مُلّا اور بہشت ۔ علامہ اقبال


مَیں بھی حاضر تھا وہاں، ضبطِ سخن کر نہ سک

حق سے جب حضرتِ مُلّا کو مِلا حکمِ بہشت

عرض کی مَیں نے، الٰہی! مری تقصیر معاف

خوش نہ آئیں گے اسے حُور و شراب و لبِ کشت

نہیں فردوس مقامِ جَدل و قال و اقول

بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت

ہے بد آموزیِ اقوام و مِلل کام اس کا

اور جنّت میں نہ مسجد، نہ کلیسا، نہ کُنِشت!

جمعیۃ علمائے ہند: ایک تاریخی، فکری اور تنظیمی جائزہ

جمعیۃ علمائے ہند برصغیر کی ایک ایسی دینی و سیاسی تحریک ہے جو نہ صرف برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش رہی، بلکہ آزادی کے بعد بھی ہندوستانی مسلمانوں کی دینی، ملی اور دستوری نمائندہ جماعت کے طور پر اپنی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ اس جماعت کی بنیاد بیسویں صدی کے اوائل میں اس وقت پڑی جب برصغیر کے علما نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے مذہبی تشخص، سیاسی حقوق اور سماجی حیثیت کو منظم پلیٹ فارم سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ جمعیۃ علمائے ہند اس کا پہلا باضابطہ اظہار تھی۔
جمعیت علماء ہند 

تاریخی پس منظر:

جمعیۃ علمائے ہند کا قیام 1919ء میں عمل میں آیا، تاہم اس کی فکری بنیاد اس سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے ان علما نے رکھی تھی جو تحریکِ ریشمی رومال اور تحریکِ خلافت سے وابستہ رہے۔ برطانوی استعمار کے خلاف جہاد اور ہندوستان کی آزادی کے لیے جمعیۃ نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر کام کیا، جو اس وقت ہندوستان میں آزادی کی سب سے بڑی سیاسی قوت تھی۔ جمعیۃ علمائے ہند نے نہ صرف کانگریس کی حمایت کی، بلکہ 1947 میں تقسیمِ ہند کی مخالفت کرتے ہوئے متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد پر مبنی قومیت کو ترجیح دی۔

نظریاتی بنیادیں:

سید ابوالاعلی صاحب مودودی ؒ

سید ابو الاعلیٰ مودودی (1903ء – 1979ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکات کے ارتقا میں گہرا اثر ڈالا اور بیسویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔ مولانا مودودی وہ دوسرے شخص تھے جن کی غائبانہ نماز جنازہ کعبہ میں ادا کی گئی، پہلے نجاشی تھے۔
سید ابوالاعلی صاحب مودودی ؒ 

اسلام کی دنیا بھر میں موجودہ پزیرائی سید ابوالاعلیٰ مودودی اور شیخ حسن البناء (اخوان المسلمون کے بانی) کی فکر کا ہی نتیجہ ہے جنھوں نے عثمانی خلافت کے اختتام کے بعد نہ صرف اسے زندہ رکھا بلکہ اسے خانقاہوں سے نکال کر عوامی پزیرائی بخشی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کا پاکستانی سیاست میں بھی بڑا کردار تھا۔ پاکستانی حکومت نے انھیں قادیانی گروہ کو غیر مسلم قرار دینے پر پھانسی کی سزا بھی سنائی جس پر عالمی دباؤ کے باعث عملدرآمد نہ ہو سکا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کو ان کی دینی خدمات کی پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔

ابتدائی زندگی

سید ابوالاعلیٰ مودودی 1903ء بمطابق 1321ھ میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آبا و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔

آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انھیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔

کہاں تک آپ بچائیں گے آشیانوں کو ۔ کلام شاعر بزبان شاعر، علامہ انور صابری


دو قطعے: 

 ہے دل سے خاص تعلق مرے فسانوں کو
 کہیں سے ڈھونڈ کے لا دو انہیں زمانوں کو
 اگر یہی روش برق خانہ زاد رہی
 کہاں تک آپ بچائیں گے آشیانوں کو

