سانحہ غزہ: ضمیرِ انسانی کی بیداری اور اسلام کی نئی بازگشت

تاریخ کے جبر نے ایک بار پھر انسانیت کو آئینہ دکھایا ہے۔ غزہ کے زخمی چہروں، معصوم لاشوں، ملبے تلے سسکتی ماؤں اور اجڑی ہوئی بستیوں نے نہ صرف مسلم دنیا کو دہلا دیا، بلکہ اُس مغربی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جو صدیوں سے انسانی حقوق، آزادی اور تہذیبی اقدار کے نعرے لگاتا آیا ہے۔

سانحہ غزہ نے امریکہ اور یورپ کے سلیم الفطرت غیر مسلم دانشوروں، پروفیسروں، لکھاریوں اور یونیورسٹیوں کے حساس نوجوانوں کو ایک فکری زلزلے سے دوچار کر دیا ہے۔ وہ نوجوان جو کبھی تہذیبِ مغرب کے ناقابلِ شکست ہونے کا یقین رکھتے تھے، اب ظلم و جبر کے اس اندوہناک منظرنامے میں اپنی تہذیب کی منافقت، دوہرا معیار، اور طاقت پرستی کا نوحہ پڑھنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

یہ بیداری محض وقتی احتجاج یا مظاہروں کی صورت میں نہیں بلکہ ایک گہری فکری بےچینی، ضمیر کی خلش اور صداقت کی تلاش کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ انہیں پہلی بار شدت سے یہ احساس ہوا ہے کہ تہذیب کا مطلب صرف تکنیکی ترقی یا سیاسی بالادستی نہیں، بلکہ اس کا اصل جوہر عدل، رحم، اور انسانی وقار کی حفاظت ہے — جو چیز مغربی تہذیب اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود غزہ میں مہیا نہ کر سکی۔

یہی بےچینی اُنہیں اِس سوال کی طرف لے آئی ہے کہ:
اگر مغربی تہذیب انسانیت کی اعلیٰ ترین صورت ہے تو وہ اس قدر ظالم، اندھی اور خاموش کیوں ہے؟
یہ سوال صرف تہذیبوں کے درمیان فرق کا نہیں، بلکہ اُن کی روحانی بنیادوں، اخلاقی ساخت اور نظریاتی اساس کا ہے۔ اور اسی سوال نے اُنہیں مجبور کیا ہے کہ وہ اسلام، قرآن مجید، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف پلٹ کر دیکھیں۔

اسلام، جو کبھی ان کے لیے محض مشرق کی ایک اجنبی مذہبی روایت تھا، اب اُن کے لیے ایک ممکنہ متبادل، ایک روحانی امکان، اور ایک اخلاقی و تہذیبی سوال بن چکا ہے۔ وہ قرآن کو محض مذہبی کتاب نہیں بلکہ ایک زندہ فکری و اخلاقی پیغام کے طور پر کھول کر دیکھ رہے ہیں۔ اُنہیں حیرت ہے کہ ایک چودہ سو سال پرانی کتاب کس طرح آج کے جبر، استبداد اور تہذیبی انتشار میں امید، انصاف، اور امن کی بات کرتی ہے۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں اُس اخلاقی قیادت، رحم، مزاحمت، اور عدل کی جھلک دیکھ رہے ہیں جس کی انہیں آج کی دنیا میں شدید کمی محسوس ہو رہی ہے۔

یورپ اور امریکہ کی جامعات میں ہونے والے احتجاج، کیمپس میں بلند ہونے والی حق گوئی کی صدائیں، اور طلبہ کی بےخوف مزاحمت — یہ سب کسی وقتی سیاسی ردعمل کا اظہار نہیں بلکہ اُس تہذیبی تھکن، فکری جمود اور روحانی خلا کی علامات ہیں جو مغرب کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہیں۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے نوجوان دل و دماغ اسلام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں — نہ کسی فتوے کی پکار پر، نہ کسی دعوتی مہم کے نتیجے میں، بلکہ انسانی فطرت کی پکار پر، ضمیر کی صداقت پر، اور مظلوم کی چیخ پر لبیک کہتے ہوئے۔

یہ لمحہ اہلِ اسلام کے لیے بھی غور و فکر کا ہے۔ کیا ہم اپنے دین کی اس سچائی، اس رحم، اس حکمت، اور اس عدل کو دنیا کے سامنے اس انداز میں پیش کر رہے ہیں کہ وہ نہ صرف قلوب کو چھو لے بلکہ ذہنوں کو بھی قائل کر سکے؟
یہ وقت صرف غزہ کے لیے آنسو بہانے یا غصہ نکالنے کا نہیں — بلکہ اس لمحے کو فکری اثاثہ بنانے، اسلام کے پیغام کو عالم انسانیت تک پہنچانے، اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت رحمت للعالمین کو دنیا کے سامنے زندہ مثال کے طور پر پیش کرنے کا وقت ہے۔

غزہ کے شہداء نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم اسلام کو ایک زندہ تہذیبی، اخلاقی اور روحانی نظام کے طور پر دنیا کے سامنے رکھیں۔ دنیا سننے کو تیار ہے — بس شرط یہ ہے کہ ہم سچ، اخلاص، اور حکمت کے ساتھ بولیں۔