سید ابوالحسن علی ندویؒ: فکری امتیازات و خصائص ۔ ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

انیسویں صدی کے اواخر میں عالم اسلام سیاسی، عسکری اور علمی و فکری زوال کی انتہا کو پہنچ رہا تھا اور بیسویں صدی کے آغاز تک مغربی استعمار عالم اسلام کے حصے بخیے کرنے اور خلافت کے ادارہ کو توڑنے میں کامیاب ہوچکاتھا۔اس ناگفتہ بہ صورت حال نے عالم اسلام میں بے چینی کی ایک لہر دوڑادی اور ہر طرف علماے راسخین اور مجاہدین آزادی اٹھ کھڑے ہوئے۔ مختلف اسلامی تحریکات اور شخصیات دنیائے اسلام کے کونے کونے میں پان اسلام ازم اور احیائے اسلام کے مبارک و مقدس کاز کے لیے سرگرم عمل ہوگئیں۔ 

یہ زمانہ افکار و نظریات کی شکست و ریخت کا زمانہ تھا۔ مغرب کے صنعتی و سائنسی انقلاب نے وہاں کے حالات یکسر بدل دیے تھے۔ افکار و خیالات کی دنیا میں ایک نمایاں تغیر آچکا تھا، اب جاگیر داری ختم ہورہی تھی اور اس کی جگہ شراکت جمہور نے لے لی تھی۔ سرمایہ داری کی پرانی شکلیں تبدیل ہوکر اب بین الاقوامی تجارتی ادارے (M.N.C.S) قائم ہورہے تھے۔ موروثی بادشاہت اور آمریت کی طنابیں بیسویں صدی کی ہوائے حریت سے یکے بعد دیگرے ٹوٹ رہی تھیں۔ مزدوروں کے استحصال نے سرمایہ دارانہ نظام اور بورژروا طبقہ کے خلاف سخت معاندانہ رجحانات پیداکردیے تھے۔انفرادی ملکیت کی بجائے اب سیاست و معیشت کے اداروں میں پرولتاریہ خیالات کی گونج سنائی دے رہی تھی اور یہ فکر زندگی کے ہر شعبہ کو شدت سے متاثر کرنے لگا تھا۔

لالا ہرکِشن لال : لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘

 وقار مصطفیٰ
عہدہ,صحافی، محقق
27 نومبر 2023
آج کے اِس تیز رفتار دور میں بھی جنوبی پنجاب کے شہر لیہ سے صوبائی دارالحکومت لاہور پہنچنے میں لگ بھگ آدھا دن لگ جاتا ہے، اور لالا ہرکِشن لال تو سنہ 1882 میں اِس سفر پر نکلے تھے۔ وہ بھی پیدل!
 لالا ہرکِشن لال 

13 اپریل 1864 کو پیدا ہونے والے ہر کشن لال کو والدین کی وفات کے بعد چچا لالا ہرجس رائے نے پالا اور پڑھایا۔ ہرکشن لال خود بھی لائق طالبعلم تھے اور وظیفہ لیتے تھے۔

وظیفے ہی پر انھیں لاہور کے ایک کالج میں داخلہ لینا تھا لیکن سفر کے لیے پیسے نہ تھے چنانچہ وہ پیدل ہی چل پڑے۔

اُن کے بیٹے کے ایل گابا کے مطابق انھوں نے ’کئی دن سفر کیا، زیادہ تر پیدل اور کہیں کوئی چھکڑا مل جاتا تو اس پر۔ دن میں سفر کرتے اور رات کو سڑک کنارے پُلوں پر سو جاتے۔‘گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی، معاشیات اور فارسی اُن کے پسندیدہ مضامین تھے۔ جب انھوں نے بی اے میں صوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو انھیں کیمبرج میں تین سالہ پڑھائی کے لیے سکالرشپ مل گیا۔کتب فروشوں کا مقروض جو بینکوں کا مالک بنا
گابا لکھتے ہیں کہ '1890 میں انگلستان میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کی امید میں ہندوستان واپس آئے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے کتب فروشوں کے تھے۔ سو گورنمنٹ کالج میں ریاضی اور اورینٹل کالج میں فارسی پڑھانے لگے۔ سنہ 1891 میں دوبارہ بیرون ملک گئے اور اس کے بعد 1892 میں پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر لاہور میں وکالت شروع کی۔

