توہین رسالت کی سزا - مولانا عمار ناصر

’’محاربہ اور فساد فی الارض‘‘ کے زیر عنوان ہم نے واضح کیا ہے کہ محاربہ کو ریاست کے خلاف جرم کی کسی مخصوص صورت میں منحصر کر دینا درست نہیں اوراقتدار اعلیٰ کے خلاف بغاوت، سرکشی اور اس کے اختیار کو چیلنج کرنے کی ہرصورت اس کے دائرۂ اطلاق میں شامل ہے۔ ہم نے وہاں یہ بھی واضح کیا ہے کہ:


’’ہماری راے میں اسلام یا پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کا جرم اور اس پرسزا کا معاملہ بھی اپنی قانونی اساس کے لحاظ سے آیت ’محاربہ‘ ہی پر مبنی ہے، اس لیے کہ ایک اسلامی معاشرے میں، جو ایمان واعتقاد اور قانونی وسیاسی سطح پر اطاعت وسرافگندگی کے آخری مرجع خدا اور اس کے رسول کو مانتا اوراپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل کو رسول اللہ ہی کی لائی ہوئی ہدایت کا مرہونمنت سمجھتا ہے، خدا کے رسول کی توہین وتحقیر بھی ’محاربہ‘ اور ’فساد فیالارض‘ کی ایک صورت ہے اور اگر کوئی شخص دانستہ ایسا کرتا اور اس پر مصررہتا ہے تو وہ نہ صرف اس کے باشندوں کے مذہبی جذبات واحساسات کو مجروح کرتاہے، بلکہ ریاست کے مذہبی تشخص کو بھی چیلنج کرتا اور اسے پامال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ یہ جرم انھی سزاؤں کا مستوجب قرار پانا چاہیے جو آیتمحاربہ میں بیان ہوئی ہیں۔‘‘

یہاں ہم اپنے اس نقطۂ نظر کی تفصیل کرنے کے علاوہ اس مسئلے کے بعض دیگر اہم پہلووں کی بھی وضاحت کریں گے۔

۱۔ جمہور فقہا نے توہین رسالت پرسزاے موت کو ’عقد ذمہ‘ کی خلاف ورزی سےمتعلق قرار دیا ہے اور ان کا استدلال یہ ہے کہ اہل ذمہ کے ساتھ جزیہ کیادائیگی کی شرط کے ساتھ اسلامی ریاست میں رہنے کا معاہدہ اس بنیاد پر کیاجاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں ذلیل اور پست ہو کر رہیں گے اور اسمیں یہ بات ازخود شامل ہے کہ وہ مسلمانوں کے مذہب اور مذہبی شخصیات اورشعائر کا احترام ملحوظ رکھیں گے۔ چنانچہ اگر کوئی ذمی شتم رسول کا مرتکبہوتا ہے تو وہ اس معاہدے کو جس کی وجہ سے اس کی جان کو تحفظ حاصل تھا، توڑدیتا ہے اور نتیجتاً مباح الدم قرار پاتا ہے، اس وجہ سے اسے قتل کر دیاجائے گا۔ ۱؂ہماری راے میں فقہا کا شتم رسول کو نقض عہد کے ہم معنی قراردینا درست ہے، ۲؂تاہم اس پر سزا کے معاملے کو اصلاً عقد ذمہ کی خلافورزی کا نتیجہ قرار دینا اس وجہ سے محل نظر ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہوسلم کے دور میں شتم رسول کے جن مجرموں کو موت کی سزا دی گئی، وہ سب کے سبیا تو ’معاہد‘ تھے یا مسلمانوں کے کھلم کھلا دشمن اور ان میں سے کوئی بھیفقہی اصطلاح کے مطابق ’ذمی‘ نہیں تھا۔ ۳؂


