوں کا رقم کے طور پر استعمال شروع ہوا جو لمبے عرصے تک محفوظ رکھی جا سکتی تھیں۔ سونے میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ یہ موسمی حالات سے خراب نہیں ہوتا ( جیسے زنگ لگنا ) اور یہ کمیاب بھی ہے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر میں اسے دولت کو ذخیرہ کرنے کے لیے (یعنی بچت کرنے کے لیے) چُنا گیا۔

کرنسی بننے کے لیے ایسی چیز موزوں ہوتی ہے جو پائیدار ہو، کمیاب ہو، ضخیم نہ ہو (تاکہ با آسانی منتقل کی جا سکے)[75]، کھرے کھوٹے کی شناخت آسان ہو اور قابل تقسیم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی کچھ صدیوں میں سونے چاندی تانبے کانسی وغیرہ کے سکّے استعمال ہوتے رہے جبکہ ہیرا کبھی کرنسی نہیں بن سکا۔ دھاتوں کی اپنی قیمت ہوتی ہے اور ایسے سکّے کو پگھلا کر دھات دوبارہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایسے سکّے نہ کسی حکومتی یا ادارتی سرپرستی کے محتاج ہوتے ہیں نہ کسی سرحد کے پابند۔ یہ زرِ کثیف یعنی ہارڈ کرنسی کہلاتے ہیں۔ اس کے برعکس کاغذی کرنسی کی اپنی کوئی قیمت نہیں ہوتی بلکہ یہ حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے وہ قدر رکھتی ہے جو اس پر لکھی ہوتی ہے۔ یہ زرِ فرمان یعنی fiat کرنسی کہلاتی ہے اور جیسے ہی حکومتی سرپرستی ختم ہوتی ہے یہ کاغذ کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

بنگلہ دیش کے قیام کے وقت وہاں پاکستانی کرنسی رائج تھی جو اپنی قدر کھو چکی تھی۔ اسی طرح صدام حسین کے ہاتھوں سقوط کویت کے بعد کویتی دینار کی قدر آسمان سے زمین پر آ گئی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر کاغذی کرنسی کے پیچھے ایک فوجی طاقت کتنی ضروری ہے۔

8 نومبر 2016 کو نریندر مودی کے بھارت میں 500 اور 1000 کے نوٹوں کے اسقاط زر کے اعلان سے ہندوستان میں زیر گردش 86 فیصد کرنسی محض چند گھنٹوں میں کاغذی ردی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اگر ہندوستان کی کرنسی ماضی کی طرح سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل ہوتی تو عوام اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں یوں ذلیل و خوار نہ ہوتے۔ دیکھیے کیش کے خلاف جنگ

آج بھی بھارت کا کاغذی روپیہ نیپال اور بھوٹان میں چلتا ہے کیونکہ نیپال اور بھوٹان کے مقابلے میں بھارت کہیں زیادہ بڑا ملک ہے اور اس وجہ سے اس کی کرنسی زیادہ اعتبار رکھتی ہے۔ مضبوط فوجی طاقت کاغذی کرنسی کو بھی مستحکم کرتی ہے۔ نیپال اور بھوٹان کی کرنسی بھارت میں نہیں چلتی۔

1791ء سے 1857ء تک ہسپانیہ کا سکّہ متحدہ امریکا میں قانونی سکّے کے طور پر چلتا تھا کیونکہ یہ چاندی کا بنا ہوا تھا اور اپنی قدر خود رکھتا تھا۔

1959ء تک دبئی اور قطر کی سرکاری کرنسی ہندوستانی روپیہ تھی جو چاندی کا بنا ہوا ہوتا تھا۔

عالمی کرنسی کی تاریخ

دنیا میں ہمیشہ طاقتور ترین فوجی طاقت کا سکہ مقبول ترین سکہ رہا۔

1450 سے 1530 تک عالمی تجارت پہ پرتگال کا سکّہ چھایا رہا۔

1530 سے 1640 تک عالمی تجارت پہ ہسپانیہ کا سکّہ حاوی رہا۔

1640 سے 1720 تک عالمی تجارت ولندیزی سکّے کے زیر اثر رہی۔

1720 سے 1815 تک فرانس کے سکّے کی حکومت رہی۔ 1815 میں فرانس کے بادشاہ نپولین کو شکست ہوئی۔

1815 سے 1920 تک برطانوی پاونڈ حکمرانی کرتا رہا۔

1920 سے اب تک امریکی ڈالر نے راج کیا لیکن اب اس کی مقبولیت تیزی سے گرتی جا رہی ہے۔[77][78] ماضی کی کرنسیوں کے برخلاف یہ چاندی کی نہیں بلکہ کاغذ کی کرنسی ہے اور محض امریکی حکومت پر اعتماد اور اس کی فوجی دھونس پر قائم ہے۔

بینک نوٹ

1892 کی Imperial Ottoman Bank کی ایک تصویر۔ قسطنطنیہ کے اس بینک میں محافظوں کی نگرانی میں 13 ٹن سونے کے سکے منتقل کیے جا رہے ہیں۔ بینک نے افریقہ کی سونے کی کانوں کے یورپی شئیر بیچنا شروع کیے۔ صرف 3 سال بعد یہاں بینک رن ہوا اور لوگوں کا خطیر سرمائیہ ڈوب گیا جبکہ بینک مالکان نے خوب خوب کمایا۔

مردے کی روح کو رقم پہنچانے کے لیے چین میں تدفین کے موقع پر ایسے نوٹ جلائے جاتے ہیں۔ اس نوٹ کی مالیت اگرچہ ایک ارب ہے مگر یہ بہت سَستا ملتا ہے۔ اس پر دوزخ کے داروغہ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔

دسمبر 1930۔ اپنے پیسے واپس لینے کے لیے بینکِ آف یونائیٹڈ اسٹیٹ کے باہر مجمع لگا ہے۔

لوگ 500 اور 1000 کے نوٹوں کو تبدیل کروانے کے لیے بینک کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ کولکاتہ، 10 نومبر 2016ء

سکّوں کے نظام سے دنیا کا روزمرہ کا کاروبار نہایت کامیابی سے چل رہا تھا مگر اس میں یہ خرابی تھی کہ بہت زیادہ مقدار میں سکّوں کی نقل و حمل مشکل ہو جاتی تھی۔ وزنی اور ضخیم ہونے کی وجہ سے بڑی رقوم چور ڈاکووں کی نظروں میں آ جاتی تھیں اور سرمایہ داروں کی مشکلات کا سبب بنتی تھیں۔ اس کا قابل قبول حل یہ نکالا گیا کہ سکّوں کی شکل میں یہ رقم کسی ایسے قابل اعتماد شخص کی تحویل میں دے دی جائے جو قابل بھروسا بھی ہو اور اس رقم کی حفاظت بھی کر سکے۔ ایسا شخص عام طور پر ایک امیر سونار ہوتا تھا جو ایک بہت بڑی اور بھاری بھرکم تجوری کا مالک بھی ہوتا تھا اور اس کی حفاظت کے لیے مناسب تعداد میں محافظ بھی رکھتا تھا۔ اس شخص سے اس جمع شدہ رقم کی حاصل کردہ رسید (نوٹ) کی نقل و حمل آسان بھی ہوتی تھی اور مخفی بھی۔ سونار کی ان رسیدوں پر بھی ادائیگی کا ایسا ہی وعدہ لکھا ہوتا تھا جیسے اب بھی بہت سے بینک نوٹوں پر لکھا ہوتا ہے۔ اگر ایسا شخص بہت ہی معتبر ہوتا تھا تو اس کی جاری کردہ رسید کو علاقے کے بہت سے لوگ سکّوں کے عوض قبول کر لیتے تھے اور ضرورت پڑنے پر وہی رسید دکھا کر اس سونار سے اپنے سکّے وصول کر لیتے تھے۔ اس زمانے میں سنار لوگوں سے رقم کی حفاظت کرنے کا معاوضہ وصول کیا کرتے تھے۔ اس طرح رسید کے طور پر کاغذی کرنسی (بینک نوٹ) کا قیام عمل میں آیا جبکہ سنار معتبر ادارے کے طور پر بینکوں میں تبدیل ہو گئے۔ ایسی رسیدیں زر نمائندہ کہلاتی ہیں کیونکہ ان کی پشت پناہی کے لیے بینکوں میں اتنا ہی سونا موجود ہوتا ہے جتنی رسیدیں بینک جاری کرتا ہے۔ ایسے بینکوں میں کبھی 'بینک رن' نہیں ہوتا۔ 

اس نمائندہ کاغذی کرنسی کا تصور نیا نہیں تھا بلکہ ہزاروں سال پہلے بھی موجود تھا۔ جاپان اور آس پاس کے علاقوں میں مذہبی عبادت گاہوں (پگوڈا) میں اناج ذخیرہ کرنے کے بڑے بڑے گودام موجود ہوا کرتے تھے جن میں لوگ اپنا اناج جمع کرکے کاغذی رسید حاصل کر لیتے تھے اور پھر منڈی میں لین دین کے لیے ان ہی رسیدوں کا آپس میں تبادلہ کر لیتے تھے۔ پگوڈا میں اناج جمع کرانے والے کو بھی اجرت ادا کرنی پڑتی تھی۔

شروع شروع میں تو بینک اتنی ہی رسیدیں جاری کرتے رہے جتنی رقوم دھاتی سکّوں کی شکل میں ان کے پاس جمع کی جاتی تھیں مگر بعد میں جب لوگوں کا اعتماد ان رسیدوں پر بڑھتا چلا گیا اور بینک سے اپنے سکّے طلب کرنے کا رجحان کم ہوتا چلا گیا تو بینک اپنے پاس جمع شدہ دھات سے زیادہ مالیت کی رسیدیں جاری کرنے لگے جو ان کی اپنی اضافی آمدنی بن جاتی تھیں۔ اس طرح ماضی میں بینکوں نے خوب خوب لُوٹا اور مناسب وقت آنے پر وہ ساری دولت سمیٹ کر منظر عام سے غائب ہو گئے۔ امریکا کی تاریخ ایسے بینک فراڈوں سے بھری پڑی ہے (11 دسمبر 1930 کو نیویارک کا تیسرا سب سے بڑا بینک، بینک آف یونائیٹڈ اسٹیٹ، بند ہو گیا۔ اگلے سال ستمبر اکتوبر کے دو مہینوں میں 800 مزید بینک بند ہوئے۔[86])۔ صرف بینکوں نے ہی نہیں بلکہ حکومتوں نے بھی عوام اور دوسرے ممالک کی حکومتوں کو خوب اُلّو بنایا۔ اس کی تازہ ترین مثال پہلے تو حکومت امریکا کا 24 جون 1968 کو سلور سرٹیفیکٹ کے بدلے چاندی واپس کرنے سے انکار کرنا اور پھر اگست 1971 میں 35 ڈالر میں ایک اونس سونا واپس کرنے کے وعدے سے مُکرنا تھا۔

لین دین اور تجارت 

تجارتی دولت سے مراد وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کی لین دین (خرید و فروخت) کی جاسکتی ہے۔ تجارتی دولت میں ڈاکو اور بینک ہمیشہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ صرف تین طرح کی چیزوں کا لین دین کیا جا سکتا ہے۔

  1. مادی اشیاء
  2. محنت مزدوری، مہارت اور وقت
  3. حق (جیسے کاپی رائٹ، پرمٹ، لائسنس، کاغذی کرنسی کے بدلے سونا چاندی طلب کرنے کا حق، نوٹ چھاپنے کا حق وغیرہ)

اس طرح 6 طرح کے تبادلے ممکن ہو جاتے ہیں۔

  1. مادی اشیاء کا مادی اشیاء سے (مثلاً پیسے دے کر کوئی چیز خریدنا)
  2. مادی اشیاء کا محنت مزدوری سے (مثلاً تنخواہ، ڈاکٹر، وکیل یا استاد کی فیس)
  3. مادی اشیاء کا کسی حق سے (مثلاً طوائف کی آمدنی)
  4. ایک طرح کی محنت کا دوسری طرح کی محنت سے (مثلاً درزی موچی کے کپڑے سی دے اور جواباً موچی درزی کے لیے جوتے بنا دے)
  5. کسی محنت کا کسی حق سے (مثلاً پینشن)
  6. ایک طرح کے حق کا کسی دوسری طرح کے حق سے۔ (مثلاً نوٹ لیکر ڈرافٹ دینا)

بینک صرف دو طرح کے تبادلے کرتے ہیں۔ مادی اشیاء کا کسی حق سے اور ایک طرح کے حق کا کسی دوسری طرح کے حق سے ۔

  1. Banking consists exclusively of the Exchanges of Money for Credit, and of Credit for Credit
  2. Bank Notes, Bills of Exchange, &c.، which are mere Rights, or Credit

ہندوستان اور کاغذی کرنسی

ہزاروں سال سے کرنسی سونے چاندی کے سکّوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی کیونکہ لوگ اپنی مرضی کی چیز بطور کرنسی استعمال کرنے کا حق رکھتے تھے۔ لیکن بعد میں حکومتیں قانون بنا کر لوگوں کو مخصوص کرنسی استعمال کرنے پر مجبور کرنے لگیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

جب بینکاری کو عروج ہوا تو بینکوں کو اندازہ ہوا کہ کاغذی کرنسی کے رواج کو فروغ دینے سے بینکوں کو کس قدر زیادہ منافع ہو سکتا ہے۔ مرکزی بینک چونکہ سونا اور چاندی بنا نہیں سکتے اس لیے وہ سونے چاندی سے بنی کرنسی کو کنٹرول بھی نہیں کر سکتے۔ اسی وجہ سے مرکزی بینک سونے چاندی کو بطور کرنسی استعمال کرنے کے سخت خلاف ہوتے ہیں۔ مرکزی بینک ہمیشہ ایک ایسی کرنسی چاہتے ہیں جسے وہ پوری طرح کنٹرول کر سکیں تاکہ بے حد امیر اور طاقتور بن سکیں اور یہ کرنسی صرف کاغذی کرنسی ہو سکتی تھی کیونکہ کاغذی کرنسی جتنی چاہیں اتنی چھاپی جا سکتی ہے۔ اس طرح دولت تخلیق کرنے کا اختیار بینکاروں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ برطانیہ میں تو بادشاہ نے قانون بنا کر لوگوں کو بینک آف انگلینڈ کی چھاپی ہوئی کاغذی کرنسی استعمال کرنے پر مجبور کر دیا تھا جو بعد میں وہاں پوری طرح رائج بھی ہو گئی تھی لیکن دنیا کے کئی ممالک میں کاغذی کرنسی مقبول نہ ہو سکی کیونکہ وہاں لوگ سونے چاندی پر زیادہ اعتبار کرتے تھے اور کاغذی نوٹ کو شک کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ اس میں چین، ہندوستان اور امریکا بھی شامل تھے۔ برطانیہ میں بینک آف انگلینڈ کی کاغذی کرنسی کو 1718 سے "لیگل ٹینڈر" (قانونی کرنسی) کا درجہ حاصل تھا۔ ان بینکوں نے بہت آہستہ آہستہ لوگوں کو کاغذی کرنسی کے استعمال کی عادت ڈال دی اور مختلف مواقع پر ایسے قوانین نافذ کروائے جو لوگوں کو کاغذی کرنسی استعمال کرنے پر مجبور کریں۔ مختلف طلائی معیار (گولڈ اسٹینڈرڈ) اِن ہی قوانین کی مثالیں ہیں۔

جب انگریز ہندوستان آیا تو یہاں کی دولت لوٹنے کے لیے کاغذی نوٹ کو رواج دینے کی کوشش میں لگ گیا۔ ہندوستان باقی دنیا کو بہت زیادہ مالیت کا سامان تجارت برآمد کرتا تھا جبکہ درآمدات کم تھیں۔ یعنی تجارت کا توازن ہندوستان کے حق میں تھا۔ انگریز کو اس مال کے بدلے ہندوستان کے لوگوں کو سونا یا چاندی ادا کرنی پڑتی تھی جو وہ نہیں دینا چاہتا تھا۔  انگریزوں کی خواہش تھی کہ اگر ہندوستان میں بھی کاغذی نوٹ کا رواج پڑ جائے تو صرف کاغذ چھاپ چھاپ کر مال خریدا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہندوستانیوں کو بینکاری اور کاغذی نوٹوں کا بالکل تجربہ نہیں تھا جبکہ انگریز اس میں ماہر تھا۔ ہندوستان کے لوگوں کو بینکاری کی عادت ڈالنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے سے ہی ڈاک خانوں میں پوسٹل سیونگ بینک بنائے گئے جن سے متوسط اور نچلے طبقے کے پاس محفوظ سونا چاندی بٹورنا ممکن ہو گیا۔ 1879 میں ان پوسٹل سیونگ بینکوں کی جانب سے 4 فیصد سے زیادہ سود دیا جاتا تھا جو بعد میں کم ہوتا چلا گیا۔ اس زمانے میں افراط زر بہت کم ہونے کی وجہ سے یہ ایک معقول منافع تھا۔