سنہ 1896 میں انھوں نے اپنے چند دوستوں سے مدد طلب کی، جن میں سے ایک دیال سنگھ مجیٹھیا تھے اور بھارت انشورنس کمپنی شروع کی، جو ایک مقامی شخص کی اپنی نوعیت کی پہل کاری تھی۔ اس سے ایک سال قبل انھوں نے پنجاب نیشنل بینک کی بنیاد رکھی تھی۔

لاہور کے ہندو سے مسلمان ہونے والے وکیل اور سیرت نگار جو جیل بھیجنے والے چیف جسٹس کو ’ہٹا کر ہیرو بنے‘ مگر موت غربت میں ہوئی

وقار مصطفیٰ
عہدہ,صحافی، محقق
 بی بی سی اردو تاریخ اشاعت : ۱۳ اگست ۲۰۲۵ء 
لاہور میں یکم مارچ 1933 کو ہیجان کی سی کیفیت تھی کیونکہ اُس روز اپنے وقت کے معروف وکیل کے ایل گابا نے شاعر علامہ محمد اقبال کی موجودگی میں اسلام قبول کیا تھا۔
کے ایل گابا (خالد)

لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہروں کو پہلی بار بجلی فراہم کرنے والے کاروباری شخص اور بینکار لالا ہرکشن لال گابا کے سنہ 1899 میں پیدا ہونے والے بڑے بیٹے کنھیا لال گابا (کے ایل گابا) کا بچپن، اُن کی اپنی لکھی سوانح حیات کے مطابق، مادی آسائشوں، لاہور کی سیاست اور اعلیٰ طبقے کی محفلوں سے بھرپور تھا۔

انگریزی سکولوں سے تعلیم یافتہ کے ایل گابا کی تحریریں نوعمری ہی میں ’سپِنکس جرنل‘ اور ’ہندوستان ریویو‘ میں شائع ہونے لگی تھیں۔

برطانیہ سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیرسٹر کنھیا لال گابا لاہور ہائیکورٹ میں وکالت کرنے لگے لیکن انھوں نے پورا نام کم ہی استعمال کیا تھا۔ وہ اپنا نام کنھیا لال گابا کے بجائے کے ایل گابا ہی لکھتے تھے۔
اسلام قبول کرنے سے دس قبل یعنی سنہ 1923 میں جب اُن کی حُسن آرا کی شادی ہوئی تو اخبارات میں اسے خوب پذیرائی ملی اور اس پر تنقید بھی ہوئی۔ گابا اور حُسن آرا کے بچوں کے نام راشد اور عفت رکھے گئے۔

معروف ہندو وکیل کے قبولِ اسلام کا واقعہ
کے ایل گابا کی اپنی کتاب ’فرینڈز اینڈ فوز‘ کے ایک باب ’اسلام‘ میں اس واقعے کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اسی سے علم ہوتا ہے کہ مقامی اخبارات نے اس واقعے کو تصاویر کے ساتھ شائع کیا اور اس خبر کی وجہ سے اُس روز کے اخبارات ’دھڑا دھڑ فروخت ہوئے۔‘

مُلّا اور بہشت ۔ علامہ اقبال


مَیں بھی حاضر تھا وہاں، ضبطِ سخن کر نہ سک

حق سے جب حضرتِ مُلّا کو مِلا حکمِ بہشت

عرض کی مَیں نے، الٰہی! مری تقصیر معاف

خوش نہ آئیں گے اسے حُور و شراب و لبِ کشت

نہیں فردوس مقامِ جَدل و قال و اقول

بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت

ہے بد آموزیِ اقوام و مِلل کام اس کا

اور جنّت میں نہ مسجد، نہ کلیسا، نہ کُنِشت!

