کیا بچاس سال کے بعد دنیا سے مذہبی تصورات کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا ؟

ملحدین کا یہ گمان کہ دنیا سے جلد یا بدیر مذہب مکمل طور پر ختم ہو جائے گا، انسان صرف عقل، سائنس اور تجربے کی بنیاد پر زندگی گزارے گا، اور مذہب ایک ماضی کی فرسودہ یادگار بن کر رہ جائے گا۔ یہ ایک ایسی خام خیالی ہے جو نہ انسانی فطرت کے مطابق ہے، نہ تاریخ کے شواہد سے مطابقت رکھتی ہے۔ مذہب محض چند رسومات یا عقائد کا نام نہیں، بلکہ انسان کی روحانی طلب، اخلاقی بنیاد، اور کائنات کے معنوی فہم سے جڑا ہوا ایک ازلی تقاضا ہے۔ ہر دور میں چاہے جتنی بھی سائنسی ترقی ہوئی ہو، انسان نے کسی نہ کسی شکل میں الوہیت، ماورائے انسان غیب، اور اصل مقصدِ حیات کی تلاش جاری رکھی ہے۔ چنانچہ مذہب کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں، بلکہ اس کی شکلیں بدل سکتی ہیں، مگر اس کی اصل باقی رہے گی۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مذہب کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ضرور رہے ہیں جو روحانیت، عبادت، یا کسی اعلیٰ ہستی پر ایمان رکھتے رہے۔ خواہ وہ ابراہیمی مذاہب (اسلام، عیسائیت، یہودیت) ہوں یا مشرقی مذاہب (ہندومت، بدھ مت وغیرہ)، مذاہب نے ہزاروں سال کی تبدیلیوں، فتوحات، شکستوں، سائنسی انکشافات اور انقلابات کے باوجود اپنی جڑیں برقرار رکھی ہیں۔

بیسویں صدی مکں لا مذہبیت (Atheism) اور سیکولرزم اگرچہ بعض معاشروں میں غالب آئے (مثلاً سویت یونین، چین، یورپ کے کچھ حصے)، مگر سویت یونین میں مذہب پر پابندی کے باوجود اسلام و عیسائیت زندہ رہے اور جیسے ہی ریاستی جبر ختم ہوا، مذہب نے پھر سر اٹھایا۔ مغرب میں سیکولرزم کے باوجود مذہب کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا، بلکہ بعض طبقات میں مذہب یا روحانیت کی نئی صورتیں ابھر رہی ہیں۔

: ایران کے رہبر معظم سید علی حسینی خامنہ ای کی زندگی اور فکر کا ایک جامع تعارف


سید علی حسینی خامنہ ای، 19 اپریل 1939 کو ایران کے مقدس شہر مشہد میں ایک مذہبی اور علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق شیعہ اثنا عشری مکتب فکر سے ہے، اور آپ آج اسلامی جمہوریہ ایران کے سب سے بااثر اور بااختیار رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ وہ 1989 سے اب تک ایران کے "رہبرِ معظم" یا "سپریم لیڈر" کے منصب پر فائز ہیں۔ اس عہدے پر ان کی طویل اور طاقتور موجودگی انہیں مشرقِ وسطیٰ کے چند مستقل اور اہم ترین شخصیات میں شمار کرتی ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم


خامنہ ای کا بچپن ایک مذہبی ماحول میں گزرا۔ ان کے والد، آیت اللہ سید جواد خامنہ ای، مشہد کے معتبر علما میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم قرآن سے ہوئی، اور بعد میں مشہد کے مدارس میں دینی علوم حاصل کیے۔ بعد ازاں وہ کچھ عرصہ کے لیے نجف گئے مگر والد کی خواہش پر مشہد واپس آگئے۔ 1958 میں وہ قم منتقل ہوئے جہاں انہوں نے سید حسین بروجردی اور آیت اللہ روح اللہ خمینی جیسے جید علما سے استفادہ کیا۔

انقلابی سرگرمیاں اور گرفتاریاں


شاہ ایران کے دور حکومت میں خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ اسی وجہ سے وہ چھ مرتبہ گرفتار ہوئے اور تین سال جلاوطنی کاٹی۔ 1979 کے انقلاب کے بعد وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کے اولین معماروں میں شامل ہوئے۔

حجاج کرام نے مدینہ منورہ میں واقع دنیا کے سب سے بڑے کنگ فہد قرآن پرنٹنگ کمپلیکس کا دورہ کیا