عہد رسالت میں اس نوعیت کے جن مجرموں کو سزا دی گئی، ان کے واقعات کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:

o فتح مکہ کے موقع پر جن افراد کو کسی قسم کی کوئی رعایت دیے بغیر قتلکرنے کا حکم دیا گیا، ان میں ابن خطل بھی شامل تھا۔ اس شخص نے پہلے اسلامقبول کیا تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اسے زکوٰۃ کیوصولی کے لیے عامل بنا کر بھیجا، لیکن اس نے اپنے ساتھ جانے والے غلام کوراستے میں قتل کر دیا اور پھر مرتد ہو کر مشرکین کے ساتھ جا ملا۔ اس کے بعداس کی دو لونڈیاں معمول کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو پر مشتملاشعار گایا کرتی تھیں۔ ۴؂اس طرح ابن خطل خود تو قتل اور بدعہدی کامرتکب ہوا، جبکہ اس کی لونڈیوں نے اس کے حکم پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیذات گرامی کو ایک عادت اورمعمول کے طور پر ہجویہ شاعری کا موضوع بنا لیا جوکئی گنا زیادہ سنگین نوعیت کا جرم تھا۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر نبی صلیاللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ ابن خطل جان بچانے کے لیے کعبے کے غلاف کےساتھ چمٹا ہوا ہے، لیکن آپ نے اسے امان نہیں دی اور فرمایا کہ اسے قتل کردو۔ ۵؂آپ نے اس کی دونوں لونڈیوں کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا، تاہم انمیں سے ایک کو تو قتل کر دیا گیا، جبکہ دوسری فرار ہو گئی اور بعد میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امان دے دی۔ ۶؂ہماری راے میں ابنخطل کی مغنیہ لونڈی کا قتل کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر ابن خطل کےدامن پر قتل اور بدعہدی کا داغ نہ ہوتا اور وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہوسلم کی ہجو اور توہین ہی کا مرتکب ہوتا تو بھی اس کی سزا یہی ہوتی۔

oعصماء بنت مروان ،بنو خطمہ کی ایک عورت تھی اور اس نے نبی صلی اللہ علیہوسلم اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں نہایت توہین آمیز اشعار کہے تھے۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب پر اسی کی قوم سے تعلق رکھنے والےایک صحابی عمیر بن عدی نے اسے قتل کر دیا۔ ۷؂

o ابو عفک بنو عمرو بن عوف کا ایک یہودی بوڑھا تھا اور اپنے اشعار میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیب جوئی کرتا اور آپ کے خلاف لوگوں کوبھڑکاتا تھا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پرسالم بن عمیر نے اسےقتل کر دیا۔ ۸؂

oابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کی لونڈی، جو اس کے بچوںکی ماں بھی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتی اور آپ کی توہینکیا کرتی تھی اور اپنے مالک کے منع کرنے اور ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود اس سے بازنہیں آتی تھی۔ ایک دن اسی بات پر اس نے اشتعال میں آ کر اسے قتل کر دیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے اس کو بلا کرپوچھ گچھ کی اور پھر اس کی وضاحت سننے کے بعد فرمایا کہ ’الا اشہدوا اندمہا ہدر‘۹؂،یعنی گواہ رہو کہ اس عورت کا خون رائگاں ہے۔

oعمیر بن امیہ کی ہمشیرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں زبان درازیکیا کرتی تھی جس سے تنگ آکر انھوں نے ایک دن اسے قتل کر دیا اور جب مقدمہنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش ہوا تو آپ نے اس کے خون کو ہدرقرار دے دیا۔ ۱۰؂

o ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیدی تو آپ نے فرمایا کہ میرے دشمن سے کون نمٹے گا؟ اس پر زبیر آگے بڑھے، اسےللکارا اور پھر اسے قتل کر دیا۔ اسی طرح ایک عورت کے بارے میں آپ نے یہیبات فرمائی تو خالد بن ولید نے اس کو قتل کر دیا۔ ۱۱؂

oحسن بصری کی ایک روایت کے مطابق ایک شخص کو رقم دی گئی تاکہ وہ نبی صلیاللہ علیہ وسلم کو قتل کر دے۔ آپ کو وحی کے ذریعے سے اس کی اطلاع دی گئی توآپ کے حکم پر اسے سولی چڑھا دیا گیا۔ ۱۲؂

oبعض افراد اسلام دشمنی میں اس پستی پر اتر آئے کہ انھوں نے نبی صلی اللہعلیہ وسلم کے اہل بیت میں سے خواتین تک کو بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔ چنانچہایسے افراد کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ مثال کے طور پر ہبار بن الاسودنے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو، جب وہ مکہ سے مدینہ روانہ ہو رہی تھیں، اسطرح ڈرایا دھمکایا کہ خوف سے ان کا حمل ضائع ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہوسلم نے اس جرم میں اس کے قتل کو مباح قرار دے دیا اور فرمایا کہ وہ جہاںملے، اسے آگ میں جلا دیا جائے، لیکن پھر فرمایا کہ آگ کا عذاب اللہ ہی کےشایان شان ہے، اس لیے اگر وہ ملے تو ایک ایک کر کے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیےجائیں، ۱۳؂تاہم بعد میں اس نے اسلام قبول کر لیا۔

