سیرت : روشنی کا سفر ( قسط ۵)

باب پنجم: اٹھو، اور خبردار کرو!

غارِ حرا سے واپسی کے بعد
نزولِ وحی کے بعد کچھ وقت ایسا تھا جیسے کائنات تھم سی گئی ہو۔ فرشتے خاموش تھے، آسمان پر ساکت سکوت تھا، اور محمد ﷺ انتظار میں تھے۔ نہ جبرائیلؑ آ رہے تھے، نہ کوئی نیا پیغام۔

یہ وقت آزمائش کا تھا۔ لیکن محمد ﷺ ڈٹے رہے، تنہائی میں، خاموشی میں، رب سے جڑے رہے۔

اور پھر… وہ لمحہ آیا۔

جبرائیلؑ دوبارہ نازل ہوئے۔
فضا ایک بار پھر لرز گئی۔
آسمانی حکم نازل ہوا:

"يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ
قُمْ فَأَنْذِرْ
وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ
وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ
وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ"
(سورۃ المدثر: 1–5)

اے چادر اوڑھنے والے!
اٹھو، اور لوگوں کو خبردار کرو۔
اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔
اپنے لباس کو پاک رکھو۔
اور گندگی سے دور رہو۔

خاموش گواہ

 پیش لفظ 

آج نماز فجر کے بعد جب میں نے  سورۃ غافر کی وہ آیت پڑھی، جس میں ایک مردِ مومن اپنے دل کی روشنی کو زبان کی جرأت میں ڈھالتا ہے، تو مجھے یوں لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ جیسے صدیاں پیچھے پلٹ کر مجھے ایک لمحے میں کھینچ لائیں — وہاں، فرعون کے ایوان میں، ساز و رقص کی گونج میں، خوف اور غرور کی بُو میں، ایک آدمی خاموشی سے کھڑا ہے۔ بولنا چاہتا ہے، ڈرتا ہے، پھر بول پڑتا ہے — اور وقت گواہ بن جاتا ہے۔

میں دیر تک سوچتا رہا: کیا ہم میں سے ہر ایک کے اندر ایک مردِ مومن چھپا ہوا ہے؟ وہ جو سچ جانتا ہے مگر مناسب لمحے کا انتظار کرتا ہے؟ اور کیا سچ کی سب سے خوبصورت صدا وہی نہیں جو ظلم کی گونج میں گم ہو کر بھی تاریخ کا چراغ بن جاتی ہے؟

یہ ناولچہ — خاموش گواہ — میرے دل کے ایک گہرے گوشے سے نکلی ہوئی تحریر ہے۔ یہ فقط ایک تاریخی بیان نہیں، بلکہ میرے احساس کا وہ عکس ہے جو میں نے قرآن کی تلاوت کے دوران محسوس کیا۔ جب میں نے مردِ مومن کی باتیں پڑھیں، تو مجھے لگا جیسے وہ مجھ سے مخاطب ہے — جیسے کہہ رہا ہو:
"ڈرو مت، کہو سچ، چاہے تمہیں اکیلا ہی کیوں نہ بولنا پڑے۔"

میں نے اس داستان کو افسانوی روپ دیا، مگر دل میں اس کی حقیقت کی روشنی برابر جلتی رہی۔ میں چاہتا ہوں کہ قاری نہ صرف اسے پڑھے، بلکہ محسوس کرے — یوں جیسے وہ خود ایوانِ فرعون میں کھڑا ہو، یا خاموش گواہ کی زبان سے بول رہا ہو۔

یہ پیش لفظ نہیں، ایک دعائیہ عرض ہے:
اے اللہ! ہمیں بھی اُن لوگوں میں شامل فرما جو سچ بولتے ہیں، چاہے وقت کے فرعونوں کی تلواریں ہماری طرف ہی کیوں نہ اٹھی ہوں۔ آمین۔

احمد طیب 

۷ اپریل ۲۰۲۵ 

واہ کینٹ 

امتِ مسلمہ: ایک جاں، ہزار قالب

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ہم ایک خواب کی کرچیاں چن رہے ہیں… ایک ایسا خواب جسے تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں کہیں سجا کر رکھ دیا گیا ہو۔

مگر نہیں، یہ خواب نہیں، یہ ایک روحانی حقیقت ہے… ایک عقیدہ، ایک احساس، ایک رشتہ، جو دلوں کو جوڑتا ہے، آنکھوں کو نم کرتا ہے، اور اذان کے ہر ترنم میں بازگشت دیتا ہے کہ:

"إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ..."  (الأنبیاء: 92)

