سکوتِ شب سے نداءِ نور تک

 خلا کی گونج

"مجھے زندگی سے کوئی شکایت نہ تھی، سوائے اِس کے کہ وہ کسی سوال کا جواب نہیں دیتی تھی۔"

رات کا پہلا پہر تھا۔ پورا شہر نیند کی آغوش میں ڈوبا ہوا تھا، مگر ریان کی آنکھوں میں نیند کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس کی نظریں چھت پر جمیں تھیں، جیسے وہاں کوئی چھپا ہوا مطلب کی تلاش رہی ہوں۔ کمرے میں کتابوں کا انبار تھا — نیٹشے، کارل ساگان، برٹرینڈ رسل، ڈارون، فوکو — علم کا سمندر اس کے اردگرد بکھرا تھا، مگر دل ویسا ہی پیاسا تھا جیسے صحرا میں بھٹکتا کوئی مسافر۔

ریان ایک محقق، لیکچرر، اور روشن خیال ملحد تھا۔ اس کا یقین تھا کہ مذہب انسان کی تخلیق ہے، اور خدا ایک نفسیاتی سہارا۔ وہ دلیل دیتا، مباحثے کرتا، اور سوشل میڈیا پر اپنے خیالات شیئر کرتا۔ لوگ اسے "سچ کا متلاشی" کہتے تھے، اور وہ خود کو "عقل کا پرستار"۔

مگر آج کی رات کچھ الگ تھی۔ ایک خاموشی اس کے دل میں رینگ رہی تھی۔ اُس نے خود سے پوچھا:

"اگر سب کچھ بے مقصد ہے… تو میری یہ بےچینی کس چیز کی ہے؟"

کسی نے کہا تھا، “کبھی کبھی خاموشی سب سے بلند صدا ہوتی ہے۔” اور ریان کے لیے وہ صدا آج گونجنے لگی تھی۔

 عقل کی زنجیروں میں

"میں نے عقل کو اپنا خدا بنایا… اور وہ مجھے صحرا میں چھوڑ کر خود کہیں گم ہو گئی۔"

ریان کے دن مطالعے میں گزرتے تھے اور راتیں سوچوں میں۔ وہ سچائی کا متلاشی تھا، مگر اس کی تلاش ایک دائرے میں گھومتی ہوئی محسوس ہونے لگی تھی۔
اس کا کیمپس میں لیکچر تھا:
"Existence is absurd. There is no inherent meaning. Man must create his own value."

طلبہ نے تالیاں بجائیں، کچھ نے سوال کیے، مگر اس کا دل کسی اور جگہ تھا۔ شاید اسی سوال پر رکا ہوا تھا جو اسے اکثر تنہا کر دیتا تھا:

"اگر کوئی خالق نہیں… تو یہ جمال، یہ نظم، یہ محبت؟ آخر ان سب کا ماخذ کیا ہے؟"

کبھی کبھی ریان کو یوں لگتا جیسے وہ دل کے دروازے پر کھڑا ایک منطقی نگہبان ہے، جو ہر احساس کو فلسفے کے شکنجے میں قید کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس دن… کچھ ٹوٹنے لگا تھا۔

اسے ایک پرانا دوست یاد آیا، جو اب مذہب کی طرف لوٹ چکا تھا۔ کبھی دونوں راتوں رات مذہب پر تنقید کرتے، الحاد کو "عقل کی فتح" کہتے۔ مگر اب وہ دوست ایک خاموشی کا پیکر بن چکا تھا… جیسے اندر سے پر سکون ہو گیا ہو۔

ریان نے اسے میسج کیا:
"تمہیں کیسے یقین آیا کہ کوئی خدا ہے؟"

جواب آیا:

"یقین عقل سے شروع نہیں ہوتا، سکون سے ہوتا ہے۔ اور سکون دل کو ملتا ہے… عقل کو نہیں۔"

