" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
خیر و شر کے سنگم پر کھڑا انسان
کیا مصنوعی ذہانت انسان کی فہم و رائے کو مغلوب کر سکتی ہے؟
ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں انسان اپنی عقل و فکر کی تخلیقات سے خود ہی چیلنج ہونے لگا ہے۔ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) نہ صرف ہماری روزمرہ زندگی، تعلیمی نظام، اور تجارتی فیصلوں کو متاثر کر رہی ہے بلکہ اب انسان کے شعور، رائے، اور فکری خودمختاری کو بھی آزما رہی ہے۔
یہ سوال محض سائنسی یا تکنیکی نوعیت کا نہیں، بلکہ ایک گہرا فلسفیانہ، سماجی اور روحانی سوال ہے:
"کیا ایک بے جان مشین، جو ڈیٹا اور الگورتھمز پر مبنی ہو، انسان کی فہم و دانش، رائے اور وجدان پر حاوی ہو سکتی ہے؟"
اس مضمون میں ہم اس سوال کا تجزیہ تین سطحوں پر کریں گے:
-
فکری و علمی سطح
-
نفسیاتی و معاشرتی سطح
-
روحانی و اخلاقی سطح
فکری و علمی سطح: علم کی حقیقت اور AI کی برتری
مصنوعی ذہانت کی سب سے بڑی طاقت اس کی علمی وسعت اور تجزیاتی رفتار ہے۔ وہ اربوں صفحات، کتابیں، ویڈیوز، اور سوشل میڈیا بیانات کو ایک لمحے میں پڑھ کر معنی خیز خلاصہ پیش کر سکتی ہے۔
سونا، بٹ کوئن اور اصل قدر کا سوال
قرآن مجید ہمیں اس دنیاوی قدر کی ایک عارضی اور محدود حیثیت یاد دلاتا ہے:
"مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں، اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک بہتر اجر اور امید کا ذریعہ ہیں۔" (الکہف: 46)
یہ آیت ہمیں صاف بتاتی ہے کہ اصل قدر وہ نہیں جو بازار میں بکتی ہے، بلکہ وہ ہے جو دلوں کو جوڑتی، روحوں کو سنوارتی اور انسانیت کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ سونا ہو یا بٹ کوئن، اگر وہ انسان کی فلاح کا ذریعہ نہیں تو وہ محض ایک فانی زینت ہے۔
اسلامی تاریخ میں چاندی (درہم) اور سونا (دینار) کو کرنسی کی شکل میں اپنایا گیا، مگر قرآن نے ان کی محض ذخیرہ اندوزی پر شدید وعید سنائی:
"اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔" (التوبہ: 34)
یہ تنبیہ ہمیں بتاتی ہے کہ دولت خود ایک امتحان ہے، نہ کہ مقصد۔ آج جب بٹ کوئن کو "ڈیجیٹل سونا" کہا جا رہا ہے، تو یہ سوال زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ کیا انسان اب بھی دولت کو فقط ذخیرہ کرنے کی مشین بنا رہے گا، یا اسے فلاحِ عامہ میں استعمال کرنے والا شعور بھی پیدا کرے گا؟
کفیل — ایک اجنبی کی قید
پوپ فرانسس کی وفات: ایک سادہ مزاج شخص جنھوں نے روایتی شان و شوکت کے بجائے عاجزی کو ترجیح دی
اختلافِ رائے یا طوفانِ بدتمیزی؟
قرآن، سنت اور روایت: ڈاکٹر خضر یاسین کی فکر کا تنقیدی جائزہ
قرآنِ کریم صرف ایک کتابِ مقدس ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے۔ اس کتاب کی فہم، تعبیر اور تطبیق کی ایک علمی روایت ہے جو چودہ سو سال پر محیط ہے۔ لیکن جدید دور میں بعض مفکرین اس روایت کو رد کرتے ہوئے ایک نیا زاویۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر خضر یاسین کا ہے، جو قرآنی متن اور اسلامی روایت کے باہمی تعلق کو فلسفیانہ اسلوب میں زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ان کا مدعا اگرچہ "براہِ راست فہمِ قرآن" پر زور دینا ہے، لیکن ان کی تعبیرات کئی علمی، تاریخی اور عملی ابہامات سے بھرپور ہیں۔
یہ مضمون ڈاکٹر خضر کے چار بنیادی مقدمات کا جائزہ لیتا ہے اور ہر مقدمے پر ایک علمی تنقید پیش کرتا ہے۔
مقدمہ اول: متن اور فہمِ متن میں فرق
ڈاکٹر خضر یاسین کا دعویٰ:
قرآن کا اصل متن (Text) ایک مستقل وجود رکھتا ہے، جبکہ اس کا فہم (Understanding) ایک الگ وجودی مظہر ہے۔ فہمِ متن، متن سے خارج ہوتا ہے، اس لیے فہم کو متن کا جزو یا عین قرار دینا علمی خیانت ہے۔
جواب:
-
یہ بات درست ہے کہ متن اور فہم دو الگ سطحیں ہیں، لیکن جب فہم درست اور علمی ہو تو وہ متن سے جدا نہیں ہوتا بلکہ متن ہی کی شرح بن جاتا ہے۔
-