اسی طرح حضرت عباس بن عبد المطلب سیدہ فاطمہ اور سیدہ ام کلثوم کو مکہ سےمدینہ لے جا رہے تھے تو حویرث بن نقیذ نے چوٹ لگا کر دونوں خواتین کو زمینپر گرا دیا۔ جب مکہ فتح ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حویرث کو مباحالدم قرار دیا جس پر سیدنا علی نے اس کی گردن اڑا دی۔ ۱۴؂

مذکورہ تمام مجرموں کو دی جانے والی سزا دراصل اللہ اور اس کے رسول کےخلاف محاربہ کی سزا تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات اس جرم کاارتکاب کرنے والے بدیہی طور پر اس سزا کے زیادہ مستحق تھے۔ آپ اللہ کےپیغمبر تھے اور رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کے خاص قانون کے مطابق جزیرۂعرب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اعلان کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے کہ آپ اورآپ کے پیروکاروں کو، بہرحال غلبہ حاصل ہوگا ،جبکہ آپ کے مخالفین شکست اوررسوائی سے دوچار ہوں گے۔ چنانچہ آپ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد جزیرۂ عربکے مشرکین اور اہل کتاب آپ پر ایمان لانے اور آپ کے اقتدار اعلیٰ کے سامنےسر اطاعت خم کرنے کے پابند تھے۔ اس تناظر میں جزیرۂ عرب کے تمام گروہ اصولیطور پر آپ کے قانونی دائرۂ اختیار کے اندر آتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرفسے آپ کو ہر اس شخص یا گروہ کے خلاف اقدام کا حق حاصل تھا جو اسلام کےبارے میں محاربہ اورمعاندت کا رویہ اختیار کرے اور جسے سزا دینا آپ موقعومحل اور حکمت کی رو سے مناسب سمجھیں۔ اسی اختیار کے تحت آپ نے ان افراد کےلیے موت کی سزا تجویزفرمائی جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میںکھلم کھلا دشمنی اور عناد پر مبنی طرز عمل اختیار کیا او ر اپنے قول وفعلسے آپ کی حیثیت رسالت کو چیلنج کرنے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوتکا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ ۱۵؂

چونکہ ’محاربہ‘ سے متعلق قرآن مجید میں بیان ہونے والا ضابطۂ تعزیراتاسلامی شریعت کا ایک ابدی قانون ہے، اس لیے دنیا کی ہر اسلامی ریاست اسیقانون کے تحت اپنے دائرۂ اختیار میں توہین رسالت کے مجرموں کو سزا دینے کاحق رکھتی، بلکہ اس کی پابند ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسولوںکے ساتھ اعتقادی وجذباتی وابستگی اور ان کی حرمت وناموس کی حفاظت محض ایکمسلمان کے انفرادی ایمان واعتقاد کا مسئلہ نہیں، بلکہ نظم اجتماعی کی سطحپر مسلمانوں کے معاشرے کی بھی ذمہ داری ہے اور جو چیزیں اسلامی ریاست کوایک مخصوص نظریاتی تشخص اور امتیاز عطا کرتی ہیں، ان میں اسلامی حدودوشعائر کا تحفظ اور ان کی بے حرمتی کا سدباب بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہصحابہ نے بھی اپنے دور میں اس سزا کو برقرار رکھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہعلیہ وسلم کی وفات پر بعض خواتین نے خوشی کے اظہار کے لیے دف بجاے تو سیدناابوبکر نے ان کے ہاتھ کٹوا دیے۔ ۱۶؂سیدنا عمر کے بارے میں مروی ہے کہانھوں نے اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی نبی کو برا بھلاکہنے والے کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ انھوں نےفرمایا کہ جو معاہد عناد سے کام لیتے ہوئے علانیہ اللہ یا اس کے رسول کےبارے میں گستاخانہ کلمات کہے، وہ نقض عہد کا مرتکب ہوتا ہے، اس لیے اسے قتلکر دیا جائے۔ ۱۷؂کعب بن علقمہ روایت کرتے ہیں کہ عرفہ بن حارث کندیرضی اللہ عنہ کے پاس سے ایک نصرانی گزرا۔ انھوں نے اسے اسلام کی دعوت دی تواس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کر دی۔ عرفہ نے زورسے مکا مار کر اس کی ناک توڑ دی۔ معاملہ حضرت عمرو بن العاص کے سامنے پیشکیا گیا تو عمرو نے کہا کہ ہم نے تو ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہے۔ عرفہ نےکہا: اس بات سے اللہ کی پناہ کہ ہم نے ان کے ساتھ کھلم کھلا رسول اللہ صلیاللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اجازت دینے پر معاہدہ کیا ہو۔ ۱۸؂