سلور اسٹینڈرڈ

انگریز چونکہ ہندوستان سے سونا بٹورنا چاہتا تھا اس لیے اس نے صرف چاندی کے روپے کو سرکاری کرنسی قرار دیا حالانکہ اس وقت برطانیہ میں گولڈ اسٹینڈرڈ نافذ تھا۔ 1835 میں انہوں نے معیارِ نقرہ کا قانون (سلور اسٹینڈرڈ) نافذ کیا جس کے مطابق چاندی کا روپیہ سرکاری سکّہ بن گیا۔ یہ سکّہ پہلے ہی سے بمبئی اور مدراس میں رائج تھا۔ سونے اور چاندی کے ان سکوں کا وزن ایک تولہ یعنی 180 گرین (grain) ہوتا تھا اور یہ 22 قیراط کے ہوتے تھے یعنی ان میں خالص چاندی کی مقدار 165 گرین تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے جاری کردہ ان چاندی کے سکوں نے (جن پر مغل بادشاہ کا نام نہیں لکھا گیا تھا) جلد ہی مقبولیت حاصل کر لی اور پہلے سے رائج دو درجن طرح کے چاندی کے روپے معدوم ہو گئے۔ حکومت عوام سے سونے کا سکّہ قبول تو کر لیتی تھی مگر عوام کو سونا دینے کی پابند نہیں تھی۔ اسی قانون میں اشرفی (گولڈ مُہر) کی قیمت 15 چاندی کے روپے کے برابرطے کی گئی مگر پھر بھی اس قانون کا نام گولڈ اسٹینڈرڈ نہیں رکھا گیا۔ یہ بات بڑی حیران کن ہے جس قانون نے چاندی کو کرنسی قرار دیا اسی قانون نے عوام کو ٹکسالوں سے سونے کے سکے بنوانے کی اجازت بھی دی۔  اس قانون کے ذریعے لوگوں کی توجہ چاندی پر مرکوز کروا کر انگریز حکومت نے بڑی مالیت میں زیر گردش سونے کے سکے اپنے پاس ذخیرہ کر لیے جو بعد میں انگلستان بھجوا دیے گئے۔

1894 میں امریکا میں چھپنے والا ایک کارٹون جس میں بتایا گیا ہے کہ چاندی کو قانون کے ذریعے قتل کیا گیا۔

اس وقت کاغذی کرنسی "پریزیڈنسی بینک آف بنگال" جاری کرتا تھا۔ در حقیقت یہ بینک 1809 سے کاغذی کرنسی جاری کر رہا تھا مگر وہ ہندوستان میں مقبول نہیں ہو رہی تھی اور قانونی کرنسی کا درجہ نہیں رکھتی تھی۔ بمبئی میں کاغذی کرنسی 1840 میں اور مدراس میں 1843 میں جاری کی گئی۔ اس وقت ایک علاقے کی کاغذی کرنسی دوسرے علاقے میں نہیں چلتی تھی لیکن حکومتِ ہند اپنے کرنسی نوٹ قبول کر لیتی تھی خواہ وہ کسی بھی علاقے سے جاری کیے گئے ہوں۔ 1903ء میں پہلی دفعہ تجرباتی طور پر 5 روپے کے نوٹ کو (جو سب سے چھوٹا نوٹ تھا) پورے ہندوستان میں عوام کے لیے قابل قبول بنایا گیا۔ پھر 1910ء سے دس روپے اور پچاس روپے کا نوٹ بھی پورے ہندوستان میں قبول کیا جانے لگا۔ 1911ء میں سو روپے کا نوٹ بھی ہر علاقے میں چلنے لگا۔ اُسی وقت سے ہی عالمی بینکاروں کی خواہش ہے کہ پوری دنیا میں ایک ہی کرنسی رائج ہو جائے مگر یورپ کے علاوہ کہیں کامیابی نہیں ملی ہے۔ یورپ کے بھی سارے ممالک یورو اپنانے پر آمادہ نہیں ہیں۔1861ء میں ہندوستان میں کاغذی کرنسی کا قانون بنا جو یکم مارچ 1862ء سے نافذ ہوا ۔ اس قانون کے ذریعے دوسرے بینکوں کا کاغذی نوٹ چھاپنے کا اختیار ختم کر دیا گیا اور اب یہ حق حکومت کے پاس آ گیا  اور ہندوستانی حکومت مارچ 1935 تک نوٹ چھاپتی رہی۔ 1861ء کےاس قانون کے تحت عوام کو اجازت تھی کہ وہ اپنا سونا یا چاندی حکومت کے حوالے کر کے کاغذی روپے حاصل کر سکتے ہیں مگر کسی نے بھی سونا نہ دیا اور لوگ صرف چاندی کے عوض کاغذی کرنسی لیتے تھے۔ 37 سال بعد 1898ء میں جب چاندی کی قیمت سونے کے مقابلے میں بڑھی تو لوگوں نے پہلی دفعہ سونے کے بدلے نوٹ حاصل کرنے شروع کیے۔ صرف دو سالوں میں ہندوستانی حکومت نے 'کرنسی ریزرو' میں 100 ٹن سے زیادہ سونا جمع کر لیا۔ حکومت نے 1898ء میں نیا قانون بنایا کہ لندن میں سونا جمع کروانے پر ہندوستان میں نوٹ مل سکتے ہیں۔ لوگوں نے اس طرح سوا دو کروڑ روپے (15 لاکھ پاونڈ) لندن میں جمع کروائے۔ لیکن صرف دس مہینوں میں لوگوں نے لندن سے اپنا سونا وصول کر لیا اور یہ سلسلہ بند ہو گیا۔

پہلی اپریل 1935 سے نوٹ چھاپنے کا اختیار نئے بنے ریزرو بینک آف انڈیا کو بخش دیا گیا جو ایک نجی مرکزی بینک تھا اور عملی طور پر بینک آف انگلینڈ کی ہندوستانی شاخ تھا۔ اس کے بعد ہندوستان کی برطانوی حکومت کے پاس صرف ایک روپے کے نوٹ چھاپنے کا اختیار باقی رہا۔

چاندی کا روپیہ بنانے میں برطانوی حکومت کو 42 فیصد منافع (Seigniorage) ہوتا تھا۔ 1913 میں جان مینارڈ کینز نے لکھا کہ یہ روپیہ بینک نوٹ ہی تھا مگر کاغذ کی بجائے چاندی پر چھاپا جاتا تھا۔ لیکن صرف 4 سال بعد پہلی جنگ عظیم کے دوران میں چاندی مہنگی ہو جانے کی وجہ سے صورت حال بالکل بدل چکی تھی۔

1848ء سے 1855ء کے درمیان میں امریکا میں کیلیفورنیا کے مقام سے 2200 ٹن سونا نکالا گیا جس سے سونے کی قیمتیں عارضی طور پر گر گئیں۔ دوسرے ممالک میں بھی سونے کی کانیں دریافت ہوئیں اور صرف 20 سالوں میں (1851ء سے 1870ء کے درمیان) دنیا میں اتنا سونا نکلا جتنا پچھلے 350 سالوں میں نکلا تھا ۔ اس طرح سونے کی دستیابی دوگنی ہو گئی۔ لیکن بعد کے سالوں میں چاندی کی بے شمار کانیں دریافت ہوئیں۔ 1873 سے چاندی کی قیمت گرنے لگی کیونکہ جرمنی اور امریکا نے بھی گولڈ اسٹینڈرڈاپنا لیا تھا اور بطور کرنسی چاندی ترک کر دی تھی۔ 1892 میں امریکا نے چاندی کا قانونی کرنسی کا درجہ ختم کر کے صرف سونے کو قانونی کرنسی قرار دیا۔ اس کے پیچھے بینک آف انگلینڈ کا ہاتھ تھا۔

انڈیا کونسل بل

انگریز دونوں ہاتھوں سے ہندوستان کا سونا تو لوٹ ہی رہا تھا مگر تجارتی سامان کے بدلے بھی ہندوستان کو چاندی دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ 1875ء سے انگریزوں نے ہندوستان کا تجارتی سامان چاندی کی بجائے کونسل بل (Council Bill) ادا کر کے خریدنا شروع کیا جو بینک ڈرافٹ کی ایک شکل تھا اور اس کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی تھی۔ اس طرح نہ صرف کاغذ چھاپ چھاپ کر ہندوستان اور چین سے تجارتی مال خریدا جانے لگا بلکہ چاندی کی قیمت گرانا بھی ممکن ہو گیا۔

1913ء میں جان مینارڈ کینز نے اپنی کتاب "Indian Currency And Finance" میں لکھا کہ انڈیا کی برطانوی حکومت کو کونسل بل کے نظام کی حاکمانہ نوعیت سے شرح تبادلہ پر حاوی ہونے میں بڑی سہولت ملی۔

اگرچہ تاریخ میں یہی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی کے سلور اسٹینڈرڈ ترک کرنے اور چاندی کی نئی کانیں دریافت ہونے کی وجہ سے چاندی کی قیمتیں گرنے لگیں تھیں لیکن درحقیقت چاندی کی قیمت گرنے کی سب سے بڑی وجہ برطانیہ سے کونسل بل کا اجرا تھی۔

""جتنے زیادہ کونسل بل چھپتے تھے، چاندی کی قیمت اتنی ہی گرتی تھی۔ اس لیے لندن کی انڈیا کونسل کو ہر سال پچھلے سال سے زیادہ کونسل بل چھاپنے پڑتے تھے تاکہ لندن میں سونے کی فراہمی میں کمی نہ آئے۔ اس طرح (چاندی استعمال کرنے والے ملک) انڈیا پر ٹیکس بڑھ جاتا تھا"1877 میں ایک مصنف J. S. Moore نے لکھا کہ "ایشیا تو اس وقت بھی تجارتی ممالک پر مشتمل تھا جب یورپ بالکل اجاڑ تھا" ...."عظیم قوموں کے پاس اپنا خزانہ بھرنے کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ قرضے دو۔ اور دوسرا اور زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ کاغذی کرنسی میں زبردستی قرضے دو۔"

1888ء میں ایک مصنف نے لکھا کہ

"چاندی کی قیمت کا انحصار ان کونسل بل پر تھا۔ جب بھی بینک آف انگلینڈ چاندی کی قیمت گرانا چاہتا تھا تو وہ کونسل بل کی قیمت گرا دیتا تھا۔ اگر کوئی اور چاندی ہندوستان بھیجنے کی کوشش کرتا تھا تو بینک آف انگلینڈ کونسل بل کی قیمت بڑھا دیتا تھا جس کی وجہ سے چاندی ہندوستان کی نسبت لندن میں زیادہ مہنگی ہو جاتی تھی۔ بہت سارے لوگوں نے چاندی ایشیا بھیجنے کی کوشش کری اور ناکام رہے اور آخر کار اپنے ارادوں سے دست بردار ہو گئے کیونکہ بینک آف انگلینڈ سے مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔[William M. Stewart, 1888]

"کونسل بل سسٹم نے ہندوستان سے وصول ہونے والے ٹیکس اور تجارتی منافع کو (بیرون ملک) منتقل کرنے کے میکینزم کو یکسر بدل ڈالا۔"1859ء سے 1898ء کے دوران میں ہندوستانی حکومت ہر سال اوسطاً ساڑھے 13 کروڑ روپے برطانیہ بھیجتی رہی جس میں سے دس کروڑ روپے ہوم چارجیز کی مد میں ہوتے تھے۔ ٹیلی گرافی کی لائن بن جانے سے 1872ء سے 1893ء تک ہندوستان کو ہونے والے تجارتی منافع (55 کروڑ پاونڈ) کے نصف سے زیادہ سونے چاندی کی بجائے کونسل بل کی شکل میں ادا کیا جانے لگا۔[ The Economy of Modern India, 1860-1970]

دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے عالمی مالیاتی برتری برطانیہ سے چھین لی۔ اب یہی کام امریکا انجام دے رہا ہے۔

"1899ء میں برطانیہ اپنی برآمدات سے ہونے والے منافع کا 5 گنا کاغذی دولت (capital) ایکسپورٹ کر کے کما رہا تھا۔ 1968ء میں امریکا اپنی برآمدات سے ہونے والے منافع کا 6 گنا کاغذی دولت ایکسپورٹ کر کے کما رہا تھا۔"

ٹکسالوں کی بندش

کاغذی کرنسی کو فروغ دینے کے لیے 26 جون، 1893ء میں ہندوستان کی برطانوی حکومت نے چاندی کا سکّہ بنانے والی ساری ٹکسالیں عوام کے لیے بند کروا دیں تاکہ نہ چاندی کا سکہ مناسب مقدار میں دستیاب ہو نہ لوگ اسے استعمال کر سکیں۔ سونے کا سکہ (اشرفی) انگریز پہلے ہی سمیٹ کر غائب کر چکا تھا۔ اب ہندوستان میں لوگوں کے پاس لین دین کے لیے کاغذی کرنسی استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ۔ اس طرح 1835ء میں سرکار کا بنایا ہوا سلور اسٹینڈرڈ 1893ء میں بحقِ کاغذی کرنسی ختم کر دیا گیا۔ اس کے باوجود عوام میں سونے اور چاندی کے سکوں کی طلب برقرار رہی۔ حکومت کی طرف سے کئی بار یہ عندیہ دیا گیا کہ حکومت چاندی کا سکہ بحال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر اس پر عمل نہ کیا گیا۔
جس دن ٹکسالوں کی بندش کا قانون نافذ ہوا اُسی دن حکومت نے اعلان کیا کہ اگر کوئی سونے میں ادائیگی کرے تو اُسے کاغذی نوٹ کی بجائے چاندی کے روپے مل سکتے ہیں۔ یعنی ہندوستانیوں کو سونے کے بدلے چاندی مل سکتی ہے مگر چاندی کے بدلے سونا نہیں مل سکتا۔

ٹکسالوں کی بندش سے پہلے ٹکسالیں 2 فیصد اجرت کے عوض عوام سے چاندی لے کر اسے سکوں میں تبدیل کر دیا کر تی تھیں اور اسے Free silver کہتے تھے کیونکہ سکے بنوانے کی کوئی حد مقرر نہ تھی ۔ بندش کے بعد یہ سہولت عوام سے چھین لی گئی لیکن حکومت کے پاس یہ حق برقرار رہا۔ جب تک عوام کو حکومت کی ٹکسالوں سے چاندی کے سکے بنوانے کی سہولت دستیاب تھی اس وقت تک عوام کا بھی کرنسی کے معاملات میں عمل دخل تھا۔ یہ سہولت ختم ہونے کے بعد کرنسی کے معاملات پر حکومت پوری طرح قابض ہو گئی اور عوام بے بس ہو گئے۔ اس طرح حکومت کا چاندی کی قیمت گرانا ممکن ہو گیا۔ درحقیقت عوام کے لیے ٹکسالیں بند کر کے حکومتوں نے آزاد منڈی (فری مارکیٹ اکنومی) کی پشت میں چُھرا گھونپ دیا۔جب تک حکومتی ٹکسالیں عوام کو سکے بنوانے کی سہولت دیتی ہیں اس وقت تک حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ سکے میں سونے یا چاندی کی مقدار کم کر سکے۔ لیکن جب عوام سے یہ سہولت چھن جاتی ہے تو حکومت کے لیے یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ سکے میں قیمتی دھات کی مقدار کم کر دے۔ اس طرح سکے کی گراوٹ (devalue) کر کے حکومت اپنے عوام کی کچھ دولت اپنی جیب میں منتقل کر لیتی ہے۔

