رمضان کی ایک پُرسکون شام تھی۔ آسمان پر ہلکی ہلکی سرخی پھیلی ہوئی تھی، اور گلیوں میں افطار کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ گھروں سے سموسوں کی خوشبو آ رہی تھی، اور مسجد کے قریب بچوں کی ہلکی ہلکی آوازیں گونج رہی تھیں۔ بہاولپور کی چھوٹی سی گلی میں ایک معصوم سی بچی، فضا بی بی، اپنی ماں کے حکم پر محلے کی مسجد کے قریب نلکے سے پانی لینے نکلی۔
ماں نے سوچا تھا کہ چند منٹوں میں وہ لوٹ آئے گی۔ مگر اس شام فضا واپس نہیں آئی۔
وہ مقدس مہینہ تھا، جس میں زمین پر فرشتے اترتے ہیں، برکتیں بکھرتی ہیں، اور ہر طرف رحمت کی گھٹائیں چھائی رہتی ہیں۔ مگر کچھ درندے ایسے بھی تھے جنہیں نہ رحمت کی گھڑیاں نظر آئیں، نہ رمضان کی حرمت، نہ خون کے رشتے کا تقدس۔
فضا، جس نے روزہ نہ رکھ سکنے کا شکوہ اپنی ماں سے کیا تھا، جس نے چند گھنٹے پہلے ہی قرآن پاک کا ایک صفحہ پڑھ کر امی کو سنایا تھا، آج اسی رمضان کی ایک بابرکت شام کو وحشی درندوں کے نرغے میں تھی۔ وہی درندے جو سگے تھے، جن کی گود میں اس نے بچپن گزارا تھا، جو کبھی اس کے لیے عید پر کپڑے اور چوڑیاں لایا کرتے تھے۔
اسے سورج مکھی کے کھیتوں میں لے جایا گیا۔ وہ کھیت، جہاں روشنی زرد پھولوں کی شکل میں جھلملاتی تھی، آج وحشت اور درندگی کے گواہ بن گئے تھے۔
"امی! مجھے واپس جانا ہے، میں نے ابھی پانی لے کر دینا ہے!" فضا چیخی، روئی، ہاتھ جوڑے، مگر ہوس کے مارے وحشیوں کو کسی کی آہ و زاری سنائی نہیں دی۔
ایک معصوم کلی کو بے دردی سے روندا گیا۔ اور پھر، جب ان درندوں نے دیکھا کہ یہ معصوم انہیں پہچان چکی ہے، تو انہوں نے رمضان کے تقدس کو روندتے ہوئے اس کا گلا کاٹ دیا، تاکہ وہ کسی کو بتا نہ سکے کہ اس پر کیا گزری۔
پتوکی میں مزدوری کرنے والے غلام محمد کو جب اطلاع ملی، تو اس کے ہاتھ سے روٹی کا نوالہ گر پڑا۔
"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے تو وعدہ کیا تھا کہ عید پر چوڑیاں لے کر آؤں گا! میری فضا! تم نے تو کہا تھا کہ بس چوڑیاں رہتی ہیں!"
وہ روتا رہا، خود کو ملامت کرتا رہا، مگر کیا وہ اپنی بیٹی کو دوبارہ ہنستے کھیلتے دیکھ سکتا تھا؟
ادھر فضا کی ماں پاگلوں کی طرح گلی میں بھاگ رہی تھی۔ "میری بچی! میری چڑیا! کہاں گئی تو؟"
مگر گلی کی ہوائیں خاموش تھیں۔ وہ گلی جہاں کبھی فضا اپنی ننھی چپلیں گھسیٹتی دوڑا کرتی تھی، آج ماتم کدہ بنی ہوئی تھی۔
فضا، جو ہر رات سونے سے پہلے اپنی ماں کے ساتھ دعا مانگتی تھی، شاید اس رات بھی دعا مانگ رہی تھی:
"یا اللہ! مجھے بچا لے! مجھے امی کے پاس لے جا دے!"
مگر اس کی آخری دعا زمین نے سن لی، آسمان نے سن لی، فرشتوں نے سن لی… مگر انسانوں نے نہ سنی۔
رمضان کی وہ شام گزر گئی۔ فضا بی بی جنت کی ہو گئی، مگر پیچھے رہ جانے والوں کے دل میں ایک سوال چھوڑ گئی:
"یہ کیسے ہوا؟ کس نے اس درندگی کو جنم دیا؟ اور اگلی فضا کو بچانے کے لیے کون کھڑا ہوگا؟"
یہ سوال ابھی تک زمین پر گونج رہا ہے، مگر دنیا اپنی افطار کی دعوتوں اور چمکتی روشنیوں میں گم ہے۔
یہ بھی پڑھیں !