کاش! میں یارو فلسطین کا باسی ہوتا



 کاش میں یارو فلسطین کا باسی ہوتا..."
🇵🇸❤️
کیا ہی خوبصورت نظم ہے!
دل کی گہرائیوں سے نکلا ہر لفظ، عشقِ فلسطین میں ڈوبا ہوا ، یہ صرف ایک خواہش نہیں، یہ ایک عہد ہے، ایک درد ہے، ایک محبت ہے جو ہر صاحبِ دل کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ اللہ فلسطین کو آزادی عطا فرمائے!

"کاش میں یارو فلسطین کا باسی ہوتا
ورنہ اس شہر مقدس کی میں مٹی ہوتا
یا تو میں مسجد اقصیٰ کا مینارہ ہوتا
یا میں اس پیاری سی مسجد کی میں جالی ہوتا
یا تو میں قبلہ اول کا احاطہ ہوتا
یا میں اس میں بنی ایک اٹاری ہوتا
یا میں فلسطین میں گرتی ہوئی بارش ہوتا
یا اسی شہر کے دریا کا میں پانی ہوتا
یا تو میں روضہ اقدس کا میں محافظ ہوتا
یا فلسطین کی سرحد کا میں غازی ہوتا"

مدرسہ مستنصریہ : اسلامی تاریخ کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جہاں تمام سنی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کی تعلیم دی جاتی تھی۔

تاریخِ اسلام کا زریں باب جب بغداد کی گلیوں میں سانس لیتا تھا، تو اُس کے علمی و فکری ارتقاء کی سب سے عظیم علامت "مدرسہ مستنصریہ" کی صورت میں ظاہر ہوا۔ عباسی خلیفہ المستنصر باللہ کے دور میں 625ھ / 1227ء میں اس عظیم علمی ادارے کی بنیاد رکھی گئی، جو 631ھ / 1234ء میں مکمل ہوا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ اسلامی دنیا کا وہ پہلا ادارہ تھا جہاں تمام سنی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کی تعلیم ایک ہی جگہ پر دی جاتی تھی۔
مدرسہ مستنصریہ 

اس مدرسہ نے نہ صرف فقہی علوم کو پروان چڑھایا بلکہ طب، فلسفہ، منطق، ریاضی، فلکیات، ادب، اور لغت جیسے علوم کی بھی سرپرستی کی۔ مستنصریہ میں ایک ایسا کتب خانہ قائم ہوا، جس کی بنیاد خلیفہ نے خود رکھی اور ابتدا میں 80 ہزار کتب فراہم کیں۔ بعد ازاں، یہ ذخیرہ چار لاکھ کتب تک جا پہنچا، جو اسلامی تہذیب کی علمی شان کا مظہر تھا۔

یہی وہ ادارہ تھا جس نے نظام الملک طوسی کے مدرسہ نظامیہ کو علمی اعتبار سے پیچھے چھوڑ دیا۔ 248 فقہاء اور 300 یتیم بچوں کی تعلیم و کفالت اس ادارے میں کی جاتی تھی۔ یہاں گھڑیال بھی نصب کیا گیا تھا جو صلوٰۃ کے اوقات اور دن و رات کے گھنٹے بتانے والا ایک حیرت انگیز آلہ تھا۔


 سقوط بغداد اور مستنصریہ کی بقا


1258ء میں جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا اور عباسی خلافت کو نیست و نابود کر دیا، تو بیشتر تعلیمی و ثقافتی ادارے صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ مگر مستنصریہ کا مدرسہ ایک معجزاتی انداز میں اس تباہی سے محفوظ رہا۔ گویا یہ عمارت علم کے تحفظ کی علامت بن کر کھڑی رہی۔ بعد ازاں 795ھ / 1393ء میں اس کا الحاق مدرسہ نظامیہ سے کر دیا گیا جس کے باعث اس کے نادر کتب کا ذخیرہ منتشر ہو گیا اور علم کا وہ سرمایہ جو صدیوں میں جمع ہوا تھا، رفتہ رفتہ گم ہو گیا۔

ریاست پاکستان کے لیے قانون سازی کا چیلنج

پاکستان کی بنیاد ایک ایسی نظریاتی اساس پر رکھی گئی تھی جسے دو قومی نظریہ کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، برصغیر میں مسلمان ایک الگ قوم ہیں جن کا مذہب، ثقافت، تاریخ، اور معاشرت ہندوؤں سے جداگانہ ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا، جس کا مطلب تھا کہ نئی ریاست میں اکثریتی مذہب — یعنی اسلام — کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔

پاکستان کو آئینی لحاظ سے ایک قومی ریاست تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس قومی ریاست میں قوم کی اکثریت مسلمان ہے، لہٰذا یہاں اسلام ایک قومی مذہب کے طور پر نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ ریاستی ڈھانچے، قانون سازی، اور پالیسی سازی میں اس کا اثر بھی نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ آئینِ پاکستان کے مطابق بھی کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ اصول بظاہر سادہ ہے لیکن عملاً نہایت پیچیدہ اور نازک ہے ۔

قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا سوال یہ ابھرا کہ "اسلامی قانون" سے مراد کیا ہے؟ کون سا اسلامی فقہی مکتبہ فکر ریاستی قانون سازی کی بنیاد بنے گا؟ پاکستان میں فقہ حنفیہ کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، لیکن دیگر فقہی مکاتب بھی موجود ہیں، جیسے فقہ جعفریہ، شافعی، اہل حدیث وغیرہ۔ یہی نہیں، جدید دور میں کچھ علماء مثلاً مولانا امین احسن اصلاحی،جاوید احمد غامدی، اور دیگر اسکالرز ایسے بھی ہیں جن کی آراء کسی مخصوص فقہی دبستان سے بالاتر ہو کر اجتہاد کے اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اسی طرح مفتی تقی عثمانی صاحب جیسے علماء بھی بعض معاملات میں کلاسیکی فقہ سے ہٹ کر عصری اجتہاد کی راہیں دکھاتے ہیں۔

پتھروں کے بیچ ایک گلاب "بادشاہ خان"

خان عبد الغفار خان 
شمال کی خشک پہاڑیوں میں، جہاں صدیوں سے تلوار ہی انصاف کی زبان سمجھی جاتی تھی، ایک مختلف انسان نے جنم لیا — بلند قامت، نرم گفتار اور فولادی ارادے والا۔ اس کا نام عبدالغفار خان تھا، مگر لوگ اُسے محبت سے "بادشاہ خان" کہتے تھے۔ کچھ نے اُسے "فرنٹیئر گاندھی" بھی پکارا — کیونکہ وہ پٹھانوں کے بیچ عدم تشدد کا چراغ جلانے والا پہلا مردِ مجاہد تھا۔

بچپن سے ہی وہ پٹھانوں کی جہالت، انتقام اور خونریزی سے دکھی تھا۔ اُس نے سوچا: کیا میری قوم صرف لڑنے کے لیے پیدا ہوئی ہے؟ تبھی اُس نے تعلیم اور خدمت کا راستہ چنا۔ جب انگریز حکمرانوں نے بندوق سے حکومت قائم کر رکھی تھی، تب بادشاہ خان نے ہاتھ میں قرآن اور دل میں عدم تشدد کا پیغام لے کر ایک تحریک چلائی — خدائی خدمت گار۔

وہ قید و بند کی صعوبتوں سے نہ گھبرایا، حتیٰ کہ 27 سال جیل کی کال کوٹھریوں میں گزار دیے، مگر اپنے اصول نہ چھوڑے۔ وہ کہتے تھے: "عدم تشدد کمزوروں کا ہتھیار نہیں، یہ بہادروں کا راستہ ہے۔"

اے ٹی ایم اظہرالاسلام: ایک سیاسی و نظریاتی جدوجہد کا تسلسل

اے ٹی ایم اظہرالاسلام جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کے سینئر اور نظریاتی قائدین میں سے ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے جماعت کے تنظیمی اور فکری دھارے سے وابستہ ہیں اور اسلامی طلبہ سنگھا (جماعت اسلامی کی طلبہ شاخ) سے اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا۔ بعد ازاں جماعت اسلامی رنگپور ڈویژن کے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
مرکزی سطح پر قائم مقام سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، جہاں وہ پالیسی سازی، سیاسی لائحہ عمل، اور عوامی روابط کے ذمہ دار تھے۔

اظہرالاسلام کا شمار اُن رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلامی فکر کو ریاستی نظام میں نافذ کرنے کے تصور کو اپنی سیاست کی بنیاد بنایا۔ ان کی تقریریں، تحریریں اور بیانات اسلامی حاکمیت، معاشی انصاف، اور اقلیتوں کے ساتھ رواداری پر زور دیتے رہے ہیں۔