ٹکسالوں کی بندش کی وجہ سے چاندی کے روپے کی دستیابی کم ہو گئی اور اس کے نتیجے میں پاونڈ کے مقابلے میں روپیہ مہنگا ہونے لگا۔ اس طرح ہندوستانی مال برطانیہ کے لیے مہنگا ہونے لگا۔ ایک روپیہ جو 1894ء میں 13 پینس کا تھا، 1898ء میں 16 پینس کے برابر ہو چکا تھا۔ روپے کی قدر گرانے کے لیے 1898ء تک سابقہ پانچ سالوں میں حکومت نے صرف 4 کروڑ چاندی کے روپے جاری کیے تھے۔[109] لیکن اس طرح مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا تھا۔ اس لیے کرنسی کے قحط (starving the currency) کی پالیسی ترک کرنی پڑی اور 1899ء سے 1907ء کے دوران میں حکومت ہند کو ایک ارب 20 کروڑ چاندی کے روپے جاری کرنے پڑے تھے۔ لیکن 1908ء میں پہلی دفعہ لنڈسے اسکیم پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے ریورس کونسل بل جاری کیے جس کے بعد نئے چاندی کے سکے جاری کرنے کی ضرورت یکدم ختم ہو گئی اور پہلی جنگ عظیم شروع ہونے تک حکومت صرف پرانے سکے پگھلاتی رہی۔ 1913 تک حکومت 70 کروڑ کاغذی روپے جاری کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی جو کُل زیر گردش کرنسی کا لگ بھگ چوتھائی حصہ بنتا تھا۔1893ء میں ٹکسالوں کی بندش سے پہلے کے دس سالوں میں ہندوستان میں بالعموم خوشحالی رہی تھی۔ لیکن ٹکسالوں کی بندش کے بعد کے دس سال میں غربت اچانک بڑھ گئی اور ملک پے درپے آفتوں کا شکار ہوتا رہا۔ 1896، 1897 اور 1899ء میں ہندوستان کو شدید قحط کا سامنا کرنا پڑا۔(جرمنی، آسٹریا اور روس میں بھی عوام کو ٹکسالوں کی بندش کے بعد ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔) صحت کمزور ہونے کی وجہ سے 15 لاکھ لوگ طاعون سے مر گئے۔ بخار، قحط اور ہیضے سے مرنے والوں کی تعداد تو اس بھی زیادہ تھی۔ (اس وقت ہندوستان کی کُل آبادی 30 کروڑ سے بھی کم تھی۔) اگرچہ ظاہری طور پر 1898ء میں فاولر کمیٹی ( Fowler Report) نے چاندی کی کرنسی کی مخالفت کری تھی (جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ فاولر کے معنی ہیں صیاد، چڑی مار) لیکن یہ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے عمداً جھوٹ تھا کیونکہ عملاً حکومت ہند نے اس کے عین برعکس کام کیا۔ چاندی کے سکے کا اجرا جو 1893ء سے ختم کر دیا گیا تھا اسے 1899ء سے دوبارہ جاری کرنا شروع کر دیا۔ جب حکومت نے چاندی کے روپے کے سکے بڑی مقدار میں جاری کرنے شروع کیے تو 1902ء تک ہندوستان کی خوشحالی دوبارہ واپس آ چکی تھی۔ عوام کو الّو بنانے کے لیے فاولر کمیٹی کی سفارش پر 15 ستمبر 1899ء میں حکومت نے قانون بھی بنایا کہ برطانوی سونے کے سکے (سوورین) بغیر کسی حد کے ہندوستان میں ہی بنائے جائینگے مگر اس قانون پر کبھی عمل نہ ہوا۔ یہ سب کاغذی کرنسی کے رواج کو مستحکم کرنے کے لیے ڈراما تھا۔پہلی جنگ عظیم شروع ہوتے ہی ہندوستان میں لوگوں کا کاغذی کرنسی پر شک بڑھ گیا اور اگست 1914 میں صرف چار دنوں میں حکومت کو کاغذی نوٹوں کے بدلے 20 لاکھ پاونڈ (3 کروڑ روپے) کی مالیت کے سونے کے سکے عوام کو ادا کرنے پڑے۔ اس کے بعد سونے میں ادائیگی روک دی گئی لیکن چاندی کی ادائیگی جاری رہی۔ صرف پانچ سالوں میں حکومت ہند کو دوسرے ممالک سے 53 کروڑ اونس (16600 ٹن) چاندی خریدنی پڑی اور دیڑھ ارب چاندی کے روپے جاری کرنے پڑے۔ کاغذی کرنسی کو مزید مقبول بنانے اور چاندی پر سے بوجھ ہٹانے کے لیے 1917 میں حکومت ہند نے ایک روپے اور ڈھائی روپے کے نوٹ جاری کیے۔ اس سے پہلے سب سے چھوٹا نوٹ پانچ روپے کا تھا۔ ستمبر 1917 میں چاندی کی قیمت (جو 1893 سے 34 پنس فی اونس سے کم رہی تھی) بڑھ کر 55 پنس فی اونس ہو گئی اور لوگوں نے سکے پگھلا کر چاندی کے برتن اور زیورات بنانے شروع کر دیے۔ 1835 سے اِس وقت تک پانچ ارب (یعنی 60 ہزار ٹن) چاندی کے سکے بنائے جا چکے تھے جن کے پگھلا دیے جانے کا خطرہ موجود تھا۔ اس لیے حکومت کو مجبوراً ہندوستانی روپے کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑا اور اس طرح ایک پاونڈ 15 روپے سے گر کر 10 روپے کے برابر ہو گیا۔  23 اپریل 1918 کو امریکی حکومت نے Pittman Act بنا کر امریکی عوام کی تقریباً 52 کروڑ اونس چاندی ضبط کر لی (بہ عوض کاغذی کرنسی) اور اسے ہندوستان بھیج دیا تاکہ ہندوستان میں کاغذی نوٹ کی چاندی کے روپے میں تبدیلی کا عمل (convertibility) متاثر نہ ہو اور کاغذی کرنسی کی ساکھ بہتر ہوتی جائے ۔برطانیہ میں 1821 سے سونے کے سکّے قانونی کرنسی کا درجہ رکھتے تھے۔ امریکا آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی یہ بہت مقبول تھے۔ فرانس اور جرمنی کی جنگ (1870–1871) میں فرانس کی شکست کے بعد جرمنی نے فرانس سے تاوان جنگ 5 ارب فرانک کا لگ بھگ 20 فیصد (تقریباً 325 ٹن) سونے کی شکل میں وصول کیا اور اپنی کرنسی کو چاندی سے ہٹا کر سونے کی کرنسی اختیار کی کیونکہ چاندی کی مقبولیت گِرانی تھی۔ لیکن اسی دوران میں ہندوستان میں برطانوی راج صدیوں سے رائج سونے کی کرنسی ہٹا کر چاندی کی اور پھر کاغذ کی کرنسی نافذ کرنے میں مصروف رہا۔ جولائی 1926 میں حکومت ہی کے بنائے ہوئے Hilton Young Commission نے بھی ہندوستان میں حقیقی گولڈ اسٹینڈرڈ کی سفارش کی مگر حکومت نے نظر انداز کر دی۔چاندی کی کرنسی کی موجودگی میں مرکزی بینکاروں کو کاغذی کرنسی کا رواج عام کرنے میں سخت دشواری کا سامنا تھا۔ بینکار جانتے تھے کہ صدیوں سے لوگ چاندی میں بچت کرتے آئے ہیں۔ 1869 میں بیرون الفانسو ڈی روتھشیلڈ نے کہا تھا کہ "ہمیں چاندی کی کرنسی کو مکمل طور پر ختم کرنا پڑے گا تاکہ دنیا کے سرمائے (capital) کا بڑا حصہ برباد کیا جا سکے۔ یہ بہت بڑی تباہی ہو گی۔"  اس کے بعد جرمنی میں چاندی کی ٹکسالیں 1871 میں بند کی گئیں۔ امریکا میں یہ 1873 میں بند ہوئیں جس کے بعد 1874 سے چاندی کی قیمت گرنا شروع ہوئی۔ 1879 میں یورپ میں Latin Monetary Union نے بھی چاندی کی آخری ٹکسال بند کر دی اور اسی سال امریکا میں حکومت نے کاغذی کرنسی کے بدلے چاندی کی بجائے سونا واپس کرنا شروع کیا۔ ہندوستان میں چاندی کی ٹکسالوں کو 1893 میں بند کیا گیا۔ چین نے چاندی کی ٹکسالیں بند کرنے سے انکار کر دیا اور وہاں چاندی کی ٹکسالیں 1935 تک سکے بناتی رہیں۔ 1879 سے 1935 تک چاندی کی قیمت سونے کے مقابلے میں پانچ گنا کم ہو گئی۔  غالباً چاندی کی قیمت گرنے کی سب سے اہم وجہ لندن سے انڈیا اور چین تک ٹیلی گرافی کی لائن کا پہنچنا تھا جس نے بینک آف انگلینڈ کو انڈیا اور چین کی مارکیٹ میں ہیراپھیری کا موقع فراہم کر دیا تھا۔ چاندی کی قیمت گرنے سے انگلینڈ واضح طور پر منافع میں رہا جبکہ انڈیا اور چین کنگال ہو گئے۔ چاندی کی کرنسی کو ختم کر کے کاغذ کو کرنسی بنانے میں ایک خفیہ تنظیم The Pilgrims Society نے نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ 

ہندوستان میں سونے چاندی کی طلب بہت زیادہ تھی۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے روپے کی قیمت 16 پنس (یعنی 15 روپے کا ایک پاونڈ) پر برقرار رکھنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا جس میں سونا درآمد یا برآمد نہیں کرنا پڑتا تھا۔ روپے کی قیمت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے حکومت کونسل بل (بینک ڈرافٹ) فروخت کرتی تھی اور روپے کی قیمت گرنے سے روکنے کے لیے ریورس کونسل بل بیچتی تھی۔ ریورس کونسل بل پہلی دفعہ 6 مہینے کی مدت کے لیے بیچے گئے جب 1908 میں قحط کی وجہ سے حالات خراب ہوئے۔ اس دوران میں 80 لاکھ پاونڈ (12 کروڑ روپے) کے ریورس کونسل بل بکے۔ دوسری دفعہ جنگ عظیم اول کی وجہ سے اگست 1914ء سے جنوری 1915 کے درمیان میں 90 لاکھ پاونڈ (ساڑھے 13 کروڑ روپے) کے ریورس کونسل بل بیچنے پڑے جس سے عوام کا کاغذی کرنسی پر اعتماد بڑھا۔[96] کونسل بل کی قیمت گھٹا بڑھا کر برطانیہ چاندی کی قیمت گرانے میں کامیاب ہو جاتا تھا  ۔ اس طرح خطیر تجارتی منافع کے باوجود ہندوستان غریب ہوتا رہا جبکہ خطیر تجارتی خسارے کے باوجودبرطانیہ امیر ہوتا رہا۔ 1851 سے 1938 کے درمیان میں صرف دو سال ایسے گذرے تھے جب ہندوستان کو تجاتی خسارہ رہا تھا۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے بعد اپریل 1920 سے مارچ 1922 کا عرصہ تھا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد 1932 میں ہندوستان کی برطانوی حکومت نے ہندوستان کی ساری چاندی جمع کر کے یک لخت بین الاقوامی مارکیٹ میں چھوڑ دی جس سے چاندی کی قیمت بہت گر گئی۔  لیکن چین نے پھر بھی نہ سلور اسٹینڈرڈ ترک کیا نہ کاغذی کرنسی اپنائی۔ اس پر امریکا نے مہنگے داموں (کاغذی سلور سرٹیفیکٹ کے عوض) بڑی مقدار میں چاندی خریدنے کا قانون (Silver Purchase Act, 1934) بنایا۔ اس کے نتیجے میں چین کے چاندی کے سکے پگھلانا یا اسمگل کرنا بڑا منافع بخش کاروبار بن گیا۔ جب چین میں چاندی کی شدید قلت ہو گئی تو چین کو بھی ٹکسالیں بند کرنے پر مجبور کیا جا سکا۔

جب پہلی ستمبر 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو ہندوستان میں وہ بینک رن دیکھنے میں نہیں آیا جو پہلی جنگ عظیم شروع ہونے پر ہوا تھا۔ یعنی اس وقت تک لوگوں کا کاغذی کرنسی پر سے شک دور ہو چکا تھا۔ ہندوستان کی زمین تو بہت پہلے ہی گوروں کے قبضے میں آ چکی تھی۔ اب ہندوستانیوں کے ذہن بھی قبضے میں آ گئے۔ اب پہلی دفعہ اس بات کے آثار واضح ہونے لگے کہ ہندوستان کو آزادی بھی دے دی جائے جبکہ اس ملک کا غلام نوآبادی (کالونی) کا درجہ بھی جوں کا توں برقرار رہے۔

گولڈ اسٹینڈرڈ

گولڈ اسٹینڈرڈ سے مراد ایسی کاغذی کرنسی تھی جسے پہلے ہی سے طے شدہ مقدارکے سونے میں تبدیل کیا جا سکے۔ لوگوں کو پوری آزادی ہوتی تھی کہ جب چاہیں کاغذی کرنسی کے بدلے بینکوں سے سونے کے سکوں کی لین دین کر سکیں۔  دوسرے الفاظ میں گولڈ اسٹینڈرڈ مالیاتی نظام کی ایک قسم تھی جس میں ایک کاغذی روپیہ،(یا ڈالر، پاونڈ وغیرہ) سونے کی ایک مخصوص مقدار کی نمائندگی کیا کرتا تھا اور سونے کے سکے میں تبدیل (convert) کیا جا سکتا تھا۔ یعنی کاغذی روپیہ سونے کے سکے کی رسید یا ٹوکن کی حیثیت رکھتا تھا نہ کہ fiat کرنسی کی۔

گولڈ اسٹینڈرڈ کا قانون مرکزی بینکوں کی جانب سے ان سونے کے سکّوں کی بجائے کاغذی کرنسی کا استعمال زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کی غالباً پہلی اور بڑی حد تک کامیاب کوشش تھی۔ لوگ یہ سمجھ کر کاغذی کرنسی قبول کرنے لگے کہ اس کے بدلے جب چاہیں بینک سے سونے کے سکّے حاصل کر سکتے ہیں۔

"کرنسی اور متبادل کرنسی الگ الگ چیزیں ہیں۔ ہم فی ایٹ کرنسی کو کرنسی کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں"
"روٹی وصول کرنے کا پروانہ خریدا اور بیچا جا سکتا ہے مگر یہ روٹی سے بہتر نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ روٹی کی جگہ استعمال نہیں ہو سکتا۔ مگر رقم وصول کرنے کا پروانہ رقم کی جگہ استعمال ہو سکتا ہے۔.. کریڈٹ رقم وصول کرنے کا پروانہ ہوتا ہے اور رقم چیزیں وصول کرنے کا پروانہ ہوتی ہے۔"

an Order to receive bread may be bought and sold, but it cannot supersede bread, because it cannot serve as food. An order for such things can never serve as a substitute for the things themselves. But an Order to pay Money can serve as a substitute for Money....Credit is an Order to pay Money, and Money is an Order to pay Goods.