جمعیۃ علمائے ہند: ایک تاریخی، فکری اور تنظیمی جائزہ

جمعیۃ علمائے ہند برصغیر کی ایک ایسی دینی و سیاسی تحریک ہے جو نہ صرف برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش رہی، بلکہ آزادی کے بعد بھی ہندوستانی مسلمانوں کی دینی، ملی اور دستوری نمائندہ جماعت کے طور پر اپنی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ اس جماعت کی بنیاد بیسویں صدی کے اوائل میں اس وقت پڑی جب برصغیر کے علما نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے مذہبی تشخص، سیاسی حقوق اور سماجی حیثیت کو منظم پلیٹ فارم سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ جمعیۃ علمائے ہند اس کا پہلا باضابطہ اظہار تھی۔
جمعیت علماء ہند 

تاریخی پس منظر:

جمعیۃ علمائے ہند کا قیام 1919ء میں عمل میں آیا، تاہم اس کی فکری بنیاد اس سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے ان علما نے رکھی تھی جو تحریکِ ریشمی رومال اور تحریکِ خلافت سے وابستہ رہے۔ برطانوی استعمار کے خلاف جہاد اور ہندوستان کی آزادی کے لیے جمعیۃ نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر کام کیا، جو اس وقت ہندوستان میں آزادی کی سب سے بڑی سیاسی قوت تھی۔ جمعیۃ علمائے ہند نے نہ صرف کانگریس کی حمایت کی، بلکہ 1947 میں تقسیمِ ہند کی مخالفت کرتے ہوئے متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد پر مبنی قومیت کو ترجیح دی۔

نظریاتی بنیادیں:

سید ابوالاعلی صاحب مودودی ؒ

سید ابو الاعلیٰ مودودی (1903ء – 1979ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکات کے ارتقا میں گہرا اثر ڈالا اور بیسویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔ مولانا مودودی وہ دوسرے شخص تھے جن کی غائبانہ نماز جنازہ کعبہ میں ادا کی گئی، پہلے نجاشی تھے۔
سید ابوالاعلی صاحب مودودی ؒ 

اسلام کی دنیا بھر میں موجودہ پزیرائی سید ابوالاعلیٰ مودودی اور شیخ حسن البناء (اخوان المسلمون کے بانی) کی فکر کا ہی نتیجہ ہے جنھوں نے عثمانی خلافت کے اختتام کے بعد نہ صرف اسے زندہ رکھا بلکہ اسے خانقاہوں سے نکال کر عوامی پزیرائی بخشی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کا پاکستانی سیاست میں بھی بڑا کردار تھا۔ پاکستانی حکومت نے انھیں قادیانی گروہ کو غیر مسلم قرار دینے پر پھانسی کی سزا بھی سنائی جس پر عالمی دباؤ کے باعث عملدرآمد نہ ہو سکا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کو ان کی دینی خدمات کی پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔

ابتدائی زندگی

سید ابوالاعلیٰ مودودی 1903ء بمطابق 1321ھ میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آبا و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔

آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انھیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔

کہاں تک آپ بچائیں گے آشیانوں کو ۔ کلام شاعر بزبان شاعر، علامہ انور صابری


دو قطعے: 

 ہے دل سے خاص تعلق مرے فسانوں کو
 کہیں سے ڈھونڈ کے لا دو انہیں زمانوں کو
 اگر یہی روش برق خانہ زاد رہی
 کہاں تک آپ بچائیں گے آشیانوں کو

 چمن والوں میں ہے کہرام برپا
 نئے فتنے اچھالے جا رہے ہیں
 قیامت ہے کہ ارباب نشیمن 
نشیمن سے نکالے جا رہے ہیں

جس دور پہ نازاں تھی دنیا، اب ہم وہ زمانہ بھول گئے ۔ مولانا انور صابری ؒ کی ایک نظم