ریان ہنسا… تلخ انداز میں۔

"یہ سب جذباتی باتیں ہیں، میرا دین دلیل ہے۔"
مگر دل کے ایک کونے میں ایک لرزش سی ہوئی۔ جیسے دلیل کے پہاڑ پر ایک ہلکی سی دراڑ پڑی ہو۔

اس رات اس نے ایک اور خواب دیکھا…

وہ خلا میں معلق تھا — نہ زمین، نہ آسمان۔ بس ایک بےوزنی کی کیفیت۔ کوئی آواز اسے پکار رہی تھی۔ دھیمی، مگر واضح۔

"ھَلْ أَتَىٰ عَلَى ٱلْإِنسَـٰنِ حِينٌۭ مِّنَ ٱلدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْـًۭٔا مَّذْكُورًا؟"
("کیا انسان پر ایک وقت ایسا نہیں گزرا کہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟")

ریان کی آنکھ کھلی… سینے میں ایک بوجھ، آنکھوں میں نمی۔
یہ آیت… وہ قرآن سے واقف نہ تھا، مگر یہ آواز اس کے وجود سے بول رہی تھی۔

 نِہلزم کا اندھیرا

"جب سب کچھ بے معنی ہو جائے، تو انسان یا پاگل ہو جاتا ہے… یا صوفی۔"

ریان کی آنکھیں کھلی تھیں، مگر نظروں کے سامنے دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ دن کا آغاز کتابوں سے ہوتا، مگر اب کتابیں خاموش ہو گئی تھیں۔ اس نے اپنے آپ سے کہا:

"شاید علم کافی نہیں۔ شاید میں صرف جانتا ہوں، جیتا نہیں۔"

اس نے نیٹشے کی "God is dead" کو بار بار پڑھا، مگر اب وہ جملہ ایک فتح کی علامت نہیں لگتا تھا، بلکہ ایک قبر کا کتبہ بن چکا تھا — خود اس کی اپنی روح کی قبر۔

اب وہ خود سے سوال کرتا تھا:

"اگر کوئی خالق نہیں… تو میری یہ فطری طلبِ معنی کیوں ہے؟
اگر زندگی حادثہ ہے… تو میرا ضمیر کیوں چیخ اٹھتا ہے جب میں ظلم دیکھتا ہوں؟"

کسی رات وہ منہدم ہو جاتا۔ ایک بار آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے خود سے سوال کیا:

"کیا تو واقعی آزاد ہے؟ یا اپنے ہی خیالات کا قیدی؟"

ایک اور رات، اس نے دیوار پر مکہ کی تصویر دیکھی — بس یونہی۔ تصویر ہسپتال میں ایک مریض کے بستر کے پاس لگی تھی۔ وہ ایک لمحے کو رک گیا۔
تصویر میں کچھ تھا… جیسے ایک بے زبان صدا۔

اسی رات اس نے گوگل کیا:
    "Why do people convert to Islam?"

صفحہ کھلتا گیا… کہانیاں… آنکھوں سے بہتے آنسو، دلوں کا جھکنا، سکون کا ملنا۔
ریان حیران ہوا۔

"یہ کیسا مذہب ہے؟ علم کے دور میں بھی دلوں کو قائل کر لیتا ہے؟"

پھر وہ اس جملے پر ٹھٹھک گیا:

"میں نے قرآن کو محض تنقید کے لیے پڑھا… مگر وہ میرے دل کو چھو گیا۔"
(ایک نومسلم فلسفی کی سوانح سے)

ریان کی آنکھوں کے آگے جیسے اندھیرے میں ایک نقطۂ نور چمکا۔

اس رات ریان نے ایک فیصلہ کیا۔
"میں قرآن کو پڑھوں گا… دلیل کے لیے نہیں، سچ کے لیے۔ اگر سچ وہاں نہ ملا… تو کم از کم خود کو دھوکہ نہ دیا ہوگا۔"

 سوالوں کے ملبے تلے

"کبھی کبھی انسان خود کو کھودے بغیر سچ نہیں پا سکتا۔"

