ملحدین کا یہ گمان کہ دنیا سے جلد یا بدیر مذہب مکمل طور پر ختم ہو جائے گا، انسان صرف عقل، سائنس اور تجربے کی بنیاد پر زندگی گزارے گا، اور مذہب ایک ماضی کی فرسودہ یادگار بن کر رہ جائے گا۔ یہ ایک ایسی خام خیالی ہے جو نہ انسانی فطرت کے مطابق ہے، نہ تاریخ کے شواہد سے مطابقت رکھتی ہے۔ مذہب محض چند رسومات یا عقائد کا نام نہیں، بلکہ انسان کی روحانی طلب، اخلاقی بنیاد، اور کائنات کے معنوی فہم سے جڑا ہوا ایک ازلی تقاضا ہے۔ ہر دور میں چاہے جتنی بھی سائنسی ترقی ہوئی ہو، انسان نے کسی نہ کسی شکل میں الوہیت، ماورائے انسان غیب، اور اصل مقصدِ حیات کی تلاش جاری رکھی ہے۔ چنانچہ مذہب کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں، بلکہ اس کی شکلیں بدل سکتی ہیں، مگر اس کی اصل باقی رہے گی۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مذہب کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ضرور رہے ہیں جو روحانیت، عبادت، یا کسی اعلیٰ ہستی پر ایمان رکھتے رہے۔ خواہ وہ ابراہیمی مذاہب (اسلام، عیسائیت، یہودیت) ہوں یا مشرقی مذاہب (ہندومت، بدھ مت وغیرہ)، مذاہب نے ہزاروں سال کی تبدیلیوں، فتوحات، شکستوں، سائنسی انکشافات اور انقلابات کے باوجود اپنی جڑیں برقرار رکھی ہیں۔
بیسویں صدی مکں لا مذہبیت (Atheism) اور سیکولرزم اگرچہ بعض معاشروں میں غالب آئے (مثلاً سویت یونین، چین، یورپ کے کچھ حصے)، مگر سویت یونین میں مذہب پر پابندی کے باوجود اسلام و عیسائیت زندہ رہے اور جیسے ہی ریاستی جبر ختم ہوا، مذہب نے پھر سر اٹھایا۔ مغرب میں سیکولرزم کے باوجود مذہب کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا، بلکہ بعض طبقات میں مذہب یا روحانیت کی نئی صورتیں ابھر رہی ہیں۔