تاریخ کے جبر نے ایک بار پھر انسانیت کو آئینہ دکھایا ہے۔ غزہ کے زخمی چہروں، معصوم لاشوں، ملبے تلے سسکتی ماؤں اور اجڑی ہوئی بستیوں نے نہ صرف مسلم دنیا کو دہلا دیا، بلکہ اُس مغربی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جو صدیوں سے انسانی حقوق، آزادی اور تہذیبی اقدار کے نعرے لگاتا آیا ہے۔
یہ بیداری محض وقتی احتجاج یا مظاہروں کی صورت میں نہیں بلکہ ایک گہری فکری بےچینی، ضمیر کی خلش اور صداقت کی تلاش کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ انہیں پہلی بار شدت سے یہ احساس ہوا ہے کہ تہذیب کا مطلب صرف تکنیکی ترقی یا سیاسی بالادستی نہیں، بلکہ اس کا اصل جوہر عدل، رحم، اور انسانی وقار کی حفاظت ہے — جو چیز مغربی تہذیب اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود غزہ میں مہیا نہ کر سکی۔
اسلام، جو کبھی ان کے لیے محض مشرق کی ایک اجنبی مذہبی روایت تھا، اب اُن کے لیے ایک ممکنہ متبادل، ایک روحانی امکان، اور ایک اخلاقی و تہذیبی سوال بن چکا ہے۔ وہ قرآن کو محض مذہبی کتاب نہیں بلکہ ایک زندہ فکری و اخلاقی پیغام کے طور پر کھول کر دیکھ رہے ہیں۔ اُنہیں حیرت ہے کہ ایک چودہ سو سال پرانی کتاب کس طرح آج کے جبر، استبداد اور تہذیبی انتشار میں امید، انصاف، اور امن کی بات کرتی ہے۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں اُس اخلاقی قیادت، رحم، مزاحمت، اور عدل کی جھلک دیکھ رہے ہیں جس کی انہیں آج کی دنیا میں شدید کمی محسوس ہو رہی ہے۔
یورپ اور امریکہ کی جامعات میں ہونے والے احتجاج، کیمپس میں بلند ہونے والی حق گوئی کی صدائیں، اور طلبہ کی بےخوف مزاحمت — یہ سب کسی وقتی سیاسی ردعمل کا اظہار نہیں بلکہ اُس تہذیبی تھکن، فکری جمود اور روحانی خلا کی علامات ہیں جو مغرب کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہیں۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے نوجوان دل و دماغ اسلام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں — نہ کسی فتوے کی پکار پر، نہ کسی دعوتی مہم کے نتیجے میں، بلکہ انسانی فطرت کی پکار پر، ضمیر کی صداقت پر، اور مظلوم کی چیخ پر لبیک کہتے ہوئے۔
غزہ کے شہداء نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم اسلام کو ایک زندہ تہذیبی، اخلاقی اور روحانی نظام کے طور پر دنیا کے سامنے رکھیں۔ دنیا سننے کو تیار ہے — بس شرط یہ ہے کہ ہم سچ، اخلاص، اور حکمت کے ساتھ بولیں۔