2012 میں بنگلہ دیش کی حکومت نے 1971 کی جنگ کے بعد قائم کردہ بین الاقوامی جرائم ٹربیونل کے تحت ان کو گرفتار کیا۔
2014 میں انہیں سزائے موت سنائی گئی، جسے سیاسی انتقام کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔

جماعت اسلامی اور دیگر حلقوں نے اسے "مظلومیت اور عدالتی قتل کی کوشش" قرار دیا، کیونکہ مقدمے کی شفافیت پر عالمی اداروں نے بھی سوالات اٹھائے۔

27 مئی 2025 کو سپریم کورٹ نے ان تمام الزامات کو شواہد کی عدم موجودگی کی بنیاد پر رد کر دیا۔
اگلے ہی روز 28 مئی 2025 کو انہیں جیل سے باعزت رہائی ملی۔ 

ان کی رہائی کو جماعت اسلامی نے حق کی فتح اور "ظلم کے خلاف صبر و استقامت کی کامیابی" سے تعبیر کیا ۔
اظہرالاسلام کی رہائی جماعتِ اسلامی کے لیے ایک نیا حوصلہ ہے۔ اب توقع کی جا رہی ہے کہ وہ:
عوامی رابطہ مہم کو تیز کریں گے۔
نوجوانوں کو نظریاتی و دینی شعور کے ساتھ سیاسی تربیت دیں گے۔
بین الاقوامی سطح پر بنگلہ دیش میں ہونے والے مظالم کو اجاگر کرنے میں کردار ادا کریں گے۔

اے ٹی ایم اظہرالاسلام صرف ایک فرد نہیں، بلکہ وہ مظلوم نظریاتی کارکن کی علامت ہیں، جنہوں نے ظلم کی کوٹھری میں بھی صداقت کا پرچم بلند رکھا۔ ان کی رہائی ان تمام نظریاتی جدوجہد کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزا ہے جو اللہ کی سرزمین پر اللہ کا نظام قائم کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔

جب دل نے سوال کیا: "میں کون ہوں؟"

 جب دل نے سوال کیا: "میں کون ہوں؟"

تو آسمان کی وسعتوں سے آواز آئی: "تو وہ ہے جو رب کو پہچاننے کے لیے پیدا کیا گیا۔"
جب روح نے سرگوشی کی: "میں کہاں سے آئی ہوں اور کہاں جا رہی ہوں؟"
تو صدائے ازل نے جواب دیا: "تو اس راستے کی مسافر ہے جس کا سنگ میل ایمان ہے، اور زادِ سفر عمل۔"
انسان ازل سے ہی روشنی کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے — وہ روشنی جو صرف آنکھوں سے نہیں، دل سے دیکھی جاتی ہے۔ وہ جو لفظوں میں نہیں، احساس میں سماتی ہے۔ وہ جو دلیل سے نہیں، یقین سے جگمگاتی ہے۔ یہی روشنی ایمان ہے۔ اور یہی روشنی جب عمل سے جڑتی ہے، تو ایک ایسا سفر شروع ہوتا ہے جو بندگی کی پہچان بن جاتا ہے۔

یہ روشنی (نور) کہاں سے آئے گا؟
کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم اتنے بے سکون، بے چین کیوں ہیں؟ ہمارے دل کیوں تاریک ہیں؟ گھروں میں روشنی ہے، گلیوں میں بلب جگمگا رہے ہیں، موبائل کی اسکرینیں چمک رہی ہیں، لیکن پھر بھی زندگی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
اس کا ایک ہی جواب ہے: ہم نے اصل "نور" کو چھوڑ دیا ہے۔

سب سے خطرناک خاموشی۔۔۔۔۔!