معاصر علمی اور سیاسی بحثوں میں اس مسئلے نے ایک خاص تناظر میں خصوصیاہمیت حاصل کر لی ہے۔ کلاسیکی فقہی ذخیرے میں یہ مسئلہ اصلاً اس صورت کےحوالے سے زیر بحث آیا ہے جب اسلامی ریاست میں مقیم کسی غیر مسلم نے اس فعلشنیع کا ارتکاب کیا ہو ۔ اگر مسلم ریاست کے دائرۂ اختیارسے باہر کسی فردنے ایسا کیا ہو تو کلاسیکی اسلامی قانون اس صورت سے تصریحاً کوئی تعرض نہیںکرتا اور چونکہ فقہی دور میں رائج قانون بین الاقوام کے تصور کے تحت کسیمحارب قوم کے قانونی دائرۂ اختیار میں رونما ہونے والے اس طرح کے واقعات سےزیادہ سروکار نہیں رکھا جاتا تھا، اس لیے اس سے کوئی عملی مسئلہ بھی پیدانہیں ہوتا تھا، تاہم دنیا کے سیاسی وتہذیبی ارتقا اور قانون بین الاقواممیں پیدا ہونے والے تغیرات کے نتیجے میں اس صورت حال میں ایک جوہری تبدیلیواقع ہوئی ہے۔ اب دنیا کی کم وبیش تمام اقوام ایک بین الاقوامی معاہدے کیفریق اور اس کی پاس داری کی پابند ہیں اور اس کے نتیجے میں اقوام عالم ایکدوسرے سے جذبات واحساسات کے باہمی احترام کی توقع بھی رکھتی ہیں اور اگر انکو پامال کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے اثرات براہ راست قانون بینالاقوام اور عالمی سیاست کے پورے ڈھانچے پرمرتب ہوتے ہیں۔

اس صورت حال میں توہین رسالت کی سزا کی بحث نے، جو اس سے پہلے اسلامیقانون کی ایک داخلی بحث تھی، عالم اسلام اور مغرب کے مابین ایک نہایت حساساور نازک نزاعی مسئلے کی صورت اختیار کر لی ہے۔ مغرب میں اسلام اور پیغمبراسلام کے حوالے سے غلط فہمی یا دانستہ کردار کشی پر مبنی پروپیگنڈا مہم کیتاریخ صدیوں پرانی ہے، البتہ اس میں یہ فرق رونما ہوا ہے کہ ماضی میں اسمہم کی قیادت ارباب کلیسا کرتے رہے ہیں، جبکہ اب اس محاذ پر وہاں کے سیکولراور مذہب سے بیزار حلقے صف آرا ہیں۔ معاصر تناظر میں دو باتوں نے خاص طورپر معاملے کو پیچیدہ بنا دیا ہے: ایک یہ کہ مغربی معاشرہ چونکہ ایک خاصفکری ارتقا کے نتیجے میں مذہبی معاملات کے حوالے سے حساسیت کھو چکا ہے، نیزوہاں ریاستی نظم اور معاشرے کے مابین حقوق اور اختیارات کی بھی ایک مخصوصتقسیم وجود میں آ چکی ہے، اس وجہ سے مغربی حکومتیں قانونی سطح پر ایسےواقعات کی روک تھام کی کوئی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسرےیہ کہ مغرب انسانی حقوق اور آزادیِ راے کے اپنے مخصوص تصور کو بین الاقوامیسیاسی اور معاشی دباؤ کے تحت عالم اسلام پربھی مسلط کرنا چاہتا ہے اور اسکا مطالبہ ہے کہ مذہب یا مذہبی شخصیات کی توہین پر پابندی یا اس کو جرمقرار دیتے ہوئے اس پرتعزیری سزاؤں کو مسلم ممالک کے ضابطۂ قوانین سے خارجکیا جائے۔