یہ امتِ مسلمہ ہے...
نہ قوم کی قید میں، نہ رنگ و نسل کی زنجیروں میں...
بلکہ سجدوں کی روانی میں، روزوں کی تھکن میں، اور حج کے لباسِ سفید میں سمٹی ہوئی ایک جیتی جاگتی اکائی۔

کیا امت مسلمہ کا تصور ختم ہو چکا ہے؟

غزہ کے جلتے چہروں، ٹوٹتے خوابوں اور معصوم لاشوں کے ساتھ صرف انسانیت ہی نہیں، امت مسلمہ کے تصور پر یقین رکھنے والوں کا دل بھی چکناچور ہو چکا ہے۔ اس المناک منظرنامے نے جہاں ظالموں کے چہرے بےنقاب کیے، وہیں ایک کربناک سوال بھی جنم دیا:

"کیا واقعی امت مسلمہ کا تصور محض ایک خیالی، کتابی بات ہے؟"

یہ سوال ایک فرد کی مایوسی نہیں، ایک پوری نسل کے سوالات کی بازگشت ہے۔

❓ امت مسلمہ: حقیقت یا خیال؟

یہ کہنا کہ امت مسلمہ کا تصور ختم ہو چکا ہے، ایک سطحی، وقتی اور جذباتی نتیجہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ کا تصور:

  • قرآن سے نکلا ہے:

    "إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُونِ"   (الأنبیاء: 92)

  • نبی ﷺ کی سنت سے جڑا ہے:

    "المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً"  (بخاری و مسلم)

یعنی امت مسلمہ کا تصور نظریاتی، روحانی، اور فطری حقیقت ہے، جسے کسی سیاسی زوال یا معاشی مفادات سے مٹایا نہیں جا سکتا۔

گدھ (افسانہ) کا تجزیہ

افسانہ نگار : آصف محمود 

زیتون کے پودے کی چھاؤں میں گڑیا سے کھیلتی میری بیٹی چلائی: بابا! بابا!

میں بھاگ کر اس کے پاس پہنچا تو دیکھا، کھیت کی منڈیر پرایک آنکھ والا کریہہ صورت گدھ بیٹھا تھا۔ اس کے چھ پنجے تھے جو زمین میں اندر ہی اندر کسی آسیب کی طرح گھستے چلے جا رہے تھے۔

”میرے کھیت میں کیوں گھس آئے ہو“؟۔ میں نے اسے للکارا۔

 اس نے حقارت سے قہقہہ لگایا،  تمہارا کھیت؟“

”ہاں میرا کھیت۔ تم دیکھ نہیں رہے کہ اس مٹی میں جتنے زیتون کے درخت ہیں اس سے زیادہ میرے قبیلے کی قبریں ہیں“۔ 

گدھ بولا: ”ا ب تیرا یہاں کچھ بھی نہیں۔ گدھوں کی پنچایت نے یہ سب مجھے دے دیا ہے۔یہ کھیت، وہ صحرا، یہ اونٹنیاں، وہ کنویں، یہ باغ، وہ نخلستان، سب میرا ہے۔ تب اب ریت کے ذروں کی طرح بے توقیر ہوچکے ہیں۔ تمہارے گھروں میں صحرا کی ریت اڑے گی اور تمہاری بستیاں اجاڑ بیابان ہو جائیں گی “۔

 ”ٹھہر، اے دور کی زمینوں کے آسیب!“۔ میں تلوار سونت کر اس کی جانب بڑھا  لیکن وہ بھدی سی آواز میں شور مچاتا بھاگ گیا۔ 

سیرت : روشنی کا سفر ( قسط ۴)

باب چہارم: جبلِ نور کی خاموشی میں اُترتی روشنی

غارِ حرا کی طرف ایک تنہا سفر
مکہ کے بازار شور و غل سے بھرے ہوتے، قریش کی محفلوں میں قہقہے گونجتے، اور بتوں کے سائے میں لوگ اپنی دنیا بسائے ہوئے تھے۔ مگر ایک دل ایسا بھی تھا جو ان سب سے بیگانہ تھا۔ محمد ﷺ کا دل ان بتوں سے بیزار تھا، ان محفلوں سے خالی، اور اس معاشرے کے جھوٹ، ظلم، اور فریب سے دکھی۔

ان کا دل سچائی کی تلاش میں بے چین رہتا۔

اسی تلاش نے انہیں شہر سے دور، جبلِ نور کے ایک خاموش گوشے، غارِ حرا کی طرف کھینچنا شروع کیا۔