یونیورسٹی کی شام تھی۔
بوسٹن کی ہوا میں خزاں کا پہلا لمس محسوس ہو رہا تھا۔ کیمپس کے درخت پیلے اور نارنجی پتوں سے لَدی شاخوں کے ساتھ کھڑے تھے، جیسے وہ بھی کسی آفت کا انتظار کر رہے ہوں۔ ایلَن جیمز نے لائبریری کے باہر بنچ پر بیٹھے بیٹھے اپنا موبائل فون کھولا، اور سکرولنگ شروع کر دی — ایک عادت، جو بےفکری کا لبادہ اوڑھے رکھتی ہے۔

لیکن آج کی اسکرین پر کچھ اور تھا۔

ایک تصویر۔
ایک بچہ — مٹی میں لت پت، خون آلود، اور اُس کی آنکھیں... بند۔
نیچے لکھا تھا: "غزہ — گزشتہ رات کے حملے میں یہ پانچ سالہ یوسف اپنی ماں کی گود میں شہید ہو گیا۔"

ایلن کی انگلیاں رک گئیں۔ دل میں ایک انجانی گھبراہٹ سی محسوس ہوئی، جیسے کسی نے اُس کے اندر ایک بند کمرے کا دروازہ کھولا ہو جہاں برسوں سے دھول جمی ہو۔ اس نے فوراً فون بند کر دیا، لیکن وہ چہرہ... اُس کی آنکھوں میں رہ گیا۔

اُسی رات یونیورسٹی کی کینٹین میں فلسطینی طلبہ کی جانب سے ایک تعزیتی و احتجاجی تقریب ہو رہی تھی۔
ایلن وہاں جا پہنچا — نہ کسی دعوت پر، نہ کسی ہمدردی کے دعوے کے ساتھ، بلکہ ایک بےچین سوال کے ساتھ:
"یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ اور ہم خاموش کیوں ہیں؟"

تقریب میں ایک طالبہ بول رہی تھی — اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن آواز میں لوہے کی سی سختی:
"ہم صرف یہ نہیں چاہتے کہ آپ فلسطین کے لیے بولیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے ضمیر کے لیے جاگیں!"

یہ جملہ، ایلَن کے دل کے پردے پر کیل کی طرح لگا۔
اسے یاد آیا — اُس کے فلسفے کے پروفیسر نے ایک بار کہا تھا:
"The most dangerous silence is the silence of those who know the truth."
(سب سے خطرناک خاموشی اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو سچ جانتے ہیں۔)

اُس رات وہ دیر تک سڑکوں پر چہل قدمی کرتا رہا۔
آسمان پر بادل چھائے تھے، اور نیچے زمین پر — اُس کے دل میں بھی۔

امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان ڈاکٹر حافظ عبد الکریم: دین، سیاست اور قیادت کا نقیب

پاکستانی مذہبی و سیاسی منظرنامے میں ایسے افراد خال خال نظر آتے ہیں جو دین، سیاست اور قومی خدمت کی تینوں راہوں پر یکساں توازن کے ساتھ سفر کرتے ہوں۔ ڈاکٹر حافظ عبد الکریم ان چند شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے علم و عمل، دعوت و قیادت، اور سیاست و بصیرت کو ہم آہنگ کر کے ایک منفرد شناخت قائم کی۔
ڈاکٹر حافظ عبد الکریم امیر جمعیت اہل حدیث

علمی و دینی پس منظر

یکم جنوری 1960 کو پیدا ہونے والے حافظ عبد الکریم نے ابتدا سے ہی دینی تعلیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ گوجرانوالہ کے معروف مدرسہ جامعہ محمدیہ میں درسِ نظامی سے آراستہ ہوئے، اور پھر جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہیں سے فاضل کی سند لے کر وطن واپس آئے اور بعد ازاں پاکستان کی ایک یونیورسٹی سے علوم اسلامیہ میں ڈاکٹریٹ مکمل کی — ایک ایسا امتزاج جو علم و فضل کی گہرائی کے ساتھ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہے۔

مرکزی جمعیت اہل حدیث سے وابستگی

آپ کی جماعتی وابستگی مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سے رہی ہے، جہاں آپ نے 2006 سے 2025 تک ناظم اعلیٰ کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ ساجد میر مرحوم کی قیادت میں جماعت کے انتظامی امور کو مؤثر انداز میں سنبھالنے والے حافظ عبد الکریم نے ہمیشہ اتحاد، نظم و ضبط اور مشاورت کی فضا قائم رکھی۔ بالآخر، 25 مئی 2025 کو، ساجد میر کی وفات کے بعد، آپ بلامقابلہ امیر منتخب ہوئے — جو جماعت کے اندر ان پر اعتماد کی علامت ہے۔

