میڈیا، فیک نیوز اور قرآن حکیم : ایک تجزیاتی مطالعہ

دورِ جدید میں میڈیا انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ معلومات کی تیز رفتار ترسیل نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی فیک نیوز (Fake News) اور گمراہ کن اطلاعات کا سیلاب بھی آیا ہے۔ قرآنِ کریم، جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ہمیں اس فتنے سے محفوظ رہنے کے اصول فراہم کرتا ہے۔ اس تحریر میں ہم میڈیا کے کردار، فیک نیوز کے اثرات، اور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اس کے سدباب پر غور کریں گے۔

1. میڈیا اور معلومات کی ترسیل

میڈیا کا بنیادی کام معلومات کی فراہمی ہے، جو مختلف شکلوں میں ہوسکتی ہے:

  • روایتی میڈیا: اخبارات، ریڈیو، ٹی وی

  • ڈیجیٹل میڈیا: ویب سائٹس، سوشل میڈیا، یوٹیوب

  • سوشل میڈیا: فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ، ٹیلیگرام

ان ذرائع نے جہاں معلومات کی رسائی کو آسان بنایا ہے، وہیں افواہوں اور جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ کو بھی ممکن بنایا ہے۔

2. فیک نیوز: ایک خطرناک ہتھیار

فیک نیوز کسی بھی غلط، جھوٹی یا گمراہ کن خبر کو کہتے ہیں جسے کسی مخصوص ایجنڈے، پروپیگنڈے، یا سنسنی پھیلانے کے لیے پھیلایا جاتا ہے۔

فیک نیوز کے مقاصد:

  • عوام کو گمراہ کرنا

  • کسی خاص نظریے یا سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینا

  • شخصیات یا گروہوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانا

  • فرقہ واریت اور انتشار کو ہوا دینا

سیرت : روشنی کا سفر ( قسط ۳)

باب سوم: مکہ کی گلیوں میں ایک سچا نوجوان

رات کے سائے میں چلنے والا ایک منفرد نوجوان

مکہ کی گلیاں رات کے سائے میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ستارے ٹمٹما رہے تھے اور ٹھنڈی ہوا خاموشی سے پہاڑوں کے درمیان سے گزر رہی تھی۔ ان ہی گلیوں میں ایک نوجوان اکثر چپ چاپ چلتا دکھائی دیتا، نہ کسی سے الجھتا، نہ بے مقصد گفتگو کرتا۔ وہ بازاروں میں بھی جاتا، مگر اس کی آنکھوں میں کوئی لالچ نہ ہوتا۔ سوداگری کا ہنر اسے خوب آتا تھا، مگر جھوٹ، دھوکہ، یا ناپ تول میں کمی؟ یہ سب اس کے لیے اجنبی چیزیں تھیں۔

یہ محمد بن عبداللہ ﷺ تھے۔

سچائی کا تاجر

وقت گزرتا گیا، اور محمد ﷺ کی ایمانداری، سچائی اور دیانت داری کی شہرت پورے مکہ میں پھیلنے لگی۔ تاجر انہیں اپنا مال دے کر مطمئن رہتے کہ نہ تو یہ نقصان اٹھائیں گے، نہ کسی کو دھوکہ دیں گے۔ مکہ کے لوگ انہیں "الصادق" (سچ بولنے والا) اور "الامین" (امانت دار) کے ناموں سے یاد کرنے لگے تھے۔

یہ وہ دور تھا جب عرب کی تجارت کا مرکز شام اور یمن کے بازار تھے۔ قریش کے تاجر گرمیوں میں شام اور سردیوں میں یمن کا سفر کرتے۔ ان ہی دنوں مکہ کی ایک مالدار، سمجھدار اور نیک دل خاتون، حضرت خدیجہؓ کو ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جو ان کے تجارتی قافلے کو دیانت داری سے لے جائے۔

سفرِ شام اور ایک انوکھا مشاہدہ

محمد ﷺ کو حضرت خدیجہؓ کا پیغام ملا کہ وہ ان کا سامانِ تجارت لے کر شام جائیں۔ یہ ایک سنہری موقع تھا، مگر ان کے لیے تجارت صرف مال کمانے کا ذریعہ نہیں تھی، بلکہ سچائی کو دنیا کے سامنے لانے کا ایک طریقہ بھی تھی۔

