" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
لا إله إلا الله، محمد رسول الله: امت کی فکری وحدت کا منشور
پالیسی ڈاکومنٹ برائے مسلم حکمران و تھنک ٹینکس
امتِ مسلمہ اس وقت عالمی سطح پر سیاسی، عسکری اور فکری چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جہاں برصغیر میں بھارت کی بالادستی اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت جیسے سنگین مسائل ہیں۔ ایسے نازک حالات میں قرآن مجید ہمیں واضح اور جامع حکمتِ عملی فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ
تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا
تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ
اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ﴾ (سورۃ الانفال، آیت 60)
"اور ان کے
خلاف اپنی طاقت اور گھڑ سواروں کی تیاری پوری استطاعت کے ساتھ کرو تاکہ تم اللہ کے
دشمن اور اپنے دشمنوں کو، اور ان کے علاوہ جنہیں تم نہیں جانتے، ڈرا سکو۔ اللہ
انہیں جانتا ہے۔ اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا
واپس دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔"
اسی آیت کی روشنی میں یہ پالیسی ڈاکومنٹ "اعداد، استطاعت، قوت، ارہاب" کے چار بنیادی مراحل پر مشتمل ایک قرآنی فریم ورک پیش کرتا ہے، جو موجودہ سیاسی و عسکری حقائق کے مطابق امتِ مسلمہ کے لیے دفاع، وقار، اتحاد اور قیادت کی مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یہ دستاویز مسلم حکمرانوں، تھنک ٹینکس اور پالیسی ساز اداروں کے لیے ایک دعوت ہے کہ وہ قرآن کی رہنمائی میں امت کی بحالی اور نئی نشاۃِ ثانیہ کے لیے مربوط حکمتِ عملی ترتیب دیں۔
قلب کی حضوری
رب کائنات کی ربوبیت کی لطیف روشنی، جو دل کے نہاں خانوں میں کسی قندیل کی مانند جلتی ہے، اکثر ہماری غفلت کی گرد میں دب جاتی ہے۔ روزمرہ کی دوڑتی بھاگتی زندگی میں، جہاں وقت سانسوں کی لڑی میں یوں الجھ جاتا ہے کہ لمحے بھی گنتی سے نکل جاتے ہیں، ہم اس حسین اور دائمی سچائی کو بھول جاتے ہیں کہ ہمارا ہر لمحہ، ہر جنبش، ہر خیال، کسی ایک ربِ مہربان کی ربوبیت کے سائے میں پروان چڑھ رہا ہے۔
ربِ کائنات… وہی جو خاموش پتوں میں سرگوشی کرتا ہے، جو بارش کے پہلے قطرے کو زمین کی پیاس کا پتہ دیتا ہے، جو پرندے کے دل میں رزق کی راہ رکھتا ہے، جو سورج کو ہر دن نیا حکم دیتا ہے کہ مشرق کی پیشانی چومے۔ اور ہم… اس کے بندے، اس کی صناعی میں گم، مگر اس کے قرب سے غافل!
کیا ہی عجیب بات ہے کہ ہم جس ہوا میں سانس لیتے ہیں، وہ بھی اسی کے حکم سے رواں ہے۔ وہ پتہ جو درخت کی شاخ سے گرتا ہے، اس کی گرنے کی ساعت بھی اسی کے علم میں لکھی ہوئی ہے۔ وہ رب جس نے کائنات کی ہر شے کو ایک نظم، ایک قانون میں باندھ رکھا ہے، کیا وہ ہماری زندگیوں کو بغیر نگہداشت کے چھوڑ سکتا ہے؟
ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی شخصیت ، افکار اور کتب
بِل گیٹس کا اپنی 99 فیصد دولت عطیہ کرنے کا منصوبہ: ’نہیں چاہتا کہ جب مروں تو لوگ کہیں کہ اس کے پاس کافی دولت تھی "
لیو چہار دہم: نئے منتخب ہونے والے پوپ رابرٹ پریوسٹ کون ہیں؟
قصيدة: أُحبُّكَ يا رسولَ الله - کلام شاعر عبد العزیز جویدہ ، آواز : قاسم
صحيحٌ ما رأيتُ النورَ من وجهِكْ
ولا يومًا سمعتُ العذبَ من صوتِكْ
ولا يومًا حملتُ السيفَ في رَكبِكْ
ولا يومًا تطايرَ من هنا غضبي
كجمرِ النارْ
ولا حاربتُ في أُحُدٍ
ولا قَتَّلتُ في بدرٍ ..
صناديدًا من الكفَّارْ
وما هاجرتُ في يومٍ ،
ولا كنتُ ..