 چمن والوں میں ہے کہرام برپا
 نئے فتنے اچھالے جا رہے ہیں
 قیامت ہے کہ ارباب نشیمن 
نشیمن سے نکالے جا رہے ہیں

جس دور پہ نازاں تھی دنیا، اب ہم وہ زمانہ بھول گئے ۔ مولانا انور صابری ؒ کی ایک نظم

(مولانا انور صابری معروف صوفی شاعر، عالم ، دانشور ، مجاہد آزادی، کارکن مجلس احرار الاسلام، خطیب، اپنی شاعری میں مستانہ روی اور صوفیانہ رنگ کے لیے )
مولانا انور صابری
مجاہد تحریک آزادی معروف صوفی شاعر 

جس دور پہ نازاں تھی دنیا، اب ہم وہ زمانہ بھول گئے
دنیا کی کہانی یاد رہی، اور اپنا فسانہ بھول گئے

منہ دیکھ لیا آئینے میں، پر داغ نہ دیکھے سینے میں
دل ایسا لگایا جینے میں، مرنے کو مسلماں بھول گئے

اغیار کا جادو چل بھی چکا، ہم ایک تماشا بن بھی گئے
دنیا کا جگانا یاد رہا، خود ہوش میں آنا بھول گئے

فرعون نہیں، شِداد نہیں، کیا دنیا میں قومِ عاد نہیں؟
کیا لُوط کی امت یاد نہیں، کیا نوح کا طوفاں بھول گئے؟

وہ ذکرِ حسیں، رحمت کا امیں، کہتے ہیں جسے قرآنِ مُبیں
دنیا کے لیے نئے نغمے سیکھے، اللہ کا ترانہ بھول گئے

امام زین العابدین ؒ، عظیم عرب شاعر فرزدق اور قصیدہ البطحاء

امام زین العابدینؒ (38ھ -- 95ھ) ان کا اصل نام علی بن حسین تھا، یہ اہل بیتِ کے اس روشن چراغ کا نام ہے جو کربلا کی خاک سے چمکا اور امت کے دلوں میں تقویٰ، عبادت، صبر اور اخلاق کا نور بن کر جگمگایا۔ اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 برس تھی، اس موقع پر یہ بیمار اور صاحب فراش تھے، اس طرح وہ زندہ رہیں۔ آپ کا لقب "زین العابدین" (عبادت گزاروں کی زینت) اور "سجاد" (کثرتِ سے سجدہ کرنے والا) ہے، یہ لقب آپ کی روحانی رفعت اور اللہ سے گہری وابستگی کا مظہر ہے۔
کربلا کے بعد کا دور، جہاں امت اضطراب اور ظلم کی تاریکیوں میں گھری ہوئی تھی، وہاں امام زین العابدینؑ نے خاموشی، دعا، اور باطنی تربیت کے ذریعے دین کی روح کو زندہ رکھا۔ آپ کی دعاؤں کا مجموعہ "صحیفۂ سجادیہ" آج بھی اہل تشیع کے لیے مناجات، خشوع وخضوع اور اہل بیت سے اظہار محبت کا خزینہ ہے۔ آپ نہ صرف اہل بیت کی عظمت کا تسلسل تھے، بلکہ انسانیت کے لیے صبر، حلم، عبادت اور حکمت کا اعلیٰ نمونہ بھی تھے۔

