لا إله إلا الله، محمد رسول الله: امت کی فکری وحدت کا منشور

کہیں دور افق پر سورج ابھرتا ہے تو ایک اذان سنائی دیتی ہے...
پھر کہیں مغرب کے ساحلوں سے بھی وہی صدا بلند ہوتی ہے...
اور قطب شمالی کی سرد وادیوں سے لے کر صحراۓ افریقہ کی تپتی ریت تک،
ایک ہی نعرہ، ایک ہی اعلان، ایک ہی نسبت، ایک ہی ایمان:
"لا إله إلا الله، محمد رسول الله"

یہ محض کلمات نہیں، یہ کائنات کے شعور کی صدا ہیں۔
یہ امت کی شناخت، اس کی روح، اس کا عہدِ وفا، اور اس کا فکری منشور ہیں۔
یہ کلمہ، کوئی رسم نہیں... ایک رشتہ ہے
دنیا میں قومیں مٹی سے بنتی ہیں، زبان سے بندھتی ہیں، نسل سے جڑتی ہیں۔
مگر امت مسلمہ کی تخلیق روح سے ہوئی ہے — اس روح کا نام ہے:
"لا إله إلا الله" — کوئی معبود، کوئی حاکم، کوئی مطاع نہیں، سوائے ایک کے۔
اور اس روح کو شکل دینے والا پیکرِ کامل —
"محمد رسول الله" — جس نے بندگی کو عبادت سے نکال کر تہذیب بنا دیا،
جس نے عشق کو قانون سے جوڑا، اور وفا کو نظام کی بنیاد بنایا۔

یہ کلمہ، مسجد کی دیوار پر نہیں، دل کی دیوار پر لکھا جاتا ہے
جب ایک حبشی بلال پہاڑوں پر اذان دیتا ہے
اور ایک ایرانی سلمان رسول کا قریبی مشیر بنتا ہے
اور ایک یمنی اویس اپنے فقر سے تاریخ بدل دیتا ہے
تو جان لیجیے، یہ کوئی جغرافیائی قوم نہیں —
یہ ایک نظریاتی برادری ہے۔
ایسی برادری، جس کے رشتے رنگ و نسل سے نہیں، کلمے سے جُڑے ہیں۔

پالیسی ڈاکومنٹ برائے مسلم حکمران و تھنک ٹینکس

امتِ مسلمہ اس وقت عالمی سطح پر سیاسی، عسکری اور فکری چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جہاں برصغیر میں بھارت کی بالادستی اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت جیسے سنگین  مسائل ہیں۔ ایسے نازک حالات میں قرآن مجید ہمیں واضح اور جامع حکمتِ عملی فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿ وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ﴾  (سورۃ الانفال، آیت 60)
"
اور ان کے خلاف اپنی طاقت اور گھڑ سواروں کی تیاری پوری استطاعت کے ساتھ کرو تاکہ تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمنوں کو، اور ان کے علاوہ جنہیں تم نہیں جانتے، ڈرا سکو۔ اللہ انہیں جانتا ہے۔ اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا واپس دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔"

اسی آیت کی روشنی میں یہ پالیسی ڈاکومنٹ "اعداد، استطاعت، قوت، ارہاب" کے چار بنیادی مراحل پر مشتمل ایک قرآنی فریم ورک پیش کرتا ہے، جو موجودہ سیاسی و عسکری حقائق کے مطابق امتِ مسلمہ کے لیے دفاع، وقار، اتحاد اور قیادت کی مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یہ دستاویز مسلم حکمرانوں، تھنک ٹینکس اور پالیسی ساز اداروں کے لیے ایک دعوت ہے کہ وہ قرآن کی رہنمائی میں امت کی بحالی اور نئی نشاۃِ ثانیہ کے لیے مربوط حکمتِ عملی ترتیب دیں۔

قلب کی حضوری

 رب کائنات کی ربوبیت کی لطیف روشنی، جو دل کے نہاں خانوں میں کسی قندیل کی مانند جلتی ہے، اکثر ہماری غفلت کی گرد میں دب جاتی ہے۔ روزمرہ کی دوڑتی بھاگتی زندگی میں، جہاں وقت سانسوں کی لڑی میں یوں الجھ جاتا ہے کہ لمحے بھی گنتی سے نکل جاتے ہیں، ہم اس حسین اور دائمی سچائی کو بھول جاتے ہیں کہ ہمارا ہر لمحہ، ہر جنبش، ہر خیال، کسی ایک ربِ مہربان کی ربوبیت کے سائے میں پروان چڑھ رہا ہے۔