(مولانا انور صابری معروف صوفی شاعر، عالم ، دانشور ، مجاہد آزادی، کارکن مجلس احرار الاسلام، خطیب، اپنی شاعری میں مستانہ روی اور صوفیانہ رنگ کے لیے )
مولانا انور صابری
مجاہد تحریک آزادی معروف صوفی شاعر 

جس دور پہ نازاں تھی دنیا، اب ہم وہ زمانہ بھول گئے
دنیا کی کہانی یاد رہی، اور اپنا فسانہ بھول گئے

منہ دیکھ لیا آئینے میں، پر داغ نہ دیکھے سینے میں
دل ایسا لگایا جینے میں، مرنے کو مسلماں بھول گئے

اغیار کا جادو چل بھی چکا، ہم ایک تماشا بن بھی گئے
دنیا کا جگانا یاد رہا، خود ہوش میں آنا بھول گئے

فرعون نہیں، شِداد نہیں، کیا دنیا میں قومِ عاد نہیں؟
کیا لُوط کی امت یاد نہیں، کیا نوح کا طوفاں بھول گئے؟

وہ ذکرِ حسیں، رحمت کا امیں، کہتے ہیں جسے قرآنِ مُبیں
دنیا کے لیے نئے نغمے سیکھے، اللہ کا ترانہ بھول گئے

امام زین العابدین ؒ، عظیم عرب شاعر فرزدق اور قصیدہ البطحاء

امام زین العابدینؒ (38ھ -- 95ھ) ان کا اصل نام علی بن حسین تھا، یہ اہل بیتِ کے اس روشن چراغ کا نام ہے جو کربلا کی خاک سے چمکا اور امت کے دلوں میں تقویٰ، عبادت، صبر اور اخلاق کا نور بن کر جگمگایا۔ اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 برس تھی، اس موقع پر یہ بیمار اور صاحب فراش تھے، اس طرح وہ زندہ رہیں۔ آپ کا لقب "زین العابدین" (عبادت گزاروں کی زینت) اور "سجاد" (کثرتِ سے سجدہ کرنے والا) ہے، یہ لقب آپ کی روحانی رفعت اور اللہ سے گہری وابستگی کا مظہر ہے۔
کربلا کے بعد کا دور، جہاں امت اضطراب اور ظلم کی تاریکیوں میں گھری ہوئی تھی، وہاں امام زین العابدینؑ نے خاموشی، دعا، اور باطنی تربیت کے ذریعے دین کی روح کو زندہ رکھا۔ آپ کی دعاؤں کا مجموعہ "صحیفۂ سجادیہ" آج بھی اہل تشیع کے لیے مناجات، خشوع وخضوع اور اہل بیت سے اظہار محبت کا خزینہ ہے۔ آپ نہ صرف اہل بیت کی عظمت کا تسلسل تھے، بلکہ انسانیت کے لیے صبر، حلم، عبادت اور حکمت کا اعلیٰ نمونہ بھی تھے۔

ایک مرتبہ حج کے موقع پر پیش آنے والا وہ واقعہ تاریخ کا ایک درخشندہ لمحہ ہے جب اموی ولی عہد ہشام بن عبد الملک، خانہ کعبہ کے پاس حاجیوں کے ہجوم میں حجرِ اسود کو بوسہ دینے سے عاجز آ کر ایک طرف بیٹھا ہوا تھا۔ اسی دوران امام زین العابدینؒ طواف مکمل کر کے حجرِ اسود کی طرف بڑھے، تو حاجیوں نے از خود راستہ چھوڑ دیا، اور امام بلا مزاحمت حجرِ اسود تک پہنچے۔ یہ منظر دیکھ کر شام کے ایک درباری نے ہشام سے پوچھا: ’’یہ کون ہیں؟‘‘ ہشام نے حسد اور سیاسی مصلحت کے تحت تجاہلِ عارفانہ سے جواب دیا: ’’میں نہیں جانتا۔‘‘ اس پر عرب کے عظیم شاعر فرزدق جو وہیں موجود تھا، کھڑا ہو گیا اور کہا: ’’میں جانتا ہوں کہ یہ کون ہیں‘‘— اور پھر اس نے امام کی عظمت اور نسب کا وہ عظیم الشان قصیدہ پڑھا جو ’’قصیدہ البطحاء‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ قصیدہ نہ صرف امام زین العابدینؑ کا تعارف تھا، بلکہ اہل بیت کی حقانیت اور اموی جبر کے مقابلے میں ایک شعری صدائے حق بھی تھا، جو رہتی دنیا تک گونجتی رہے گی۔