غار کی خاموشی، دل کا مکالمہ
یہ کوئی عام پہاڑ نہ تھا، اور نہ یہ غار عام تنہائی رکھتی تھی۔ یہاں ہر طرف خامشی تھی، مگر یہ خاموشی مردہ نہ تھی— یہ گویا سننے والی خاموشی تھی، سوالوں سے بھری ہوئی، آنکھیں بند کیے انتظار کرتی ہوئی۔

محمد ﷺ یہاں دنوں اور راتوں تک قیام فرماتے۔ کبھی پہاڑوں کو تکتے، کبھی آسمان کو۔ دل ہی دل میں اللہ کو پکارتے، مگر الفاظ زباں پر نہ آتے۔

وہ جانتے تھے کہ کوئی ذات ہے جو انہیں دیکھ رہی ہے، جو اس دنیا کے پردوں کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کی مالک ہے۔

وہ رات جس کا انتظار صدیوں نے کیا
رمضان کی ایک رات تھی— نہ کوئی غیر معمولی شور، نہ آسمان پر کوئی رنگین منظر۔ مگر کائنات کی دھڑکن کسی پوشیدہ ولولے سے بھر گئی تھی۔

رات: خامشیوں کی زبان میں لکھی ہوئی کتاب

 رات ایک راز ہے۔ ایک ایسی کتاب جو دن کی روشنی میں کھلتی نہیں، مگر جیسے ہی اندھیرے کا پہرہ چھاتا ہے، یہ دھیرے دھیرے اپنے صفحے پلٹنے لگتی ہے۔ ہر صفحہ خاموشی میں ڈوبا ہوا، ہر لفظ کسی سُر میں بولا گیا، اور ہر جملہ دل کی دھڑکن کے ساتھ ہم آہنگ۔

جب سورج اپنی آخری سانس لیتا ہے اور آسمان پر چاند اپنے دھندلے لباس میں نمودار ہوتا ہے، تب فطرت کی زبان بدل جاتی ہے۔ پرندے سو جاتے ہیں، درختوں کی شاخیں ساکت ہو جاتی ہیں، اور فضاء میں خاموشی ایسے تیرنے لگتی ہے جیسے کسی نے پوری کائنات کو سکون کی چادر میں لپیٹ دیا ہو۔

رات ہمیں خود سے ملواتی ہے۔ دن کی ہنگامہ خیزیوں میں کھویا ہوا انسان، رات کے سناٹے میں اپنے دل کی آواز سنتا ہے۔ یہ وہ ساعت ہے جب یادیں دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں، خواب چپکے سے آنکھوں میں اترتے ہیں، اور ضمیر کسی پرانے خط کی طرح کھلتا ہے۔

چاندنی رات تو جیسے شاعر کا کاغذ ہے، اور چاند اس پر چلتی روشنائی۔ کوئی چاند کو یادوں کا آئینہ کہتا ہے، کوئی تنہائی کا ساتھی۔ جب ستارے آسمان پر جگنو بن کر بکھرتے ہیں تو لگتا ہے جیسے آسمان نے اپنے سب راز روشن کر دیے ہوں — لیکن بغیر بولے، بغیر شور کیے، خاموشی کی زبان میں۔

شام: دھیمی روشنیوں کی گود میں

جب دن تھک کر سانس لیتا ہے، اور سورج اپنی لالی سمیٹ کر آسمان کے کنارے پر جا بیٹھتا ہے، تب فضا میں ایک انوکھی نرمی، ایک دھیمی سی سرگوشی جاگتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب دن اور رات کی سرحد پر وقت کچھ لمحوں کے لیے ٹھہر سا جاتا ہے۔

شام کوئی ایک رنگ نہیں، بلکہ ایک کینوس ہے جس پر قدرت ہر دن نیا منظر پینٹ کرتی ہے۔ آسمان کبھی سنہری ہوتا ہے، کبھی نارنجی، کبھی گلابی، اور کبھی نیلا ہوتا ہوا کالا۔ ہر رنگ، ہر سایہ، ہر دھندلاہٹ اپنے اندر ایک کہانی رکھتی ہے۔

شام صرف روشنی کی تبدیلی کا نام نہیں، یہ ایک احساس ہے — جیسے کسی نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ہو: "بس کرو، اب آرام کر لو۔"

یہی وہ وقت ہوتا ہے جب پرندے اپنے گھونسلوں کو لوٹنے لگتے ہیں۔ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ میں گھر کی طلب اور سکون کی تمنا چھپی ہوتی ہے۔ جیسے کائنات ہمیں یاد دلا رہی ہو کہ زندگی صرف دوڑ کا نام نہیں، لوٹ آنے کا نام بھی ہے۔

