خیر و شر کے سنگم پر کھڑا انسان

کبھی آپ نے کسی دریا کے سنگم کو دیکھا ہے؟ جہاں دو مختلف رنگوں، رفتاروں اور ذائقوں والے پانی ایک ساتھ بہہ رہے ہوں، مگر مکمل مدغم بھی نہ ہوں؟
ایسا ہی کچھ انسان کی فطرت کے ساتھ بھی ہے۔ وہ خیر و شر، روشنی و تاریکی، جذبہ و خواہش، عقل و جبلّت کے سنگم پر کھڑا ہے۔
ایک پل اسے جنت کی ہوا چھو کر گزرتی ہے، اور دوسرے لمحے جہنم کی آندھی میں اس کی بصیرت دھندلا جاتی ہے۔
یہی انسان کا کرب ہے، اور یہی اس کا کمال۔

فطرت کی الہامی گواہی


قرآن مجید کہتا ہے:

"فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا" (الشمس: 8)
"پھر اس (نفس) کو بدی اور پرہیزگاری کی سمجھ دی"

یعنی انسان کوئی خالی تختی نہیں جس پر فقط ماحول ہی کچھ لکھے۔ اس کے اندر ایک الہامی آواز ہے، جو اسے بار بار خبردار کرتی ہے — "یہ راہ ظلم کی ہے، یہ راہ نور کی۔"
اس شعور کو ضمیر کہتے ہیں، یہی اولین وحی ہے جو ہر انسان کو عطا کی گئی۔


 آزادی اور امتحان کا فلسفہ


یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ربِ کائنات نے انسان کو چاہنے کی آزادی دی — چاہے وہ خیر کو چنے یا شر کو۔
یہی آزادی جنت اور جہنم کے دروازے کھولتی ہے۔
انسانی تاریخ کا ہر قصہ — آدمؑ کا اجتباء، ابلیس کا انکار، ہابیل و قابیل کی کہانی، فرعون کا تکبر، موسیٰؑ کا انکسار — دراصل خیر و شر کے بیچ کھڑے انسان کے انتخاب کی تمثیل ہے۔

کیا مصنوعی ذہانت انسان کی فہم و رائے کو مغلوب کر سکتی ہے؟

ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں انسان اپنی عقل و فکر کی تخلیقات سے خود ہی چیلنج ہونے لگا ہے۔ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) نہ صرف ہماری روزمرہ زندگی، تعلیمی نظام، اور تجارتی فیصلوں کو متاثر کر رہی ہے بلکہ اب انسان کے شعور، رائے، اور فکری خودمختاری کو بھی آزما رہی ہے۔

یہ سوال محض سائنسی یا تکنیکی نوعیت کا نہیں، بلکہ ایک گہرا فلسفیانہ، سماجی اور روحانی سوال ہے:

"کیا ایک بے جان مشین، جو ڈیٹا اور الگورتھمز پر مبنی ہو، انسان کی فہم و دانش، رائے اور وجدان پر حاوی ہو سکتی ہے؟"

اس مضمون میں ہم اس سوال کا تجزیہ تین سطحوں پر کریں گے:

  1. فکری و علمی سطح

  2. نفسیاتی و معاشرتی سطح

  3. روحانی و اخلاقی سطح

 فکری و علمی سطح: علم کی حقیقت اور AI کی برتری

مصنوعی ذہانت کی سب سے بڑی طاقت اس کی علمی وسعت اور تجزیاتی رفتار ہے۔ وہ اربوں صفحات، کتابیں، ویڈیوز، اور سوشل میڈیا بیانات کو ایک لمحے میں پڑھ کر معنی خیز خلاصہ پیش کر سکتی ہے۔

سونا، بٹ کوئن اور اصل قدر کا سوال

آج کی دنیا ایک حیران کن دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف قدیم معاشی اقدار کا تسلسل ہے، جن میں سونا، چاندی اور زمین جیسے مادی اثاثے ہمیشہ سے "قدر" کی علامت رہے ہیں۔ دوسری طرف ڈیجیٹل دنیا ایک ایسی نئی کرنسی متعارف کرا رہی ہے جسے نہ چھوا جا سکتا ہے، نہ ذخیرہ کیا جا سکتا ہے، مگر پھر بھی اس کی قیمت آسمان چھو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں اصل "قدر" کا پیمانہ کیا رہا ہے؟ اور اسلام اس سوال کا کیا جواب دیتا ہے؟