امت مسلمہ کے عروج و زوال کی داستان ایک نظر میں

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اور مکمل ضابطۂ ہدایت ہے، جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے رہنمائی کا دائمی سرچشمہ ہے۔ یہ محض احکام و عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ انسانی زندگی کا ایک جامع بیانیہ ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ انسان اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا، اس کی اصل حقیقت کیا ہے، اور اس کا انجام کیا ہوگا۔ حضرت آدمؑ سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ تک اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے ہدایت کا تسلسل قائم رکھا، مگر قرآن کے نزول کے ساتھ یہ اعلان کر دیا گیا کہ اب وحی کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور ہدایت کا پیغام اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ہے: "الیوم أکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دینا"۔ اب قیامت تک کے لیے یہی قرآن انسانیت کے لیے واحد معیارِ ہدایت ہے۔ اس کے بعد اللہ کی طرف سے براہِ راست ہدایت کا کوئی نیا انتظام نہیں ہوگا، چنانچہ اس ہدایت کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے کی عظیم ذمہ داری امت محمدیہ کو سونپ دی گئی ہے۔ امت مسلمہ کو اب صرف قرآن پر ایمان لانے ہی نہیں بلکہ اسے دنیا کے سامنے زندہ مثال بنا کر پیش کرنے، اس کے اخلاقی، روحانی اور معاشرتی پیغام کو عام کرنے، اور اس کی روشنی میں انسانیت کو تاریکیوں سے نکالنے کا فریضہ ادا کرنا ہے۔

قرآن مجید انسانی تاریخ کا محض تذکرہ نہیں کرتا بلکہ اس کے عروج و زوال کی سنن کو ایک ربانی نقطۂ نظر سے واضح کرتا ہے۔ وہ قومیں جو کسی زمانے میں طاقت، علم، تہذیب اور تمدن کے اعتبار سے دنیا پر حاوی تھیں—جیسے قومِ نوح، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ ابراہیم، قومِ لوط، قومِ شعیب، اور بنی اسرائیل—قرآن ان سب کی تاریخ کو ایک گہرے اخلاقی و روحانی پس منظر کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہ قومیں اللہ کی ہدایت سے روگردانی، انبیاء کی تکذیب، اور ظلم و فساد کی روش اختیار کرنے کے باعث زوال کا شکار ہوئیں، حالانکہ ان کے پاس دنیاوی اعتبار سے سب کچھ تھا۔ بنی اسرائیل کو ایک لمبے عرصے تک نبوت اور کتاب کی نعمت عطا ہوئی، مگر جب انہوں نے اس نعمت کے ساتھ خیانت کی تو وہ بھی ذلت و پستی کا شکار ہوئے۔ آخرکار قرآن بنی اسماعیل، خصوصاً قریش کی تاریخ کو سامنے لاتا ہے، جنہیں نبی آخر الزمان ﷺ کے ذریعے ہدایت ملی، اور جنہیں ابتدا میں انکار و مخالفت کے بعد ایمان کی روشنی نصیب ہوئی۔ قرآن ان تمام واقعات کو تاریخ کے عبرت آموز ابواب کی صورت میں بیان کرتا ہے تاکہ امت محمدیہ ان غلطیوں سے بچتے ہوئے ہدایت پر قائم رہے اور عروج و زوال کی ان خدائی سنتوں کو سمجھ کر اپنی اجتماعی زندگی کی اصلاح کرے۔