ریان ایک خاموش دوپہر میں، اپنی لائبریری کے کونے میں بیٹھا تھا۔ سامنے قرآن کا ترجمہ کھلا ہوا تھا۔ یہ وہ کتاب تھی جسے اس نے برسوں صرف دوسروں پر تنقید کے لیے استعمال کیا تھا — اب وہی کتاب اسے خود سے متعارف کرانے لگی تھی۔

وہ آیات کو دل سے نہیں، عادت سے پڑھنے لگا۔ جیسے کوئی فلسفی اپنی تحقیق کے لیے شواہد تلاش کر رہا ہو۔
لیکن اچانک…
ایک آیت پر نظر ٹھہر گئی:

"فَفِرُّوٓا إِلَى ٱللَّهِ"
"تو اللہ کی طرف دوڑو۔" [الذاریات: 50]

ریان نے سوچا:

"دوڑو؟ کہاں؟ کیوں؟ کس سے؟"
یہ صرف ایک مذہبی دعوت نہ تھی… یہ جیسے دل کو آواز تھی — اور دل، جو مدتوں سے کسی آواز کا منتظر تھا، اس لمحے ٹھٹک گیا۔

اگلی آیت میں وہ پڑھتا ہے:

"أَلَا بِذِكْرِ ٱللَّهِ تَطْمَئِنُّ ٱلْقُلُوبُ"
"سن لو! اللہ کے ذکر سے ہی دل مطمئن ہوتے ہیں۔"

یہ آیت جیسے اس کے وجود کے کمرے میں گونجنے لگی۔
ریان کے ذہن میں ایک شور مچ گیا:

"کیا یہ ممکن ہے؟ سچائی کا ماخذ میرا ذہن نہیں، میرا دل ہو؟"

اس دن کے بعد ریان کی تلاوت بدل گئی۔ اب وہ صرف زبان سے نہیں، نظر سے نہیں — دل سے پڑھنے لگا۔ جیسے جیسے آیات دل میں اترتی گئیں، ویسے ویسے وہ ملبے کے نیچے سے باہر آنے لگا۔

"میں نے وجود کے ہزار سوالات اُٹھائے…
مگر اس کتاب نے ہر سوال سے پہلے ایک خاموشی رکھ دی…
اور اس خاموشی میں، میں نے پہلی بار اپنے آپ کو سنا۔"
ریان تنہائی میں قرآن پڑھ رہا ہے…
کتاب بند کرتا ہے، اور آنکھیں بند کر کے کہتا ہے:

"اگر تو واقعی سچ ہے… تو مجھے مت چھوڑنا۔"

 مکالمۂ خاموشی

"جب کائنات خاموش ہو جائے، تب ایک صدا جنم لیتی ہے… جو تمہارے اندر سے آتی ہے، مگر تمہاری نہیں ہوتی۔"

ریان کے دنوں میں اب بھی ظاہری کوئی تبدیلی نہ آئی تھی۔ وہی یونیورسٹی، وہی کلاسز، وہی فلسفیانہ کتابیں — مگر اس کا اندر بدلنے لگا تھا۔ ہر لفظ جو پہلے اسے خالی لگتا تھا، اب کسی گہرے مفہوم کا دروازہ بن چکا تھا۔

وہ خود کو قرآن کے سائے میں بیٹھا محسوس کرتا۔
ہر آیت، جیسے کوئی بیج ہو، جو اس کے اندر بویا جا رہا ہو۔

ایک دن، اس نے سورہ الحدید کی آیت پڑھی:

"أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوٓا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ ٱللَّهِ"
"کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لیے جھک جائیں؟" [الحدید: 16]

ریان کی سانس رُک گئی۔
یہ سوال… ایسا لگا جیسے اسی سے کیا گیا ہو۔
دل کانپ اٹھا۔

"کیا میرا دل جھکنے کے لیے تیار ہے؟
یا میں اب بھی اپنے تکبر، اپنے شعور، اپنی منطق میں گم ہوں؟"