گولڈ اسٹینڈرڈ کی اقسام

لگ بھگ 500 سال قبل تک گولڈ اسٹینڈرڈ سے مراد وہ قوانین ہوتے تھے جو سونے کے سکے کا صرف وزن اور خالصیت (قیراط) بیان کرتے تھے۔ لیکن بعد میں گولڈ اسٹینڈرڈ کے نام سے ایسے قوانین بنائے جانے لگے جو کاغذی کرنسی کو سونے کا متبادل قرار دیتے تھے۔

طلائی نقدی معیار: (Gold specie standard) اسے کلاسیکی گولڈ اسٹینڈرڈ بھی کہتے ہیں۔ اس میں ایک کاغذی روپیہ ایک چاندی کے روپے کے برابر ہوتا تھا اور 15 چاندی کے روپے ایک سونے کے سکّے (طلائی مہر یا اشرفی) کے برابر تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برطانوی ہندوستان میں صرف سونے چاندی تانبے وغیرہ کے سکّے چلتے تھے اور انگریز حکومت کاغذی کرنسی کا رواج شروع کر رہی تھی۔ کاغذی کرنسی پہ اعتبار بڑھانے کے لیے شروع شروع میں تو لوگوں کو بینک سے کاغذی روپیہ کے بدلے سونا یا چاندی دے دی جاتی تھی مگر رفتہ رفتہ یہ مشکل تر ہوتا چلا گیا اور بالآخیر بالکل ہی ختم ہو گیا۔ برطانیہ میں یہ نظام 1821 سے پہلی جنگ عظیم (اگست 1914) تک چلا۔ ایک پونڈ اسٹرلنگ 113 گرین (grain) سونے کی نمائیندگی کرتا تھا اور ایک امریکی ڈالر 23.22 گرین سونے کے برابر تھا۔ 1914 میں امریکا میں فیڈرل ریزرو کے آغاز کے بعد کلاسیکی گولڈ اسٹینڈرڈ کا خاتمہ ہو گیا۔
کلاسیکی گولڈ اسٹینڈرڈ میں مندرجہ ذیل چھ خوبیاں موجود تھیں جو رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئیں اور گولڈ اسٹینڈرڈ محض فراڈ بن کر رہ گیا۔

  1. کاغذی کرنسی کا تعلق سونے کے طے شدہ وزن سے تھا۔
  2. سونے کے سکے گردش میں تھے۔
  3. کاغذی کرنسی سونے کے سکّوں میں با آسانی تبدیل کی جا سکتی تھی۔
  4. دوسرے سکے (مثلاً چاندی کے سکے) سونے کے سکوں کے ماتحت تھے۔
  5. سونے کے سکے پگھلانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔
  6. سونے کی کسی بھی شکل میں درآمد اور برآمد پر کوئی پابندی یا ٹیکس نہیں تھا۔
ہندوستان میں قانون تو گولڈ اسٹینڈرڈ جیسا بنا تھا لیکن چند سالوں بعد ہی عملی طور پر "گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ" رواج دے دیا گیا اور حقیقی گولڈ اسٹینڈرڈ کے تقاضے کبھی بھی پورے نہ ہو سکے۔[110] حقیقی طلائی معیار میں سونا چاندی بغیر کسی روک ٹوک کے عوام کی دسترس میں ہوتا ہے کیونکہ سونے چاندی کے سکے گردش میں ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں طلائی معیار کا قانون 1816ء میں بنا تھا جس کے بعد اگلے سال سونے کا سکہ "سوورین" (sovereign) جاری کیا گیا جو 22 قیراط سونے سے بنا تھا اور اس میں 7.322 گرام خالص سونا ہوتا تھا۔ یہ ایک پاونڈ یعنی 20 چاندی کے شلنگ کے برابر تھا۔ ان نئے سکوں نے پرانے سونے کے سکے "گنی" (Guinea) کی جگہ لی۔ نومبر 1864ء میں سوورین کی قیمت 10 ہندوستانی روپے کے مساوی قرار دی گئی تھی۔ (یعنی سوورین کی شکل میں 24 قیراط سونے کی قیمت لگ بھگ 15.93 روپیہ فی تولہ تھی )۔ 26 جون 1893ء کو Lord Herschell کی سفارش پر سوورین کی قیمت بڑھا کر 15 روپے قرار دی گئی (یعنی لگ بھگ 24 روپے فی تولہ) اور ٹکسالیں بند کر دی گئیں۔ اس طرح ایک سوورین ایک اشرفی (گولڈ مُہر) کے برابر ہو گیا حالانکہ سوورین کے مقابلے میں اشرفی میں خالص سونے کی مقدار لگ بھگ 45 فیصد زیادہ تھی۔ اس طرح شرح تبادلہ کنٹرول کر کے ہندوستان کو سرکاری سطح پر لُوٹنا قانونی ہو گیا۔

The sovereign became equivalent to just fifteen rupees, which was precisely the same rate at which the gold mohur used to exchange for (silver) rupees [ Indian Currency Problems of the Last Decade by Andrew, A. Piatt]

طلائی تبدل معیار: (Gold exchange standard)۔ اپنے نام کی مماثلت کے باوجود گولڈ اسٹینڈرڈ اور گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن دونوں ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں یعنی قابل تخلیق کرنسی کو رائج کرنا۔ گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کے نظام میں صرف امریکا اور برطانیہ کو “ریزرو ممالک“ کا درجہ دیا گیا جن کے لیے سونے کا ذخیرہ رکھنا “ضروری“ تھا جبکہ باقی ممالک کے لیے کاغذی ڈالر یا پاونڈ کا ذخیرہ سونے کے ذخیرے کے مساوی قرار دیا گیا  وجہ یہ بتائی گئی کہ دنیا میں اتنا سونا دستیاب نہیں ہے کہ ہر ملک کا سینٹرل بینک اپنا سونے کا ذخیرہ بنا سکے۔
اس حکمت عملی کو “سونے کی کفایت شعاری“ بتایا گیا۔(دیکھیے لنڈسے اسکیم)

طلب و رسد (demand & supply) کے قانون کے تحت دستیابی کم ہونے کی وجہ سے سونے کی قیمت بڑھ جانی چاہئیے تھی لیکن ایسا نہ ہونے دیا گیا۔

1926ء میں ہلٹن ینگ کمیشن نے اعتراف کیا کہ "اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ محض ایک ملک (برطانیہ) کی کرنسی پر انحصار کرنا ہندوستان کے لیے سخت نقصان دہ ہے خواہ پاونڈ کتنا ہی مستحکم اور سونے سے جڑا ہو"

there is undoubted disadvantage for India in dependence on the currency of a single country, however stable and firmly linked to gold

گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کے نظام میں سونے چاندی کے سکّے گردش میں نہیں ہوتے تھے اور حکومت اس بات کی ضمانت دیتی تھی کہ کاغذی روپیہ کے بدلے ایک مقررہ مقدار میں سونا یا چاندی دی جائے گی جو حکومت (یا مرکزی بینک) کے پاس محفوظ رکھی ہوتی تھی۔ اس زمانے میں لوگوں کا بینک سے کاغذی روپیہ کے بدلے سونا یا چاندی حاصل کرنا بہت مشکل بنا دیا گیا تھا۔ اب سونا چاندی عوام کی دسترس سے نکل گیا تھا کیونکہ اب بینک کی روک ٹوک درمیان میں آ گئی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس ضمانت کی آڑ میں امریکا اور برطانیہ کے مَرکزی بینکوں نے دنیا بھر کے عوام کا سونا چاندی بڑی مقدار میں ہڑپ کر لیا۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے اس دوران میں بڑی مقدار میں سونا ہندوستان سے انگلستان بھیجا اور اس طرح ہندوستان میں سونے کی قلّت پیدا ہو گئی تھی جس کو چھپانے کے لیے اصلی سکّوں کی جگہ کاغذی کرنسی کو ہی قانونی کرنسی قرار دیا گیا۔ ہندوستان میں گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ 1898ء میں Fowler Report کے بعد باضابطہ طور پر نافذ کیا گیا اور ایک ہندوستانی روپیہ ایک شلنگ اور چار پینس (1s 4d) کے برابر قرار دیا گیا۔ یہ درحقیقت اسٹرلنگ ایکسچینج اسٹینڈرڈ تھا۔ جان مینارڈ کینز اپنی کتاب "انڈین کرنسی اینڈ فائیننس" میں لکھتا ہے کہ مالی سال 1900-1901ء میں حکومت ہند نے عوام کو سونے کا برطانوی ایک پاونڈ کا سکہ sovereign چاندی کے 15 روپے کے عوض جاری کرنا شروع کیا۔ ایک سال میں £6,750,000 کے سکے جاری کیے گئے لیکن توقع کے خلاف ان کی نصف مقدار بھی لوٹ کر بینکوں یا ٹریزری میں واپس نہیں آئی اور یہ تجربہ بری طرح ناکام رہا۔برطانیہ میں اس نظام کو لانے کی وجہ یہ تھی کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ پہ 85 کروڑ پاونڈ کا قرضہ چڑھ چکا تھا اور حکومت کے اخراجات کا 40 فیصد سود ادا کرنے پر خرچ ہوتا تھا۔ (سو سال بعد آج برطانیہ پہ 31 ارب پاونڈ کا قرضہ ہے)۔ برطانیہ میں یہ نظام صرف 6 سال (1925 سے 1931 تک) چل سکا کیونکہ یورپی ممالک نے برطانیہ سے سونا خریدنا شروع کر دیا اور برطانوی سونے کے ذخائر میں تیزی سے کمی آنے لگی۔ مئی 1931 میں آسٹریا کے سب سے بڑے بینک میں بینک رن ہوا اور وہ بینک فیل ہو گیا۔ یہ بینک رن اسی سال جرمنی اور برطانیہ تک پہنچ گیا۔ 19 ستمبر 1931 میں برطانیہ نے یہ نظام ختم کر دیا جس سے برطانوی پاونڈ کی قیمت بڑی تیزی سے گری۔ چونکہ ہندوستانی روپیہ پاونڈ سے منسلک تھا اس لیے روپے کی قدر بھی بہت کم ہو گئی اور برطانیہ کے جرم کی ساری سزا ہندوستان کو بھگتنی پڑی۔ صرف تین چار مہینوں میں ہندوستان میں سونے کی قیمت 45 فیصد اضافہ کے بعد لگ بھگ 32 روپے تولہ ہو گئی۔ یہ سب مرکزی بینکوں کی جانب سے ذخیرہ شدہ سونے کی مالیت سے کہیں زیادہ نوٹ چھاپنے کا نتیجہ تھا۔ اس سارے بحران میں مرکزی بینکوں نے خوب خوب کمایا۔

A gold standard puts the requirements for the quantity of money in circulation entirely in the hands of the market, to which the central bank mechanically responds. A gold exchange standard allows a lending central bank to inflate its money supply through inward investment, and a borrowing central bank to inflate its money supply on the presumption the monetary substitutes borrowed to back it are monetary units of gold....So, by lending their monetary units, the creditor nations achieved finance for their own governments, as well as providing capital for foreign central banks. It was seen to be a win-win for all the central banks involved.[ Why A Dollar Collapse Is Inevitable]

جیمز ریکارڈز اپنی کتاب “کرنسی کی موت“ (The Death of Money) میں گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کے بارے میں لکھتے ہیں: گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ ایک جانب حقیقی گولڈ اسٹینڈرڈ کی سنہری نقل تھا تو دوسری جانب ایک بہت ہی بڑا فراڈ بھی تھا۔
"مالیاتی نظام کی جڑیں کھوکھلی ہیں۔ کرنسی چھاپنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ قرضے جاری کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔"
"There is no anchor to the system. There is no limit on money printing. There is no limit on debt creation."
مالیات کی دنیا میں مبہم اور ذو معنی اصطلاحات کا استعمال بہت عام ہے۔ گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ میں لفظ ایکسچینج سے مراد بل آف ایکسچینج  تھا جو ایک بینک ڈرافٹ ہوتا تھا اور اس زمانے میں بین الاقوامی ادائیگیوں میں بہت استعمال ہوتا تھا۔ گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کا لب لباب یہ تھا کہ سونے کے بدلے کاغذ لے لو۔ عوام کو اگرچہ کاغذی رسید کے بدلے سونا نہیں دیا جاتا تھا مگر اب بھی عوام کا سونے پر حق تسلیم کیا جاتا تھا۔

طلائی سلاخ معیار: (Gold bullion standard) اس نظام میں عام آدمی کے لیے کاغذی کرنسی کے بدلے بینک سے سونے کا سکہ لینے کا حق ہی ختم کر دیا گیا۔ صرف چند امیر لوگوں کے پاس یہ حق باقی رہ گیا جو دوسرے ممالک سے تجارت کرتے تھے اور یک مشت 400 اونس (لگ بھگ ساڑھے بارہ کلو) کی سونے کی اینٹ خرید سکتے تھے۔ اس نظام کو پہلی دفعہ رکارڈو نے تجویز کیا تھا مگر ان تجاویز پر عمل اس کی موت کے سو سال بعد ہوا۔

حکومت برطانوی ہند نے عوام سے سونا خریدنے کی کم از کم حد 40 تولے رکھی تھی مگر عوام کو سونا بیچنے کی کم از کم حد 400 اونس یعنی 1069 تولے مقرر کی تھی۔
بعد میں ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر بننے والے سر چنتا من راو دیشمکھ نے ہندوستان میں برطانوی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ایسی اصلاحات کے بعد انڈیا آفس اس طرح کا نا ممکن کاروبار ہو سکنے کے بارے میں اندھا ہے اور بے چارے مالیاتی حکام کو اسمبلی میں کھڑے ہو کر اُن پالیسیوں کا دفاع کرنا پڑتا ہے جنہیں وہ خود بھی غلط سمجھتے ہیں اور جن کے نقصانات بڑے واضح ہوتے ہیں"۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل 1931 سے مارچ 1941 تک ہندوستان کی برطانوی حکومت نے 1337.5 ٹن سونا برطانیہ بھیجا جس کی اُس وقت مالیت 375 کروڑ روپے تھی۔ اُس وقت اس سونے کی اوسط قیمت 33 روپے فی تولہ سے بھی کم تھی۔ اس سونے سے بینک آف انگلینڈ کو سونے کا ذخیرہ بنانے میں بڑی مدد ملی۔ اگر آج کے سونے کے نرخ سے دیکھا جائے تو یہ 50 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا سونا تھا۔ 1900ء میں سیکریٹری آف اسٹیٹ کی ہدایت پر Gold Standard Reserve کا سارا سونا پہلے ہی ہندوستان سے لندن منتقل کیا جا چکا تھا۔

مشہور ماہر معاشیات Ludwig von Mises (1881–1973) اپنی تصنیف Beware the Alchemists (دولت بنانے والوں سے ہوشیار)میں لکھتے ہیں کہ حکومت کو یہ حق ہے کہ وہ جسے چاہے گھوڑا کہے۔ وہ چوزے کو بھی گھوڑا کہہ سکتی ہے۔ اس وقت تو لوگ حکومت کو پاگل یا کرپٹ سمجھیں گے۔ لیکن تین صدیوں میں حکومتیں کاغذ کے ٹکڑے کو کرنسی باور کرانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ اور یہی مہنگائی کی اصل وجہ ہے۔ 

گریشام کا قانون

Gresham's law معیشت کا ایک بنیادی اصول ہے جو بتاتا ہے کہ اچھی (مہنگی) کرنسی ہمیشہ بُری (سستی) کرنسی سے شکست کھا جاتی ہے۔(Bad money drives out good, because good and bad coin cannot circulate together)۔ یہی اصول بتاتا ہے کہ سونے یا چاندی کی کرنسی اور کاغذی کرنسی ہمیشہ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ آسان الفاظ میں گریشام کے قانون کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ جب حکومت منتقلی کے قابل کسی چیز کی قیمت کم مقرر کرتی ہے تو ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی وجہ سے وہ چیز مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے اور جب حکومت اُس چیز کی قیمت زیادہ مقرر کرتی ہے تو مارکیٹ میں اُس چیز کی بھرمار ہو جاتی ہے۔  ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ قیمت طے کرنا مارکیٹ کا کام ہے، حکومت کا نہیں۔
چونکہ کرنسی کی شکست ملک کی شکست ہوتی ہے اس لیے دوسرے الفاظ میں اگر کسی ملک میں اچھی کرنسی (مثلاً ہارڈ کرنسی) رائج ہو اور پڑوس کے ملک میں کاغذی کرنسی رائج ہو تو ہارڈکرنسی والے ملک کی شکست یقینی ہے (مثلاً سلطنت عثمانیہ اور یورپ)۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلے گولڈ اسٹینڈرڈ نے ہارڈ کرنسی کو مات دی۔ پھر فی ایٹ کرنسی نے گولڈ اسٹینڈرڈ کو اُکھاڑ پھینکا۔ اس کے بعد debt money نے فی ایٹ منی کو شکست دی۔ اور اگر مستقبل میں debt money سے بھی بدتر کوئی کرنسی ایجاد ہو گئی تو وہ دنیا بھر میں چھا جائے گی مثلاً ڈیجیٹل کرنسی یا بٹ کوائن یا سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (CBDC)۔ (دیکھیے کیش کے خلاف جنگ)

گریشام کے اصول سے فائیدہ اٹھانے کی بہترین مثال 1935ء میں واضح ہوئی جب امریکا نے قانون (Silver Purchase Act 1934) بنا کر چاندی کی قیمت بڑھا دی کیونکہ امریکا کو ادائیگی کاغذی کرنسی میں کرنی تھی۔ چین اور میکسیکو چاندی کی قیمت نہ بڑھا سکے۔ اس کے نتیجے میں چین، میکسیکو اور دیگر کئی ممالک میں لوگوں نے چاندی کے سکے پگھلا کر امریکا اسمگل کر دیے۔ سکوں کی شدید قلت کی وجہ سے چین کو سلور اسٹینڈرڈ ترک کر کے کاغذی کرنسی اپنانی پڑی۔ اگر چین پہلے ہی سے اپنی کاغذی کرنسی جاری کر چکا ہوتا تو کاغذی کرنسی میں چاندی کی قیمت بڑھا دیتا اور اپنی چاندی سے محروم ہونے سے بچ جاتا۔

گریشام کے اصول کو موثّر بننے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت دو قانون بنائے۔

گھٹیا کرنسی کو لیگل ٹینڈر (قانونی کرنسی) کا درجہ حاصل ہو۔
گھٹیا کرنسی اور بہتر کرنسی کے درمیان میں فکسڈ ایکسچینج ریٹ ہو۔
گولڈ اسٹینڈرڈ کے قوانین درحقیقت ان ہی دونوں شرائط کو پورا کرتے ہیں۔ بریٹن ووڈز کانفرنس (1944) کے ذریعے یہ ہی دونوں قوانین عالمی سطح پر نافذ کیے گئے تھے۔