ربِ کائنات… وہی جو خاموش پتوں میں سرگوشی کرتا ہے، جو بارش کے پہلے قطرے کو زمین کی پیاس کا پتہ دیتا ہے، جو پرندے کے دل میں رزق کی راہ رکھتا ہے، جو سورج کو ہر دن نیا حکم دیتا ہے کہ مشرق کی پیشانی چومے۔ اور ہم… اس کے بندے، اس کی صناعی میں گم، مگر اس کے قرب سے غافل!

کیا ہی عجیب بات ہے کہ ہم جس ہوا میں سانس لیتے ہیں، وہ بھی اسی کے حکم سے رواں ہے۔ وہ پتہ جو درخت کی شاخ سے گرتا ہے، اس کی گرنے کی ساعت بھی اسی کے علم میں لکھی ہوئی ہے۔ وہ رب جس نے کائنات کی ہر شے کو ایک نظم، ایک قانون میں باندھ رکھا ہے، کیا وہ ہماری زندگیوں کو بغیر نگہداشت کے چھوڑ سکتا ہے؟

ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی شخصیت ، افکار اور کتب

ڈاکٹر برہان احمد فاروقی (1906–1995) برصغیر کے ان نابغۂ روزگار مفکرین میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اسلامی فکر، فلسفہ، اور اقبالیات میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ نہ صرف ایک بلند پایہ فلسفی اور ماہر مابعد الطبیعات تھے بلکہ ایک ایسے صاحبِ بصیرت مصلح تھے جنہوں نے مسلمانوں کی فکری اور سیاسی تشکیلِ نو کے لیے اپنے قلم اور تدریس کو وقف کر دیا۔ ان کی شخصیت میں علم، حلم، اور تدبر کا حسین امتزاج تھا، اور ان کا علمی مقام آج بھی اہلِ علم کے لیے چراغِ راہ ہے۔

ولادت اور ابتدائی تعلیم
ڈاکٹر برہان احمد فاروقی 12 نومبر 1906ء کو ہندوستان کے علمی و ثقافتی شہر امروہہ میں پیدا ہوئے، جو علم و ادب کی روایت کا حامل تھا۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے ملتان میں حاصل کی، جو اُس زمانے میں علم و دین کا گہوارہ تھا۔ بعد ازاں، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے فلسفہ اور مابعد الطبیعات جیسے گہرے علمی موضوعات میں مہارت حاصل کی۔

علی گڑھ، اقبال اور فلسفیانہ تربیت
علی گڑھ یونیورسٹی میں انہیں معروف فلسفی ڈاکٹر سید ظفر الحسن جیسے استادِ گرامی کا قرب نصیب ہوا، جن کی علمی سرپرستی نے فاروقی صاحب کے فکری افق کو وسعت بخشی۔ تاہم، ان کی فکری شخصیت کی اصل تشکیل علامہ محمد اقبال کی صحبت میں ہوئی۔ اقبال کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال ہی کی خواہش پر انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ حضرت مجدد الف ثانی کے نظریۂ توحید پر لکھا۔ یہ مقالہ بعد ازاں "حضرت مجدد الف ثانی کا نظریۂ توحید" کے عنوان سے 1940ء میں شائع ہوا اور اسلامی فلسفے میں ایک سنگِ میل قرار پایا۔

بِل گیٹس کا اپنی 99 فیصد دولت عطیہ کرنے کا منصوبہ: ’نہیں چاہتا کہ جب مروں تو لوگ کہیں کہ اس کے پاس کافی دولت تھی "

بی بی سی اردو 
۹ مئی ۲۰۲۵

مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے کہا کہ وہ اگلے 20 برسوں میں اپنی دولت کا 99 فیصد حصہ عطیہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