اگر فہمِ قرآن کو ہمیشہ متن سے الگ اور مشکوک مانا جائے، تو ہدایت کا تصور ناممکن بن جائے گا۔
-
قرآن خود تدبر، تفکر، تعقل کی دعوت دیتا ہے، جو فہمِ متن کے بغیر ممکن نہیں۔
’’أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا‘‘ (محمد:24)
ایک افغان پناہ گزین کا سوال : "کیا پاکستان میں ہمارے لیے کوئی حقوق نہیں؟"
1. تاریخی تناظر:
پاکستان نے 1979ء سے لے کر اب تک لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنی سرزمین پر جگہ دی۔ یہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک تاریخی فیصلہ تھا، جو اسلامی اخوت، مشترکہ ثقافت، اور ہمسائیگی کے جذبے سے سرشار تھا۔ مگر وقت کے ساتھ یہ جذبہ کمزور ہوتا گیا اور پالیسیوں نے انسانی فطرت سے زیادہ سیاسی و سیکورٹی خدشات کی صورت اختیار کرلی۔
2. قانونی حیثیت کی کمی:
پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے 1951 کے Refugee Convention اور 1967 کے Protocol پر دستخط نہیں کیے۔ نتیجتاً، پاکستان میں پناہ گزینوں کے حقوق کو قانونی تحفظ حاصل نہیں۔ افغان پناہ گزینوں کی حیثیت اکثر ایک مبہم، غیر مستحکم، اور عارضی درجے کی رہی ہے، جس میں ان کی بنیادی انسانی ضروریات — تعلیم، صحت، روزگار، اور نقل و حرکت — کو مکمل تسلیم نہیں کیا گیا۔
3. پالیسیوں کا تضاد:
افغان پناہ گزینوں کے ساتھ پاکستان کا رویہ کئی دہائیوں میں تبدیل ہوتا رہا۔ کبھی ریاستی سرپرستی میں ان کی امداد کی گئی، تو کبھی "واپسی" کے اعلانات اور زبردستی اخراج کی خبریں سامنے آئیں۔ یہ تضاد خود پناہ گزینوں کی نفسیاتی اور معاشی حالت کو مزید غیر مستحکم کرتا ہے۔
قرآن کی تعبیر: ایک خواب جو حقیقت بن گیا
مجھے یاد ہے، وہ ایک خاموش رات تھی۔ ستارے جیسے کسی نئی امید کے گواہ بنے آسمان پر چھائے تھے۔ میں نے ایک دعا کی تھی — "یا رب! مجھے وہ دنیا دکھا جو قرآن کی تعبیر ہو، جو تیرے وعدے کی حقیقت ہو۔"
پھر جیسے وقت ٹھہر گیا۔ میں نہ سو رہا تھا، نہ جاگ رہا تھا۔ میں بس… دیکھ رہا تھا۔
آنکھ کھلی تو میں ایک نئے شہر میں تھا — نہ وہ مشرق تھا، نہ مغرب۔ وہ ایک نیا افق تھا، جہاں اذان کی صدا ہواؤں میں گھلی ہوئی تھی، اور قرآن کی آیات دیواروں پہ نہیں، دلوں پر کندہ تھیں۔
مسئلہ فلسطین کی بدلتی ہوئی جہتیں(Dynamics): ایک جائزہ
مسئلہ فلسطین محض ایک علاقائی تنازع نہیں، بلکہ ایک کثیرالجہتی، پیچیدہ اور تاریخی سانحہ ہے جو گزشتہ ایک صدی سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا محور بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے کی کئی جہتیں (ڈائنامکس) ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے تاریخی پس منظر، زمینی حقائق، عالمی سیاست، اور حالیہ پیش رفتوں کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔ آج جب دنیا ایک نئی عالمی صف بندی کی طرف بڑھ رہی ہے، مسئلہ فلسطین کے ڈائنامکس بھی نئے رخ اختیار کر رہے ہیں۔
تاریخی تناظر: نوآبادیاتی سازش کا تسلسل
مسئلہ فلسطین کی بنیاد 1917ء کے اعلانِ بالفور اور پھر 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ رکھی گئی۔ برطانوی سامراج کی سرپرستی میں یہودی آبادکاری کے لیے فلسطینی سرزمین پر ظلم کی ایک منظم داستان رقم کی گئی۔ فلسطینیوں کی زمینیں، گھر، ثقافت اور وجود ایک منظم منصوبے کے تحت چھینے گئے۔ اس عمل نے صرف ایک ریاست کو جنم نہیں دیا، بلکہ مشرق وسطیٰ میں دائمی کشمکش کا بیج بویا۔
جغرافیائی اور اسٹریٹیجک ڈائنامکس
فلسطین محض ایک قوم یا زمین کا نام نہیں، بلکہ یہ خطہ بحیرہ روم، مصر، اردن، لبنان اور شام جیسے اہم ممالک کے سنگم پر واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیے ہوئے ہے۔
غزہ اور مغربی کنارے کی تقسیم، یہودی بستیوں کی مسلسل توسیع، القدس کی حیثیت کو بدلنے کی کوششیں — یہ سب جغرافیائی اور سیاسی ڈائنامکس کا حصہ ہیں جو زمین پر قبضے اور حقِ خود ارادیت کے درمیان جنگ کو مسلسل بڑھا رہے ہیں۔