گریشام کا قانون صرف اُسی صورت میں فیل ہو سکتا ہے جب دنیا بھر کے عوام کاغذی کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی قبول کرنے سے انکار کر دیں اور دیانت دار کرنسی (honest money) کا مطالبہ کریں جو ایسے دھاتی سکوں پر مشتمل ہوتی ہے کہ سکہ پگھلانے سے بھی اس کی قیمت کم نہیں ہوتی۔

امریکا اور گولڈ اسٹینڈرڈ


ابتدا میں جب امریکی کالونیوں نے کاغذی کرنسی چھاپنے کی کوشش کی تو برطانیہ نے 1751, 1764 اور 1773 میں "کرنسی ایکٹ" بنا کر انہیں روکا۔[150] جب 1775ء میں امریکی انقلاب کی جنگ شروع ہوئی تو 13 ریاستوں کی امریکی کانگریس نے پہلی دفعہ نوٹ چھاپنے کی اجازت دی۔ یہ نوٹ 'کونٹینینٹل کرنسی' کہلاتے تھے۔ انقلاب کے دوران 241,552,780 ڈالر چھاپے گئے۔ صرف دو سالوں میں مہنگائی پانچ گنا بڑھ گئی۔

برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد امریکا میں دو دھاتی نظام (bimetallic standard) قائم کیا گیا یعنی 1792ء سے ڈالر کی قیمت سونے اور چاندی دونوں کے وزن اور خالصیت (قیراط) کے لحاظ سے بیان کی جا سکتی تھی اور ڈالر کا سکہ سونے کا بھی ہوتا تھا اور چاندی کا بھی۔ 1789 کے آئین کے پہلے آرٹیکل کی دسویں شق میں بالکل واضح کر دیا گیا تھا کہ کرنسی صرف سونے اور چاندی کی ہو گی۔ (آج کا کاغذی ڈالر غیر آئینی کرنسی ہے۔) چودھویں شق میں واضح لکھا تھا کہ حکومت کی ٹکسالیں عوام کے سونے چاندی کو بغیر کسی اجرت کے سکوں میں تبدیل کر دیا کریں گی جسے free coinage کہا جاتا تھا۔ گیارہویں شق میں سونے کو چاندی سے 15 گنا مہنگا قرار دیا گیا تھا جو ایک بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ قیمتیں وقت کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہیں۔( قیمت طے کرنا مارکیٹ کا کام ہے، حکومت کا نہیں۔) 

اس وقت امریکا میں چاندی کی قیمت 1.293 ڈالر فی اونس تھی اور قانوناً سونا چاندی سے 15 گنا مہنگا تھا۔ لیکن اس وقت باقی دنیا میں سونا چاندی سے پندرہ کی بجائے ساڑھے پندرہ گنا مہنگا تھا۔ دوسرے الفاظ میں امریکا میں سونا باقی دنیا سے سستا تھا اور اسی وجہ سے سونے کے امریکی ڈالر کا سکہ بڑی مقدار میں دوسرے ممالک میں چلا گیا اور امریکا میں عملاً چاندی کے ڈالر کا سکہ گردش میں رہا۔ 

اس خامی کو دور کرنے کے لیے 1834 میں امریکی سونے کے ڈالر کے سکے میں سونے کی مقدار گھٹا دی گئی اور اب یہ سکہ چاندی سے 16 گنا مہنگا کر دیا گیا۔ اب چونکہ چاندی کا ڈالر سستا ہو گیا تھا اس لیے امریکا سے چاندی باہر جانے لگی اور سونا واپس آنے لگا۔ امریکا میں سونے کی نئی کانیں بھی دریافت ہوئیں اور سونے کی فراوانی مزید بڑھ گئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب چاندی کے سکے بالکل ہی نایاب ہو گئے۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ دکان دار ریزگاری واپس کرنے سے قاصر ہو گئے۔
اس مشکل کو دور کرنے کے لیے 1853 میں چاندی کے ایسے سکے جاری کیے گئے جن میں چاندی تو کم ہوتی تھی مگر ان پر قدر زیادہ لکھی ہوتی تھی تاکہ ریزگاری بھی واپس کی جا سکے اور سکہ اسمگل ہو کر ملک سے باہر بھی نہ جائے۔ ایسے سکے ٹوکن منی کہلاتے ہیں اور دھاتی ہونے کے باوجود fiat کرنسی ہوتے ہیں۔

1859 میں نیواڈا، امریکا میں ایک چاندی کی بہت بڑی کان Comstock Lode دریافت ہوئی جہاں سے 1874 تک بڑی مقدار میں چاندی نکالی گئی۔

امریکا کی سول وار 1861ء سے 1865ء تک جاری رہی جس میں 6 لاکھ 25 ہزار لوگ مارے گئے ۔ 1862ء میں ابراہم لنکن کی حکومت نے ایسی کاغذی کرنسی جاری کی جس کی پشت پناہی کے لیے نہ سونا ہوتا تھا نہ چاندی۔ یہ "گرین بیک" کہلاتی تھی۔ یورپی بینکار اس پر سخت مضطرب ہوئے اور انہوں نے اپنے امریکی بینکار دوستوں کو Hazard Circular نامی مراسلے میں لکھا کہ"غلاموں کے مالک کو اپنے مزدوروں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے، جبکہ انگلینڈ کا "یورپی منصوبہ" یہ ہے کہ کیپیٹل (کاغذی کرنسی) کے ذریعے تنخواہیں کنٹرول کر کے مزدوروں کو کنٹرول کیا جائے (اور یہ غلام اپنی دیکھ بھال خود کریں)۔ یہ کرنسی کو کنٹرول کر کے کیا جا سکتا ہے۔ جنگ کے ذریعے کیپیٹلسٹ بہت بڑا قرضہ دے سکتے ہیں پھر اس قرض کو کرنسی کی مقدار کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے لیے حکومتی بونڈز کو بینکاری کی بنیاد بنانا چاہیے۔...اور کسی بھی صورت میں گرین بیک کو بطور کرنسی زیر گردش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم اسے کنٹرول نہیں کر سکتے"۔  اسی سال امریکا میں پہلی دفعہ انکم ٹیکس عارضی طور پر نافذ کیا گیا۔

برطانیہ 1819 میں، کینیڈا 1853 میں اور نیو فاونڈ لینڈ 1865 میں  گولڈ اسٹینڈرڈ اپنا چکے تھے۔ جرمنی نے 1871 میں گولڈ اسٹینڈرڈ اپنا لیا تھا۔ امریکا میں 1873 میں سکوں سے متعلق قانون میں ترمیم کر کے چاندی کا لفظ ہٹا دیا گیا اور عملاً گولڈ اسٹینڈرڈ اپنا لیا گیا جسے عوام نے crime of 1873 کا نام دیا۔ (اور جسے عین سو سال بعد ترک کر دیا گیا)۔ اس قانون سے امریکا میں سرکاری سطح پر دو دھاتی نظام کا خاتمہ ہو گیا۔1862ء سے پہلے ہارڈ کرنسی کے اُس دور میں بھی امریکا میں سونے چاندی کے سکوں کے ساتھ ساتھ کاغذی نوٹ بھی بڑی مقدار میں گردش کرتے رہے۔ ان نوٹوں کی حیثیت سونے چاندی کی رسید یا representative money جیسی تھی۔ یہ نوٹ بہت سے مختلف پرائیوٹ بینکوں کی طرف سے بھی جاری ہوتے تھے اور حکومت کے محکمہ خزانہ کی طرف سے بھی لیکن ان میں سے کسی کو بھی لیگل ٹینڈر کی حیثیت حاصل نہ تھی۔ 8000 سے زیادہ مختلف نجی بینک کاغذی کرنسی جاری کرتے تھے۔ 25 فروری 1863ء کو صدر ابراہم لنکن نے نیشنل کرنسی ایکٹ منظور کیا جس کے بعد بینکوں کا یہ اختیار ختم ہو گیا اور اب یہ حق صرف حکومت کے پاس آ گیا ۔  ہندوستان کی برطانوی حکومت نے یہی کام 1861ء میں کیا تھا۔ عوامی مزاحمت سے بچنے کے لیے ہندوستان کی حکومت نے یہ قانون 1857ء کی بغاوت کے بعد کیے جانے والے قتل عام کی آڑ میں بنایا تھا جس میں 12 لاکھ ہندوستانیوں کو پھانسی دے دی گئی تھی۔  امریکا میں بھی یہ قانون امریکی خانہ جنگی کی ہلاکتوں کی آڑ میں بنایا گیا۔

1879ء میں امریکا بظاہر دوبارہ دھاتی کرنسی پر واپس آ گیا لیکن اس دفعہ چاندی کو کرنسی نہیں قرار دیا گیا بلکہ صرف سونے کو کرنسی قرار دیا گیا۔ عوام کو کاغذی نوٹوں کے بدلے سونے کے سکے دیے جانے لگے جس سے عوام کا کاغذی کرنسی پر اعتبار بحال ہو گیا اور اکثریت نے کاغذی نوٹوں کو ہی استعمال کرنے کو ترجیح دی۔ عوام کا بڑی شدت سے اصرار رہا کہ چاندی کو بھی کرنسی بنایا جائے مگر 1900ء میں دوبارہ صرف سونے کو ہی قانوناً کرنسی قرار دیا گیا۔

اس زمانے میں "بینک رن" بہت عام تھے اس لیے 1913ء میں فیڈرل ریزرو سسٹم بنایا گیا تاکہ چیک اور نوٹ کے بدلے عوام کو سونے چاندی کی ادائیگی کو یقینی بنایا جا سکے لیکن جو کچھ ہوا وہ اس کے عین برعکس تھا۔ 1933ء میں امریکی عوام سے سونا رکھنے کا حق ہی چھین لیا گیا اور ان کا سونا ضبط کر لیا گیا (بہ عوض کاغذی کرنسی)۔

"جب قانونی طور پر سونا رکھا ہی نہیں جا سکتا تو کاغذی نوٹ کے بدلے کیسے طلب کیا جا سکتا ہے؟"
After all, if gold can’t be legally owned, it can’t be legally redeemed.[164]
1934ء میں سلور پرچیز ایکٹ بنا کر چاندی بھی بحساب پچاس سینٹ فی اونس ضبط کر لی گئی۔ سونا جو چاندی سے 16 گنا مہنگا ہوا کرتا تھا اب 27 گنا مہنگا کر دیا گیا۔

"And, the manipulation of the price of silver forced China, which was on the silver standard, into a depression, opening the door for the communists."

جس طرح 1918ء میں امریکا میں بننے والے پِٹ مین ایکٹ (Pittman Act) نے ہندوستان میں ڈگمگاتی ہوئی کاغذی کرنسی کو نہایت مضبوط سہارا مہیا کیا تھا بالکل اُسی طرح 19 جون 1934ء کے امریکا کے سلور پرچیز ایکٹ نے چین کی کمر توڑ دی[ کیونکہ چین میں چاندی کے سکے زیر گردش تھے جنہیں اب امریکا کاغذی سلور سرٹیفیکٹ چھاپ کر مہنگے داموں خرید رہا تھا۔ 1929 کے گریٹ ڈپریشن میں چین ترقی کرتا رہا مگر 1934ء اور 1935ء میں سکوں کی شدید قلت کی وجہ سے چین میں سخت کساد بازاری چھائی رہی جس کی وجہ سے نومبر 1935 میں چین کو بھی سلور اسٹینڈرڈ ترک کرنا پڑا۔ اب دنیا بھر میں کاغذی کرنسی کی راہ بالکل ہموار ہو گئی۔ اس قانون کی آڑ میں امریکا نے دنیا بھر کی چاندی کا بہت بڑا حصہ صرف کاغذ کے ٹکڑوں (سلور سرٹیفیکٹ) کے عوض ہتھیا لیا۔ اس طرح لگ بھگ 44 ہزار ٹن چاندی امریکا کو مفت مل گئی۔ 24 جون 1968ء کو امریکا سلور سرٹیفیکٹ کے بدلے چاندی واپس دینے کے وعدے سے صاف مُکر گیا۔

the effects of the Treasury's heavy purchases of silver were to denude China of its chief circulating medium because the American program made silver coin in China more valuable as export bullion than as currency, China left the silver standard and introduced a managed currency

1934 سے 1965 تک امریکا میں داخلی سطح پر سلور اسٹینڈرڈ اور خارجی سطح پر گولڈ اسٹینڈرڈ نافذ رہا۔ 1934  سے 1973 تک گولڈ اسٹینڈرڈ کے نام پر جو سسٹم چلانے کی کوشش کی گئی وہ ہرگز گولڈ اسٹینڈرڈ نہ تھا۔

امریکا میں 1930 تک سونے کے سکے زیر گردش رہے جبکہ چاندی کے سکے 1970 تک گردش میں تھے۔

چین اس خطرے سے آگاہ ہے کہ ماضی کے سلور پرچیز ایکٹ کی طرح امریکا کسی دن اچانک گولڈ پرچیز ایکٹ بنا کر سونے کی قیمت کئی گنا بڑھا دے گا اور ڈالر کو سونے سے دوبارہ منسلک کر دے گا۔  اس دفعہ امریکا مفت میں سونا تو نہیں ہتھیا سکے گا مگر اپنے قرضوں (ٹریژری بل) کے بوجھ میں بہت بڑی کمی لا سکے گا جو اس کی معیشت کو مفلوج کر چکے ہیں۔ نقصان ان ملکوں کا ہو گا جو ڈالر یا ٹریژری بل کے خریدار ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ چین خود گولڈ پرچیز ایکٹ بنا کر مہنگے داموں سونا خریدنا شروع کر دے  تاکہ اس کی کرنسی کو ریزرو کرنسی کا درجہ حاصل ہو جائے۔

"Beijing must realize that the U.S. could surprise the world with a unilateral gold revaluation... and the new dollar is pegged to the gold."

امریکا میں 173 سالوں تک ڈالر سونے یا چاندی میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ 1965 کے بعد سے ڈالرصرف ایک حساب کی اکائی (unit of account) بن کر رہ گیا ہے۔ 


انگلینڈ اور گولڈ اسٹینڈرڈ

انگلینڈ کے سنار لوگوں کے سونے کی حفاظت کرنے کی ہزار سالہ شہرت رکھتے تھے۔ ان کی جاری کردہ رسیدیں ان کے علاقے کی کرنسی بن جاتی تھیں۔ وہ فریکشنل ریزرو بینکنگ کے سارے گُر جانتے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے یہ راز جان لیا کہ اگر چاندی کا کرنسی کا درجہ ختم کر دیا جائے تو سونے کی بجائے سونے کی رسید سے ہی کام چل سکتا ہے کیونکہ چاندی روزمرہ کی لین دین میں استعمال ہونے والی دھاتی کرنسی ہے جبکہ سونے کا سکہ کبھی کبھار ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح ہارڈ کرنسی کی جگہ کاغذی کرنسی کا نظام لایا جا سکتا ہے جس سے ان کی دولت اور اقتدار میں بے انتہا اضافہ ہو سکتا ہے۔

1694ء میں بینک آف انگلینڈ بنا۔ لگ بھگ 1750ء تک پورے انگلینڈ میں سونے چاندی کے سکوں کی بجائے بینک آف انگلینڈ کی کاغذی کرنسی چھا چکی تھی۔  یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ کے باہر کے لوگ کاغذی کرنسی سے بالکل واقف نہ تھے۔ اسی زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنیوں نے خوب ترقی کری۔
1780 سے انگلینڈ میں سکوں کی قلت بڑھتی چلی گئی جس سے کاغذی کرنسی کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملا۔ نپولین کی جنگوں کی وجہ سے سکوں کی قلت میں اور بھی اضافہ ہوا۔ 1796 سے برطانوی ٹکسالوں نے سکے ڈھالنے بالکل بند کر دیے اور اگلے 20 سالوں تک یہ کام بند رہا۔ 

انگلینڈ میں 1377 سے 1816 تک سونا چاندی سے 16 گنا مہنگا ہوا کرتا تھا  جبکہ اس وقت فرانس (جو اس زمانے میں سپر پاور تھا) اور باقی یورپ میں سونا چاندی سے ساڑھے پندرہ گنا مہنگا تھا۔ اس طرح سونا انگلینڈ آنے لگا اور چاندی باہر جانے لگی۔ 1816 تک بینک آف انگلینڈ اتنا سونا جمع کر چکا تھا کہ اس نے دنیا میں سب سے پہلے گولڈ اسٹینڈرڈ نافذ کر لیا اور اس طرح قانونی طور پر چاندی کا کرنسی کا درجہ ختم کر دیا۔ یہ بینکار اس راز سے اچھی طرح واقف تھے کہ گولڈ اسٹینڈرڈ آخر کار کاغذی اسٹینڈرڈ میں تبدیل ہو جاتا ہے (دیکھیے گریشام کا قانون)۔