شام میں ایک روحانی کیفیت بھی ہوتی ہے۔ اذانِ مغرب کی صدا جب فضا میں گونجتی ہے، تو دل بے ساختہ جھک جاتا ہے۔ دن بھر کی تھکن، پریشانیاں، اُلجھنیں — سب ایک سجدے میں پگھلنے لگتی ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان اپنی اصل فطرت، اپنی اصل منزل کو محسوس کرتا ہے۔

زندگی کی دھوپ

دن کے عین وسط میں، جب سورج آسمان کے کنگن میں سب سے اونچا ہوتا ہے، تب دنیا پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب زندگی اپنی پوری توانائی کے ساتھ دھڑک رہی ہوتی ہے — جیسے فطرت نے خود کو دھوپ کی شکل میں ظاہر کر دیا ہو۔

دھوپ صرف روشنی نہیں، ایک احساس ہے۔ یہ تپش میں چھپی محنت کی علامت ہے۔ دوپہر کا وقت ہمیں زندگی کی سب سے بڑی حقیقت سے روشناس کراتا ہے: "زندگی، ایک مسلسل کوشش کا نام ہے۔" یہ وہ لمحہ ہے جب انسان دفتر کی میز پر جھکا ہوا ہوتا ہے، کسان کھیت میں پسینے سے شرابور ہوتا ہے، ماں چولہے کے سامنے کھڑی ہوتی ہے، اور مزدور سڑک پر کسی دیوار کی چھاؤں ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔

پرندے اب خاموش ہو چکے ہیں، درخت بھی اپنی شاخوں میں ایک عجب سکوت سمیٹے کھڑے ہیں۔ فطرت جیسے تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گئی ہو، تاکہ انسان کو اس کی آزمائش یاد دلائی جا سکے۔ یہ وقت محنت، عزم، صبر اور برداشت کا ہے۔ اگر صبح نویدِ تازگی تھی، تو دوپہر امتحانِ زندگی ہے۔

دھوپ ہمیں جھلساتی ضرور ہے، لیکن یہ وہی دھوپ ہے جو فصلوں کو پکا دیتی ہے، زمین سے نمی کھینچ کر بادلوں کو جنم دیتی ہے، اور آخرکار بارش کا پیغام بن کر واپس آتی ہے۔ زندگی کی دھوپ بھی ایسی ہی ہے — تھکا دیتی ہے، لیکن پختہ بھی کرتی ہے۔

نسیمِ سحر کی سرگوشی

صبح کی نرم سی آہٹ ہے۔

سورج ابھی افق کے پیچھے چھپا ہے، جیسے کوئی شرمیلا بچہ پردے سے جھانک رہا ہو۔ آسمان پر ہلکی ہلکی روشنی کا رس گھل رہا ہے۔ کمرے کی کھڑکی سے آنے والی ٹھنڈی ہوا، جیسے کوئی نرم ہاتھ ماتھے پر پیار سے رکھ دے۔

درختوں پر پرندے جاگ چکے ہیں۔ کوئی کوّی کوکنے لگا ہے، کوئی چڑیا چہک رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے فطرت نے اپنی زبان میں دن کا خیرمقدم کیا ہو۔ ہر شاخ پر نغمگی ہے، ہر پتا سرگوشی میں کچھ کہہ رہا ہے۔ زمین شبنم کی چادر اوڑھے خاموش کھڑی ہے، اور ہوا میں سبزے کی خوشبو رچی ہوئی ہے۔

یہ صبح محض ایک وقت نہیں، ایک کیفیت ہے۔
دن کا آغاز… اور دل کا سکون۔
یہ لمحہ دل کو چھو جاتا ہے، جیسے قدرت نے اپنی انگلی سے روح پر کوئی نقش بنا دیا ہو۔

ایسے میں انسان خود کو بہت چھوٹا محسوس کرتا ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسی چھوٹے پن میں ایک عظمت چھپی ہے۔
کیونکہ وہ دیکھتا ہے…
خالق کی کاریگری۔
ہر رنگ، ہر آواز، ہر خوشبو — اُسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

یہ صبح ہمیں ایک پیغام دیتی ہے:
زندگی ہر دن نئی ہوتی ہے، جیسے سورج روز نیا طلوع ہوتا ہے۔
غم کی رات کٹتی ہے، اور روشنی کی کرن پردہ چاک کر دیتی ہے۔