اسلامی تاریخ کیا ہے ؟

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا:
"الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا"
ترجمہ: "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔(المائدہ 3)
جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے ذریعے دین اسلام اپنی مکمل اور آخری صورت میں انسانیت کے لیے پیش کر دیا گیا، اور اب اس میں کسی قسم کا اضافہ یا کمی ممکن نہیں۔ بعد کے ادوار میں صحابہ کرام، تابعین، ائمہ مجتہدین اور محدثین کی جد وجہد سے جو کچھ دین کے بارے میں تحریری شکل میں مرتب ہوا ، اس سے نہ دین میں کو ئی اضافہ ہوا ہے اور نہ کمی ہوئی ہے بلکہ وہ سب کچھ اسی مکمل دین کی تشریح، تفہیم اور حفاظت کا عمل تھا۔ ان کی تمام علمی کاوشیں قرآن و سنت کی بنیاد پر تھیں، اور اگر دین کی کسی بات میں ان کے درمیان اختلاف ہوا ہے تو اس سے اصل دین پر کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ وہ اختلاف دین کا حصہ بن سکتا ہے ۔ یوں دین اپنی اصل میں محفوظ، مکمل اور اٹل ہے، اور بعد کی علمی روایت اسی کی شرح و توضیح ہے۔

نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد مسلمانوں کی سیاسی، تمدنی اور علمی سرگرمیوں کو عمومی طور پر "تاریخ اسلام" کہا جاتا ہے، حالانکہ درحقیقت یہ تاریخ اسلام نہیں بلکہ "تاریخِ مسلمین" یا "مسلم تہذیب و تمدن کی تاریخ" ہے۔ خلفائے راشدین، بنو امیہ، بنو عباس، عثمانی، مغل اور دیگر مسلمانوں کے سلاطین کی حکومتیں اسلام کی تعلیمات کے اثر سے وجود میں آئیں، مگر ان کا ہر عمل اور ہر پالیسی عین اسلام ہونا لازمی نہیں۔ خاص کر خلفائے راشین کے بعد کے ادوار میں سیاسی مفادات، نسلی تعصبات، اقتدار کی کشمکش اور علمی و فکری انحرافات بھی شامل تھے، جنہیں براہِ راست اسلام کی تاریخ کہنا ایک علمی مغالطہ ہے۔ افسوس کہ انیسویں وبیسویں صدی کے بیشتر مؤرخین نے ان سلاطین کی تاریخ کو ہی "تاریخ اسلام" قرار دے کر اصل دین کی روح اور سیرتِ نبوی ﷺ کی راہنمائی سے لوگوں کو غافل کر دیا۔

امام حسین علیہ السلام: کلامِ اقبالؒ کی روشنی میں ۔ علی وقار قادری

علامہ محمد اقبالؒ کی فکر کی اساس تحرک،تغیر،تسلسل اور ارتقاء ہے اور وہ بھی اس طور پر کہ انسان کائناتی مقصود و مدعا میں معاون ہو جائے اور یوں وہ لافانی ہوجائے۔ کوئی بھی ایسی قدر جو آفاقی ہے (جیسا کہ حق کا سا تھ دینا ،باطل کا رد،مظلوم کی مدد،ظالم کے خلاف قیام، بنیادی معاشی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کی فراہمی) اس کے احیاء کی جدوجہد صحیح معنوں میں کائناتی مقصود کی تائید و نصرت ہے۔ یہ تمام عناصر مل کر اسلام کی ہیتِ اجتماعیہ کے قیام کو عمل میں لاتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اسلامی زندگی کا مقصود اسی ہیتِ اجتماعیہ کا قیام ہے نہ کہ کسی کونے میں بیٹھ کر عضوِ معطل بن کر محض عبادت کرنا۔اس عمل کو اقبالؒ گوسفندی کہتے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام : کلام اقبال ؒ کی روشنی میں 

امام حسینؑ کی فکر،عمل ،جدوجہدمیں مذکورہ حیات بخش عناصر کثر ت سے پائے جاتے ہیں اور اقبالؒ کی نظر میں امام حسین علیہ السلام کی ساری جدوجہد انہی آفاقی اقدار کی احیاء کے لیے تھی جو بدترین ملوکیت نے زمین بوس کر دی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کلامِ اقبال میں ذکرِ اما م حسین علیہ السلام کثرت سے ملتا ہے۔

اقبالؒ کے نزدیک اما حسین علیہ السلام کی کئی حیثیتیں ہیں:

وہ امامِ حسین علیہ السلام کو کبھی امامِ عشق کہتے ہیں، کیونکہ جو کام امامِ حسین علیہ السلام نے کیا یہ اہلِ عقل کا نہیں ہو سکتا بلکہ اہلِ عشق کا ہی ہو سکتا ہے۔
کبھی وارثِ علوم قرآن کہتے ہیں۔
کبھی حق و باطل کے لیے ابدی معیار قرار دیتے ہیں۔
کبھی انسانیت کو فقرِ حسینی علیہ السلام اپنانے کا درس دیتے ہیں۔
کبھی رسمِ شبیری کی ادائیگی کو رازِ حیات گردانتے ہیں۔
کبھی حسین علیہ السلام کو امت کی وحدت کا نمائندہ قرارد یتے ہیں۔
کبھی حیاتِ حسین علیہ السلام کو اسوۂ کامل قرار دیتے ہیں۔
کبھی حسین علیہ السلام کو خلافتِ راشدہ کی قدروں کا محافظ کہتے ہیں۔

سانحۂ کربلا، مذہبی شعور اور سوشل میڈیا کی فکری دنیا: ایک تجزیاتی مطالعہ

محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر مذہبی، فکری اور ثقافتی مباحث کا طوفان سا برپا ہو جاتا ہے۔ سانحۂ کربلا جیسا عظیم اور اندوہناک واقعہ، جو تاریخ انسانیت میں ظلم و حق کے ٹکراؤ کی ایک دائمی علامت بن چکا ہے، ہر سال محرم میں نئی جہات سے زیرِ بحث آتا ہے۔ تاہم گزشتہ چند سالوں میں ایک نیا مظہر سامنے آیا ہے: اس سانحہ پر عوام سے زیادہ دانشوروں، فکری حلقوں اور مذہبی علما کے درمیان فکری اور بعض اوقات جارحانہ مجادلوں کا بڑھتا ہوا رجحان۔ یہ امر قابلِ توجہ ہے اور اس کا تجزیہ محض جذباتی نہیں، بلکہ فکری و فلسفیانہ سطح پر کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

پہلا حلقہ : دینی علوم میں مہارت رکھنے والے اہل علم

میرے مشاہدے کے مطابق محرم کے عشرے میں سوشل میڈیا پر سب سے نمایاں فکری معرکہ شیعہ اور سنی مکاتب فکر کے اہل علم کے مابین ہوتا ہے۔ دونوں اطراف کے علما اور محققین اپنے اپنے نقطۂ نظر کے اثبات اور دوسرے کے رد میں بھرپور استدلالی اور تاریخی مواد پیش کرتے ہیں۔ بسا اوقات یہ علمی سطح پر گراں قدر ہوتا ہے، لیکن اکثر یہ مباحث جلدی جذباتی اور فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔

اس تناظر میں یہ سوال اہم ہے کہ آیا یہ مباحثہ ایک تعمیری مکالمے کی صورت رکھتا ہے یا محض فکری بالادستی اور جذباتی فتح کا میدان ہے؟ اس کا جواب پیچیدہ ہے، مگر یہ طے ہے کہ جب تک علمی اختلاف، اخلاقی آداب اور بین المذاہب احترام کے دائرے میں نہیں آتا، وہ مزید افتراق کو جنم دیتا ہے۔

کیا بچاس سال کے بعد دنیا سے مذہبی تصورات کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا ؟

ملحدین کا یہ گمان کہ دنیا سے جلد یا بدیر مذہب مکمل طور پر ختم ہو جائے گا، انسان صرف عقل، سائنس اور تجربے کی بنیاد پر زندگی گزارے گا، اور مذہب ایک ماضی کی فرسودہ یادگار بن کر رہ جائے گا۔ یہ ایک ایسی خام خیالی ہے جو نہ انسانی فطرت کے مطابق ہے، نہ تاریخ کے شواہد سے مطابقت رکھتی ہے۔ مذہب محض چند رسومات یا عقائد کا نام نہیں، بلکہ انسان کی روحانی طلب، اخلاقی بنیاد، اور کائنات کے معنوی فہم سے جڑا ہوا ایک ازلی تقاضا ہے۔ ہر دور میں چاہے جتنی بھی سائنسی ترقی ہوئی ہو، انسان نے کسی نہ کسی شکل میں الوہیت، ماورائے انسان غیب، اور اصل مقصدِ حیات کی تلاش جاری رکھی ہے۔ چنانچہ مذہب کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں، بلکہ اس کی شکلیں بدل سکتی ہیں، مگر اس کی اصل باقی رہے گی۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مذہب کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ضرور رہے ہیں جو روحانیت، عبادت، یا کسی اعلیٰ ہستی پر ایمان رکھتے رہے۔ خواہ وہ ابراہیمی مذاہب (اسلام، عیسائیت، یہودیت) ہوں یا مشرقی مذاہب (ہندومت، بدھ مت وغیرہ)، مذاہب نے ہزاروں سال کی تبدیلیوں، فتوحات، شکستوں، سائنسی انکشافات اور انقلابات کے باوجود اپنی جڑیں برقرار رکھی ہیں۔