اسے پہلی بار احساس ہوا کہ "خاموشی" صرف باہر کی چیز نہیں — اصل خاموشی تو انسان اپنے اندر پیدا کرتا ہے، جب وہ اپنی انا، اپنے شکوک، اور اپنے سابقہ تعصبات کو تھوڑی دیر کے لیے سلا دے۔

اس رات، اس نے پہلا "غیر فلسفیانہ" سجدہ کیا۔

نہ دلیل کے لیے۔ نہ کسی نکتے کی تلاش میں۔
بس… دل کے بوجھ کو زمین پر رکھنے کے لیے۔

اس نے کچھ نہیں مانگا۔ کچھ کہا بھی نہیں۔
صرف خاموش رہا۔
مگر وہ خاموشی — ایک مکالمہ تھی۔
ایسا مکالمہ جس میں وہ بولتا نہیں تھا، سُنتا تھا۔

"میں نے عمر بھر سوال کیے…
مگر شاید سوالوں سے پہلے سننا ضروری تھا۔
اور میں نے پہلی بار،
خود کو سنا…
اور اُس کو بھی۔"
ریان کا چہرہ پرسکون ہے۔
قرآن اس کے سامنے کھلا ہے۔
ایک آیت پر انگلی رُکی ہے:

"وَوَجَدَكَ ضَآلًّۭا فَهَدَىٰ"
"اور اُس نے تمہیں راہ بھٹکا ہوا پایا، تو ہدایت دی۔" [الضحى: 7]

ریان کی آنکھوں میں نمی ہے۔
لبوں پر خاموش دعا…
دل میں ہلکی سی روشنی۔

 پہلی آیت، پہلا زخم

"کبھی کوئی ایک آیت، ایک پورا ماضی کھول دیتی ہے۔"

ریان اس روز یونیورسٹی سے تھکا ہارا آیا۔ مگر دل میں ایک عجیب سی بے چینی تھی، جیسے کچھ پکار رہا ہو۔ اس نے وضو کیا — شاید زندگی میں پہلی بار اس نیت سے کہ کچھ سمجھنے کے لیے قرآن کھولے، نہ کہ محض پڑھنے کے لیے۔

اس دن وہ سورۃ یوسف کی تلاوت کر رہا تھا۔ اور تب وہ آیت سامنے آئی:

"إِنَّ ٱلنَّفْسَ لَأَمَّارَةٌۢ بِٱلسُّوٓءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىٓ ۚ"
"بے شک نفس تو برائی پر اکساتا ہے، سوائے اس کے جس پر میرے رب نے رحم فرمایا۔" [یوسف: 53]

ریان کے دل پر جیسے ایک چوٹ لگی۔
اسے یاد آیا، وہ لمحہ جب اُس نے اپنے والد کی نصیحت کو ٹھکرا دیا تھا —
جب اُس نے اپنے چھوٹے بھائی کو کمزور سمجھ کر دھتکارا تھا —
جب اس نے سچ کی بجائے برتری چن لی تھی —
اور سب کچھ "آزاد شعور" کے نام پر۔

"تو یہ نفس ہے؟
جو مجھے سچ سے روکتا رہا؟
جو مجھے مظلوم نہیں بننے دیتا، ہمیشہ منصف بننے پر اصرار کرتا رہا؟
کیا میں خود اپنا سب سے بڑا دشمن رہا ہوں؟"

اس نے آیت کو دوبارہ پڑھا…
اور پھر گویا وہ "نفس" اس کے سامنے کھڑا ہو گیا —
وہی نفس جس نے اسے ملحد بنایا،
جس نے سوال تو دیے…
مگر جھکنے کا حوصلہ چھین لیا۔

اس رات ریان پھوٹ پھوٹ کر رویا۔

نہ کوئی فلسفی باقی رہا، نہ محقق، نہ دانشور —
بس ایک انسان بچا،
جس کا زخم قرآن نے پہلی بار آشکار کیا۔