بِل گیٹس نے کہا ہے کہ وہ اپنی فاؤنڈیشن، بِل گیٹس فاؤنڈیشن، کے آپریشنز سنہ 2045 تک ختم کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور اس دورانیے میں وہ اپنی فاؤنڈیشن کے ذریعے اپنی دولت عطیہ کرنے کے عمل میں تیزی لائیں گے۔

انھوں نے اپنی ایک حالیہ بلاگ پوسٹ میں لکھا کہ 'جب میں مر جاؤں گا تو لوگ میرے بارے میں بہت سی باتیں کہیں گے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ ان باتوں میں یہ بات نہ ہو کہ 'وہ (بِل گیٹس) جب مرا تو اُس کے پاس کافی دولت تھی۔'

69 سالہ بِل گیٹس نے کہا کہ اُن کی فاؤنڈیشن صحت اور ترقیاتی منصوبوں کی مد میں پہلے ہی 100 ارب ڈالر خرچ کر چکی ہے اور وہ یہ توقع کرتے ہیں کہ اگلے 20 برسوں میں اُن کی فاؤنڈیشن مزید 200 ارب ڈالر خرچ کرے گی۔اپنی اس بلاگ پوسٹ میں بِل گیٹس نے اینڈریو کارنیگی کے سنہ 1889 کے ایک مضمون کا حوالہ دیا جس کا عنوان تھا 'دی گاسپیل آف ویلتھ'۔اس مضمون میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دولت مند افراد کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی دولت معاشرے پر خرچ کریں۔

بِل گیٹس نے کارنیگی کا یہ جملہ بھی استعمال کیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ جو شخص اسی حالت کے مرے کے اس کے پاس دولت ہو، سمجھو وہ ذلت کی موت مرا۔بِل گیٹس کی جانب سے اپنی دولت عطیہ کرنے کا حالیہ وعدہ خیرات کرنے کے عمل میں اُن کے مزید آگے بڑھنے کا اشارہ ہے۔

لیو چہار دہم: نئے منتخب ہونے والے پوپ رابرٹ پریوسٹ کون ہیں؟

پال کرب
9 مئ 2025،   بی بی سی اردو 

سینٹ پیٹرز بیسیلیکا کی بالکونی سے ان کے نام کے اعلان سے قبل ہی مجعمے نے پوپ زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔

69 برس کے رابرٹ پریوسٹ سینٹ پیٹر کے اس منصب پر فائز ہونے والے 267ویں پوپ ہیں، جنھیں پوپ لیو چہار دہم کا خطاب دیا گیا ہے۔

وہ پوپ بننے والے پہلے امریکی ہیں یہ اور بات ہے کہ انھیں لاطینی امریکہ کا ایک کارڈینل سمجھا جاتا ہے کیونکہ آرچ بشپ بننے سے قبل انھوں نے پیرو میں ایک مشنری کے طور پر گزارے کئی سال گزارے۔

رابرٹ پریوسٹ سنہ 1955 میں شکاگو میں پیدا ہوئے۔ انھیں 1982 میں پادری کا خطاب ملا۔ اس کے تین برس بعد وہ پیرو چلے گئے مگر وہ باقاعدگی سے امریکہ بھی آتے تھے۔ان کے پاس پیرو کی قومیت ہے اور انھیں ایک ایسی شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنھوں نے پسماندہ طبقات کی فلاح کے لیے کام کیا اور مقامی چرچز کے لیے پل کا کردار ادا کیا۔

انھوں نے 10 سال مقامی پادری کے طور پر اور شمال مغربی پیرو میں ٹرجیلو کے علاقے میں ایک مذہبی سکول میں بطور استاد خدمات انجام دیں۔نئے پوپ نے انگریزی اور اطالوی زبان میں ویٹیکن میں ہزاروں پیروکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’آپ پر سلامتی ہو۔‘ بھائیو اور بہنو، میں آپ کے گھر والوں کو، آپ سب کو، آپ جہاں کہیں بھی ہوں، آشتی کا سلام بھیجنا چاہتا ہوں۔‘

قصيدة: أُحبُّكَ يا رسولَ الله - کلام شاعر عبد العزیز جویدہ ، آواز : قاسم


صحيحٌ ما رأيتُ النورَ من وجهِكْ

ولا يومًا سمعتُ العذبَ من صوتِكْ

ولا يومًا حملتُ السيفَ في رَكبِكْ

ولا يومًا تطايرَ من هنا غضبي

كجمرِ النارْ

ولا حاربتُ في أُحُدٍ

ولا قَتَّلتُ في بدرٍ ..