بیسویں صدی مکں لا مذہبیت (Atheism) اور سیکولرزم اگرچہ بعض معاشروں میں غالب آئے (مثلاً سویت یونین، چین، یورپ کے کچھ حصے)، مگر سویت یونین میں مذہب پر پابندی کے باوجود اسلام و عیسائیت زندہ رہے اور جیسے ہی ریاستی جبر ختم ہوا، مذہب نے پھر سر اٹھایا۔ مغرب میں سیکولرزم کے باوجود مذہب کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا، بلکہ بعض طبقات میں مذہب یا روحانیت کی نئی صورتیں ابھر رہی ہیں۔

: ایران کے رہبر معظم سید علی حسینی خامنہ ای کی زندگی اور فکر کا ایک جامع تعارف


سید علی حسینی خامنہ ای، 19 اپریل 1939 کو ایران کے مقدس شہر مشہد میں ایک مذہبی اور علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق شیعہ اثنا عشری مکتب فکر سے ہے، اور آپ آج اسلامی جمہوریہ ایران کے سب سے بااثر اور بااختیار رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ وہ 1989 سے اب تک ایران کے "رہبرِ معظم" یا "سپریم لیڈر" کے منصب پر فائز ہیں۔ اس عہدے پر ان کی طویل اور طاقتور موجودگی انہیں مشرقِ وسطیٰ کے چند مستقل اور اہم ترین شخصیات میں شمار کرتی ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم


خامنہ ای کا بچپن ایک مذہبی ماحول میں گزرا۔ ان کے والد، آیت اللہ سید جواد خامنہ ای، مشہد کے معتبر علما میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم قرآن سے ہوئی، اور بعد میں مشہد کے مدارس میں دینی علوم حاصل کیے۔ بعد ازاں وہ کچھ عرصہ کے لیے نجف گئے مگر والد کی خواہش پر مشہد واپس آگئے۔ 1958 میں وہ قم منتقل ہوئے جہاں انہوں نے سید حسین بروجردی اور آیت اللہ روح اللہ خمینی جیسے جید علما سے استفادہ کیا۔

انقلابی سرگرمیاں اور گرفتاریاں


شاہ ایران کے دور حکومت میں خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ اسی وجہ سے وہ چھ مرتبہ گرفتار ہوئے اور تین سال جلاوطنی کاٹی۔ 1979 کے انقلاب کے بعد وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کے اولین معماروں میں شامل ہوئے۔

حجاج کرام نے مدینہ منورہ میں واقع دنیا کے سب سے بڑے کنگ فہد قرآن پرنٹنگ کمپلیکس کا دورہ کیا

 خادم الحرمین الشریفین کی میزبانی میں حج کے لیے آنے والے بین الاقوامی مہمانوں نے مدینہ منورہ میں واقع دنیا کے سب سے بڑے کنگ فہد قرآن پرنٹنگ کمپلیکس کا دورہ کیا، اس موقع پر مہمانوں کو قرآن پاک کی طباعت، ترجمہ، اور عالمی سطح پر اس کی تقسیم کے عمل سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔سعودی پریس ایجنسی کے مطابق، کمپلیکس کے حکام نے مہمانوں کو بتایا کہ قرآن پاک کی طباعت نہایت اعلیٰ معیار پر جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے کی جاتی ہے تاکہ متن میں کوئی غلطی نہ ہو اور ہر نسخہ مکمل معیار کے مطابق ہو۔حکام نے بتایا کہ کمپلیکس میں قرآن پاک کا 76 زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے، جن میں اردو، انگریزی، فرانسیسی، چینی، ہسپانوی اور دیگر عالمی زبانیں شامل ہیں، ساتھ ہی ساتھ، اس کمپلیکس نے مسلمانوں کے لیے جدید ایپلیکیشنز بھی تیار کی ہیں جن کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمان قرآن پاک کو پڑھ اور خاص طور پر اسمارٹ فونز پر سن سکتے ہیں۔