"میں نے سچ کو ہمیشہ عقل کے آئینے میں دیکھا…
مگر آج، دل کے زخم نے پہلی بار مجھے سچ کا چہرہ دکھایا۔
یہ زخم… شاید رحمت تھی۔"
ریان چپ چاپ زمین پر بیٹھا ہے۔
اس کے سامنے قرآن کھلا ہے۔
اور ایک جملہ لبوں پر آ رہا ہے:

"اے میرے رب… اب تُو ہی مجھے سنبھال۔"

 دل کا دروازہ کھلا

"کبھی تم رب کی تلاش میں ہوتے ہو،
اور کبھی رب تمہیں تلاش کرتا ہے…
اور جب دونوں لمحے ایک ہو جائیں،
تو دل کا دروازہ خود بخود کھل جاتا ہے۔"

ریان کئی دن سے سورۃ مریم کی تلاوت کر رہا تھا۔
وہ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا پر پہنچا:

"رَبِّ إِنِّي وَهَنَ ٱلْعَظْمُ مِنِّي وَٱشْتَعَلَ ٱلرَّأْسُ شَيْبًۭا وَلَمْ أَكُنۢ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّۭا"
"اے میرے رب! میری ہڈیاں کمزور ہو گئیں، میرا سر بڑھاپے سے سفید ہو گیا، اور میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں ہوا۔" [مریم: 4]

ریان جیسے لمحہ بھر کے لیے ساکت ہو گیا۔
یہ دعا کسی نبی کی تھی —
مگر اس میں انسانیت کی پوری سچائی چھپی تھی:
کمزوری، بے بسی، مگر امید…
اور رب کی رحمت۔

"میں نے ساری عمر طاقت کے سہارے جینے کی کوشش کی،
کبھی کمزوری کو تسلیم نہ کیا۔
مگر آج، مجھے معلوم ہوا کہ کمزوری میں ہی دعا جنم لیتی ہے۔"

اسی لمحے ریان کو لگا جیسے دل کے اندر کوئی دروازہ کھل گیا ہو۔
نہ شور، نہ دلیل، نہ تعارف — بس ایک تسلیم۔
ایک خاموش اقرار کہ:

"اے رب… میں تھک گیا ہوں۔ مجھے اپنا کر لے۔"

اسے یاد آیا، بچپن کی راتیں — جب ماں اسے سونے سے پہلے دعا سکھاتی تھی۔
وہ بچپن جو کبھی رخصت ہوا تھا، اب قرآن کی آغوش میں واپس آ رہا تھا۔

وہ سجدہ جس میں تم کچھ مانگتے نہیں —
صرف یہ کہتے ہو:
"میں حاضر ہوں!"

ریان نے سجدہ کیا۔
زمین نے اس کا بوجھ اٹھا لیا۔
آسمان نے اس کی خاموشی سن لی۔
اور دل نے، برسوں بعد پہلی بار، امن کا سانس لیا۔

ریان آئینے کے سامنے کھڑا ہے —
مگر اب وہ خود کو نہیں دیکھ رہا،
بلکہ اُسے دیکھ رہا ہے… جس نے اسے خود سے ملا دیا۔

 خدا کی طرف پہلا قدم

"ہدایت صرف روشنی نہیں ہوتی،
وہ راستہ بھی ہوتی ہے —
اور وہ راستہ، قدم مانگتا ہے۔"

ریان کی آنکھوں میں اب ایک نئی سکونت تھی۔
قرآن، جو کبھی صرف ایک کتاب لگتا تھا —
اب اس کے لیے ایک زندہ مکالمہ بن چکا تھا۔
ہر آیت گویا کوئی ہدایت نامہ،
اور ہر دن، عمل کی طرف بلاتا ایک نیا دن۔

مگر پہلا قدم؟
یہی سب سے دشوار مرحلہ تھا۔

ریان نے نماز شروع کی…
مگر اسے محسوس ہوا جیسے دو دنیاؤں کے بیچ کھڑا ہو۔
ایک طرف منطق، جس نے اسے بنوایا تھا۔
دوسری طرف تسلیم، جو اسے مٹا رہی تھی۔