صناديدًا من الكفَّارْ

وما هاجرتُ في يومٍ ،

ولا كنتُ ..

من الأنصارْ

ولا يومًا حملتُ الزادَ والتقوى

لبابِ الغارْ

ڈاکٹر محمد عبد اللہ دراز(1894ء–1958ء) : مصر کے ممتاز عالم، مفسر، محدث اور فلسفی

شیخ محمد عبد اللہ دراز (1894ء–1958ء) مصر کے ممتاز عالم، مفسر، محدث اور فلسفی تھے جو جامعہ ازہر سے وابستہ رہے۔ آپ نے قرآن، اخلاقیات اور مذاہبِ عالم پر گہرے علمی اور روحانی مضامین تحریر کیے۔ ان کی خاص پہچان قرآن کو موضوعاتی اور وحدانی انداز میں سمجھنے کی علمی بصیرت تھی۔ انہوں نے اسلامی فکر کو مغربی فلسفے کے مقابل ایک مضبوط فکری و اخلاقی متبادل کے طور پر پیش کیا، اور اپنی مشہور کتاب "دستور الأخلاق في القرآن" کے ذریعے اسلامی اخلاقیات کا علمی و فلسفیانہ دفاع کیا۔

ابتدائی زندگی 

 محمد عبد اللہ دراز 8 نومبر 1894ء کو مصر کے موجودہ صوبہ کفر الشیخ کے ایک گاؤں "محلۃ دیائے" میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ عبد اللہ دراز ایک فقیہ اور ماہر لسانیات تھے، جنہوں نے امام شاطبی کی مشہور کتاب "الموافقات" پر شروحات تحریر کیں۔

آپ نے 1905ء میں اسکندریہ کے دینی مدرسے میں داخلہ لیا۔ 1912ء میں الازہر سے ثانویہ (ثانوی تعلیم) کی سند حاصل کی، اور 1916ء میں "شہادتِ عالمیہ" (عالمیت کی ڈگری) حاصل کی۔ 1928ء میں آپ کو الازہر کے اعلیٰ شعبے میں تدریس کے لیے منتخب کیا گیا۔ 1946ء میں آپ کو علمی بعثت کے تحت فرانس بھیجا گیا، اور 1947ء میں پیرس کی مشہور جامعہ سوربون سے آپ نے اعلیٰ اعزاز کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔

فرانس سے واپسی کے بعد آپ نے جامعہ قاہرہ، دارالعلوم، اور کلیہ زبان عربیہ (کلیہ اللغۃ العربیۃ) میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 1949ء میں آپ کو "ہیئۃ کبار العلماء" (بزرگ علماء کی مجلس) کی رکنیت عطا ہوئی۔

1958ء میں، جب آپ پاکستان کے شہر لاہور میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شریک تھے، تو وہیں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ فرانس سے واپسی سے لے کر وفات تک آپ نے کئی اہم ذمہ داریاں نبھائیں، جن میں اعلیٰ تعلیمی پالیسی کی کمیٹی، اعلیٰ نشریاتی کونسل، اور الازہر کی ثقافتی مشاورتی کمیٹی کی رکنیت شامل ہے۔ نیز، وزارتِ عظمٰی کے اجلاسوں میں آپ کا نام منصبِ شیخ الازہر کے لیے زیر غور آیا تھا، جس کے بعد شیخ التونسی خضر حسین کو منتخب کیا گیا۔

مسلم دنیا کی سیاسی و مذہبی قیادت کا فکری تضاد اور اس کا حل

مسلم دنیا اس وقت فکری، سیاسی اور تہذیبی بحران سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف مغربی تہذیب و تعلیم سے متاثر حکمران طبقہ ہے، جو اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہے، اور دوسری طرف عوام میں اثر و رسوخ رکھنے والے علما ہیں، جن کا دینی علم تو مضبوط ہے مگر وہ عصر حاضر کی ریاستی و عالمی سیاست کے تقاضوں سے اکثر ناآشنا ہیں۔ ان دونوں طبقات کے درمیان ایک فکری خلیج حائل ہے، جس نے مسلم معاشروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ نتیجتاً، نہ تو اسلامی نظامِ حیات نافذ ہو سکا، اور نہ ہی مغربی ماڈل سے کوئی پائیدار ترقی حاصل ہوئی۔