اس دورے کے دوران مہمانوں کو بتایا گیا کہ کمپلیکس نہ صرف قرآن کی اشاعت اور ترجمے کا کام کرتا ہے بلکہ عالمی سطح پر قرآن کے نسخوں کی مفت فراہمی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔دورے کے اختتام پر، کمپلیکس کے اعلیٰ عہدیداروں نے خادم الحرمین الشریفین پروگرام کے مہمانوں کو قرآن پاک کے نسخے تحفتاً پیش کیے، جنہیں مہمانوں نے بڑی خوشی اور عقیدت کے ساتھ قبول کیا۔

خادم الحرمین الشریفین کا یہ پروگرام ہر سال دنیا بھر سے منتخب مسلمانوں کو فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مدعو کرتا ہے اور اس طرح کے علمی اور روحانی دورے مہمانوں کے لیے ایک یادگار تجربہ بن جاتے ہیں۔

کاش! میں یارو فلسطین کا باسی ہوتا



 کاش میں یارو فلسطین کا باسی ہوتا..."
🇵🇸❤️
کیا ہی خوبصورت نظم ہے!
دل کی گہرائیوں سے نکلا ہر لفظ، عشقِ فلسطین میں ڈوبا ہوا ، یہ صرف ایک خواہش نہیں، یہ ایک عہد ہے، ایک درد ہے، ایک محبت ہے جو ہر صاحبِ دل کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ اللہ فلسطین کو آزادی عطا فرمائے!

"کاش میں یارو فلسطین کا باسی ہوتا
ورنہ اس شہر مقدس کی میں مٹی ہوتا
یا تو میں مسجد اقصیٰ کا مینارہ ہوتا
یا میں اس پیاری سی مسجد کی میں جالی ہوتا
یا تو میں قبلہ اول کا احاطہ ہوتا
یا میں اس میں بنی ایک اٹاری ہوتا
یا میں فلسطین میں گرتی ہوئی بارش ہوتا
یا اسی شہر کے دریا کا میں پانی ہوتا
یا تو میں روضہ اقدس کا میں محافظ ہوتا
یا فلسطین کی سرحد کا میں غازی ہوتا"

مدرسہ مستنصریہ : اسلامی تاریخ کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جہاں تمام سنی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کی تعلیم دی جاتی تھی۔

تاریخِ اسلام کا زریں باب جب بغداد کی گلیوں میں سانس لیتا تھا، تو اُس کے علمی و فکری ارتقاء کی سب سے عظیم علامت "مدرسہ مستنصریہ" کی صورت میں ظاہر ہوا۔ عباسی خلیفہ المستنصر باللہ کے دور میں 625ھ / 1227ء میں اس عظیم علمی ادارے کی بنیاد رکھی گئی، جو 631ھ / 1234ء میں مکمل ہوا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ اسلامی دنیا کا وہ پہلا ادارہ تھا جہاں تمام سنی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کی تعلیم ایک ہی جگہ پر دی جاتی تھی۔
مدرسہ مستنصریہ 

اس مدرسہ نے نہ صرف فقہی علوم کو پروان چڑھایا بلکہ طب، فلسفہ، منطق، ریاضی، فلکیات، ادب، اور لغت جیسے علوم کی بھی سرپرستی کی۔ مستنصریہ میں ایک ایسا کتب خانہ قائم ہوا، جس کی بنیاد خلیفہ نے خود رکھی اور ابتدا میں 80 ہزار کتب فراہم کیں۔ بعد ازاں، یہ ذخیرہ چار لاکھ کتب تک جا پہنچا، جو اسلامی تہذیب کی علمی شان کا مظہر تھا۔

یہی وہ ادارہ تھا جس نے نظام الملک طوسی کے مدرسہ نظامیہ کو علمی اعتبار سے پیچھے چھوڑ دیا۔ 248 فقہاء اور 300 یتیم بچوں کی تعلیم و کفالت اس ادارے میں کی جاتی تھی۔ یہاں گھڑیال بھی نصب کیا گیا تھا جو صلوٰۃ کے اوقات اور دن و رات کے گھنٹے بتانے والا ایک حیرت انگیز آلہ تھا۔