"گولڈ اسٹینڈرڈ کے بعد فی ایٹ کرنسی کا مرحلہ آتا ہے"
"The gold standard is one step to fiat"

انگلینڈ نے سونے کے مقابلے میں چاندی میں لیے گئے قرض پر شرح سود بڑھا دی جس سے دوسرے ممالک جو چاندی کے اسٹینڈرڈ پر تھے ان پر بھی گولڈ اسٹینڈرڈ اپنانے اور چاندی کو ترک کرنے کے لیے دباو بڑھ گیا ورنہ ان کی تجارت متاثر ہوتی۔ 1815 میں فرانس کی واٹر لو میں شکست کے بعد انگلینڈ کو کرنسی کے معاملات میں واضح برتری حاصل ہو گَئی اور وہ ساری دنیا کو قرضے جاری کرنے کی پوزیشن میں آ گیا۔ اس طرح تجارتی خسارے کے دنوں میں بھی انگلینڈ کاغذی کرنسی (کیپیٹل) ایکسپورٹ کر کے سونا حاصل کرتا رہا۔

1844 میں حکومت برطانیہ نے Bank Charter Act 1844 منظور کیا جس سے بینکوں کی بے تحاشہ کرنسی نوٹ چھاپنے کی آزادی ختم ہو گئی۔ لیکن بینکوں نے فوراً اس قانون کا توڑ دریافت کر لیا اور چیک اور ڈرافٹ کے ذریعے تخلیق دولت کا کام جاری رکھا جو اس قانون کی زد میں نہیں آتا تھا۔

1834 سے 1914 تک ایک برٹش پاونڈ 4.867 امریکی ڈالر کے برابر تھا۔ 1914 میں امریکا میں فیڈرل ریزرو بننے سے دنیا بھر کو قرض دینے کا حق انگلینڈ کے ہاتھ سے نکل کر امریکا کے ہاتھ میں چلا گیا اور 1933 تک پاونڈ کی قیمت گر کر 2.214 ڈالر رہ گئی جو اگست 2008 کو محض 1.853 ڈالر ہو گئی۔[186] Brexit کے بعد پاونڈ کی قیمت میں مزید کمی آئی اور 21 دسمبر 2016 کو ایک پاونڈ محض 1.24 ڈالر کے برابر تھا۔

بریٹن وڈز کا معاہدہ

جب کوئی ایک ملک کسی دوسرے ملک کی کاغذی کرنسی پر کنٹرول حاصل کر لیتا ہے تو وہ بڑے پوشیدہ طریقے سے اُس دوسرے ملک کی معیشت، صنعت، تجارت اور دولت پرحاوی ہو جاتا ہے۔ بریٹن اوڈز سسٹم بنانے کا اصل مقصد بھی اسی طرح سے دنیا بھر پر امریکی بینکاروں کی حکمرانی قائم کرنا تھا۔

جس سال بریٹن ووڈز کا معاہدہ طے پایا اسی سال معاہدے سے پہلے ماہر معاشیات Friedrich Hayek (جسے 1974 میں نوبل انعام ملا) نے اپنی کتاب "غلام مملیکت کا رستہ" (The Road to Serfdom) میں لکھا :

"سارے لوگوں پر جو حاکمیت معاشی کنٹرول عطا کرتا ہے اس کی سب سے بہترین مثال فورین ایکسچینج کے شعبہ میں واضح ہے۔ جب (مارکیٹ کی بجائے) ریاست فورین ایکسچینج (کا ریٹ) کنٹرول کرنا شروع کرتی ہے تو شروع میں تو کسی کی ذاتی زندگی پر کوئی اثر پڑتا محسوس نہیں ہوتا اور زیادہ تر لوگ اسے بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لیکن بہت سے یورپی ممالک کے تجربات کے بعد دانشوروں نے اس طرز عمل کو مکمل عالمی حاکمیت (totalitarianism) کی جانب فیصلہ کن پیشرفت قرار دیا ہے۔ یہ درحقیقت سارے لوگوں کو ریاست کی مطلق العنانی کے حوالے کر دینا ہے۔ یہ فرار ہونے کے سارے راستے بند کر دیتا ہے، نہ صرف امیروں کے بلکہ ہر کسی کے ۔"

بریٹن وڈز کانفرنس سے پہلے خود کینیز نے فریڈرک ہائیک کو خط لکھ کر کہا کہ میں اخلاقی طور پر تمہاری ہر بات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن تم یہ توقع مت رکھنا کہ میں (سب کے سامنے) تمہاری ہر بات تسلیم بھی کر لوں گا۔ ایک اور ماہر معاشیات Henry Hazlitt نے بھی اسی زمانے میں کہہ دیا تھا کہ بریٹن وڈز سسٹم فیل ہو جائے گا۔


بریٹن ووڈز کا ماونٹ واشنگٹن ہوٹل جہاں 1944 میں بریٹن ووڈز کا عالمی معاہدہ طے ہوا۔

سن 1900 سے امریکی سونے کے ذخائر اور سونے کی قیمت۔ 1950 سے امریکی سونے کے ذخائر میں تیزی سے کمی آنے لگی اور 1970 تک امریکا اپنا 60 فیصد سونا کھو چکا تھا۔ اپنا سونا بچانے کے لیے اس نے بریٹن ووڈ کا معاہدہ توڑ دیا جس کی وجہ سے سونے کی قیمت بڑھنا شروع ہو گئی۔ 1976 میں آئی ایم ایف نے 777 ٹن سونا بیچا جس سے قیمت تھوڑی سی کم ہوئی۔[253] 1999–2000 میں آئی ایم ایف نے اسی مقصد سے مزید 435 ٹن سونا بیچا۔ 

دوسری جنگ عظیم تک دنیا بھر کے عوام میں کاغذی کرنسی کا رواج مستحکم ہو چکا تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ مرکزی بینک آپس میں کس طرح لین دین (بزنس) کریں۔ کوئی بھی مرکزی بینک کسی دوسرے مرکزی بینک کی چھاپی ہوئی کاغذی کرنسی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا اور سونے کا مطالبہ کرتا تھا۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے دوسری جنگ عظیم کے دوران میں جولائی 1944 میں بریٹن ووڈز، نیو ہیمپشائر، امریکا کے مقام پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (المعروف آئی-ایم-ایف) اور ورلڈ بینک وجود میں آئے۔ اس کانفرنس میں 44 اتحادی ممالک کے 730 مندوبین نے شرکت کی تھی جس میں روس بھی شامل تھا مگر جاپان شامل نہیں تھا۔ اس کے ایک سال بعد ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا۔
اس کانفرنس کے انعقاد کے وقت دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے پاس موجود کل سونے کا %75 امریکا کے پاس تھا۔

اس کانفرنس کے دوران میں ہندوستان کے مندوب نے سوال پوچھا کہ gold convertible exchange سے کیا مراد لیا جائے گا۔ اس کا گول مول جواب دیا گیا کہ امریکی ڈالر سے جتنا چاہیں سونا خریدا جا سکتا ہے اس لیے اس ایکسچینج سے ڈالر ہی مراد لیا جائے۔  روسی وفد اگرچہ مذاکرات میں شامل تھا مگر اس نے اس معاہدے کی توثیق سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ ادارے (ورلڈ بینک، آئی ایم ایف) وال اسٹریٹ کی شاخیں ہیں۔

اس معاہدے کے مطابق 35 امریکی ڈالر ایک اونس سونے کے برابر طے پائے تھے اور امریکا 35 ڈالر کے عوض اتنا سونا دینے کا پابند تھا۔ دنیا کی دیگر کرنسیوں کی قیمت امریکی ڈالر کے حساب سے طے ہوتی تھی۔ اس معاہدے میں بڑی چالاکی سے سونے چاندی کی بجائے ڈالر کو کرنسی کا معیار مقرر کیا گیا یعنی سونے کی بجائے معیار سونا کی آڑ میں "معیار ڈالر" لایا گیا  ۔ 
اس کانفرنس کے معاہدے کا مسودہ انگریز ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز نے بنایا تھا جو بینک آف انگلینڈ کا ڈائریکٹر تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک ہی عالمی کرنسی (بینکور) ہو جو نہ سونے سے منسلک ہو نہ سیاسی دباو کے تحت آئے مگر وہ مندوبین کو اس پر قائل نہ کر سکا۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کینیز اپنے آقاوں کے لیے کام کر رہا تھا۔ دو سال بعد اس کا انتقال ہو گیا۔ 

خود کینیز کے مطابق بریٹن وڈز کا یہ معاہدہ گولڈ اسٹینڈرڈ کا عین اُلٹ تھا۔ فرانسیسی صدر ڈیگال کے مشیر Jacques Rueff کے مطابق بریٹن وڈز کا یہ گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ "مغربی ممالک کا مالیاتی گناہ" تھا۔ اُس نے دس سال پہلے یہ پیشنگوئی کر دی تھی کہ یہ سسٹم چل نہیں سکتاَ۔ 

اس معاہدے کے بعد دوسرے ممالک اپنی کرنسی کو امریکی ڈالر سے ایک مقررہ نسبت پر رکھنے پر مجبور ہو گئے چاہے اس کے لیے انہیں ڈالر خریدنے پڑیں یا بیچنے۔ اس اسکیم کی خاص بات یہ تھی کہ اب دنیا بھر میں کاغذی ڈالر زیر گردش آنے والا تھا۔[259][260] اس معاہدے سے امریکی بینکاروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائ میں آ گیا۔ اس معاہدے کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک نے نادانستہ طور پر اپنی اپنی کرنسی کے کنٹرول سے رضا کارانہ دستبرداری منظور کر لی تھی۔ پہلے جو کچھ فوجی طاقت سے چھینا جاتا تھا اب وہ سب کچھ شرح تبادلہ کا کھیل بن گیا کیونکہ سونے کی رکاوٹ درمیان میں سے ہٹ چکی تھی۔

"یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ اس وقت کسی نے نہیں دیکھا کہ ورلڈ بینک کی آڑ میں (سارے ملکوں کی) حاکمیت منتقل ہو رہی ہے۔"

It is perhaps strange that almost no one at the time saw the transfer of power that was concealed under the grand term “World Bank” 

اس معاہدے نے غلامی کی ایک نئی قسم کی بنیاد رکھی جو پہلے ہارڈ کرنسی کے دور میں ممکن نہ تھی۔ اس نئی قسم کی غلامی میں انسان غلام نہیں ہوتے بلکہ ان کی کرنسی غلام ہوتی ہے۔ اور جب کرنسی غلام ہوتی ہے تو پوری معیشت غلام ہوتی ہے۔ قابل تخلیق کرنسی اپنے تخلیق کنندہ کے کنٹرول میں ہوتی ہے لیکن سونے چاندی کی کرنسی کبھی کنٹرول نہیں کی جا سکتی (کیونکہ تخلیق نہیں کی جا سکتی)۔ بریٹن وڈز کے معاہدے نے پوری دنیا کو امریکی بینکاروں کا معاشی غلام بنا دیا۔ غالباً دوسری جنگ عظیم شروع کرنے کا اصل مقصد بھی یہی سب کچھ حاصل کرنا تھا۔

"(کاغذی) کرنسی غلامی کی ایک نئی قسم ہے جوپہلے والی غلامی سے یوں مختلف ہے کہ یہ غیر ذاتیاتی ہے۔ اس نئی قسم میں آقا اور غلام کبھی آمنے سامنے نہیں آتے۔" (اور اس وجہ سے غلام کبھی بغاوت نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کس سے لڑنا ہے۔)

money is a new form of slavery, and distinguishable from the old simply by the fact that it is impersonal – that there is no human relation between master and slave. Leo Tolstoy 

امریکا کی آکوپائی وال اسٹریٹ (Occupy Wall Street- 2011) اور فرانس کی یلو ویسٹ (yellow vest-2019) تحریکیں صرف اس لیے ناکام ہوئی ہیں کہ مظاہرین کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کے مسائل کی وجہ کرنسی کی تخلیق ہے ۔ 

آسٹریلیا کے وزیر محنت Eddie Ward نے بریٹن اووڈز کی سازش کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ سب کچھ آنے والے سالوں میں بالکل سچ ثابت ہوا۔

"مجھے یقین ہے کہ پرائیوٹ عالمی بینکار بریٹن اووڈز معاہدے کے ذریعے پوری دنیا پر اپنی ایسی مکمل اور خوفناک ڈکٹیٹر شپ قائم کرنا چاہتے ہیں جس کا ہٹلر نے کبھی خواب بھی نہ دیکھا ہو گا۔ یہ وحشیانہ طریقے سے چھوٹے ممالک کو غلام بنا دے گی اور ہر حکومت ان بینکاروں کی دلال بن جائے گی۔ عالمی مالیاتی اداروں کا گٹھ جوڑ بے روزگاری، غلامی، غربت، ذلت اور مالیاتی تباہی میں اضافہ کرے گا۔ اس لیے ہم آزادی پسند آسٹریلویوں کو اس منصوبے کو نا منظور کر دینا چاہیے۔"

I am convinced that the Bretton Woods Agreement will enthrone a world dictatorship of private finance more complete and terrible than any Hitlerite dream. It … quite blatantly sets up controls which will reduce the smaller nations to vassal states and make every government the mouthpiece and tool of International Finance …۔ World collaboration of private financial institutions can only mean more unemployment, slavery, misery, degradation and financial destruction. Therefore, as freedom loving Australians, we should reject this infamous proposal.

"مغربی ممالک نے، جو اپنی نوآبادیاں کھو چکے تھے، بریٹن وڈز کانفرنس میں ایسے ادارتی انتظامات کیے کہ نئے ابھرنے والے ممالک پر ان کی حاکمیت اوران کا استحصال جاری رہے۔ تیسری دنیا کے ممالک نہ اُس مشاورت میں حصہ دار تھے نہ ہی نتائج سے کوئی فائدہ حاصل کر سکے۔ اس کی بجائے انہیں بہت کچھ کھو کر یہ حوصلہ شکن حقیقت پتہ چلی کہ یہ نظام تو اُن کے ہی خلاف بنایا گیا تھا اور یہ بات یقینی بنا دی گئی تھی کہ وہ ہمیشہ صنعتی ممالک کی طاقتوں کے زیر اثر رہیں۔ اگرچہ کہ کچھ معمولی تبدیلیاں کی جا چکی ہیں مگر آج تک کلیدی اداروں مثلاً آئی ایم ایف میں ووٹ کی طاقت وہی ہے جو 1940 اور 1950 کی دہائی میں تھی"۔

At the Bretton Woods conference, the Western nations, having lost their empires, made institutional arrangement for continuing their domination and exploitation of the newly emerging nations. The Third World itself was not a party to the negotiations nor has it benefited from the results. Instead, it has discovered, to its cost and dismay, that the system was designed to discriminate against it and to ensure its dependence on the established power blocs in the industrialized countries. To this day, even though there have been some minor changes, the voting power in key institutions like the IMF reflects the world of the 1940s and 1950s.

اس معاہدے کے بعد اب چونکہ نوآبادیاتی نظام کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی اس لیے دنیا کی ساری کالونیوں کو آزاد کر دیا گیا اورمزاحمتی لیڈروں کو اقتدار سونپ دیا گیا۔ برصغیر کی آزادی گاندھی کا کارنامہ نہیں تھی[266] بلکہ بریٹن ووڈز معاہدے کا خاموش نتیجہ تھی۔

"روائیتی نوآبادیاتی نظام کو 1940 سے 1960 کی دہائیوں میں توڑ دیا گیا۔ اس کے بعد دنیا کی مالیاتی طاقتوں (سینٹرل بینکرز) نے سیاسی کنٹرول کی بجائے مالیاتی کنٹرول اختیار کیا"۔

traditional model of colonialism was forcibly dismantled in the 1940s-1960s.
In response, global financial powers sought financial control rather than political control.