من الأنصارْ
ولا يومًا حملتُ الزادَ والتقوى
لبابِ الغارْ
ڈاکٹر محمد عبد اللہ دراز(1894ء–1958ء) : مصر کے ممتاز عالم، مفسر، محدث اور فلسفی
ابتدائی زندگی
محمد عبد اللہ دراز 8 نومبر 1894ء کو مصر کے موجودہ صوبہ کفر الشیخ کے ایک گاؤں "محلۃ دیائے" میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ عبد اللہ دراز ایک فقیہ اور ماہر لسانیات تھے، جنہوں نے امام شاطبی کی مشہور کتاب "الموافقات" پر شروحات تحریر کیں۔
آپ نے 1905ء میں اسکندریہ کے دینی مدرسے میں داخلہ لیا۔ 1912ء میں الازہر سے ثانویہ (ثانوی تعلیم) کی سند حاصل کی، اور 1916ء میں "شہادتِ عالمیہ" (عالمیت کی ڈگری) حاصل کی۔ 1928ء میں آپ کو الازہر کے اعلیٰ شعبے میں تدریس کے لیے منتخب کیا گیا۔ 1946ء میں آپ کو علمی بعثت کے تحت فرانس بھیجا گیا، اور 1947ء میں پیرس کی مشہور جامعہ سوربون سے آپ نے اعلیٰ اعزاز کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔
فرانس سے واپسی کے بعد آپ نے جامعہ قاہرہ، دارالعلوم، اور کلیہ زبان عربیہ (کلیہ اللغۃ العربیۃ) میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 1949ء میں آپ کو "ہیئۃ کبار العلماء" (بزرگ علماء کی مجلس) کی رکنیت عطا ہوئی۔
1958ء میں، جب آپ پاکستان کے شہر لاہور میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شریک تھے، تو وہیں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ فرانس سے واپسی سے لے کر وفات تک آپ نے کئی اہم ذمہ داریاں نبھائیں، جن میں اعلیٰ تعلیمی پالیسی کی کمیٹی، اعلیٰ نشریاتی کونسل، اور الازہر کی ثقافتی مشاورتی کمیٹی کی رکنیت شامل ہے۔ نیز، وزارتِ عظمٰی کے اجلاسوں میں آپ کا نام منصبِ شیخ الازہر کے لیے زیر غور آیا تھا، جس کے بعد شیخ التونسی خضر حسین کو منتخب کیا گیا۔
مسلم دنیا کی سیاسی و مذہبی قیادت کا فکری تضاد اور اس کا حل
مسلم دنیا اس وقت فکری، سیاسی اور تہذیبی بحران سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف مغربی تہذیب و تعلیم سے متاثر حکمران طبقہ ہے، جو اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہے، اور دوسری طرف عوام میں اثر و رسوخ رکھنے والے علما ہیں، جن کا دینی علم تو مضبوط ہے مگر وہ عصر حاضر کی ریاستی و عالمی سیاست کے تقاضوں سے اکثر ناآشنا ہیں۔ ان دونوں طبقات کے درمیان ایک فکری خلیج حائل ہے، جس نے مسلم معاشروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ نتیجتاً، نہ تو اسلامی نظامِ حیات نافذ ہو سکا، اور نہ ہی مغربی ماڈل سے کوئی پائیدار ترقی حاصل ہوئی۔
نوآبادیاتی دور کے بعد مسلم دنیا میں جو قیادت ابھری، وہ مغربی تعلیمی اداروں سے تربیت یافتہ تھی۔ ان کے نزدیک ترقی کا پیمانہ صرف صنعتی ترقی، مغربی جمہوریت، سیکولر قانون، اور مغربی طرزِ معیشت تھا۔ انہوں نے اسلامی تاریخ، تمدن، اور فقہ کو دقیانوسیت سمجھا اور مذہب کو نجی زندگی تک محدود کر دیا۔ انہوں نے ریاستی ڈھانچے، عدلیہ، تعلیم، معیشت اور میڈیا کو مغرب کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی، جس سے مسلم معاشروں کی تہذیبی شناخت مجروح ہوئی۔
دوسری جانب علمائے کرام کا طبقہ ہے، جو اگرچہ اسلامی علوم میں مہارت رکھتا ہے، مگر اکثر جدید ریاستی نظام، گلوبل پالیٹکس، معیشت، ٹیکنالوجی اور سائنس سے ناآشنا ہے۔ ان کی اکثریت نے صرف روایتی مذہبی اداروں میں تعلیم حاصل کی، جس سے وہ ایک محدود دائرے میں مؤثر ضرور ہیں، مگر ریاستی سطح پر وہ فیصلہ سازی میں شامل نہیں۔ ان کی اپروچ ماضی پرست اور اجتہادی فکر سے خالی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے جدید نسل ان سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
یہ فکری خلیج مسلم معاشرے کو دو انتہاؤں میں بانٹ چکی ہے: ایک طرف مذہب سے بیزار، مغرب زدہ اشرافیہ؛ اور دوسری طرف روایت زدہ، جدیدیت سے ناآشنا دینی طبقہ۔ اس تقسیم نے امت کی اجتماعی قوت کو زائل کر دیا ہے۔ ریاستیں ظاہری ترقی کے باوجود کرپشن، ظلم، بدامنی اور غربت کا شکار ہیں۔ نہ اسلامی عدل میسر ہے، نہ مغربی خوشحالی۔
پاکستان میں دینی اور سیاسی قیادتوں کی باہمی کشمکش
دنیا کے نقشہ پر پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا، مگر اپنی تشکیل کے بعد سے مسلسل دو فکری دھاروں کے درمیان جھولتا رہا: ایک وہ طبقہ جو جدید، مغربی تعلیم یافتہ، بیوروکریسی و اشرافیہ پر مشتمل ہے؛ اور دوسرا وہ طبقہ جو دینی مدارس، علما، صوفیا، اور مذہبی تحریکات کا نمائندہ ہے۔