قرآن مجید ہمیں اس دنیاوی قدر کی ایک عارضی اور محدود حیثیت یاد دلاتا ہے:

"مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں، اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک بہتر اجر اور امید کا ذریعہ ہیں۔" (الکہف: 46)

یہ آیت ہمیں صاف بتاتی ہے کہ اصل قدر وہ نہیں جو بازار میں بکتی ہے، بلکہ وہ ہے جو دلوں کو جوڑتی، روحوں کو سنوارتی اور انسانیت کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ سونا ہو یا بٹ کوئن، اگر وہ انسان کی فلاح کا ذریعہ نہیں تو وہ محض ایک فانی زینت ہے۔

اسلامی تاریخ میں چاندی (درہم) اور سونا (دینار) کو کرنسی کی شکل میں اپنایا گیا، مگر قرآن نے ان کی محض ذخیرہ اندوزی پر شدید وعید سنائی:

"اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔" (التوبہ: 34)

یہ تنبیہ ہمیں بتاتی ہے کہ دولت خود ایک امتحان ہے، نہ کہ مقصد۔ آج جب بٹ کوئن کو "ڈیجیٹل سونا" کہا جا رہا ہے، تو یہ سوال زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ کیا انسان اب بھی دولت کو فقط ذخیرہ کرنے کی مشین بنا رہے گا، یا اسے فلاحِ عامہ میں استعمال کرنے والا شعور بھی پیدا کرے گا؟

کفیل — ایک اجنبی کی قید

یوسف نے جب سعودی عرب کی زمین پر پہلا قدم رکھا، تو اس کے ہاتھ میں ایک خواب تھا — اور کمر پر ایک کفیل کا نام۔جہاز سے اترا تو سامنے ایک شخص کھڑا تھا۔ نہ مسکراہٹ، نہ سلام۔بس سوال:"کفیل کون ہے؟"یوسف نے اقامہ نکالا۔
گارڈ نے اقامہ کو دیکھا، یوسف کو نہیں۔یوں لگا جیسے وہ انسان نہیں، ایک رجسٹرڈ پیکج ہو۔

یوسف کو کیمپ کے ایک کمرے میں پہنچایا گیا، جہاں سورج کی روشنی بھی اجازت لے کر آتی تھی۔ کام شروع ہوا — مزدوری کا، خامشی کا، اور وقت کے ساتھ ساتھ…ضمیر کا۔
کفیل کے دفتر میں ایک بورڈ لگا تھا: "بغیر اجازت نکلنا منع ہے، بیمار ہونا اطلاع کے بغیر جرم ہے، موبائل رکھنے پر تفتیش ہوگی۔" یوسف نے سوچا:"یہ کفالت ہے… یا قید؟"

رات کے سناٹے میں یوسف نے دیکھا: دیوار پر کسی نے ناخن سے ایک جملہ کھودا تھا: "ہم یہاں نہیں جیتے، صرف سانس لیتے ہیں۔" ہر اینٹ جیسے کہانی کہتی تھی— کسی نے یہاں ماں کی بیماری کی خبر سنی، کسی نے یہاں بیٹی کی شادی مس کردی، کسی نے یہاں موت کو اکیلا قبول کیا۔ یوسف نے دیوار کو چھوا —اس کے ہاتھ پر گرد نہیں، تاریخ تھی۔

ایک دن ایک بنگالی ورکر، فہد، نے کہا: "میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں — ان دیکھے قیدیوں پر۔" یوسف نے حیرت سے دیکھا، "لیکن ہم تو آزاد ہیں؟" فہد نے مسکرا کر کہا: "کبھی کبھی قید زنجیر سے نہیں، اجازت سے ہوتی ہے۔"

