بی بی سی اردو 24 جولائی 2024
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق 23 جولائی کو 14 فلسطینی گروہوں کے نمائندوں نےچین کی دعوت پر بیجنگ میں مصالحتی مذاکرات کے بعد ’تقسیم کے خاتمے اور فلسطینی قومی اتحاد کو مضبوط بنانے سے متعلق بیجنگ اعلامیے‘ پر دستخط کیے ہیں۔
14 فلسطینی گروہوں نے جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کے لیے قومی مفاہمت کی ایک عبوری حکومت بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ معاہدہ بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے جس میں حماس کے سینئر نمائندے موسیٰ ابو مرزوق اور الفتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمود علول شریک تھے۔
واضح رہے کہ فتح اب غرب اردن جبکہ حماس غزہ میں برسراقتدار ہے۔ تاہم 2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی اور غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ان کے تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے تھے۔
چینی دفترِ خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے اعلامیے میں ’سب سے اہم کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) فلسطینی عوام کی ’واحد نمائندہ‘ ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’مذاکرات کی سب سے اہم اور نمایاں بات غزہ کی جنگ کے بعد کی حکومت کے لیے عبوری قومی مصالحتی حکومت کے قیام پر اتفاق رائے ہے۔‘
اعلامیے میں فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت، تقسیم کے خاتمے کے لیے چین کی مخلصانہ کوششوں کو سراہا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام علاقائی اور بین الاقوامی شرکت کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جانا چاہئے۔
اعلامیے میں مندرجہ ذیل نکات بھی شامل تھے:
- اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام۔
- غرب اردن، یروشلم اور غزہ سمیت فلسطین کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا۔
- تمام فلسطینی گروہوں کے اتفاق رائے اور موجودہ بنیادی قانون کے مطابق ایک عبوری قومی مصالحتی حکومت کی تشکیل۔
- غزہ کی تعمیرِ نو اور منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق جلد از جلد عام انتخابات کی تیاری۔
اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اعلامیے کی شقوں پر مکمل عمل درآمد کے لیے ایک اجتماعی لائحہ عمل قائم کیا جائے گا جس پر عمل درآمد کے لیے ٹائم ٹیبل ہوگا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطین کے 14 بڑے گروہوں کے نمائندوں کے علاوہ مصر، الجزائر، سعودی عرب، قطر، اردن، شام، لبنان، روس اور ترکی کے سفیروں اور نمائندوں نے اختتامی تقریب میں شرکت کی۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی میں چین کیا چاہتا ہے؟
ماضی کے معاہدوں میں ناکامی کے باوجود چین اب بھی اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعات میں امن قائم کرنے کا خواہاں ہے اور فلسطین میں موجود اہم گروہوں میں اتحاد کو اس نتیجے کی کلید سمجھتا ہے۔ اس سے قبل بیجنگ نے اپریل میں بھی حماس اور فتح کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی تھی۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ چین اور فلسطین شراکت دار ہیں اور چین اتحاد اور مصالحت کے لیے تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ کام اور کوششیں جاری رکھے گا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق چینی وزیر خارجہ نے اعلامیے پر دستخط کے بعد کہا کہ مصالحت فلسطینی دھڑوں کا داخلی معاملہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بین الاقوامی برادری کی حمایت کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے غزہ کی جنگ سے نمٹنے کے لئے تین مراحل پر مشتمل منصوبے کا بھی خاکہ پیش کیا: ’دیرپا جنگ بندی کو فروغ دینا، فلسطین پر حکومت کرنے والے فلسطینیوں کے اصول کو برقرار رکھنا اور ریاست فلسطین کو دو ریاستی حل کے حصے کے طور پر تسلیم کرنا اور انھیں اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینا۔‘
چین کی جانب سے فلسطینی مقاصد کی حمایت چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ماؤزے تنگ کے دور تک پھیلی ہوئی ہے، جنھوں نے دنیا بھر میں نام نہاد ’قومی آزادی‘ کی تحریکوں کی حمایت میں فلسطینیوں کو ہتھیار بھیجے تھے۔ یہاں تک کہ ماؤ نے اسرائیل کا موازنہ تائیوان سے کیا جسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔
حالیہ تنازعے پر اپنے تبصروں میں چینی حکام اور یہاں تک کہ صدر شی جن پنگ نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ صدر شی جن پنگ نے اپنے اعلیٰ سفارت کاروں کو بھی مذاکرات کے لیے مشرق وسطیٰ بھیجا ہے اور حال ہی میں بیجنگ میں ایک کانفرنس کے لیے عرب رہنماؤں کی میزبانی کی ہے۔
یہ تنازع ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب چین بین الاقوامی سیاست میں براہ راست کردار ادا کرنے کے عزائم رکھتا ہے اور اس نے خود کو امریکہ کے مقابلے میں دنیا کے لیے ایک بہتر حامی کے طور پر پیش کیا ہے۔ گزشتہ سال اس نے مشرق وسطیٰ کے حریف ایران اور سعودی عرب کے درمیان 2016 کے بعد پہلی بار تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔
اپنی حالیہ تقریر میں چین کے وزیرِ خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ فلسطین کے مسئلے پر چین کے کوئی ذاتی مفادات نہیں ہیں اور وہ اخلاقیات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور انصاف کی وکالت کرتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’چین عرب اور اسلامی ممالک کی اکثریت کے ساتھ ایک ہی سمت اور مقاصد رکھتا ہے اور چین اس اعلامیے پر عمل درآمد کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ رابطے اور کوآرڈینیشن کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے اور مشرقِ وسطی میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے میں تعمیری کردار ادا کر رہا ہے۔‘
حماس اسرائیل جنگ سے متعلق چینی میڈیا کے کچھ اہم بیانیے
چینی میڈیا میں جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری حالیہ تنازعے کے حوالے سے اہم بیانات سامنے آئے ہیں وہیں اس سب کے دوران واشنگٹن کے کردار پر چین کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔
اس تناظر میں گلوبل ٹائمز اخبار نے چینی سفارتی دعووں کو تقویت دی کہ مغرب کی جانب سے بیجنگ پر سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگانا ’منافقانہ‘ ہے جبکہ ’غزہ کے لوگوں کے مسائل پر کوئی نظر نہیں۔‘
اس کے بعد اخبار کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا کہ امریکہ اپنے ’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘ کے ذریعے جنگ سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش میں ہے۔
بیجنگ کی جانب سے اسرائیل کے لیے ’یکطرفہ حمایت‘ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا، حالانکہ حالیہ مضامین میں واشنگٹن کے اسرائیل پر محدود کنٹرول اور اس پر قابو پانے میں ناکامی پر بھی تنقید کی گئی ہے۔
بیجنگ کی اپنی سفارتی اور ثالثی کی کوششوں کی کوریج کو دیکھتے ہوئے، ایک وسیع موضوع یہ ہے کہ چین کس طرح ’شورش زدہ دنیا‘ میں ’استحکام‘ فراہم کرتا ہے۔
یہ اس سال میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں وانگ یی کا اہم پیغام تھا، اور گلوبل ٹائمز میں سال کے آخر میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بھی شامل کیا گیا تھا، جس میں بیجنگ کی جانب سے گزشتہ سال سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کو ’دنیا کے لیے تحفہ‘ قرار دیا گیا تھا۔
حماس اور الفتح کے درمیان چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کا مستقبل
یہ واضح نہیں ہے کہ بیجنگ میں فلسطینی گروہوں کی ملاقات کا غزہ جنگ کے خاتمے پر کیا اثر پڑے گا۔
جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کا معاملہ ان مسائل میں سے ایک تھا جس کی وجہ سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات میں تاخیر ہوئی ہے۔
اسرائیل کی جنگی کابینہ کی تحلیل کی وجوہات میں اندرونی اختلافات اور اسرائیل کی جانب سے جنگ کے بعد غزہ کے لیے کوئی مخصوص منصوبہ پیش کرنے میں ناکامی پر تنقید بھی شامل تھی۔
بین یامین نتن یاہو نے پہلے ہی اس بات پر زور دیا تھا کہ جنگ کے بعد نہ تو فتح اور نہ ہی حماس کی حکومت ہوگی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’حماس کو ختم کرنے کے بعد، میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ غزہ کبھی بھی اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بنے۔ نہ حماسستان اور نہ فتحستان۔‘
بیجنگ اجلاس میں فلسطینی گروہوں کا یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے دوحہ اور قاہرہ میں بار بار ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
امریکہ، مصر اور قطر ان بالواسطہ مذاکرات کے ثالث تھے جو گزشتہ مہینوں میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے مقصد سے ہوئے تھے۔
گزشتہ چند سالوں میں، بیجنگ نے بین الاقوامی سفارت کاری میں زیادہ فعال کردار ادا کیا ہے، بشمول ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں۔
یہ بھی پڑھیں !