 سقوط بغداد اور مستنصریہ کی بقا


1258ء میں جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا اور عباسی خلافت کو نیست و نابود کر دیا، تو بیشتر تعلیمی و ثقافتی ادارے صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ مگر مستنصریہ کا مدرسہ ایک معجزاتی انداز میں اس تباہی سے محفوظ رہا۔ گویا یہ عمارت علم کے تحفظ کی علامت بن کر کھڑی رہی۔ بعد ازاں 795ھ / 1393ء میں اس کا الحاق مدرسہ نظامیہ سے کر دیا گیا جس کے باعث اس کے نادر کتب کا ذخیرہ منتشر ہو گیا اور علم کا وہ سرمایہ جو صدیوں میں جمع ہوا تھا، رفتہ رفتہ گم ہو گیا۔

ریاست پاکستان کے لیے قانون سازی کا چیلنج

پاکستان کی بنیاد ایک ایسی نظریاتی اساس پر رکھی گئی تھی جسے دو قومی نظریہ کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، برصغیر میں مسلمان ایک الگ قوم ہیں جن کا مذہب، ثقافت، تاریخ، اور معاشرت ہندوؤں سے جداگانہ ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا، جس کا مطلب تھا کہ نئی ریاست میں اکثریتی مذہب — یعنی اسلام — کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔

پاکستان کو آئینی لحاظ سے ایک قومی ریاست تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس قومی ریاست میں قوم کی اکثریت مسلمان ہے، لہٰذا یہاں اسلام ایک قومی مذہب کے طور پر نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ ریاستی ڈھانچے، قانون سازی، اور پالیسی سازی میں اس کا اثر بھی نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ آئینِ پاکستان کے مطابق بھی کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ اصول بظاہر سادہ ہے لیکن عملاً نہایت پیچیدہ اور نازک ہے ۔

قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا سوال یہ ابھرا کہ "اسلامی قانون" سے مراد کیا ہے؟ کون سا اسلامی فقہی مکتبہ فکر ریاستی قانون سازی کی بنیاد بنے گا؟ پاکستان میں فقہ حنفیہ کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، لیکن دیگر فقہی مکاتب بھی موجود ہیں، جیسے فقہ جعفریہ، شافعی، اہل حدیث وغیرہ۔ یہی نہیں، جدید دور میں کچھ علماء مثلاً مولانا امین احسن اصلاحی،جاوید احمد غامدی، اور دیگر اسکالرز ایسے بھی ہیں جن کی آراء کسی مخصوص فقہی دبستان سے بالاتر ہو کر اجتہاد کے اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اسی طرح مفتی تقی عثمانی صاحب جیسے علماء بھی بعض معاملات میں کلاسیکی فقہ سے ہٹ کر عصری اجتہاد کی راہیں دکھاتے ہیں۔

پتھروں کے بیچ ایک گلاب "بادشاہ خان"

خان عبد الغفار خان 
شمال کی خشک پہاڑیوں میں، جہاں صدیوں سے تلوار ہی انصاف کی زبان سمجھی جاتی تھی، ایک مختلف انسان نے جنم لیا — بلند قامت، نرم گفتار اور فولادی ارادے والا۔ اس کا نام عبدالغفار خان تھا، مگر لوگ اُسے محبت سے "بادشاہ خان" کہتے تھے۔ کچھ نے اُسے "فرنٹیئر گاندھی" بھی پکارا — کیونکہ وہ پٹھانوں کے بیچ عدم تشدد کا چراغ جلانے والا پہلا مردِ مجاہد تھا۔

بچپن سے ہی وہ پٹھانوں کی جہالت، انتقام اور خونریزی سے دکھی تھا۔ اُس نے سوچا: کیا میری قوم صرف لڑنے کے لیے پیدا ہوئی ہے؟ تبھی اُس نے تعلیم اور خدمت کا راستہ چنا۔ جب انگریز حکمرانوں نے بندوق سے حکومت قائم کر رکھی تھی، تب بادشاہ خان نے ہاتھ میں قرآن اور دل میں عدم تشدد کا پیغام لے کر ایک تحریک چلائی — خدائی خدمت گار۔

وہ قید و بند کی صعوبتوں سے نہ گھبرایا، حتیٰ کہ 27 سال جیل کی کال کوٹھریوں میں گزار دیے، مگر اپنے اصول نہ چھوڑے۔ وہ کہتے تھے: "عدم تشدد کمزوروں کا ہتھیار نہیں، یہ بہادروں کا راستہ ہے۔"