فکرنامہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فکرنامہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

سکوتِ شب سے نداءِ نور تک

 خلا کی گونج

"مجھے زندگی سے کوئی شکایت نہ تھی، سوائے اِس کے کہ وہ کسی سوال کا جواب نہیں دیتی تھی۔"

رات کا پہلا پہر تھا۔ پورا شہر نیند کی آغوش میں ڈوبا ہوا تھا، مگر ریان کی آنکھوں میں نیند کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس کی نظریں چھت پر جمیں تھیں، جیسے وہاں کوئی چھپا ہوا مطلب کی تلاش رہی ہوں۔ کمرے میں کتابوں کا انبار تھا — نیٹشے، کارل ساگان، برٹرینڈ رسل، ڈارون، فوکو — علم کا سمندر اس کے اردگرد بکھرا تھا، مگر دل ویسا ہی پیاسا تھا جیسے صحرا میں بھٹکتا کوئی مسافر۔

ریان ایک محقق، لیکچرر، اور روشن خیال ملحد تھا۔ اس کا یقین تھا کہ مذہب انسان کی تخلیق ہے، اور خدا ایک نفسیاتی سہارا۔ وہ دلیل دیتا، مباحثے کرتا، اور سوشل میڈیا پر اپنے خیالات شیئر کرتا۔ لوگ اسے "سچ کا متلاشی" کہتے تھے، اور وہ خود کو "عقل کا پرستار"۔

مگر آج کی رات کچھ الگ تھی۔ ایک خاموشی اس کے دل میں رینگ رہی تھی۔ اُس نے خود سے پوچھا:

"اگر سب کچھ بے مقصد ہے… تو میری یہ بےچینی کس چیز کی ہے؟"

کسی نے کہا تھا، “کبھی کبھی خاموشی سب سے بلند صدا ہوتی ہے۔” اور ریان کے لیے وہ صدا آج گونجنے لگی تھی۔

 عقل کی زنجیروں میں

"میں نے عقل کو اپنا خدا بنایا… اور وہ مجھے صحرا میں چھوڑ کر خود کہیں گم ہو گئی۔"

ریان کے دن مطالعے میں گزرتے تھے اور راتیں سوچوں میں۔ وہ سچائی کا متلاشی تھا، مگر اس کی تلاش ایک دائرے میں گھومتی ہوئی محسوس ہونے لگی تھی۔
اس کا کیمپس میں لیکچر تھا:
"Existence is absurd. There is no inherent meaning. Man must create his own value."

طلبہ نے تالیاں بجائیں، کچھ نے سوال کیے، مگر اس کا دل کسی اور جگہ تھا۔ شاید اسی سوال پر رکا ہوا تھا جو اسے اکثر تنہا کر دیتا تھا:

"اگر کوئی خالق نہیں… تو یہ جمال، یہ نظم، یہ محبت؟ آخر ان سب کا ماخذ کیا ہے؟"

جدید سائنسی و فکری دنیا کی فلسفیانہ بنیادیں اور قرآنی نقطہ نظر

تاریخِ انسانیت کا فکری سفر ہمیشہ سوالات سے عبارت رہا ہے۔ یہ سوالات کائنات کی حقیقت، انسان کی حیثیت، علم کی بنیاد، اور اخلاق کے سرچشمے جیسے موضوعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب قرونِ وسطیٰ میں مذہبی اقتدار اور روایت نے عقل کو محدود کر دیا، تو یورپ میں ایک فکری بغاوت نے جنم لیا جسے ہم جدید دور یا عہدِ روشن خیالی (Enlightenment) کا آغاز کہتے ہیں۔ اسی تحریک نے جدید سائنسی اور فکری دنیا کی بنیاد رکھی، جو محض ایک سائنسی انقلاب نہ تھا، بلکہ ایک گہرا فلسفیانہ انقلاب بھی تھا۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ اس جدید دنیا کی فکری عمارت کن بنیادی فلسفیانہ اصولوں پر قائم ہوئی۔

1. عقلیت (Rationalism): "میں سوچتا ہوں، پس میں ہوں"

جدید فکر کا پہلا ستون عقل کی خودمختاری ہے۔
رینے دکارٹ نے "میں سوچتا ہوں، پس میں ہوں" (Cogito ergo sum) کہہ کر یہ اعلان کیا کہ انسان کی ذات کا پہلا ناقابلِ انکار سچ اس کی شعوری عقل ہے۔
اس سے قبل علم کا ماخذ مذہب یا روایت تھی، اب عقل کو نہ صرف جوازِ علم بلکہ جوازِ وجود کے طور پر بھی مانا جانے لگا۔