"یقیناً امریکا ان ممالک کو اپنی کولونی (نوآبادی) نہیں کہتا۔ وہ کہتا ہے کہ ہم نے انہیں آزاد کیا۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ ممالک امریکا کے شکاری کیپیٹلزم کی کولونییاں ہیں جیسے پورٹے ریکو یا عراق۔"
Sure, America didn’t call countries it’s colonies — it said (LOL) that it “liberated” them. What that means is that they effectively became colonies of American style predatory capitalism (take a look at Puerto Rico — or Iraq.)[268]
سیاسی آزادی دی گئی مگر اقتصادی آزادی بالکل نہیں ملی۔

In the case of the post-war world, the deliverance of political freedom among the “former British Empire” was never accompanied by an ounce of economic freedom to give that liberation any meaning.[269]
اس معاہدے کی کامیابی کا میڈیا میں بڑے زور و شور سے چرچا کیا گیا لیکن تصویر کا صحیح رُخ آج تک چھپایا جاتا ہے۔ اور جس بات کا چرچا نہیں کیا گیا وہ یہ تھی کہ 35 ڈالر میں ایک اونس سونا خریدنے کا حق عوام کو نہیں دیا گیا تھا بلکہ یہ حق امریکا کی طرف سے صرف اور صرف دوسرے ممالک کے سینٹرل بینکوں کو دیا گیا تھا۔ گویا عوام کے لیے صرف کاغذی کرنسی اور امیروں کے لیے سونے کی کرنسی طے پائی۔ اُس وقت امریکی عوام کو سونا رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ چین میں بھی 1950 سے 2003 تک عوام پر خام سونا رکھنے کی پابندی تھی۔ [270] ہندوستان کی برطانوی حکومت اور آزادی کے بعد مورار جی دیسائی نے ہندوستان میں سونے کی درآمد کو روکے رکھا۔ اور اسی وجہ سے بریٹن اوڈز کا معاہدہ لگ بھگ دو دہائیوں تک چل سکا۔

"اس احسان پر تو ماونٹ رشمور پر مورار جی دیسائی کا مجسمہ بن جانا چاہیے تھا"

1971 میں ویتنام کی جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت سخت دباو کا شکار تھی اور افراط زر تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ اپریل 1971 میں جرمنی نے امریکی دباؤ میں آ کر پانچ ارب ڈالر خریدے تا کہ امریکی ڈالر کو سہارا مل سکے۔ اس وقت 5 ارب ڈالر 4400 ٹن سونے کے مساوی تھے۔ اگر جرمنی نے ڈالر کی بجائے امریکا سے سونا طلب کیا ہوتا تو امریکی مالیاتی نظام کی کمر ٹوٹ جاتی۔ مزید امریکی دباو سے جان چھڑانے کے لیے صرف ایک مہینے بعد 10 مئی 1971 کو جرمنی نے بریٹن ووڈ معاہدے سے ناتا توڑ لیا کیونکہ وہ گرتے ہوئے امریکی ڈالر کی وجہ سے اپنے جرمن مارک کی قیمت مزید نہیں گرانا چاہتا تھا۔ اس کے صرف تین مہینوں بعد جرمنی کی معیشت میں بہتری آ گئی اور ڈالر کے مقابلے میں مارک کی قیمت %7.5 بڑھ گئی۔ امریکی ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت دیکھتے ہوئے دوسرے ممالک نے امریکا سے سونے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ سویزر لینڈ نے جولائی 1971 میں پانچ کروڑ ڈالر کا 44 ٹن سونا امریکا سے وصول کیا۔ امریکا نے سفارتی دباو ڈال کر دوسرے ممالک کو سونا طلب کرنے سے روکنا چاہا  مگر Jacques Rueff کے مشورے پر فرانس نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے 19.1 کروڑ ڈالر امریکا سے 170ٹن سونے میں تبدیل کروائے۔ اس طرح امریکا اور فرانس کے تعلقات خراب ہو گئے جو آج تک بہتر نہ ہو سکے۔ 9 اگست 1971ء کو سوئزرلینڈ نے بھی بریٹن ووڈ معاہدے سے ناتا توڑ لیا۔[273] 12 اگست 1971ء کو برطانیہ نے بھی 75 کروڑ ڈالر کے 660 ٹن سونے کا مطالبہ کر دیا۔ اس وقت امریکا کو روزانہ 100 ٹن سونے کی ادائیگی کرنی پڑ رہی تھی۔ 
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت امریکا اپنے پاس موجود سونے سے تین گنا زیادہ ڈالر چھاپ چکا تھا۔ حقیقی اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ رہے ہوں گے۔ 
1971 تک امریکا کے پاس موجود سونے کی مالیت صرف 15 ارب ڈالر تھی جبکہ دوسرے ممالک کے پاس 50 ارب امریکی ڈالر کے ذخائر جمع ہو چکے تھے۔ اگر سارے قرضے شامل کر کے حساب لگایا جائے تو اس وقت امریکا ہر ایک ڈالر کے سونے کے عوض 44 ڈالر کا مقروض ہو چکا تھا۔ 
15 اگست 1971 کو امریکا اپنے بریٹن ووڈز کے وعدے سے یک طرفہ مکر گیا جسے نکسن دھچکا (نکسن شاک) کہتے ہیں۔ امریکی صدر نکسن نے اعلان کیا کہ اب امریکا ڈالر کے بدلے سونا نہیں دے گا۔  جان پرکنز کے مطابق اس سازش کا ماسٹر مائنڈ George Schultz تھا۔ اس وقت تک امریکا کاغذی ڈالر چھاپ چھاپ کر اس کے بدلے عربوں سے اتنا تیل خرید چکا تھا کہ عرب اگر ڈالر کے بدلے سونے کا مطالبہ کر دیتے تو امریکا اپنا پورا سونا دے کر بھی یہ قرض نہ چکا سکتا تھا۔ 1971 کے اس امریکی اعلان سے عربوں کے اربوں ڈالر کاغذی ردّی میں تبدیل ہو گئے۔ قانون قدرت یہ ہے کہ ایک کا نقصان کسی دوسرے کا فائدہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے اس نقصان کا سارہ فائدہ امریکا کو ہوا۔ John Perkins کے بیان کے مطابق اس وقت امریکا دیوالیہ (bankrupt) ہو چکا تھا۔ اگرچہ امریکا جاپان کو اپنی کولونی نہیں کہتا مگر 16 اور 17 اگست 1971ء میں جاپان کے سینٹرل بینک نے 1.3 ارب ڈالر خریدے تاکہ گرتے ہوئے ڈالر کو سہارا مل سکے مگر ایسا ہو نہ سکا۔
کرنسی کا سونے سے تعلق ٹوٹنے سے سینٹرل بینکاروں کا صدیوں پرانا سپنا پورا ہو گیا اور وہ کرنسی چھاپنے کی محدود حد سے بالکل آزاد ہو گئے۔ اب وہ دنیا کے امیر ترین آدمی بن گئے۔

صرف ایک رات میں دنیا بھر میں بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت قائم شدہ فکسڈ ایکسچینج ریٹ فلوٹننگ ایکسچینج ریٹ میں تبدیل ہو گیا۔
"Overnight, money worldwide became free-floating"
یہ پوری دنیا کے ساتھ عظیم ترین دھوکا تھا خاص طور پر غریب ترقی پزیر ممالک کے ساتھ۔ اور یہ فراڈ اب بھی جاری ہے۔
It was a gigantic fraud on the world – especially the poor, developing countries. And the fraud continues.
بریٹن ووڈز کے معاہدے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر نکسن نے اگرچہ اپنی تقریر میں کہا تھا کہ یہ ایک عارضی اقدام ہے اور یہ کہ آپکے ڈالروں کی قوت خرید کل بھی اُتنی ہی ہو گی جتنی آج ہے لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ صرف ایک اور سفید جھوٹ تھا۔  اپنی دوسری مدت کا الیکشن شاندار طریقے سے جیتنے کے باوجود نکسن امریکا کا وہ واحد صدر ہے جسے استعفا دینا پڑا (واٹرگیٹ اسکینڈل کی وجہ سے)۔
ڈالر سے سونے کا تعلق ٹوٹنے کے بعد 1972 میں جب ایران اور سعودی عرب نے اپنے ڈالروں سے امریکی کمپنیاں خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا تو امریکی حکام نے دھمکی دی پیار سے سمجھایا کہ امریکا اسے اقدام جنگ سمجھے گا۔حالانکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد خود امریکا نے بڑے پیمانے پر جرمن کمپنیاں خریدی تھیں۔

1971ء کے بعد زندگی کا ہر ہر پہلو ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔
all aspects of life as we know it changed materially and permanently in the early 1970s.
بریٹن ووڈز کا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ہر ملک کو اپنی مرضی کے مطابق کاغذی کرنسی چھاپنے کا اختیار مل گیا۔ امیر ممالک نے فوراً بہت بڑی مقدار میں کاغذی کرنسی چھاپیاور مختلف ترقیاتی منصوبوں کے بہانے غریب ممالک کو قرض دے دی جسے اب وہ کئی نسلوں تک نہیں اتار سکتے۔سونے کی رکاوٹ ہٹتے ہی مغربی ممالک کی بے تحاشہ کرنسی کی تخلیق کی وجہ سے 1970ء کی دہائی میں stagflation آیا لیکن طالب علموں کو یہی پڑھایا گیا کہ یہ سب تیل کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ہوا تھا۔ کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت کی وجہ سے سونا مہنگا ہونے لگا جسے روکنے کے لیے شرح سود بڑھانی پڑی جو 20 فیصد تک پہنچ گئی۔ غریب ممالک کو زبردستی دیے جانے والے ان قرضوں کے معاہدے میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ قرضوں پر سود امریکا میں رائج شرح سود سے ایک فیصد زیادہ ہو گا۔ اس سے غریب ممالک کے لیے قسطیں ادا کرنا انتہائی مشکل ہو گیا اور وہاں غربت مزید بڑھ گئی۔ لیکن نوٹ چھاپ کر قرض دینے والے ممالک قسطیں وصول کر کے خوشحال ہوتے رہے۔
1971 کے بعد ہارڈ کرنسی یا زر کثیف کا دور ختم ہو گیا اور زر فرمان (Fiat currency) نے مستقل جگہ بنا لی۔ لیکن ان 27 سالوں میں امریکا کا کاغذی ڈالر بین الاقوامی کرنسی بن چکا تھا۔ امریکی بینکار 1944 میں بریٹن ووڈز کے معاہدے میں جو کچھ حاصل نہیں کر سکے تھے وہ اب بڑی حد تک انہیں حاصل ہو گیا۔ سوئزر لینڈ وہ آخری ملک تھا جس نے سنہ 2000 میں اپنی کاغذی کرنسی کا سونے سے ناتا توڑا۔
"1971 کے بعد دنیا نے گویا ہمیں اجازت دے دی کہ ہم جتنا چاہیں اتنا سونا پرنٹننگ پریس سے بنا لیں۔ یہ ایک مکمل فراڈ تھا"
until the closing of the gold window by Nixon in 1971. A total fiat currency - the dollar - was unleashed on the world with this event, and the US became the biggest beneficiary by assuming the role of managing the world reserve currency. For decades this well served America’s interests since it was equivalent to the world permitting us to create as much “gold” as we wanted. The system was totally fraudulent since it was imaginary money and we owned the printing press.[252]
"بریٹن اوڈز کا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد صحیح معنوں میں مالیاتی سلطنت کا آغاز ہوا اور امریکی ڈالر کی بالادستی قائم ہوئی اور ہم کاغذی کرنسی کے عہد میں داخل ہوئے۔ امریکی ڈالر کی پُشت پناہی کے لیے کوئی قیمتی دھات نہیں ہے۔ امریکی ڈالر صرف حکومتی قرض کو بنیاد بنا کر چھاپے جاتے ہیں۔ امریکا ڈالر چھاپ کر پوری دنیا سے منافع وصول کر لیتا ہے۔"
Since that day [dissolution of Bretton Woods], a true financial empire has emerged, the US dollar’s hegemony has been established, and we have entered a true paper currency era. There is no precious metal behind the US dollar. The government’s credit is the sole support for the US dollar. The US makes a profit from the whole world. This means that the Americans can obtain material wealth from the world by printing a piece of green paper.[290]
بریٹن وڈز کا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد امریکی ایما پر Smithsonian معاہدہ طے پایا جس کے مطابق کرنسیوں کا فکسڈ ایکسچینج ریٹ مقررکیا گیا جو سونے کی قیمت سے بالکل آزاد تھا۔ 18 دسمبر 1971 کو امریکی صدر نکسن نے اسے "دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی معاہدہ" قرار دیا۔ مگر لگ بھگ صرف ایک سال بعد ہی یہ معاہدہ بھی پاش پاش ہو گیا۔

اس کے بعد ستمبر 1976 میں جمیکا معاہدے (The Jamaica Agreement) میں یہ طے پایا کہ سونے کا تعلق کرنسی یا ایس ڈی آر سے نہیں رکھا جائے گا۔ اس کے باوجود سوئزر لینڈ کو اپنی کرنسی کا سونے سے تعلق ختم کرنے میں 24 سال لگے۔[289] کرنسی کا سونے سے تعلق ٹوٹنے سے "منی مارکیٹ فنڈز" وجود میں آئے اور شیڈو بینکنگ کا آغاز ہوا۔ چونکہ شیڈو بینک کو کھاتے داروں کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے ان پر حکومت کی نگرانی بہت نرم ہوتی ہے۔

جب تک کرنسی کا سونے سے تعلق برقرار تھا اس وقت تک حکومتی قرضوں (ٹریژری بونڈز) پر سٹے بازی (speculation) بالکل نہیں ہوا کرتی تھی۔ کرنسی کا سونے سے تعلق ٹوٹنے کے بعد بونڈز میں سٹے بازی بے انتہا بڑھ گئی جس کا خمیازہ محنت کشوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈیری ویٹو مارکیٹ بونڈز پر سٹے بازی کی بنیادپر قائم ہے ۔2003ء میں وارن بوفے نے ڈیری ویٹو کو 'بے انتہا تباہی پھیلانے والے مالیاتی ہتھیار'( "financial weapons of mass destruction") قرار دیا تھا۔ 2008ء کے مالیاتی انہدام کے آغاز کی وجہ یہی ڈیری ویٹو مارکیٹ تھی۔ ڈیری ویٹو مارکیٹ کی غیر شفافیت کی وجہ سے بڑے بینک اپنی مرضی سے اس کی قیمت طے کرتے ہیں۔  ڈیری ویٹیو مارکیٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے جب حکومتی بونڈز پر شرح سود منفی ہو جاتی ہے اس وقت بھی ڈیری ویٹیو مارکیٹ میں معمولی منافع ممکن ہوتا ہے۔  15 اکتوبر 2020ء کو آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر Kristalina Georgieva نے بیان دیا ہے کہ ہمیں ایک نئے بریٹن وڈز معاہدے کی ضرورت ہے۔ آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ پرانی گائے کا دودھ ختم ہو رہا ہے۔ ہمیں اب نئی گائے کی ضرورت ہے۔

تخلیقِ دولت


کیا دولت تخلیق بھی کی جا سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے ہاں۔
بلا شُبہ سونا تخلیق نہیں کیا جا سکتا نہ چاندی تانبہ پیتل اور کانسی۔ مگر محنت کر کے اچھی فصل حاصل کی جا سکتی ہے جسے دھاتی کرنسی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح محنت کر کے ٹیکنالوجی (ٹیکنولوجی) میں ترقی کر کے ایسی اشیاء بنائ جا سکتی ہیں جو منڈی میں اچھی قیمت دے جائیں۔ محنت کر کے سونے چاندی وغیرہ کی کانوں سے دولت حاصل کی جا سکتی ہے۔ یعنی دولت محنت سے تخلیق ہوتی ہے[361] اور محنت کرنے والے مزدور ہی ہمیشہ سے دولت کے تخلیق کرنے والے رہے تھے کیونکہ ان کی محنت سے ہی خام مال قابل استعمال چیز کی شکل پاتا ہے اور استعمال کی جگہ تک پہنچتا ہے۔[362] دولت سے جو بھی چیز خریدی جاتی ہے اس پر کوئی محنت کر چکا ہوتا ہے۔ مزدور کے لیے دولت خون پسینے کی کمائ یا خون جگر کی کمائی ہے۔ مگر ڈالر چھاپنے میں کوئی خاص محنت صرف نہیں ہوتی اور چھاپنے والوں کو یہ دولت بغیر محنت کے مل جاتی ہے۔ یعنی ہوا میں سے دولت تخلیق کی جا سکتی ہے۔محنت کر کے دولت حاصل کرنا دولت کمانا کہلاتا ہے اور یہ حق ہر ایک کو حاصل ہے۔ مگر بغیر محنت کے دولت تخلیق کرنے کا نا جائز حق محض چند لوگوں کو حاصل ہے جو بے حد امیر ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ مرکزی بینکوں کے مالکان ہیں۔
آج کل مہذبانہ زبان میں تخلیقِ دولت کو فریکشنل ریزرو بینکنگ کہا جاتا ہے۔