ایک مرتبہ حج کے موقع پر پیش آنے والا وہ واقعہ تاریخ کا ایک درخشندہ لمحہ ہے جب اموی ولی عہد ہشام بن عبد الملک، خانہ کعبہ کے پاس حاجیوں کے ہجوم میں حجرِ اسود کو بوسہ دینے سے عاجز آ کر ایک طرف بیٹھا ہوا تھا۔ اسی دوران امام زین العابدینؒ طواف مکمل کر کے حجرِ اسود کی طرف بڑھے، تو حاجیوں نے از خود راستہ چھوڑ دیا، اور امام بلا مزاحمت حجرِ اسود تک پہنچے۔ یہ منظر دیکھ کر شام کے ایک درباری نے ہشام سے پوچھا: ’’یہ کون ہیں؟‘‘ ہشام نے حسد اور سیاسی مصلحت کے تحت تجاہلِ عارفانہ سے جواب دیا: ’’میں نہیں جانتا۔‘‘ اس پر عرب کے عظیم شاعر فرزدق جو وہیں موجود تھا، کھڑا ہو گیا اور کہا: ’’میں جانتا ہوں کہ یہ کون ہیں‘‘— اور پھر اس نے امام کی عظمت اور نسب کا وہ عظیم الشان قصیدہ پڑھا جو ’’قصیدہ البطحاء‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ قصیدہ نہ صرف امام زین العابدینؑ کا تعارف تھا، بلکہ اہل بیت کی حقانیت اور اموی جبر کے مقابلے میں ایک شعری صدائے حق بھی تھا، جو رہتی دنیا تک گونجتی رہے گی۔

امت مسلمہ کے عروج و زوال کی داستان ایک نظر میں

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اور مکمل ضابطۂ ہدایت ہے، جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے رہنمائی کا دائمی سرچشمہ ہے۔ یہ محض احکام و عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ انسانی زندگی کا ایک جامع بیانیہ ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ انسان اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا، اس کی اصل حقیقت کیا ہے، اور اس کا انجام کیا ہوگا۔ حضرت آدمؑ سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ تک اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے ہدایت کا تسلسل قائم رکھا، مگر قرآن کے نزول کے ساتھ یہ اعلان کر دیا گیا کہ اب وحی کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور ہدایت کا پیغام اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ہے: "الیوم أکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دینا"۔ اب قیامت تک کے لیے یہی قرآن انسانیت کے لیے واحد معیارِ ہدایت ہے۔ اس کے بعد اللہ کی طرف سے براہِ راست ہدایت کا کوئی نیا انتظام نہیں ہوگا، چنانچہ اس ہدایت کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے کی عظیم ذمہ داری امت محمدیہ کو سونپ دی گئی ہے۔ امت مسلمہ کو اب صرف قرآن پر ایمان لانے ہی نہیں بلکہ اسے دنیا کے سامنے زندہ مثال بنا کر پیش کرنے، اس کے اخلاقی، روحانی اور معاشرتی پیغام کو عام کرنے، اور اس کی روشنی میں انسانیت کو تاریکیوں سے نکالنے کا فریضہ ادا کرنا ہے۔

قرآن مجید انسانی تاریخ کا محض تذکرہ نہیں کرتا بلکہ اس کے عروج و زوال کی سنن کو ایک ربانی نقطۂ نظر سے واضح کرتا ہے۔ وہ قومیں جو کسی زمانے میں طاقت، علم، تہذیب اور تمدن کے اعتبار سے دنیا پر حاوی تھیں—جیسے قومِ نوح، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ ابراہیم، قومِ لوط، قومِ شعیب، اور بنی اسرائیل—قرآن ان سب کی تاریخ کو ایک گہرے اخلاقی و روحانی پس منظر کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہ قومیں اللہ کی ہدایت سے روگردانی، انبیاء کی تکذیب، اور ظلم و فساد کی روش اختیار کرنے کے باعث زوال کا شکار ہوئیں، حالانکہ ان کے پاس دنیاوی اعتبار سے سب کچھ تھا۔ بنی اسرائیل کو ایک لمبے عرصے تک نبوت اور کتاب کی نعمت عطا ہوئی، مگر جب انہوں نے اس نعمت کے ساتھ خیانت کی تو وہ بھی ذلت و پستی کا شکار ہوئے۔ آخرکار قرآن بنی اسماعیل، خصوصاً قریش کی تاریخ کو سامنے لاتا ہے، جنہیں نبی آخر الزمان ﷺ کے ذریعے ہدایت ملی، اور جنہیں ابتدا میں انکار و مخالفت کے بعد ایمان کی روشنی نصیب ہوئی۔ قرآن ان تمام واقعات کو تاریخ کے عبرت آموز ابواب کی صورت میں بیان کرتا ہے تاکہ امت محمدیہ ان غلطیوں سے بچتے ہوئے ہدایت پر قائم رہے اور عروج و زوال کی ان خدائی سنتوں کو سمجھ کر اپنی اجتماعی زندگی کی اصلاح کرے۔