فضا بی بی کی آخری دعا

رمضان کی ایک پُرسکون شام تھی۔ آسمان پر ہلکی ہلکی سرخی پھیلی ہوئی تھی، اور گلیوں میں افطار کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ گھروں سے سموسوں کی خوشبو آ رہی تھی، اور مسجد کے قریب بچوں کی ہلکی ہلکی آوازیں گونج رہی تھیں۔ بہاولپور کی چھوٹی سی گلی میں ایک معصوم سی بچی، فضا بی بی، اپنی ماں کے حکم پر محلے کی مسجد کے قریب نلکے سے پانی لینے نکلی۔

ماں نے سوچا تھا کہ چند منٹوں میں وہ لوٹ آئے گی۔ مگر اس شام فضا واپس نہیں آئی۔

وہ مقدس مہینہ تھا، جس میں زمین پر فرشتے اترتے ہیں، برکتیں بکھرتی ہیں، اور ہر طرف رحمت کی گھٹائیں چھائی رہتی ہیں۔ مگر کچھ درندے ایسے بھی تھے جنہیں نہ رحمت کی گھڑیاں نظر آئیں، نہ رمضان کی حرمت، نہ خون کے رشتے کا تقدس۔

فضا، جس نے روزہ نہ رکھ سکنے کا شکوہ اپنی ماں سے کیا تھا، جس نے چند گھنٹے پہلے ہی قرآن پاک کا ایک صفحہ پڑھ کر امی کو سنایا تھا، آج اسی رمضان کی ایک بابرکت شام کو وحشی درندوں کے نرغے میں تھی۔ وہی درندے جو سگے تھے، جن کی گود میں اس نے بچپن گزارا تھا، جو کبھی اس کے لیے عید پر کپڑے اور چوڑیاں لایا کرتے تھے۔

اسے  سورج مکھی کے کھیتوں میں لے جایا گیا۔ وہ کھیت، جہاں روشنی زرد پھولوں کی شکل میں جھلملاتی تھی، آج وحشت اور درندگی کے گواہ بن گئے تھے۔

"امی! مجھے واپس جانا ہے، میں نے ابھی پانی لے کر دینا ہے!" فضا چیخی، روئی، ہاتھ جوڑے، مگر ہوس کے مارے وحشیوں کو کسی کی آہ و زاری سنائی نہیں دی۔

ایک معصوم کلی کو بے دردی سے روندا گیا۔ اور پھر، جب ان درندوں نے دیکھا کہ یہ معصوم انہیں پہچان چکی ہے، تو انہوں نے رمضان کے تقدس کو روندتے ہوئے اس کا گلا کاٹ دیا، تاکہ وہ کسی کو بتا نہ سکے کہ اس پر کیا گزری۔

پتوکی میں مزدوری کرنے والے غلام محمد کو جب اطلاع ملی، تو اس کے ہاتھ سے روٹی کا نوالہ گر پڑا۔

"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے تو وعدہ کیا تھا کہ عید پر چوڑیاں لے کر آؤں گا! میری فضا! تم نے تو کہا تھا کہ بس چوڑیاں رہتی ہیں!"

وہ روتا رہا، خود کو ملامت کرتا رہا، مگر کیا وہ اپنی بیٹی کو دوبارہ ہنستے کھیلتے دیکھ سکتا تھا؟

ادھر فضا کی ماں پاگلوں کی طرح گلی میں بھاگ رہی تھی۔ "میری بچی! میری چڑیا! کہاں گئی تو؟"

مگر گلی کی ہوائیں خاموش تھیں۔ وہ گلی جہاں کبھی فضا اپنی ننھی چپلیں گھسیٹتی دوڑا کرتی تھی، آج ماتم کدہ بنی ہوئی تھی۔

فضا، جو ہر رات سونے سے پہلے اپنی ماں کے ساتھ دعا مانگتی تھی، شاید اس رات بھی دعا مانگ رہی تھی:

"یا اللہ! مجھے بچا لے! مجھے امی کے پاس لے جا دے!"