نماز میں اس کا دل حاضر ہوتا،
مگر دماغ کبھی کبھار سوال کر بیٹھتا:

"تو جھک کیوں رہا ہے؟
کیا واقعی کوئی سن رہا ہے؟"

اور پھر…
سورۃ الانشقاق کی آیت سنائی دی:

"یَـٰٓأَيُّهَا ٱلْإِنسَـٰنُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًۭا فَمُلَـٰقِيهِ"
"اے انسان! تو محنت کر کے اپنے رب کی طرف جا رہا ہے، پھر تُو اس سے ملاقات کرے گا۔" [الانشقاق: 6]

ریان کے دل نے جواب دیا:

"ہاں… میں جا رہا ہوں۔
اور اب میں رکنا نہیں چاہتا۔"

"مجھے نہ جیتنا ہے، نہ ہارنا —
بس سچ کے ساتھ چلتے جانا ہے۔
ایک قدم،
اور پھر دوسرا…
رب کی طرف۔"

ریان نے آہستہ آہستہ اپنی زندگی کے نقوش بدلنا شروع کیے:

  • وہ فجر میں اٹھنے لگا — پہلے صرف نیند قربان ہوئی، پھر خودی۔

  • اس نے الحاد پر لکھے اپنے پرانے بلاگز حذف کیے — ایک ایک لفظ کے ساتھ ندامت بہتی گئی۔

  • اس نے مسجد میں پہلی بار اجتماعی دعا میں ہاتھ اٹھائے —
    جہاں صرف وہ اور رب نہ تھے، بلکہ امت بھی ساتھ تھی۔

ریان کو احساس ہوا —
کہ وہ اب تنہا نہیں۔
اس کا راستہ صرف ذاتی نجات کا نہیں،
بلکہ ایک کائناتی ہم آہنگی کا حصہ ہے۔

ریان چل رہا ہے۔
کندھوں پر ایک بیگ ہے —
مگر وہ فلسفے کی کتابوں سے بھرا ہوا نہیں…
بلکہ قرآن، دعا کی تسبیح، اور دل کی روشنی سے لبریز ہے۔

اس کے قدم نرم ہیں،
مگر سمت واضح ہے:

"إِهْدِنَا ٱلصِّرَٰطَ ٱلْمُسْتَقِيمَ"
"ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے۔"

ہدایت کا چراغ اور الحاد کی تاریکیاں

"جب تم خود کو راہ راست پر پاؤ،
تو دوسروں کو بھی دکھانا تمہارا فرض ہوتا ہے۔"

ریان اب پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔
یونیورسٹی میں اس کی گفتگو میں ایک نیا اعتماد تھا،
ایک نیا سکون تھا۔
وہ اب صرف فلسفے کے شوقین نہیں تھا، بلکہ ایک شخص تھا جس نے ہدایت کی حقیقت کو چکھا تھا۔

اس دن اس کے ایک پرانے دوست، عادل، نے اس سے ملنے کی دعوت دی۔
عادل ہمیشہ ریان کا فکری حریف رہا تھا، اور آج بھی، وہ اپنے ملحدانہ خیالات میں مست تھا۔
ریان جانتا تھا کہ یہ گفتگو صرف ایک علمی مباحثہ نہیں،
بلکہ ایک امتحان ہوگی۔
کیا وہ اب اس کی موجودہ حالت کو ثابت کر سکے گا؟

عادل نے مسکرا کر کہا:

"تو اب بھی یہ کہتا ہے کہ اللہ ہے؟
تم تو کبھی میرے ساتھ تھا،
ہم دونوں نے کئی بار اس بات پر بحث کی تھی۔"

ریان خاموش تھا۔
پھر اُس نے آرام سے جواب دیا:

"عادل، ہم نے جو سوالات کیے، وہ تمہاری اور میری الجھنیں تھیں۔
تم نے ان سوالات کا جواب اپنی عقل سے تلاش کیا،
میں نے اُسے دل کی گہرائی سے پانے کی کوشش کی۔
اور جو دل سے جڑ جائے، وہ عقل سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔"