اسلامی تاریخ کیا ہے ؟

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا:
"الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا"
ترجمہ: "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔(المائدہ 3)
جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے ذریعے دین اسلام اپنی مکمل اور آخری صورت میں انسانیت کے لیے پیش کر دیا گیا، اور اب اس میں کسی قسم کا اضافہ یا کمی ممکن نہیں۔ بعد کے ادوار میں صحابہ کرام، تابعین، ائمہ مجتہدین اور محدثین کی جد وجہد سے جو کچھ دین کے بارے میں تحریری شکل میں مرتب ہوا ، اس سے نہ دین میں کو ئی اضافہ ہوا ہے اور نہ کمی ہوئی ہے بلکہ وہ سب کچھ اسی مکمل دین کی تشریح، تفہیم اور حفاظت کا عمل تھا۔ ان کی تمام علمی کاوشیں قرآن و سنت کی بنیاد پر تھیں، اور اگر دین کی کسی بات میں ان کے درمیان اختلاف ہوا ہے تو اس سے اصل دین پر کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ وہ اختلاف دین کا حصہ بن سکتا ہے ۔ یوں دین اپنی اصل میں محفوظ، مکمل اور اٹل ہے، اور بعد کی علمی روایت اسی کی شرح و توضیح ہے۔

نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد مسلمانوں کی سیاسی، تمدنی اور علمی سرگرمیوں کو عمومی طور پر "تاریخ اسلام" کہا جاتا ہے، حالانکہ درحقیقت یہ تاریخ اسلام نہیں بلکہ "تاریخِ مسلمین" یا "مسلم تہذیب و تمدن کی تاریخ" ہے۔ خلفائے راشدین، بنو امیہ، بنو عباس، عثمانی، مغل اور دیگر مسلمانوں کے سلاطین کی حکومتیں اسلام کی تعلیمات کے اثر سے وجود میں آئیں، مگر ان کا ہر عمل اور ہر پالیسی عین اسلام ہونا لازمی نہیں۔ خاص کر خلفائے راشین کے بعد کے ادوار میں سیاسی مفادات، نسلی تعصبات، اقتدار کی کشمکش اور علمی و فکری انحرافات بھی شامل تھے، جنہیں براہِ راست اسلام کی تاریخ کہنا ایک علمی مغالطہ ہے۔ افسوس کہ انیسویں وبیسویں صدی کے بیشتر مؤرخین نے ان سلاطین کی تاریخ کو ہی "تاریخ اسلام" قرار دے کر اصل دین کی روح اور سیرتِ نبوی ﷺ کی راہنمائی سے لوگوں کو غافل کر دیا۔

امام حسین علیہ السلام: کلامِ اقبالؒ کی روشنی میں ۔ علی وقار قادری

علامہ محمد اقبالؒ کی فکر کی اساس تحرک،تغیر،تسلسل اور ارتقاء ہے اور وہ بھی اس طور پر کہ انسان کائناتی مقصود و مدعا میں معاون ہو جائے اور یوں وہ لافانی ہوجائے۔ کوئی بھی ایسی قدر جو آفاقی ہے (جیسا کہ حق کا سا تھ دینا ،باطل کا رد،مظلوم کی مدد،ظالم کے خلاف قیام، بنیادی معاشی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کی فراہمی) اس کے احیاء کی جدوجہد صحیح معنوں میں کائناتی مقصود کی تائید و نصرت ہے۔ یہ تمام عناصر مل کر اسلام کی ہیتِ اجتماعیہ کے قیام کو عمل میں لاتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اسلامی زندگی کا مقصود اسی ہیتِ اجتماعیہ کا قیام ہے نہ کہ کسی کونے میں بیٹھ کر عضوِ معطل بن کر محض عبادت کرنا۔اس عمل کو اقبالؒ گوسفندی کہتے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام : کلام اقبال ؒ کی روشنی میں 