نوآبادیاتی دور کے بعد مسلم دنیا میں جو قیادت ابھری، وہ مغربی تعلیمی اداروں سے تربیت یافتہ تھی۔ ان کے نزدیک ترقی کا پیمانہ صرف صنعتی ترقی، مغربی جمہوریت، سیکولر قانون، اور مغربی طرزِ معیشت تھا۔ انہوں نے اسلامی تاریخ، تمدن، اور فقہ کو دقیانوسیت سمجھا اور مذہب کو نجی زندگی تک محدود کر دیا۔ انہوں نے ریاستی ڈھانچے، عدلیہ، تعلیم، معیشت اور میڈیا کو مغرب کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی، جس سے مسلم معاشروں کی تہذیبی شناخت مجروح ہوئی۔

دوسری جانب علمائے کرام کا طبقہ ہے، جو اگرچہ اسلامی علوم میں مہارت رکھتا ہے، مگر اکثر جدید ریاستی نظام، گلوبل پالیٹکس، معیشت، ٹیکنالوجی اور سائنس سے ناآشنا ہے۔ ان کی اکثریت نے صرف روایتی مذہبی اداروں میں تعلیم حاصل کی، جس سے وہ ایک محدود دائرے میں مؤثر ضرور ہیں، مگر ریاستی سطح پر وہ فیصلہ سازی میں شامل نہیں۔ ان کی اپروچ ماضی پرست اور اجتہادی فکر سے خالی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے جدید نسل ان سے دور ہوتی جا رہی ہے۔

یہ فکری خلیج مسلم معاشرے کو دو انتہاؤں میں بانٹ چکی ہے: ایک طرف مذہب سے بیزار، مغرب زدہ اشرافیہ؛ اور دوسری طرف روایت زدہ، جدیدیت سے ناآشنا دینی طبقہ۔ اس تقسیم نے امت کی اجتماعی قوت کو زائل کر دیا ہے۔ ریاستیں ظاہری ترقی کے باوجود کرپشن، ظلم، بدامنی اور غربت کا شکار ہیں۔ نہ اسلامی عدل میسر ہے، نہ مغربی خوشحالی۔

پاکستان میں دینی اور سیاسی قیادتوں کی باہمی کشمکش

دنیا کے نقشہ پر  پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا، مگر اپنی تشکیل کے بعد سے مسلسل دو فکری دھاروں کے درمیان جھولتا رہا: ایک وہ طبقہ جو جدید، مغربی تعلیم یافتہ، بیوروکریسی و اشرافیہ پر مشتمل ہے؛ اور دوسرا وہ طبقہ جو دینی مدارس، علما، صوفیا، اور مذہبی تحریکات کا نمائندہ ہے۔

یہ کشمکش محض مذہبی و سیکولر تقسیم نہیں، بلکہ اقتدار، فکری ترجیحات، تہذیبی شناخت اور ریاستی نظام کی بنیادوں سے متعلق ایک مسلسل تصادم ہے۔

قائداعظم ؒ نے پاکستان کو "اسلامی ریاست" کہا، مگر اس کی مکمل تعبیر واضح نہیں کی۔ آزادی کے بعد مغربی تعلیم یافتہ افسر شاہی نے ریاست کے ڈھانچے پر قبضہ جما لیا، جبکہ دینی طبقات آئینی حیثیت کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
قرار دادِ مقاصد (1949) اگرچہ اسلامی سمت کا اعلان تھی، مگر عمل درآمد کی نیت کمزور رہی۔

1956، 1962 اور 1973 کے آئین میں اسلامی دفعات شامل کی گئیں، مگر عملی نظام مغربی طرز کا ہی رہا۔ علما نے حدود آرڈیننس، سود کے خلاف فیصلے، اور اسلامی تعلیمی نصاب کے لیے تحریکات چلائیں، مگر ریاستی مشینری نے انہیں زیادہ تر غیر مؤثر بنایا۔