سیرت : روشنی کا سفر (قسط ۲)

 باب دوم: ایک یتیم کا بچپن

حلیمہ سعدیہ کا قافلہ

مکہ کی تپتی ہوئی زمین پر ایک قافلہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا۔ اونٹوں کی گھنٹیوں کی ہلکی ہلکی آوازیں صحرا کی خاموشی میں گھل رہی تھیں۔ بنی سعد کے چرواہے اور عورتیں اپنے اپنے اونٹوں پر سوار تھیں، وہ سب کسی ایسے بچے کی تلاش میں تھے جسے وہ دودھ پلانے کے لیے لے جائیں، مگر مکہ کے خوشحال خاندانوں کے بچے پہلے ہی منتخب ہو چکے تھے۔

حلیمہ سعدیہ کے پاس ایک کمزور اونٹنی تھی، جو چلنے سے قاصر تھی، جبکہ ان کا نومولود بیٹا بھوک سے بلک رہا تھا۔ ان کے شوہر حارث بن عبدالعزیٰ نے افسوس سے کہا:

“حلیمہ، اس سال قحط نے سب کچھ برباد کر دیا ہے۔ ہمیں شاید خالی ہاتھ لوٹنا پڑے۔”

حلیمہ نے آسمان کی طرف دیکھا اور گہری سوچ میں ڈوب گئیں۔ مکہ پہنچنے پر انہیں ایک یتیم بچے کی خبر ملی، جس کی والدہ آمنہ تھیں اور والد عبداللہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ یتیم ہونے کی وجہ سے کوئی اس بچے کو لینے پر تیار نہ تھا۔

حلیمہ کا فیصلہ

حلیمہ نے بچے کو دیکھا۔ وہ گہری نیند میں تھا، چہرے پر ایک نورانیت تھی جو عام بچوں سے مختلف تھی۔ ان کا دل پگھل گیا اور انہوں نے فیصلہ کر لیا:

“میں اس مبارک بچے کو لوں گی۔ شاید یہی ہمارے گھر میں برکت لے آئے۔”

جیسے ہی محمد ﷺ کو اپنی آغوش میں لیا، حلیمہ کے دودھ میں برکت آگئی، ان کا کمزور اونٹ طاقتور ہو گیا، اور سفر کے دوران ان کی اونٹنی قافلے کے دیگر اونٹوں سے آگے نکل گئی۔

بچپن کے ابتدائی سال

بنی سعد کی زمین پر محمد ﷺ پروان چڑھنے لگے۔ وہ عام بچوں سے مختلف تھے، زیادہ روتے نہیں تھے، ہر چیز میں گہری سوچ رکھتے تھے، اور بچپن سے ہی سچائی اور دیانت داری کی صفت ان میں نمایاں تھی۔

چرواہوں کے درمیان

محمد ﷺ بچپن میں اپنے رضاعی بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے جاتے، مگر وہ ہمیشہ ان پر خصوصی توجہ دیتے کہ کہیں وہ کسی کی فصل یا درخت کو نقصان نہ پہنچائیں۔ وہ جانوروں کے ساتھ نرمی برتتے اور کبھی کسی جانور کو بے جا نہ مارتے۔

شرح صدر کا واقعہ

ایک دن جب وہ اپنے دوسرے چرواہا ساتھیوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، اچانک دو اجنبی آدمی آئے۔ ان کے چہروں پر روشنی تھی، سفید لباس پہنے ہوئے تھے۔ وہ محمد ﷺ کو ایک طرف لے گئے اور زمین پر لٹا دیا۔

کچھ دیر بعد وہ  دوڑتے ہوئے گھر پہنچے اور گھبرائی ہوئی آواز میں حلیمہ سعدیہ کو بتایا :

“ماں! دو آدمی آئے، انہوں نے میرا سینہ چاک کیا اور کچھ نکال کر دھو دیا!”

 یہ سنتے ہی حلیمہ اور ان کے شوہر کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ دوڑے دوڑے محمد ﷺ کے پاس پہنچے۔ چہرہ زرد تھا، مگر وہ مکمل طور پر خیریت سے تھے۔

یہ واقعہ دیکھ کر حلیمہ کو خوف محسوس ہونے لگا، اور وہ جلدی مکہ لوٹ گئیں۔ آمنہ نے اپنے بیٹے کو سینے سے لگایا اور کہا:

“یہ بچہ کوئی عام بچہ نہیں، میں نے اس کی پیدائش کے وقت بھی عجیب واقعات دیکھے تھے۔”

ماں کا سایہ اٹھ گیا

محمد ﷺ کی عمر چھ سال ہوئی تو آمنہ انہیں اپنے ننھیال یثرب (مدینہ) لے گئیں۔ وہاں انہوں نے کچھ وقت اپنے رشتہ داروں کے ساتھ گزارا، مگر جب واپسی کا سفر شروع ہوا، تو آمنہ بیمار ہو گئیں۔ مقامِ ابواء پر وہ کمزور ہو کر گر گئیں اور محمد ﷺ کو سینے سے لگا کر کہا:

“میرے بیٹے! اللہ تمہارا محافظ ہو!”

یہ آخری الفاظ تھے۔ آمنہ کا سایہ بھی اٹھ گیا۔

عبدالمطلب کی سرپرستی

یتیمی کے اس درد کو محسوس کرتے ہوئے عبدالمطلب نے اپنے پوتے کو سینے سے لگا لیا۔ وہ انہیں اپنے ساتھ خانہ کعبہ لے جاتے، اپنی مسند پر بٹھاتے اور کہتے:

“یہ میرا خاص بیٹا ہے، اس کا مستقبل روشن ہے۔”

مگر وقت نے ایک اور آزمائش لکھی تھی۔ جب محمد ﷺ آٹھ سال کے ہوئے تو عبدالمطلب بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔

ابو طالب کی سرپرستی

اب محمد ﷺ کو ان کے چچا ابو طالب نے اپنی کفالت میں لے لیا۔ ابو طالب مالی طور پر زیادہ خوشحال نہ تھے، مگر ان کے دل میں اپنے بھتیجے کے لیے بے پناہ محبت تھی۔ وہ ہمیشہ انہیں اپنے ساتھ رکھتے، ان کی ضروریات کا خیال رکھتے اور اپنی اولاد سے زیادہ محبت کرتے۔

یوں، ایک یتیم بچہ مشکلات کی راہ پر چلتے ہوئے پروان چڑھ رہا تھا، مگر اس کی روشنی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔

سوچنے کے لیے سوالات:

  1. حلیمہ سعدیہ نے نبی کریم ﷺ کو کیوں اپنایا اور اس کے بعد ان کی زندگی میں کیا تبدیلیاں آئیں؟

  2. بچپن میں نبی کریم ﷺ کا دیگر بچوں سے مختلف رویہ کس طرح ظاہر ہوتا تھا؟

  3. شرح صدر کے واقعے کا کیا مطلب تھا اور اس کے نبی کریم ﷺ کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟

  4. والدہ اور دادا کی وفات نے نبی کریم ﷺ کی شخصیت پر کیسے اثرات ڈالے؟

  5. ابو طالب کی سرپرستی میں نبی کریم ﷺ کی زندگی کس طرح گزری؟


یہ بھی پڑھیں !

سیرت : روشنی کا سفر ( قسط ۳)

اس قسط میں:

اب محمد ﷺ جوان  ہیں۔ وہ اپنی سچائی اور امانت داری سے لوگوں میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک بڑا تجارتی سفر اور ایک خاص ملاقات ان کی زندگی کا رخ بدل دیتا ہے۔