امام حسینؑ کی فکر،عمل ،جدوجہدمیں مذکورہ حیات بخش عناصر کثر ت سے پائے جاتے ہیں اور اقبالؒ کی نظر میں امام حسین علیہ السلام کی ساری جدوجہد انہی آفاقی اقدار کی احیاء کے لیے تھی جو بدترین ملوکیت نے زمین بوس کر دی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کلامِ اقبال میں ذکرِ اما م حسین علیہ السلام کثرت سے ملتا ہے۔

اقبالؒ کے نزدیک اما حسین علیہ السلام کی کئی حیثیتیں ہیں:

وہ امامِ حسین علیہ السلام کو کبھی امامِ عشق کہتے ہیں، کیونکہ جو کام امامِ حسین علیہ السلام نے کیا یہ اہلِ عقل کا نہیں ہو سکتا بلکہ اہلِ عشق کا ہی ہو سکتا ہے۔
کبھی وارثِ علوم قرآن کہتے ہیں۔
کبھی حق و باطل کے لیے ابدی معیار قرار دیتے ہیں۔
کبھی انسانیت کو فقرِ حسینی علیہ السلام اپنانے کا درس دیتے ہیں۔
کبھی رسمِ شبیری کی ادائیگی کو رازِ حیات گردانتے ہیں۔
کبھی حسین علیہ السلام کو امت کی وحدت کا نمائندہ قرارد یتے ہیں۔
کبھی حیاتِ حسین علیہ السلام کو اسوۂ کامل قرار دیتے ہیں۔
کبھی حسین علیہ السلام کو خلافتِ راشدہ کی قدروں کا محافظ کہتے ہیں۔

سانحۂ کربلا، مذہبی شعور اور سوشل میڈیا کی فکری دنیا: ایک تجزیاتی مطالعہ

محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر مذہبی، فکری اور ثقافتی مباحث کا طوفان سا برپا ہو جاتا ہے۔ سانحۂ کربلا جیسا عظیم اور اندوہناک واقعہ، جو تاریخ انسانیت میں ظلم و حق کے ٹکراؤ کی ایک دائمی علامت بن چکا ہے، ہر سال محرم میں نئی جہات سے زیرِ بحث آتا ہے۔ تاہم گزشتہ چند سالوں میں ایک نیا مظہر سامنے آیا ہے: اس سانحہ پر عوام سے زیادہ دانشوروں، فکری حلقوں اور مذہبی علما کے درمیان فکری اور بعض اوقات جارحانہ مجادلوں کا بڑھتا ہوا رجحان۔ یہ امر قابلِ توجہ ہے اور اس کا تجزیہ محض جذباتی نہیں، بلکہ فکری و فلسفیانہ سطح پر کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

پہلا حلقہ : دینی علوم میں مہارت رکھنے والے اہل علم

میرے مشاہدے کے مطابق محرم کے عشرے میں سوشل میڈیا پر سب سے نمایاں فکری معرکہ شیعہ اور سنی مکاتب فکر کے اہل علم کے مابین ہوتا ہے۔ دونوں اطراف کے علما اور محققین اپنے اپنے نقطۂ نظر کے اثبات اور دوسرے کے رد میں بھرپور استدلالی اور تاریخی مواد پیش کرتے ہیں۔ بسا اوقات یہ علمی سطح پر گراں قدر ہوتا ہے، لیکن اکثر یہ مباحث جلدی جذباتی اور فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔

اس تناظر میں یہ سوال اہم ہے کہ آیا یہ مباحثہ ایک تعمیری مکالمے کی صورت رکھتا ہے یا محض فکری بالادستی اور جذباتی فتح کا میدان ہے؟ اس کا جواب پیچیدہ ہے، مگر یہ طے ہے کہ جب تک علمی اختلاف، اخلاقی آداب اور بین المذاہب احترام کے دائرے میں نہیں آتا، وہ مزید افتراق کو جنم دیتا ہے۔