 خادم الحرمین الشریفین کی میزبانی میں حج کے لیے آنے والے بین الاقوامی مہمانوں نے مدینہ منورہ میں واقع دنیا کے سب سے بڑے کنگ فہد قرآن پرنٹنگ کمپلیکس کا دورہ کیا، اس موقع پر مہمانوں کو قرآن پاک کی طباعت، ترجمہ، اور عالمی سطح پر اس کی تقسیم کے عمل سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔سعودی پریس ایجنسی کے مطابق، کمپلیکس کے حکام نے مہمانوں کو بتایا کہ قرآن پاک کی طباعت نہایت اعلیٰ معیار پر جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے کی جاتی ہے تاکہ متن میں کوئی غلطی نہ ہو اور ہر نسخہ مکمل معیار کے مطابق ہو۔حکام نے بتایا کہ کمپلیکس میں قرآن پاک کا 76 زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے، جن میں اردو، انگریزی، فرانسیسی، چینی، ہسپانوی اور دیگر عالمی زبانیں شامل ہیں، ساتھ ہی ساتھ، اس کمپلیکس نے مسلمانوں کے لیے جدید ایپلیکیشنز بھی تیار کی ہیں جن کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمان قرآن پاک کو پڑھ اور خاص طور پر اسمارٹ فونز پر سن سکتے ہیں۔


اس دورے کے دوران مہمانوں کو بتایا گیا کہ کمپلیکس نہ صرف قرآن کی اشاعت اور ترجمے کا کام کرتا ہے بلکہ عالمی سطح پر قرآن کے نسخوں کی مفت فراہمی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔دورے کے اختتام پر، کمپلیکس کے اعلیٰ عہدیداروں نے خادم الحرمین الشریفین پروگرام کے مہمانوں کو قرآن پاک کے نسخے تحفتاً پیش کیے، جنہیں مہمانوں نے بڑی خوشی اور عقیدت کے ساتھ قبول کیا۔

خادم الحرمین الشریفین کا یہ پروگرام ہر سال دنیا بھر سے منتخب مسلمانوں کو فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مدعو کرتا ہے اور اس طرح کے علمی اور روحانی دورے مہمانوں کے لیے ایک یادگار تجربہ بن جاتے ہیں۔

کاش! میں یارو فلسطین کا باسی ہوتا



 کاش میں یارو فلسطین کا باسی ہوتا..."
🇵🇸❤️
کیا ہی خوبصورت نظم ہے!
دل کی گہرائیوں سے نکلا ہر لفظ، عشقِ فلسطین میں ڈوبا ہوا ، یہ صرف ایک خواہش نہیں، یہ ایک عہد ہے، ایک درد ہے، ایک محبت ہے جو ہر صاحبِ دل کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ اللہ فلسطین کو آزادی عطا فرمائے!

"کاش میں یارو فلسطین کا باسی ہوتا
ورنہ اس شہر مقدس کی میں مٹی ہوتا
یا تو میں مسجد اقصیٰ کا مینارہ ہوتا
یا میں اس پیاری سی مسجد کی میں جالی ہوتا
یا تو میں قبلہ اول کا احاطہ ہوتا
یا میں اس میں بنی ایک اٹاری ہوتا
یا میں فلسطین میں گرتی ہوئی بارش ہوتا
یا اسی شہر کے دریا کا میں پانی ہوتا
یا تو میں روضہ اقدس کا میں محافظ ہوتا
یا فلسطین کی سرحد کا میں غازی ہوتا"

مدرسہ مستنصریہ : اسلامی تاریخ کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جہاں تمام سنی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کی تعلیم دی جاتی تھی۔

تاریخِ اسلام کا زریں باب جب بغداد کی گلیوں میں سانس لیتا تھا، تو اُس کے علمی و فکری ارتقاء کی سب سے عظیم علامت "مدرسہ مستنصریہ" کی صورت میں ظاہر ہوا۔ عباسی خلیفہ المستنصر باللہ کے دور میں 625ھ / 1227ء میں اس عظیم علمی ادارے کی بنیاد رکھی گئی، جو 631ھ / 1234ء میں مکمل ہوا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ اسلامی دنیا کا وہ پہلا ادارہ تھا جہاں تمام سنی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کی تعلیم ایک ہی جگہ پر دی جاتی تھی۔
مدرسہ مستنصریہ 