ممکن ہے اہل مغرب اپنے سیکولر زاویۂ نگاہ کے تحت یہ مطالبہ کرنے میں اپنےآپ کو فی الواقع حق بجانب سمجھتے ہوں کہ کوئی ریاست قانونی دائرے میں مذہبیشعائر اور شخصیات کے ساتھ کسی وابستگی کا اظہار نہ کرے، لیکن ایک اسلامیریاست کے لیے ایسے کسی مطالبے کو تسلیم کرنے کی کوئی وجہ نہیں جو نہ صرفریاست کے مذہبی تشخص کو مجروح کرتا ہو، بلکہ جمہوری اصولوں اور عام انسانیاخلاقیات کی رو سے بھی غیر معقول اور ناقابل دفاع ہو۔ دنیا کا ہر قانونینظام اپنے باشندوں کو نہ صرف جان ومال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، بلکہ انکی عزت اور آبرو کا تحفظ بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے اور ہتک عزت اور ازالۂ حیثیت عرفی وغیرہ سے متعلق تادیبی سزائیں اسی اصول پر مبنیہوتی ہیں۔ اگر اس قانونی انتظام کی بنیاد کسی بھی فرد یا جماعت کی عزت نفسکا تحفظ اور ان کو توہین وتذلیل کے احساس سے بچانا ہے تو بدیہی طور پر اسکے دائرے میں صرف زندہ افراد کو نہیں، بلکہ ماضی کی ان شخصیات کو بھی شاملہونا چاہیے جن کے حوالے سے کوئی بھی فرد یا گروہ اپنے دل میں عزت واحتراماور بالخصوص مذہبی تقدیس وتعظیم کے جذبات رکھتا ہے۔ جدید جمہوری اصولوں کیرو سے کسی بھی مملکت کے حدود میں بسنے والے ہر مذہبی گروہ کو اپنے عقیدہ ومذہب کے تحفظ کا حق اور اس کی ضمانت حاصل ہے۔ اس ضمن میں تعصب یا بعضقانونی مجبوریوں پر مبنی مغرب کے عملی رویے سے قطع نظر کر لیا جائے توانسانی جان و مال اور آبرو کے ساتھ ساتھ مختلف مذہبی گروہوں کے مذہبی جذباتبھی لازمی طور پر ایک قابل احترام اور قابل تحفظ چیز قرار پاتے ہیں۔ یہایک واضح حقیقت ہے کہ راسخ العقیدہ اہل مذہب اپنے مذہبی شعائر ، شخصیات اورجذبات کو جان ومال اور آبرو سے زیادہ محترم سمجھتے ہیں اور ان میں سے کسیبھی چیز کی توہین لازماً مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور نتیجتاً اشتعالانگیزی کا سبب بنتی ہے۔ چنانچہ انسانی ومذہبی حقوق کی اس خلاف ورزی کو’جرم‘ قرار دے کر اس کے سدباب کے لیے سزا مقرر کرنا ہر لحاظ سے جمہوریاصولوں اور تصورات کے مطابق ہے، البتہ ہمارے نزدیک اس ضمن میں حسب ذیل امورملحوظ رہنے چاہییں:

ایک یہ کہ اس جرم کو ہر حال میں سزاے موت کا مستوجب قرار دینے کے بجاے جرمکی نوعیت اور اس کی مختلف صورتوں کے لحاظ سے متبادل سزاؤں کا امکان بھیتسلیم کیا جانا چاہیے اور مختلف فقہی مکاتب فکر نے اس امکان کو تسلیم کیاہے۔ امام موسیٰ کاظم روایت کرتے ہیں کہ مدینہ کے عامل زیاد بن عبید اللہ کےدور میں اس نوعیت کا ایک واقعہ پیش آیا اور اس نے مدینہ کے فقہا سے راےطلب کی تو ربیعۃ الراے اور بیش تر اہل علم کی راے یہ تھی کہ مجرم کی زبانکاٹ دی جائے یا کوئی اور تعزیری سزا دے دی جائے، تاہم امام جعفر صادق نےکہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے مابین فرق ہونا چاہیے۔چنانچہ ان کی راے کے مطابق مجرم کو قتل کر دیا گیا۔ ۱۹؂فقہاے حنابلہ کےہاں ایک قول یہ ہے کہ ایسے مجرم کی حیثیت قیدی کی ہے اور حاکم کو اس کوقتل کرنے، غلام بنا لینے، کسی مسلمان قیدی کے ساتھ اس کا تبادلہ کرنے یاکسی معاوضے کے بغیر رہا کر دینے کے وہ تمام اختیارات حاصل ہیں جو کسی بھیغیر مسلم قیدی کے بارے میں ہوتے ہیں۔ ۲۰؂اسی طرح فقہاے احناف کے نزدیکاس جرم کے مرتکب کو قتل کرنا لازم نہیں اور عام حالات میں کسی کم ترتعزیری سزا پر ہی اکتفا کی جائے گی، البتہ اگر کوئی غیر مسلم اس عمل کو ایکعادت اور معمول کے طور پر اختیار کر لے تو اسے موت کی سزا بھی دی جا سکتیہے۔ ۲۱؂

ہمارے خیال میں فقہاے احناف کی یہ راے کہ توہین رسالت کے مجرم کو اسی صورتمیں سزاے موت دی جائے گی جب وہ عادتاً اور معمولاً اس طرز عمل کو اختیارکر لے، اس پہلو سے خاصا وزن رکھتی ہے کہ شریعت اسلامیہ میں اس جر م کو حقشرع قرار دے کر اس پر سزاے موت کو باقاعدہ اور لازمی طور پر مشروع نہیں کیاگیا۔ سورۂ نساء (۴)کی آیت ۴۶میں اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے یہود کی اسگستاخانہ روش کا ذکر کیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطبکرتے وقت ’راعنا‘ (ہماری رعایت فرمایے) کے لفظ کو اس طرح بگاڑ کر ادا کرتےکہ وہ سب وشتم کا ایک کلمہ بن جاتا۔ اسی طرح وہ آپ کو مخاطب کرکے ’اِسْمَعْغَیْرَ مُسْمَعٍ‘ (سنو، تمھیں سنائی نہ دے) کے بددعائیہ کلمات بھی کہتے۔قرآن مجید نے یہاں ان کی اس روش پر کوئی قانونی سزا تجویز نہیں کی اور عہدرسالت، عہد صحابہ اور اسلامی تاریخ میں بھی اس نوعیت کے واقعات پر صرف نظراور تحمل و برداشت کا حکیمانہ رویہ اختیار کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہکسی وقتی جذباتی کیفیت کے تحت اتفاقی طور پر ارتکاب جرم کرنے والا کوئی شخصاگر اس پر اصرار کے بجاے معذرت کا رویہ اختیار کرے تو اس سے درگذر کرنا یاہلکی سزا دینے پر اکتفا کرنا مناسب ہوگا، البتہ اگر توہین رسالت کا عملسوچے سمجھے منصوبے کے تحت اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کینیت سے دیدہ ودانستہ کیا جائے یا وہ ایک معمول کی صورت اختیار کر لے تو جرماپنی اس نوعیت اور صورت میں بدیہی طور پر ’فساد فی الارض‘ کے دائرے میں آجاتا ہے اور ہماری راے میں اگر جرم کی نوعیت، سنگینی اور اثرات کا پھیلاؤتقاضا کرے تو سادہ قتل سے بڑھ کر تصلیب اور تقتیل، یعنی سولی دینے یا عبرتناک طریقے سے قتل کی سزا دینے کا اختیار بھی عدالت کو حاصل ہونا چاہیے۔