عادل نے چونک کر کہا:

"یہ فلسفہ کچھ نیا لگ رہا ہے، لیکن پھر بھی تم مجھے کسی دلیل کے ساتھ نہیں سمجھا پائے۔"

ریان مسکرا کر بولا:

"دلیل؟ عادل، تمہیں یاد ہے جب ہم راتوں رات اس بات پر بحث کرتے تھے کہ 'وجود کیا ہے؟'
کبھی تم نے سوچا؟
کہ یہ سوال 'کیا ہے' نہیں،
بلکہ 'کیوں ہے' کے جواب میں چھپے ہیں۔"

"ہم سب کچھ دلیل سے نہیں سمجھ سکتے،
کچھ چیزیں صرف دل سے،
سچ کی گہرائی سے سمجھی جا سکتی ہیں۔"

اس گفتگو کے بعد ریان نے اپنا وقت عادل کے ساتھ گزارا،
مگر اسے محسوس ہوا کہ ان کی دنیا اب اتنی قریب نہیں رہی۔
وہ اب دوسرے لوگوں کی دُکھوں میں دلچسپی لینے لگا،
کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے ہدایت پا لی ہے،
تو اس کا فرض ہے کہ وہ دوسروں تک یہ روشنی پہنچائے۔

ریان نے اب اپنے علم کو دنیا کے ساتھ شیئر کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس نے یونیورسٹی میں ایک دینی کلاس شروع کی،
جہاں وہ قرآن، حدیث اور اسلامی تاریخ کے بارے میں طلبہ کو آگاہ کرتا تھا۔
اسے لگا جیسے ایک نیا باب کھل رہا ہو۔

ایک دن، اس نے کلاس کے آخر میں کہا:

"دلیل سے زیادہ، یہ ایمان کی بات ہے۔
اور ایمان وہ چیز ہے جو دل کی گہرائی سے نکل کر،
انسان کی زندگی کو بدل دیتی ہے۔"

اس کا مقصد صرف علم دینا نہیں تھا،
بلکہ لوگوں کو وہ روشنی دینا تھا،
جو اسے قرآن کی آیات میں ملی تھی۔

ریان اب زندگی میں نئے رنگ بھر رہا تھا۔ 
وہ نہ صرف اپنے آپ میں بدل چکا تھا،
بلکہ اپنے اردگرد کی دنیا کو بھی بدلنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اس کی پہلی آیت پر انگلی رکی:

"وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًۭا مِّمَّنْ دَعَآ إِلَىٰ ٱللَّهِ وَعَمِلَ صَـٰلِحًۭا وَقَالَ إِنَّنِى مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ"
"اور اُس سے بہتر بات کون کرے گا جو اللہ کی طرف دعوت دے، اچھے عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں؟" [فصلت: 33]

ریان نے دل میں فیصلہ کیا:

"اب میں صرف خود کو نہیں،
پوری امت کو ہدایت کی طرف لے جاؤں گا۔"

ایمان کی فتح

"ایمان صرف دل کی بات نہیں،
یہ عمل کا پیکر ہوتا ہے،
جو دل سے نکل کر دنیا کے ہر گوشے میں دکھائی دیتا ہے۔"

ریان کا سفر اب ایک نئے موڑ پر تھا۔
وہ اب اپنے آپ کو ایک مکمل انسان سمجھنے لگا تھا،
وہ شخص جو کبھی اپنی عقل کو سب کچھ سمجھتا تھا،
آج اپنے ایمان کو اپنی اصل طاقت مانتا تھا۔

اس نے اپنی زندگی کو قرآن کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا شروع کیا۔
وہ دن رات اپنے رب کے ساتھ رابطہ بڑھاتا،
نماز میں سکون محسوس کرتا،
اور اپنے ہر عمل کو اسلامی اصولوں کے مطابق جچتا۔

ایک دن، اس نے اپنے ایک دوست، عادل، سے کہا:

"عادل، تمہیں یاد ہے جب ہم اپنے آپ کو عقل کے پیمانے پر پرکھتے تھے؟
ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جو کچھ ہم جانتے ہیں،
وہ صرف ایک حد تک محدود ہے۔
لیکن ایمان، وہ چیز ہے جو انسان کو لامحدود کر دیتی ہے۔
یہ وہ طاقت ہے جو ہمیں انسان سے اللہ کے قریب لے آتی ہے۔"

عادل خاموش ہو گیا، اور ریان نے پھر کہا:

"اب میں تمہیں صرف ایک بات بتانا چاہتا ہوں —
ایمان کی طاقت، نہ عقل سے زیادہ ہے، نہ کم،
یہ اس سے مختلف ہے۔ یہ دل کی بات ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔"

ریان کے اندر جو تبدیلی آئی تھی، وہ صرف ذاتی نہیں تھی،
بلکہ وہ لوگوں کے ساتھ اپنے علم اور ایمان کا تبادلہ کرتا۔
اس نے ایک کمیونٹی سینٹر قائم کیا،
جہاں وہ لوگوں کو قرآن کی تعلیمات کے بارے میں آگاہ کرتا اور انہیں ایک نئی زندگی کی طرف رہنمائی دیتا۔

یہ وہ لمحہ تھا جب اس نے ہدایت کو اپنے جسم و جان کا حصہ بنا لیا،
اور وہ اسے ہر دن اپنی زندگی میں اُترتا محسوس کرتا تھا۔

ایک دن، اس نے مسجد میں ایک اجتماع کے دوران کہا:

"میں نے زندگی بھر سوالات کیے —
اور آخرکار یہ جواب ملا۔
وہ جواب، جو میری عقل سے نہیں،
بلکہ میرے دل سے آیا تھا۔
اللہ کی ہدایت، وہ روشنی ہے جو اندھیروں کو چمکاتی ہے،
اور جو ایک بار اس روشنی میں آ جاتا ہے، وہ کبھی بھی اندھیروں میں واپس نہیں جا سکتا۔"

اب ریان کا ایمان، نہ صرف اس کی ذات، بلکہ اس کے معاشرتی تعلقات میں بھی نظر آنے لگا تھا۔
وہ کسی بھی کمیونٹی میں شامل ہوتا، وہاں محبت، احترام، اور خیرات کی بنیاد پر گفتگو ہوتی۔
وہ اپنی زندگی کی گواہی دینے میں کامیاب ہو چکا تھا —
ایک زندہ مثال بن کر کہ ہدایت کا راستہ ہمیشہ کھلا ہوتا ہے،

"ہمیشہ سے، کبھی بھی،
ایمان کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔"

ریان کے چہرے پر ایک نئی روشنی تھی،
جو نہ صرف اس کے جسم کی، بلکہ اس کے روح کی بھی چمک تھی۔

ریان کا سفر مکمل ہو چکا تھا —
وہ شخص جو کبھی خود کو حقیقت کے بارے میں الجھا ہوا سمجھتا تھا،
آج ایک واضح راستے پر قدم رکھ چکا تھا۔
اس نے اپنی زندگی کو ایک نئے مقصد سے جوڑ لیا تھا:
اللہ کی رضا کی تلاش، اپنے عمل سے۔

اس کا ایمان اس کی طاقت بن چکا تھا، اور وہ جان چکا تھا کہ
ہدایت، صرف دل کی بات نہیں، بلکہ عمل کی حقیقت بھی ہے۔

ریان کا دل سکون میں تھا،
وہ اب ایک مکمل انسان بن چکا تھا،
ایک انسان جو اللہ کے راستے پر چلنے کے لیے تیار تھا۔

نوٹ: یہ کہانی ایک انسان کے فکری، روحانی، اور عملی سفر کی عکاسی کرتی ہے۔ اس میں ہدایت کی تلاش، عقل اور دل کے درمیان جدوجہد، اور آخرکار ایمان کی فتح کی کہانی ہے۔