اس مدرسہ نے نہ صرف فقہی علوم کو پروان چڑھایا بلکہ طب، فلسفہ، منطق، ریاضی، فلکیات، ادب، اور لغت جیسے علوم کی بھی سرپرستی کی۔ مستنصریہ میں ایک ایسا کتب خانہ قائم ہوا، جس کی بنیاد خلیفہ نے خود رکھی اور ابتدا میں 80 ہزار کتب فراہم کیں۔ بعد ازاں، یہ ذخیرہ چار لاکھ کتب تک جا پہنچا، جو اسلامی تہذیب کی علمی شان کا مظہر تھا۔

یہی وہ ادارہ تھا جس نے نظام الملک طوسی کے مدرسہ نظامیہ کو علمی اعتبار سے پیچھے چھوڑ دیا۔ 248 فقہاء اور 300 یتیم بچوں کی تعلیم و کفالت اس ادارے میں کی جاتی تھی۔ یہاں گھڑیال بھی نصب کیا گیا تھا جو صلوٰۃ کے اوقات اور دن و رات کے گھنٹے بتانے والا ایک حیرت انگیز آلہ تھا۔


 سقوط بغداد اور مستنصریہ کی بقا


1258ء میں جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا اور عباسی خلافت کو نیست و نابود کر دیا، تو بیشتر تعلیمی و ثقافتی ادارے صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ مگر مستنصریہ کا مدرسہ ایک معجزاتی انداز میں اس تباہی سے محفوظ رہا۔ گویا یہ عمارت علم کے تحفظ کی علامت بن کر کھڑی رہی۔ بعد ازاں 795ھ / 1393ء میں اس کا الحاق مدرسہ نظامیہ سے کر دیا گیا جس کے باعث اس کے نادر کتب کا ذخیرہ منتشر ہو گیا اور علم کا وہ سرمایہ جو صدیوں میں جمع ہوا تھا، رفتہ رفتہ گم ہو گیا۔

ریاست پاکستان کے لیے قانون سازی کا چیلنج

پاکستان کی بنیاد ایک ایسی نظریاتی اساس پر رکھی گئی تھی جسے دو قومی نظریہ کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، برصغیر میں مسلمان ایک الگ قوم ہیں جن کا مذہب، ثقافت، تاریخ، اور معاشرت ہندوؤں سے جداگانہ ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا، جس کا مطلب تھا کہ نئی ریاست میں اکثریتی مذہب — یعنی اسلام — کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔

پاکستان کو آئینی لحاظ سے ایک قومی ریاست تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس قومی ریاست میں قوم کی اکثریت مسلمان ہے، لہٰذا یہاں اسلام ایک قومی مذہب کے طور پر نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ ریاستی ڈھانچے، قانون سازی، اور پالیسی سازی میں اس کا اثر بھی نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ آئینِ پاکستان کے مطابق بھی کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ اصول بظاہر سادہ ہے لیکن عملاً نہایت پیچیدہ اور نازک ہے ۔

قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا سوال یہ ابھرا کہ "اسلامی قانون" سے مراد کیا ہے؟ کون سا اسلامی فقہی مکتبہ فکر ریاستی قانون سازی کی بنیاد بنے گا؟ پاکستان میں فقہ حنفیہ کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، لیکن دیگر فقہی مکاتب بھی موجود ہیں، جیسے فقہ جعفریہ، شافعی، اہل حدیث وغیرہ۔ یہی نہیں، جدید دور میں کچھ علماء مثلاً مولانا امین احسن اصلاحی،جاوید احمد غامدی، اور دیگر اسکالرز ایسے بھی ہیں جن کی آراء کسی مخصوص فقہی دبستان سے بالاتر ہو کر اجتہاد کے اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اسی طرح مفتی تقی عثمانی صاحب جیسے علماء بھی بعض معاملات میں کلاسیکی فقہ سے ہٹ کر عصری اجتہاد کی راہیں دکھاتے ہیں۔

پتھروں کے بیچ ایک گلاب "بادشاہ خان"