سیاست میں سرگرم کردار

حافظ عبد الکریم کا سیاسی سفر بھی دین سے جدا نہیں، بلکہ دینی فکر کے تسلسل کے طور پر سامنے آیا۔ وہ 2008 اور 2011 کے انتخابات میں ناکامیوں کے باوجود ثابت قدم رہے، اور 2013 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر سیاسی افق پر نمایاں ہوئے۔ 49,230 ووٹ لے کر جمال لغاری کو شکست دینا جنوبی پنجاب کے تناظر میں ایک بڑی سیاسی فتح تھی۔
وفاقی وزیر کی حیثیت سے خدمات

2017 میں شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے مواصلات مقرر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ حافظ عبد الکریم نہ صرف مذہبی حلقوں میں بلکہ قومی سطح پر بھی قابلِ اعتماد شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے وزارت مواصلات میں مختصر مگر فعال دورانیہ گزارا، جس میں شفافیت اور کارکردگی کو فوقیت دی گئی۔

ایوان بالا میں نمائندگی

2018 میں سینیٹ کے انتخابات میں ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیابی اور سینیٹر کے طور پر خدمات ان کی سیاسی دانش اور بردباری کی مظہر ہیں۔ انہوں نے سینیٹ میں علمی انداز، مہذب لب و لہجہ، اور جماعتی وقار کے ساتھ اپنی موجودگی کو برقرار رکھا۔ 2024 تک سینیٹر رہ کر انہوں نے کئی قومی امور میں حصہ لیا، اور ایوان میں جماعت اہل حدیث کی علمی نمائندگی کی۔

دینی سیاست کا مثالی امتزاج

حافظ عبد الکریم کی شخصیت اس لحاظ سے بھی ممتاز ہے کہ وہ فرقہ وارانہ سیاست سے بلند ہو کر ملکی مفادات کی بات کرتے ہیں۔ ان کا انداز خطابت علمی و متوازن، اور طرز سیاست مہذب اور مدبرانہ ہے۔ ان کی قیادت میں توقع کی جا رہی ہے کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث نہ صرف منظم انداز میں آگے بڑھے گی بلکہ ملکی سیاست میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے گی۔

قیادت کا ایک نیا باب

ڈاکٹر حافظ عبد الکریم کی حالیہ بطور امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان بلامقابلہ انتخاب نہ صرف جماعت کے اندر ان کی مقبولیت کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس بات کی نوید بھی ہے کہ ایک عالمِ دین، مدبر سیاست دان اور قومی خدمت گزار قیادت کا نیا باب شروع ہونے والا ہے۔ ان کی علمی گہرائی، سیاسی بصیرت اور اخلاقی وقار آنے والے وقت میں جماعت اور ملک دونوں کے لیے باعث خیر ہو سکتے ہیں۔

کارہائے نمایاں
  • بطور ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان آپ نے پیغام ٹی وی کے نام سے سیٹلائٹ چینل کا قیام عمل میں لایا ۔
  • رابطہ عالم اسلامی کے ممبر ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی جانب سے ہر سال نمائندگی کرتے ہیں۔
  • ایوان بالا پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کو کم کرنے کے لئے ناموس صحابہ و اہل بیت بل کو پیش کرنے اور پاس کروانے کے حوالے سے آپ کا نام ذرائع ابلاغ میں معروف رہا۔

سانحہ غزہ: ضمیرِ انسانی کی بیداری اور اسلام کی نئی بازگشت

تاریخ کے جبر نے ایک بار پھر انسانیت کو آئینہ دکھایا ہے۔ غزہ کے زخمی چہروں، معصوم لاشوں، ملبے تلے سسکتی ماؤں اور اجڑی ہوئی بستیوں نے نہ صرف مسلم دنیا کو دہلا دیا، بلکہ اُس مغربی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جو صدیوں سے انسانی حقوق، آزادی اور تہذیبی اقدار کے نعرے لگاتا آیا ہے۔

سانحہ غزہ نے امریکہ اور یورپ کے سلیم الفطرت غیر مسلم دانشوروں، پروفیسروں، لکھاریوں اور یونیورسٹیوں کے حساس نوجوانوں کو ایک فکری زلزلے سے دوچار کر دیا ہے۔ وہ نوجوان جو کبھی تہذیبِ مغرب کے ناقابلِ شکست ہونے کا یقین رکھتے تھے، اب ظلم و جبر کے اس اندوہناک منظرنامے میں اپنی تہذیب کی منافقت، دوہرا معیار، اور طاقت پرستی کا نوحہ پڑھنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