مگر اس کی آخری دعا زمین نے سن لی، آسمان نے سن لی، فرشتوں نے سن لی… مگر انسانوں نے نہ سنی۔

رمضان کی وہ شام گزر گئی۔ فضا بی بی جنت کی ہو گئی، مگر پیچھے رہ جانے والوں کے دل میں ایک سوال چھوڑ گئی:

"یہ کیسے ہوا؟ کس نے اس درندگی کو جنم دیا؟ اور اگلی فضا کو بچانے کے لیے کون کھڑا ہوگا؟"

یہ سوال ابھی تک زمین پر گونج رہا ہے، مگر دنیا اپنی افطار کی دعوتوں اور چمکتی روشنیوں میں گم ہے۔


یہ بھی پڑھیں !

جنت کی موتی : زینب

چاندنی کا خوف

رات کے سکوت میں جب چاندنی نے اپنی نرم روشنی سے گلیوں کو چھوا، وہ معصوم بچی چھت پر کھیلنے نکلی۔ اس کی مسکراہٹ اتنی پُر اثر تھی کہ جیسے ساری دنیا کو جگا دے۔ کبھی وہ درختوں کے نیچے چھپ کر، کبھی چاندنی کے دائرے میں دوڑتے ہوئے خوشی سے جھومتی۔ اس کے دل میں ایک عجیب سی بے خوفی تھی۔ وہ رات کے اندھیرے سے کبھی نہیں ڈرتی تھی، کیونکہ اس کے لیے رات کا یہ وقت ایک نیا کھیل تھا، ایک نئی مہم تھی۔

"چاندنی!" وہ کبھی ہنستے ہوئے کہتی، "آج پھر ہم دوستی کرنے آئے ہیں!" اور پھر وہ چھت کی ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑتی، جیسے کوئی پرندہ آزادی کی قید سے نکل کر آسمان پر پرواز کر رہا ہو۔

لیکن ایک رات، جیسے ہی چاندنی نے اپنی نرم چمک چھت پر ڈالی، وہ بچی جو کبھی رات کے اندھیرے میں بھی نہیں ڈرتی تھی، اچانک خاموش ہو گئی۔ کوئی تھا جو اس کی ہنسی چھیننے کے لیے چھپ کر آیا تھا۔ رات کا سکوت، جو کبھی سکون بھرا تھا، اب خوف کی گونج بن چکا تھا۔

جنت کی موتی : زینب

گلی کی دیواروں پر اب بھی اس کے ننھے ہاتھوں کے نشانات باقی تھے، اور ایک دیوار پر اس کی اسکول کی کاپی سے پھاڑ کر چپکایا گیا ایک رنگین سٹیکر ابھی تک موجود تھا، جس پر لکھا تھا: "میری گڑیا سب سے خوبصورت ہے۔" وہی زینب، جو ہر صبح اسکول جاتے ہوئے کھڑکیوں میں کھڑی عورتوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا کرتی تھی، جو ہر گلی کے موڑ پر رک کر اپنی گڑیا کو سنوارتی تھی، جس کے ننھے پاؤں گلی کے ذروں کو محبت سے چھوتے تھے۔ آج وہ گلی، وہی موڑ، وہی دیواریں سب خاموش تھے۔
زینب کی ماں ایک ہفتے سے بے ہوشی اور ہوش کے درمیان کہیں معلق تھی۔ اس کے چہرے پر پژمردگی طاری تھی، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے گواہ تھے کہ نیند اس کی دنیا سے رخصت ہو چکی تھی۔ کبھی وہ زینب کے بستر پر جا کر اس کی چادر سنوارتی، کبھی دروازے پر جا کر خاموشی سے باہر جھانکتی جیسے ابھی زینب بھاگتی ہوئی آئے گی اور ماں کے سینے سے لگ جائے گی۔ اس کی آنکھیں رو رو کر پتھر ہو چکی تھیں، اور زبان سے ایک ہی جملہ نکلتا تھا:

"میری بچی کہاں چلی گئی؟ وہ تو بس چند لمحوں کے لیے نکلی تھی، واپس کیوں نہیں آئی؟"
وہ دن، جب زینب لاپتہ ہوئی تھی، پورے محلے کے لیے قیامت کی گھڑی تھا۔ ہر دروازے پر دستک دی گئی، ہر گلی کی خاک چھانی گئی، مگر زینب کہیں نہ ملی۔ زینب کا باپ، جو ہمیشہ اپنی بیٹی کو سینے سے لگائے رکھتا تھا، آج دربدر اس کی تلاش میں تھا۔ ایک باپ کی بے بسی، ایک ماں کی چیخیں اور ایک بہن کی سسکیاں… سب بے سود۔
پھر وہ خبر آئی، جس نے پورے پاکستان کے دل کو چیر کر رکھ دیا۔