خان عبد الغفار خان 
شمال کی خشک پہاڑیوں میں، جہاں صدیوں سے تلوار ہی انصاف کی زبان سمجھی جاتی تھی، ایک مختلف انسان نے جنم لیا — بلند قامت، نرم گفتار اور فولادی ارادے والا۔ اس کا نام عبدالغفار خان تھا، مگر لوگ اُسے محبت سے "بادشاہ خان" کہتے تھے۔ کچھ نے اُسے "فرنٹیئر گاندھی" بھی پکارا — کیونکہ وہ پٹھانوں کے بیچ عدم تشدد کا چراغ جلانے والا پہلا مردِ مجاہد تھا۔

بچپن سے ہی وہ پٹھانوں کی جہالت، انتقام اور خونریزی سے دکھی تھا۔ اُس نے سوچا: کیا میری قوم صرف لڑنے کے لیے پیدا ہوئی ہے؟ تبھی اُس نے تعلیم اور خدمت کا راستہ چنا۔ جب انگریز حکمرانوں نے بندوق سے حکومت قائم کر رکھی تھی، تب بادشاہ خان نے ہاتھ میں قرآن اور دل میں عدم تشدد کا پیغام لے کر ایک تحریک چلائی — خدائی خدمت گار۔

وہ قید و بند کی صعوبتوں سے نہ گھبرایا، حتیٰ کہ 27 سال جیل کی کال کوٹھریوں میں گزار دیے، مگر اپنے اصول نہ چھوڑے۔ وہ کہتے تھے: "عدم تشدد کمزوروں کا ہتھیار نہیں، یہ بہادروں کا راستہ ہے۔"

اے ٹی ایم اظہرالاسلام: ایک سیاسی و نظریاتی جدوجہد کا تسلسل

اے ٹی ایم اظہرالاسلام جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کے سینئر اور نظریاتی قائدین میں سے ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے جماعت کے تنظیمی اور فکری دھارے سے وابستہ ہیں اور اسلامی طلبہ سنگھا (جماعت اسلامی کی طلبہ شاخ) سے اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا۔ بعد ازاں جماعت اسلامی رنگپور ڈویژن کے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
مرکزی سطح پر قائم مقام سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، جہاں وہ پالیسی سازی، سیاسی لائحہ عمل، اور عوامی روابط کے ذمہ دار تھے۔

اظہرالاسلام کا شمار اُن رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلامی فکر کو ریاستی نظام میں نافذ کرنے کے تصور کو اپنی سیاست کی بنیاد بنایا۔ ان کی تقریریں، تحریریں اور بیانات اسلامی حاکمیت، معاشی انصاف، اور اقلیتوں کے ساتھ رواداری پر زور دیتے رہے ہیں۔

2012 میں بنگلہ دیش کی حکومت نے 1971 کی جنگ کے بعد قائم کردہ بین الاقوامی جرائم ٹربیونل کے تحت ان کو گرفتار کیا۔
2014 میں انہیں سزائے موت سنائی گئی، جسے سیاسی انتقام کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔

جماعت اسلامی اور دیگر حلقوں نے اسے "مظلومیت اور عدالتی قتل کی کوشش" قرار دیا، کیونکہ مقدمے کی شفافیت پر عالمی اداروں نے بھی سوالات اٹھائے۔

27 مئی 2025 کو سپریم کورٹ نے ان تمام الزامات کو شواہد کی عدم موجودگی کی بنیاد پر رد کر دیا۔
اگلے ہی روز 28 مئی 2025 کو انہیں جیل سے باعزت رہائی ملی۔ 

ان کی رہائی کو جماعت اسلامی نے حق کی فتح اور "ظلم کے خلاف صبر و استقامت کی کامیابی" سے تعبیر کیا ۔
اظہرالاسلام کی رہائی جماعتِ اسلامی کے لیے ایک نیا حوصلہ ہے۔ اب توقع کی جا رہی ہے کہ وہ:
عوامی رابطہ مہم کو تیز کریں گے۔
نوجوانوں کو نظریاتی و دینی شعور کے ساتھ سیاسی تربیت دیں گے۔
بین الاقوامی سطح پر بنگلہ دیش میں ہونے والے مظالم کو اجاگر کرنے میں کردار ادا کریں گے۔

اے ٹی ایم اظہرالاسلام صرف ایک فرد نہیں، بلکہ وہ مظلوم نظریاتی کارکن کی علامت ہیں، جنہوں نے ظلم کی کوٹھری میں بھی صداقت کا پرچم بلند رکھا۔ ان کی رہائی ان تمام نظریاتی جدوجہد کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزا ہے جو اللہ کی سرزمین پر اللہ کا نظام قائم کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔

جب دل نے سوال کیا: "میں کون ہوں؟"

 جب دل نے سوال کیا: "میں کون ہوں؟"

تو آسمان کی وسعتوں سے آواز آئی: "تو وہ ہے جو رب کو پہچاننے کے لیے پیدا کیا گیا۔"
جب روح نے سرگوشی کی: "میں کہاں سے آئی ہوں اور کہاں جا رہی ہوں؟"
تو صدائے ازل نے جواب دیا: "تو اس راستے کی مسافر ہے جس کا سنگ میل ایمان ہے، اور زادِ سفر عمل۔"
انسان ازل سے ہی روشنی کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے — وہ روشنی جو صرف آنکھوں سے نہیں، دل سے دیکھی جاتی ہے۔ وہ جو لفظوں میں نہیں، احساس میں سماتی ہے۔ وہ جو دلیل سے نہیں، یقین سے جگمگاتی ہے۔ یہی روشنی ایمان ہے۔ اور یہی روشنی جب عمل سے جڑتی ہے، تو ایک ایسا سفر شروع ہوتا ہے جو بندگی کی پہچان بن جاتا ہے۔

یہ روشنی (نور) کہاں سے آئے گا؟
کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم اتنے بے سکون، بے چین کیوں ہیں؟ ہمارے دل کیوں تاریک ہیں؟ گھروں میں روشنی ہے، گلیوں میں بلب جگمگا رہے ہیں، موبائل کی اسکرینیں چمک رہی ہیں، لیکن پھر بھی زندگی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
اس کا ایک ہی جواب ہے: ہم نے اصل "نور" کو چھوڑ دیا ہے۔

سب سے خطرناک خاموشی۔۔۔۔۔!

یونیورسٹی کی شام تھی۔
بوسٹن کی ہوا میں خزاں کا پہلا لمس محسوس ہو رہا تھا۔ کیمپس کے درخت پیلے اور نارنجی پتوں سے لَدی شاخوں کے ساتھ کھڑے تھے، جیسے وہ بھی کسی آفت کا انتظار کر رہے ہوں۔ ایلَن جیمز نے لائبریری کے باہر بنچ پر بیٹھے بیٹھے اپنا موبائل فون کھولا، اور سکرولنگ شروع کر دی — ایک عادت، جو بےفکری کا لبادہ اوڑھے رکھتی ہے۔

لیکن آج کی اسکرین پر کچھ اور تھا۔

ایک تصویر۔
ایک بچہ — مٹی میں لت پت، خون آلود، اور اُس کی آنکھیں... بند۔
نیچے لکھا تھا: "غزہ — گزشتہ رات کے حملے میں یہ پانچ سالہ یوسف اپنی ماں کی گود میں شہید ہو گیا۔"

ایلن کی انگلیاں رک گئیں۔ دل میں ایک انجانی گھبراہٹ سی محسوس ہوئی، جیسے کسی نے اُس کے اندر ایک بند کمرے کا دروازہ کھولا ہو جہاں برسوں سے دھول جمی ہو۔ اس نے فوراً فون بند کر دیا، لیکن وہ چہرہ... اُس کی آنکھوں میں رہ گیا۔

اُسی رات یونیورسٹی کی کینٹین میں فلسطینی طلبہ کی جانب سے ایک تعزیتی و احتجاجی تقریب ہو رہی تھی۔
ایلن وہاں جا پہنچا — نہ کسی دعوت پر، نہ کسی ہمدردی کے دعوے کے ساتھ، بلکہ ایک بےچین سوال کے ساتھ:
"یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ اور ہم خاموش کیوں ہیں؟"

تقریب میں ایک طالبہ بول رہی تھی — اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن آواز میں لوہے کی سی سختی:
"ہم صرف یہ نہیں چاہتے کہ آپ فلسطین کے لیے بولیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے ضمیر کے لیے جاگیں!"

یہ جملہ، ایلَن کے دل کے پردے پر کیل کی طرح لگا۔
اسے یاد آیا — اُس کے فلسفے کے پروفیسر نے ایک بار کہا تھا:
"The most dangerous silence is the silence of those who know the truth."
(سب سے خطرناک خاموشی اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو سچ جانتے ہیں۔)

اُس رات وہ دیر تک سڑکوں پر چہل قدمی کرتا رہا۔
آسمان پر بادل چھائے تھے، اور نیچے زمین پر — اُس کے دل میں بھی۔