وہی فہد، ایک رات سب کو جمع کر کے بولا: "ہم یہاں صرف کام نہیں کرتے، ہم انسان بھی ہیں۔ چلو کوئی بات کریں — اپنے نام سے، اپنے حق سے۔" یوسف نے پہلی بار خود کو خاموشی کے شور سے باہر آتے محسوس کیا۔ ایک گہرا سانس — جیسے دل نے پہلی بار سانس لیا ہو۔

اگلی صبح بیس افراد ہاتھ میں ایک پرچی لیے کھڑے تھے: "ہم انسان ہیں، املاک نہیں۔" گارڈز آئے، پہلے مسکرائے، پھر چیخے، پھر پکڑ لیا۔ فہد کو الگ لے جایا گیا، یوسف کو الگ قید میں ڈالا گیا۔ اسی رات کسی نے دروازے کے نیچے وہی کتاب سرکائی۔ پہلا صفحہ کھولا —نیا جملہ لکھا تھا: "بعض اوقات بغاوت کامیاب نہیں ہوتی، لیکن وہ خواب جگا دیتی ہے جو صدیوں سے دفن ہو۔"

یوسف کو اگلے ہفتے ڈیپورٹ کر دیا گیا۔ نئے ورکر نے کمرے میں آ کر پوچھا:
"یہ یوسف کون تھا؟" کسی نے کچھ نہ کہا، لیکن دیوار پر ایک چابی کا نشان کھداتھا—نیچے لکھا تھا: "قفل ٹوٹتے ہیں —جب کوئی پہلی سانس لے، پہلی بغاوت کرے۔"

یہ صرف یوسف کی کہانی نہیں۔ یہ ہر اُس شخص کی کہانی ہے جس کے خواب کسی دوسرے کے دستخط سے مشروط ہیں۔

پوپ فرانسس کی وفات: ایک سادہ مزاج شخص جنھوں نے روایتی شان و شوکت کے بجائے عاجزی کو ترجیح دی

بی بی سی اردو ،  ۲۱ اپریل ۲۰۲۵ء 

ویٹیکن نے اعلان کیا ہے کہ کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس 88 سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ وہ مارچ 2013 میں اس عہدے پر منتخب ہوئے تھے۔

بطور پوپ فرانسس نے کیتھولک چرچ میں کئی اصلاحات متعارف کروائیں لیکن اس کے باوجود وہ روایت پسندوں میں کافی مقبول رہے۔

فرانسس امریکہ سے تعلق رکھنے والے پہلے پوپ تھے۔ 741 عیسوی میں شام میں پیدا ہونے والے گریگوری سوئم کے بعد وہ روم کے پہلے غیر یورپی بشپ تھے۔

وہ سینٹ پیٹرز کے تخت پر بیٹھنے والے پہلے جے سیوٹ تھے – روایتی طور پر جے سیوٹس کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔جے سیوٹس رومن کیتھولک پادریوں کا ایک گروہ ہے جنھیں ’سوسائٹی آف جیسس‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

فرانسس کے پیشرو، بینیڈکٹ XVI، تقریباً 600 سالوں میں پہلے پوپ تھے جو رضاکارانہ طور پر ریٹائر ہوئے تھے اور تقریباً ایک دہائی تک دونوں پوپ ویٹیکن میں رہے۔

جب 2013 میں ارجنٹینا کے کارڈینل برگوگلیو پوپ بنائے گئے تو وہ اس وقت اپنی عمر کی ساتویں دہائی میں تھے۔

کئی کیتھولک افراد کو امید تھی کہ نئے پوپ کافی کم عمر ہوں گے۔

اختلافِ رائے یا طوفانِ بدتمیزی؟

دنیا ایک نازک دور سے گزر رہی ہے، اور مسلم دنیا اس نازک موڑ پر سب سے زیادہ زخمی، سب سے زیادہ مجبور اور سب سے زیادہ بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ خاص طور پر غزہ کا المیہ، جس میں معصوم بچوں، عورتوں اور نہتے انسانوں کی لاشوں پر عالمی ضمیر خاموش ہے، ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے جذبات بھڑک اٹھیں، یہ فطری ہے۔ لیکن اس جذباتی سیلاب میں عقل، حکمت اور تدبر کی آوازیں اگر دبنے لگیں تو یہ صرف افسوسناک ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی ہے۔