"ایک بچی کی لاش ملی ہے۔ وہ زینب ہے۔"

لاش کو دیکھنے والا ہر شخص ساکت ہو گیا۔ زینب کا ننھا سا وجود بے جان تھا، مگر چہرے پر ایک سوال تھا، ایک احتجاج تھا۔ وہ ننھی آنکھیں جن میں کبھی خواب تیرتے تھے، آج سوال کر رہی تھیں: "یہ میرے ساتھ کیوں ہوا؟ میں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟"

یادوں کی چھاؤں

یادیں زندگی کا ایک ایسا حصہ ہیں جس میں ہم اپنے آپ کو ایک نئی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ جب ہم ماضی کو یاد کرتے ہیں، تو یہ ہمیں ایک ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی پرانے درخت کے نیچے بیٹھ کر اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں پناہ لے رہے ہوں۔ کبھی کبھار، یہ یادیں خوشی کی ہوتی ہیں، تو کبھی غم کی، لیکن ہر یاد ہمیں اپنے آپ کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع دیتی ہے۔

یادیں جیسے دریا کی سیلابی لہریں ہیں، جو ایک وقت میں آپ کو ڈبو دیتی ہیں، تو دوسرے وقت میں آپ کو کنارے تک لے آتی ہیں۔ وہ لمحے جو کبھی اتنے واضح تھے، آج محض دھندلے نقوش کی صورت میں ہمارے دماغ میں رہ گئے ہیں۔ اور یہی دھندلے نقوش کبھی ہمیں ہنسا دیتے ہیں، کبھی رونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

یادیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہم کب خوش تھے، کب غمگین، اور کب ہم نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی جیت یا شکست سنی۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یادیں، چاہے وہ کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہوں، ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ ہر لمحہ اہم ہے، اور ہر لمحے کی قدر کی جانی چاہیے۔

یادوں کا ایک اور پہلو ہے، جو ہمیں انسان بناتا ہے۔ ہم اپنی یادوں کے ذریعے اپنے ماضی کو زندہ رکھتے ہیں، اور ان یادوں کے ساتھ ہم اپنی موجودہ زندگی کی ہمت اور امید کا سفر طے کرتے ہیں۔

سجدۂ کائنات: اللہ کی عظمت ورضا کا پیغام

کائنات کی ہر شے میں ایک بے آواز سرگوشی ہے، ایک پُر اسرار گواہی جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ ساری عظمت، یہ ساری زندگی، صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ آسمان، زمین، دریا، ہوا، درخت، پرندے، اور حتیٰ کہ ہمارے دلوں کی دھڑکنیں بھی ایک ہی ہنر میں جُڑی ہوئی ہیں—سجدہ۔ سجدہ، جو نہ صرف جسمانی عمل ہے، بلکہ ایک گہرا روحانی پیغام بھی ہے، جو ہمیں اپنی حقیقت اور اس کائنات کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ نے ہمیں یہ حقیقت بتائی ہے کہ "آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے" (سورۃ الرعد 15)۔ یہ صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک مکمل کائناتی حقیقت ہے جس میں چھپے ہیں بے شمار راز اور پیغامات۔ ان رازوں کی گہرائی میں جا کر ہم ایک نئی حقیقت کو دریافت کرتے ہیں: اللہ کی حکمت، اس کا نظام، اور اس کی بے پناہ عظمت۔

خواب اور حقیقت کی سرحد پر – انسانی ذہن کی ماورائی کیفیات

ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں، مگر پردۂ تخیل پر روشنی کا ایک ہالہ سا ابھرتا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ شکلیں بنتی اور بگڑتی ہیں، کبھی مانوس، کبھی اجنبی۔ ایک دروازہ کھلتا ہے، اور ہم کسی اور ہی دنیا میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ یہ خواب کی دنیا ہے – حقیقت کے قریب مگر حقیقت سے ماورا۔ خواب اور حقیقت کی سرحد پر کھڑا انسانی ذہن، بیک وقت روشنی اور دھند میں لپٹا، حقیقت اور تصور کے سنگم پر حیرت انگیز مناظر تخلیق کرتا ہے۔