یہ بیداری محض وقتی احتجاج یا مظاہروں کی صورت میں نہیں بلکہ ایک گہری فکری بےچینی، ضمیر کی خلش اور صداقت کی تلاش کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ انہیں پہلی بار شدت سے یہ احساس ہوا ہے کہ تہذیب کا مطلب صرف تکنیکی ترقی یا سیاسی بالادستی نہیں، بلکہ اس کا اصل جوہر عدل، رحم، اور انسانی وقار کی حفاظت ہے — جو چیز مغربی تہذیب اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود غزہ میں مہیا نہ کر سکی۔

یہی بےچینی اُنہیں اِس سوال کی طرف لے آئی ہے کہ:
اگر مغربی تہذیب انسانیت کی اعلیٰ ترین صورت ہے تو وہ اس قدر ظالم، اندھی اور خاموش کیوں ہے؟
یہ سوال صرف تہذیبوں کے درمیان فرق کا نہیں، بلکہ اُن کی روحانی بنیادوں، اخلاقی ساخت اور نظریاتی اساس کا ہے۔ اور اسی سوال نے اُنہیں مجبور کیا ہے کہ وہ اسلام، قرآن مجید، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف پلٹ کر دیکھیں۔

2025 ء میں حج سے محروم 60 ہزار پاکستانی

 حج سے محروم 60 ہزار پاکستانی: یہ صرف ایک انتظامی ناکامی نہیں، بلکہ ایک دینی، اخلاقی اور قومی جرم ہے!

کیا ہم نے سوچا ہے کہ جس فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے ایک مسلمان پوری زندگی خواہش اور دعاؤں کے ساتھ جیتا ہے، وہ بھی ہماری سستی، غفلت اور بدانتظامی کی نذر ہو رہا ہے؟
کیا ہم نے کبھی محسوس کیا ہے کہ جن بوڑھے ماں باپ نے ساٹھ سال کی عمر کے بعد اللہ کے دربار کی حاضری کی امید میں زندگی کے ہر لمحے کو نیکی اور بچت کے ساتھ گزارا، ان کے دل کس طرح ٹوٹے ہوں گے جب انھیں یہ بتایا گیا کہ:
"آپ کا ویزا نہیں لگا، آپ کا حج ممکن نہیں"؟

وفاقی وزیر مذہبی امور کے بقول، سرکاری اسکیم نے وقت پر تمام لوازمات پورے کر دیے، مگر پرائیویٹ حج آپریٹرز یہ تقاضے پورے نہ کر سکے۔
سوال یہ ہے: اگر نجی حج آپریٹرز نااہل تھے تو وزارت نے پورے سال کیا کیا؟
کیا صرف حج فارم بانٹنا اور وزراء کی تصویریں شائع کرنا ہی اس وزارت کی ذمہ داری ہے؟
کیا وقت پر مانیٹرنگ، سرٹیفکیشن، اور اہلیت کی جانچ ان کا فرض نہیں؟

یہ معاملہ صرف ایک ائیر ٹکٹ یا ہوٹل کی بکنگ کا نہیں —
یہ امت مسلمہ کی عبادت، عقیدت اور دعا کا سوال ہے۔
یہ ان ہزاروں پاکستانیوں کے آنسوؤں کا سوال ہے، جو زندگی بھر کی جمع پونجی لے کر اللہ کے گھر جانے نکلے تھے اور واپس مایوسی، دھوکہ اور ناانصافی لے کر لوٹے۔

ہم کب سمجھیں گے کہ ہماری بدانتظامی اب صرف دنیاوی نقصانات نہیں، بلکہ دینی معاملات پر بھی حملہ آور ہو چکی ہے؟
کیا یہ وقت نہیں کہ ہم اجتماعی طور پر مطالبہ کریں کہ اس نااہلی کی تحقیقات صرف کاغذوں میں نہ ہوں، بلکہ ذمہ داروں کو عدالتی و اخلاقی کٹہرے میں لایا جائے؟
کیا وزارت مذہبی امور کو اب احساس نہیں ہونا چاہیے کہ وہ صرف ایک دفتر نہیں بلکہ اللہ کے گھر کے مہمانوں کے انتظام کا امین ادارہ ہے؟

آئیے، اس قوم کو جگائیں —
تاکہ کل کو کوئی اور حاجی زاہد خان کی طرح صرف اس لیے حج سے محروم نہ ہو جائے کہ ہماری غفلت نے اس کا خواب چھین لیا۔