دوسرے یہ کہ توہین رسالت کی سزا کے نفاذ پر بھی وہ تمام قیود وشرائط لاگوہوتے ہیں جن کا اطلاق دوسری شرعی سزاؤں پر ہوتا ہے اور جنھیں اسلام کےضابطۂ حدود وتعزیرات کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ کوئی شخص یا گروہ اپنیانفرادی حیثیت میں توہین رسالت کے مجرم کے لیے سزا کا اعلان کرنے یا اسےسزا دینے کا مجاز نہیں اور دوسرے تمام جرائم کی طرح یہاں بھی جرم کے اثباتاور مجرم کو سزا دینے کے لیےباقاعدہ عدالتی کارروائی ضروری ہوگی۔ اسی طرحکوئی مسلمان عدالت اسلامی ریاست کے قانونی دائرۂ اختیار (Jurisdiction) سےباہر کسی مجرم کو سزا دینے کی مجاز نہیں۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ نبی صلیاللہ علیہ وسلم کے عہد میں اس سزا کے نفاذکے لیے دشمن کے علاقے میںکارروائی کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا، وہ ’’قانون رسالت‘‘ پر مبنی تھاجس کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جزیرۂ عرب میں آباد ہر اس گروہ کےخلاف کارروائی کا اختیار حاصل تھا جو آپ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد بھیکفر وانکار پر قائم رہا اور آپ کے مقابلے میں سرکشی اور عناد کی روش اختیارکی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ نے اپنے دور میں اسلامی ریاست کے حدود سے باہر اسطرح کی کوئی کارروائی کرنے کی کوشش نہیں کی اور کلاسیکی فقہی ذخیرے میںبھی اس سزا کے نفاذ کو بین الاقوامی قانون(International Law) کے بجاےاسلامی ریاست کے داخلی قانون کی ایک شق کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہاگر کوئی مسلم ملک ایسے کسی مجرم پر سزا کا نفاذ چاہتا ہے تو ضروری ہوگا کہمتعلقہ غیر مسلم ملک سے مطالبہ کر کے مجرم کو اپنی تحویل میں لیا جائے اورپھر عدالت میں باقاعدہ مقدمہ چلا کر اسے سزا دی جائے۔ ان حدود وقیود کونظر انداز کرتے ہوئے اختیار کیا جانے والا کوئی بھی طرزعمل نہ صرف حکمت کےخلاف ہوگا، بلکہ اس سے متنوع قانونی اور سیاسی پیچیدگیاں بھی جنم لیں گی۔

تیسرے یہ کہ جب مذہبی جذبات اور شخصیات وشعائر کی توہین بنیادی انسانیحقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے تو اس جرم کے مرتکب کو مستوجب سزاقرار دینے کے حق کو صرف اہل اسلام کے لیے مخصوص قرار دینا مبنی بر انصافنہیں ہوگا، بلکہ مذہبی جذبات کے احترام اور تحفظ کے اس حق سے ریاست کےدوسرے مذہبی گروہوں کو بھی بہرہ مند کرنا ضروری ہوگا اور بالخصوص اگر اہلاسلام کی طرف سے کسی دوسرے مذہب یا اس کی محترم شخصیات کی توہین وتحقیر کارویہ سامنے آئے تو اس کا قانونی سدباب ہر لحاظ سے مذہبی اخلاقیات اور عدلوانصاف کا تقاضا ہوگا۔

یہاں خالص قانونی پہلو سے ہٹ کر اس معاملے کے دو دیگر اہم پہلووں کی طرف توجہ دلا نا بھی مناسب دکھائی دیتا ہے:

ایک یہ کہ دنیا کو اخلاقیات کا درس دینے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے گھرکا جائزہ لے کر بھی یہ دیکھیں کہ دوسرے مذہبی گروہوں کے جذبات کے احترام کےحوالے سے خود ہماری اخلاقی صورت حال کیا ہے۔ افسوس ہے کہ اس ضمن میں کوئیاچھی مثال دینے کے لیے بالعموم ہمیں اپنے ماضی ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتاہے۔ ہماری تاریخ کے دور اول میں مذہبی اخلاقیات کی پاس داری کا یہ منظر بھیدیکھنے کو ملتا ہے کہ فتح اسکندریہ کے موقع پر جب کسی مسلمان سپاہی کےپھینکے ہوئے تیر سے سیدنا مسیح علیہ السلام کے مجسمے کی ایک آنکھ پھوٹ گئیتو اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت عمرو بن العاص نے ’قصاص‘ کے لیے اپنیآنکھ پیش کر دی، ۲۲؂لیکن اب دور زوال میں ایک برادر اسلامی ملک کی حکومتنے خالص سیاسی محرکات کے تحت دنیا کے ایک بڑے مذہب کے بانی گوتم بدھ کےمجسمے تباہ کیے تو اسے بت شکنی کی روایت کا احیا قرار دے کر اس پر دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے گئے۔ خود ہمارے ہاں ایک مذہبی گروہ کے ’’پیغمبر‘‘ کے بارے میں تضحیک، تمسخر اور توہین پر مبنی جو لٹریچر شائع ہوتا اور مذہبیجلسوں میں جو زبان معمول کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، وہ ہماری اخلاقیسطح کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

دوسرے یہ کہ کسی مذہب کی توہین وتضحیک اور اس پر تنقید کے مابین فرق ہرحالمیں ملحوظ رہنا چاہیے اور اسلام یا پیغمبر اسلام پر کی جانے والی کوئیتنقید اگر علمی یا استدلالی پہلو لیے ہوئے ہے تو اسے اسی زاویے سے دیکھناچاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی غیر مسلم قرآن کے چیلنج کے جواب میں اس کےمانند کوئی کلام پیش کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ قرآن کی توہین نہیں، بلکہ اس پر تنقید ہے اور اس پر احتجاج کرنا یا اسے توہین مذہب کے ہم معنی قراردینا ایک بے معنی بات ہے۔ اپنے جیسا کلام پیش کرنے کا چیلنج خود قرآن نے جنوانس کو دے رکھا ہے اور اگر کوئی شخص اس چیلنج کے جواب میں کوئی کاوش کرتاہے یا کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ اس نوعیت کی تنقیدات اور اعتراضات کا راستہ روکنا دوسرے لفظوں میں یہ بات کہنے کےمترادف ہوگا کہ اسلام نہ علم و عقل اور استدلال پر مبنی ہے اور نہ مباحثہ ومجادلہ کے میدان میں تنقید اور اعتراض کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
--------------------

مضمون نگار کے دیگر مضامین: 

--------------------
یہ بھی پڑھیں !

عید میلاد النبی، ایک غلطی کی نشاندہی۔۔۔۔۔!!


سیرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ

غزوہ ٔ احزاب (جنگ خندق)

تعلیماتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نفسیاتی پہلو ـ شفاقت علی شیخ

معراج النبی ﷺ کے بارے میں نظریات ۔ مفتی منیب الرحمن

سیرت کے مصادر و مآخذ

سید ابوالاعلٰی مودودی ؒ کا ایک نادر خطاب (مکہ مکرمہ میں حج کے دوران)

میں اور میرے رسولﷺ

اسلام کے بین الاقوامی سفیر ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ - ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حقوقِ انسانی: سیرتِ نبویؐ کی روشنی میں ۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

منشورانسانیت : نبی اکرم ﷺکا خطبۂ حجۃ الوداع ، مولانا زاہد الراشدی

مولانا مودودی کا تصور حدیث و سنت

توہین رسالت کا مسئلہ

صحابہ کرام کی ہجرت حبشہ کا واقعہ

روضۂ نبویؐ پرسید ابوالاعلی مودودی ؒ 

بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے بدھ مت کے اثرات اور تغیرات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے ایران کے سیاسی اور معاشرتی حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے یہویوں اور عیسائیوں کی باہم منافرت - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے رومی سلطنت کے سیاسی اور معاشرتی حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے ہندوستان کے حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ("")

دین مسیحیت چھٹی صدی عیسوی میں - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ  (1) 

قرآن اور حدیث کا باہمی تعلق اور تدوین حدیث -  مولانا سید سلیمان ندویؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے دنیا کے مذھبی اور سیاسی حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

عہد رسالت میں مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل

رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں - ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی 

محمد عربی کی نبوت - جاوید احمد غامدی 

اور آپ ﷺ ہنس پڑے !! (قسط دوم )