"بینک جو رقم قرض دیتے ہیں اس کا تو وجود ہی نہیں ہوتا۔ فریکشنل ریزرو بینکنگ دراصل بینکنگ اور فراڈ کا خوبصورت نیا نام ہے۔"
they are “lending” what does not even exist: “fractional-reserve banking” – the ultimate euphemism of banking and fraud.[367]
تقریباً سو سال پہلے کسی مصنف نے بینک مالکان کے بارے میں لکھا تھا کہ (دنیا میں) "جتنا سونا ہے اس سے زیادہ کرنسی ہے اور جتنی کرنسی ہے اُس سے زیادہ دولت ہے۔ سونا کرنسی کی بنیاد ہے۔ کرنسی دولت کو منتقل کرتی ہے۔ جو کوئی بھی کرنسی کو تخلیق کرتا ہے وہ دنیا بھر کی دولت کی منتقلی کو کنٹرول کرتا ہے۔"(مثلاً بذریعہ ٹیلی گرافک ٹرانسفر، SWIFT, INSTEX وغیرہ)

"اگر آپ دوسروں کی دولت کنٹرول کر سکتے ہیں تو جلد ہی آپ اس دولت کے مالک بھی بن سکتے ہیں"
"Controlled assets are a step away from being owned.' 
اگر دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے دو ہزار سالوں میں اٹھارہ سو سالوں تک دنیا کا سب سے امیر ملک ہندوستان رہا ہے۔  اس کے بعد چین کا نمبر آتا تھا۔ ان ممالک میں محنت کرنے کے بھر پور مواقع موجود تھے اور خطیر مقدار میں پیداوار ہوتی تھیں۔۔  ان ممالک کا تجارتی سامان دنیا کے دور دراز علاقوں تک پہنچتا تھا۔ لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب کرنسی دھاتی ہوتی تھی اور مرکزی بینکوں کا عالمی گروہ موجود نہیں تھا۔ کاغذی کرنسی کے نظام نے محنت کرنے والوں کو افراط زر اور شرح تبادلہ کی شعبدہ بازی کی وجہ سے نہایت غریب کر دیا ہے۔ جبکہ کاغذی کرنسی چھاپنے والے اور اس کے سہارے شرح تبادلہ کنٹرول کرنے والے ممالک نہایت ہی امیر ہو گئے ہیں۔ یہ تیسری دنیا سے دولت کی منتقلی تھی جس نے مغربی ممالک کو خوشحالی عطا کی۔

1883ء میں کسی مصنف نے لکھا کہ علم کو طاقت کہا جاتا تھا لیکن دراصل علم دولت ہے۔ ترکی، شام، مصر اور شمالی افریقہ کے ساحلی علاقے امیر ترین علاقوں میں شمار ہوتے تھے لیکن اب ان کا حال قابل رحم ہے کیونکہ ان کے پاس علم کی کمی تھی۔[99] اس کے بعد ہندوستان اور چین کا بھی یہی حال ہوا۔ حقیقت یہ تھی کہ انہیں یورپ میں تیزی سے ترقی کرتی کاغذی کرنسی کی اصلیت کا علم نہ تھا۔
"اگر تمہیں خبر نہیں ہے کہ کریڈٹ (جاری کرنا) دولت حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے تو تم بالکل جاہل ہو۔"
If you were ignorant of this that Credit is the greatest Capital of all towards the acquisition of Wealth, you would be utterly ignorant.[382]
گوروں کی جاری کردہ یہ کاغذی دولت (کرنسی، ڈرافٹ، چیک، قرضہ، بل آف ایکسچینج، بونڈز، شیئرز وغیرہ) بے خبر تیسری دنیا کو کسی دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی جبکہ گورا اس نئی دولت کے بل پر پوری دنیا کو غلام بنانے میں مصروف تھا۔یکم جنوری 1974ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے بینکوں کو نیشنالائز کر لیا[386] جسے عالمی بینکار کنٹرول کرتے تھے۔ عالمی بینکاروں کو للکارنے کی وجہ سے بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

"پھر ہم تمہیں ایک دہشتناک مثال بنا دیں گے" ہنری کسنگر
"Then we will make a horrible example of you!" (Henry Kissinger)[387]
اپنے دور اقتدار کے آخری حصہ میں جب صدر پرویز مشرف نے پاکستانی کرنسی خود چھاپ کر حکومتی اخراجات پورے کرنے شروع کیے تو انہیں آئی ایم ایف کی شدید ناراضی کا سامنا کرنا پڑا اور اگست 2008ء میں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔
1997ء میں ایک سازش کے تحت ملیشیا کی کرنسی رنگٹ کی قدر اچانک گر کر تقریباً آدھی رہ گئی۔[388][389] اس پر ملیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ سارے اسلامی ممالک سونے کا دینار خود بنائیں اور آپس کی لین دین کے لیے امریکی ڈالر کی بجائے سونے کا دینار استعمال کریں۔ مہاتیر محمد نے اعلان کیا تھا کہ 2003 کے وسط تک وہ یہ دینار جاری کر دیں گے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسی سونے کی کرنسی میں لین دین کا رواج آ گیا تو شرح تبادلہ کی ضرورت ختم ہو جائے گی جس پر مغربی ممالک کی ثروت کا انحصار ہے۔ اس لیے 2003 میں مہاتیر محمد کو 22 سالہ وزارتِ اعظمی سے ہٹا کر عبداللہ احمد بداوی کو وزیر اعظم بنایا گیا جس نے ملکی سطح پر دینار جاری ہونے رکوا دیے۔ ملیشیا کی ایک اسٹیٹ کیلانتن نے پھر بھی 20 ستمبر 2006 کو سونے کے دینار جاری کیے جن کا وزن 4.25 گرام ہے اور یہ 22 قیراط سونے سے بنے ہوئے ہیں۔
صدام حسین نے بھی ایسی ہی جسارت کی تھی۔ 2000ء میں اس نے یہ کوشش کی تھی کہ عراق کو تیل کا معاوضہ امریکی ڈالر کی بجائے کسی اور کرنسی میں دیا جائے۔ َ[229] یہ امریکی ڈالر کی مقبولیت پر براہ راست وار تھا۔ اس کا یہ ناقابل معافی جرم آخر کار اسے لے ڈوبا۔

لیبیا کے معمر قذافی نے صدام حسین کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور 2009ء میں افریقہ میں تجارت کے لیے سونے کا دینار نافذ کرنے کا ارادہ کیا[390] اس لیے اس کا بھی وہی حشر کرنا پڑا۔ 2007 سے ایران نے بھی اپنے تیل کی قیمت امریکی ڈالر میں وصول کرنا بند کر دی ہے ایران یہ واضح کر چکا ہے کہ ہم پر حملہ ہونے کی صورت میں اسرائیل بھی میدان جنگ بن جائے گا۔

ستمبر 2017ء میں وینیزویلا نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ تیل کی قیمت ڈالر میں قبول نہیں کرے گا۔[397]
روسی صدر پیوٹن نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ 2018ء سے روس کی کسی بندرگاہ پر ڈالر وصول نہیں کیے جائینگے۔[398]

اگر آج بھی کاغذی کرنسی کی جگہ سونے چاندی کو خرید و فروخت کے لیے کرنسی کی طرح استعمال کیا جائے تو ہندوستان، چین اور تیل پیدا کرنے والے ممالک شائید امیر ترین ممالک بن جائیں۔ اس لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اس بات کا سب سے بڑا مخالف ہے۔ خیال رہے کہ آئی-ایم-ایف (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ) ایک نجی ادارہ ہے اور کسی حکومت کے ماتحت نہیں ہے۔
پاکستان کے پاس لگ بھگ 65 ٹن سونا ہے اور پاکستان پر آئی-ایم-ایف کا شدید دباو ہے کہ یہ سونا بیچ کر کاغذی فورین ریزرو میں اضافہ کیا جائے جبکہ اس وقت زیادہ تر ممالک اپنے سونے کے ذخیرے میں اضافہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اب تک پاکستان اپنا سونا بیچنے پر آمادہ نہیں ہوا ہے۔  پاکستان اپنے بجٹ کا 52 فیصد قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ کرتا ہے۔

ہٹلر نے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ (اگر کرنسی آزاد ہو تو)کسی ملک کی دولت وہ سونا چاندی یا فورین ریزرو نہیں ہوتا جو مرکزی بینکوں کی تجوریوں میں بند پڑا ہوتا ہے یا مرکزی بینکوں کی ضمانت سے جاری ہوتا ہے۔ کسی ملک کی اصل دولت اس ملک کی پیداواری صلاحیت ہے۔ ملکی کرنسی کی قوت خرید اس وقت بڑھتی ہے جب تک پیداوار میں اضافہ ہوتا رہے۔ اور اس وقت گرتی ہے جب پیداوار میں کمی آتی ہے۔

اگرچہ ہٹلر کو ہر لحاظ سے قابل تنقید سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا بھر کی حکومتیں ہٹلر کے معاشی پروگرام پر عمل پیرا ہیں۔ 
بریٹن اوڈز سسٹم بنا کر ڈالر نے دوسری کرنسیوں کی آزادی چھین لی۔ اگر ہندوستان کی کرنسی آزاد ہوتی تو اپنی کثیر پیداواری صلاحیت کی وجہ سے آج ہندوستان بھی ایک امیر ملک ہوتا۔ چین کی ترقی کی یہی وجہ ہے کہ چین اپنی کرنسی خود کنٹرول کرتا ہے۔

کاغذی کرنسی اور جنگیں

امریکا کی دوسرے ممالک سے جنگیں

  • افغانستان کی جنگ (2001ء سے 2021ء)
  • ویتنام کی جنگ (1965ء سے 1975ء تک)
  • عراق کی جنگ (2003ء سے 2012ء تک)
  • جنگ عظیم دوم (1941ء سے 1945ء تک)
  • کوریا کی جنگ (1950ء سے 1953ء تک)
  • فلیپائن امریکی جنگ (1899ء سے 1902ء تک)
  • پہلی جنگ عظیم (1917ء سے 1918ء تک)
  • اسپین امریکی جنگ (1898ء)

"چونکہ روس کے برخلاف امریکا نے اسلحہ سازی نجی کمپنیوں کے حوالے کر دی ہے جو میدان جنگ میں کسی حد تک ذاتی فوج بھی استعمال کرتے ہیں اس لیے دوسرے ممالک پر حملے اور فوجی قبضے سے امریکی سرمایہ کاروں کو منافع ہوتا ہے۔"
Because America (unlike Russia) privatized the weapons-industry (and even privatizes to mercenaries some of its battlefield killing and dying), there are, in America, profits for investors to make in invasions and in military occupations of foreign countries[414]
"جنگ کے زمانے میں ہارڈ کرنسی ترک کرنی پڑتی ہے کیونکہ کرنسی کی گراوٹ بیشتر جنگوں کا لازمی جُز ہے۔"
Hard money regimes are abandoned in wartime, because the debasement of money is a prerequisite of most wars.[37]
"ابتدا میں بننے والے سینٹرل بینکوں کو بڑی جلدی معلوم ہو گیا کہ کریڈٹ کا جاری ہونا یا روک دیا جانا طے کرتا ہے کہ جنگ کون جیتے گا۔" کوئی بھی جیتے، کریڈٹ مہیا کرنے والے بینکار ہمیشہ منافع میں رہتے ہیں۔
It did not take long for these nascent central bankers to realize the power that the extension or withholding of credit and setting of interest rates granted to those in control of credit... the power this credit held would be tantamount to the power to choose winners and losers in war" 
"یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ساری جنگیں ہمیشہ بینکاروں کی جنگیں ہوتی ہیں۔"
It is important to remember that all wars are invariably banker wars

1913 میں امریکا میں فیڈرل ریزرو کے قیام سے آٹھ بینکار خاندانوں کا امریکی حکومت سے گٹھ جوڑ ہو گیا۔ اب یہ بینکار اپنے غیر ملکی نادہندگان کے خلاف امریکی افواج استعمال کرنے کی پوزیشن میں آ چکے تھے۔ مورگن، چیز اور سٹی بینک اب بین الاقوامی قرض جاری کرنے والے ادارے میں تبدیل ہو گئے۔  اب یہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ دونوں بڑی عالمی جنگوں کا مقصد برٹش پاونڈ کو بین الاقوامی ریزرو کرنسی کے درجے سے اکھاڑ پھینکنا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں ڈالر بین الاقوامی کرنسی کے میدان میں پاونڈ کا حریف بن کر اترا اور پاونڈ کمزور ہوتا چلا گیا جبکہ ڈالر مضبوط ہوتا رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ڈالر نے پاونڈ کو پوری طرح برطرف کر دیا۔۔ 

جرمنی میں جب 1933 میں نازی پارٹی الیکشن جیت کر حکومت میں آئی تو جرمنی کی معیشت بالکل تباہ و برباد ہو چکی تھی۔ 60 لاکھ لوگ بے روزگار تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد جرمنی کو بھاری تاوان جنگ ادا کرنا پڑ رہا تھا۔ بیرونی سرمائیہ کاری کے امکانات بالکل صفر تھے۔ جرمنی کی ساری نو آبادیاں اس سے چھین لی گئیں تھیں۔ صرف چند سالوں میں سوا دو لاکھ افراد خودکشی کر چکے تھے۔ صورت حال کچھ ایسی تھی کہ ہر جرمن فرد پر 6000 مارک کا قرضہ تھا جبکہ اس کی جیب میں 14 مارک بھی نہیں تھے۔[423] لیکن صرف چار سال میں ہٹلر نے جرمنی کو دوبارہ یورپ کی مضبوط ترین معیشت بنا دیا۔ اس وقت تک جرمنی نے بڑے پیمانے پر اسلحہ سازی بھی شروع نہیں کی تھی۔ 1935 سے ہٹلر نے پرائیوٹ بینکوں سے قرض لینے کی بجائے حکومت کی جانب سے خود کرنسی چھاپنی شروع کر دی جیسا کہ کمیونسٹ حکومتیں کرتی ہیں۔ ہٹلر کی یہ کرنسی MEFO bill کہلاتی تھی۔ 1945 تک جرمنی یہ کرنسی چھاپتا رہا جس کی پشت پر نہ کوئی سونا تھا نہ کوئی قرض۔ جس وقت امریکا اور دوسرے یورپی ممالک میں لاکھوں لوگ بے روزگار تھے، جرمنی میں بے روزگاری ختم ہو چکی تھی۔ معیشت مضبوط ہو چکی تھی۔ عالمی بینکاروں کی طرف سے لگائی جانے والی معاشی پابندیوں اور بائیکاٹ کے باوجود جرمنی بارٹر سسٹم کی مدد سے دوسرے ممالک سے تجارت بحال کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔

ایک طرف جرمنی میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت نے پرائیوٹ بینکوں سے چھین لیا تھا دوسری طرف جاپان میں بھی کرنسی حکومت چھاپ رہی تھی۔ اور ان دونوں ممالک میں ترقی کی رفتار نہایت تیز تھی ۔[424] یہ صورت حال مرکزی بینکاروں کی برداشت سے باہر تھی۔ اگر دوسرے ممالک کے عوام بھی حکومتی کرنسی چھاپنے کا مطالبہ کر دیتے تو بینکاروں کا صدیوں پرانا کھیل ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا۔ اس لیے جرمنی اور جاپان کے خلاف دوسری جنگ عظیم شروع کی گئی۔

1945 میں جنگ عظیم دوم میں جاپان کو ایٹمی ہتھیاروں سے شکست دینے کے بعد وہاں سب سے پہلا کام کاغذی کرنسی کی تخلیق کے بلا سودی بینکاری نظام کو "درست" کیا گیا تھا اور امریکا برطانیہ، اٹلی اور فرانس کی طرح پرائیوٹ سنٹرل بینک قائم کیا گیا تھا۔ اس جنگ سے پہلے جاپان کا سینٹرل بینک حکومتی ملکیت میں تھا اور نوٹ چھپنے پر حکومت کو نہ قرض لینا پڑتا تھا نہ سود دینا پڑتا تھا۔  1940 میں ایک ڈالر 4.27 جاپانی ین کے برابر تھا۔ 1950 میں ایک ڈالر 361.1 ین کے برابر ہو چکا تھا۔

آج جاپان پر قرضے 23٫000 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں جو جی ڈی پی کا 245 فیصد ہیں۔

اسی طرح دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست دینے کے بعد امریکا وہاں اپنا کرنسی کا نظام لانا چاہتا تھا مگر روس آڑے آ گیا۔ اس لیے امریکا برطانیہ اور فرانس کے زیر کنٹرول جرمن علاقوں میں فیڈرل ریزرو کی طرز پر ایک نیا سنٹرل بینک Bank deutscher Länder بنایا گیا اور نئی کرنسی ڈوئچے مارک نافذ کی گئی۔  جبکہ روس نے اپنے زیر کنٹرول جرمن علاقے میں اپنی کرنسی نافذ کی۔  اگر روس امریکا کا کرنسی پلان مان لیتا تو شائید نہ جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوتا نہ سرد جنگ شروع ہوتی۔

یہ بھی پڑھیں !