انسانی ذہن ایک پیچیدہ طلسمی قلعہ ہے، جس کے کئی دروازے ہیں۔ کچھ دروازے حقیقت کی جانب کھلتے ہیں، جہاں تجربات، مشاہدات اور منطق کی روشنی ہمیں راستہ دکھاتی ہے۔ مگر کچھ دروازے ایسے بھی ہیں جو خوابوں، تخیل، اور ماورائی کیفیات کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ دونوں دروازے آپس میں یوں جُڑ جاتے ہیں کہ حقیقت اور خواب کی لکیر مدھم ہو جاتی ہے۔ ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، وہ خواب ہے یا حقیقت؟

واقعہ شق صدر کی تحقیق

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بہت سے محیر العقل واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ واقعات آپ کی پیدائش سے پہلے، بچپن میں اور نبوت کے بعد بھی رونما ہوئے۔ ایسے تمام حیران کن واقعات جو کسی نبی کو نبوت ملنے سے پہلے درپیش آئیں” ارھاصات“ کہلاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ملتا ہے کہ اُن کا سینہ فرشتوں نے چاک کر کے اُن کا دل دھویا تھا۔

شق صدر کے لغوی واصطلاحی معنی

لغت کی مشہور کتاب ’’مصباح المنیر‘‘ میں ہے کہ ’’الشق بالفتح انفراج فی الشئی ‘‘ یعنی؛ کسی شے کے کھل جانے کو شق کہتے ہیں۔ ’’اقرب الموارد‘‘کے مطابق:’’شق الشئی شقا صدعہ‘‘ یعنی؛ کسی شے کے شق ہونے سے مراد اُس چیز میں شگاف ڈالنا ہے۔ مولوی فیروز الدین اپنی فیروز اللغات میں شَق کے بارے میں لکھتے ہیں: پھٹا ہوا، شگاف پڑا ہوا، شگاف، دراڑ۔ اسی سے شَق القمر بھی ہے یعنی چاند کا پھٹ جانا۔ یعنی شَق الصدر کا اصطلاحی معنی ٰ بھی یہی ہے یعنی؛ سینے کو کھولنا یا شگاف ڈالنا۔ اس سے مراد شَق الصدر کا واقعہ ہے۔ جو روایات کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن میں رونما ہوا تھا۔

سیرت : روشنی کا سفر (قسط ۲)

 باب دوم: ایک یتیم کا بچپن

حلیمہ سعدیہ کا قافلہ

مکہ کی تپتی ہوئی زمین پر ایک قافلہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا۔ اونٹوں کی گھنٹیوں کی ہلکی ہلکی آوازیں صحرا کی خاموشی میں گھل رہی تھیں۔ بنی سعد کے چرواہے اور عورتیں اپنے اپنے اونٹوں پر سوار تھیں، وہ سب کسی ایسے بچے کی تلاش میں تھے جسے وہ دودھ پلانے کے لیے لے جائیں، مگر مکہ کے خوشحال خاندانوں کے بچے پہلے ہی منتخب ہو چکے تھے۔

حلیمہ سعدیہ کے پاس ایک کمزور اونٹنی تھی، جو چلنے سے قاصر تھی، جبکہ ان کا نومولود بیٹا بھوک سے بلک رہا تھا۔ ان کے شوہر حارث بن عبدالعزیٰ نے افسوس سے کہا:

“حلیمہ، اس سال قحط نے سب کچھ برباد کر دیا ہے۔ ہمیں شاید خالی ہاتھ لوٹنا پڑے۔”

حلیمہ نے آسمان کی طرف دیکھا اور گہری سوچ میں ڈوب گئیں۔ مکہ پہنچنے پر انہیں ایک یتیم بچے کی خبر ملی، جس کی والدہ آمنہ تھیں اور والد عبداللہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ یتیم ہونے کی وجہ سے کوئی اس بچے کو لینے پر تیار نہ تھا۔

حلیمہ کا فیصلہ

حلیمہ نے بچے کو دیکھا۔ وہ گہری نیند میں تھا، چہرے پر ایک نورانیت تھی جو عام بچوں سے مختلف تھی۔ ان کا دل پگھل گیا اور انہوں نے فیصلہ کر لیا:

“میں اس مبارک بچے کو لوں گی۔ شاید یہی ہمارے گھر میں برکت لے آئے۔”