حال ہی میں ممتاز مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی صاحب نے غزہ کے تناظر میں بعض علما کے "جہاد کے فتووں" پر سنجیدہ سوالات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر منظم اور غیر متوازن طریقے سے جہاد کا اعلان دراصل خودکشی کے مترادف ہے، اور جب تک امت مسلمہ اجتماعی طور پر اس قابل نہ ہو جائے کہ وہ عالمی طاقتوں کا سامنا کر سکے، اس وقت تک حکمت، صبر، اور تعمیرِ ملت کی راہ اختیار کرنا ہی دین کی تعلیم اور نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔

غامدی صاحب کا یہ موقف جذبات سے نہیں بلکہ عقل، فہمِ دین، اور نبوی حکمت سے لبریز ہے۔ یہ رائے نہ تو غزہ کے مظلوموں کی حمایت سے انکار ہے، نہ جہاد کی شرعی حیثیت سے فرار، بلکہ یہ طاقت کے بغیر تلوار اٹھانے کی حماقت پر تنبیہ ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس علمی موقف پر سنجیدہ علمی نقد کے بجائے ذاتی حملوں، طعن و تشنیع، اور تمسخر کے تیروں سے حملہ کیا گیا۔

قرآن، سنت اور روایت: ڈاکٹر خضر یاسین کی فکر کا تنقیدی جائزہ

قرآنِ کریم صرف ایک کتابِ مقدس ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے۔ اس کتاب کی فہم، تعبیر اور تطبیق کی ایک علمی روایت ہے جو چودہ سو سال پر محیط ہے۔ لیکن جدید دور میں بعض مفکرین اس روایت کو رد کرتے ہوئے ایک نیا زاویۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر خضر یاسین کا ہے، جو قرآنی متن اور اسلامی روایت کے باہمی تعلق کو فلسفیانہ اسلوب میں زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ان کا مدعا اگرچہ "براہِ راست فہمِ قرآن" پر زور دینا ہے، لیکن ان کی تعبیرات کئی علمی، تاریخی اور عملی ابہامات سے بھرپور ہیں۔

یہ مضمون ڈاکٹر خضر کے چار بنیادی مقدمات کا جائزہ لیتا ہے اور ہر مقدمے پر ایک علمی تنقید پیش کرتا ہے۔

مقدمہ اول: متن اور فہمِ متن میں فرق

ڈاکٹر خضر یاسین کا دعویٰ:

قرآن کا اصل متن (Text) ایک مستقل وجود رکھتا ہے، جبکہ اس کا فہم (Understanding) ایک الگ وجودی مظہر ہے۔ فہمِ متن، متن سے خارج ہوتا ہے، اس لیے فہم کو متن کا جزو یا عین قرار دینا علمی خیانت ہے۔

جواب: 

  1. یہ بات درست ہے کہ متن اور فہم دو الگ سطحیں ہیں، لیکن جب فہم درست اور علمی ہو تو وہ متن سے جدا نہیں ہوتا بلکہ متن ہی کی شرح بن جاتا ہے۔

  2. اگر فہمِ قرآن کو ہمیشہ متن سے الگ اور مشکوک مانا جائے، تو ہدایت کا تصور ناممکن بن جائے گا۔

  3. قرآن خود تدبر، تفکر، تعقل کی دعوت دیتا ہے، جو فہمِ متن کے بغیر ممکن نہیں۔

’’أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا‘‘ (محمد:24)

ایک افغان پناہ گزین کا سوال : "کیا پاکستان میں ہمارے لیے کوئی حقوق نہیں؟"

 1. تاریخی تناظر:

پاکستان نے 1979ء سے لے کر اب تک لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنی سرزمین پر جگہ دی۔ یہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک تاریخی فیصلہ تھا، جو اسلامی اخوت، مشترکہ ثقافت، اور ہمسائیگی کے جذبے سے سرشار تھا۔ مگر وقت کے ساتھ یہ جذبہ کمزور ہوتا گیا اور پالیسیوں نے انسانی فطرت سے زیادہ سیاسی و سیکورٹی خدشات کی صورت اختیار کرلی۔

2. قانونی حیثیت کی کمی:

پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے 1951 کے Refugee Convention اور 1967 کے Protocol پر دستخط نہیں کیے۔ نتیجتاً، پاکستان میں پناہ گزینوں کے حقوق کو قانونی تحفظ حاصل نہیں۔ افغان پناہ گزینوں کی حیثیت اکثر ایک مبہم، غیر مستحکم، اور عارضی درجے کی رہی ہے، جس میں ان کی بنیادی انسانی ضروریات — تعلیم، صحت، روزگار، اور نقل و حرکت — کو مکمل تسلیم نہیں کیا گیا۔

3. پالیسیوں کا تضاد:

افغان پناہ گزینوں کے ساتھ پاکستان کا رویہ کئی دہائیوں میں تبدیل ہوتا رہا۔ کبھی ریاستی سرپرستی میں ان کی امداد کی گئی، تو کبھی "واپسی" کے اعلانات اور زبردستی اخراج کی خبریں سامنے آئیں۔ یہ تضاد خود پناہ گزینوں کی نفسیاتی اور معاشی حالت کو مزید غیر مستحکم کرتا ہے۔

قرآن کی تعبیر: ایک خواب جو حقیقت بن گیا

مجھے یاد ہے، وہ ایک خاموش رات تھی۔ ستارے جیسے کسی نئی امید کے گواہ بنے آسمان پر چھائے تھے۔ میں نے ایک دعا کی تھی — "یا رب! مجھے وہ دنیا دکھا جو قرآن کی تعبیر ہو، جو تیرے وعدے کی حقیقت ہو۔"

پھر جیسے وقت ٹھہر گیا۔ میں نہ سو رہا تھا، نہ جاگ رہا تھا۔ میں بس… دیکھ رہا تھا۔

آنکھ کھلی تو میں ایک نئے شہر میں تھا — نہ وہ مشرق تھا، نہ مغرب۔ وہ ایک نیا افق تھا، جہاں اذان کی صدا ہواؤں میں گھلی ہوئی تھی، اور قرآن کی آیات دیواروں پہ نہیں، دلوں پر کندہ تھیں۔

میں نے پہلا منظر دیکھا:
ایک چھوٹا بچہ، جو بظاہر سات سال کا تھا، رُوٹی توڑتے ہوئے اپنے ہم جماعت کو کہہ رہا تھا:
"تم جانتے ہو؟ آج کی کلاس میں ہم نے سیکھا کہ قرآن صرف عبادات کا نہیں، معیشت، سائنس، سماج، اور محبت کا بھی دستور ہے۔"

پھر میں نے دیکھا — سرحدیں مٹ چکی تھیں۔
قازقستان سے قاہرہ، استنبول سے انڈونیشیا، بغداد سے نائیجیریا — ہر چہرہ ایک ہی شناخت کا آئینہ تھا: "امت واحدہ"

مسئلہ فلسطین کی بدلتی ہوئی جہتیں(Dynamics): ایک جائزہ

مسئلہ فلسطین محض ایک علاقائی تنازع نہیں، بلکہ ایک کثیرالجہتی، پیچیدہ اور تاریخی سانحہ ہے جو گزشتہ ایک صدی سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا محور بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے کی کئی جہتیں (ڈائنامکس)  ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے تاریخی پس منظر، زمینی حقائق، عالمی سیاست، اور حالیہ پیش رفتوں کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔ آج جب دنیا ایک نئی عالمی صف بندی کی طرف بڑھ رہی ہے، مسئلہ فلسطین کے ڈائنامکس بھی نئے رخ اختیار کر رہے ہیں۔

تاریخی تناظر: نوآبادیاتی سازش کا تسلسل

مسئلہ فلسطین کی بنیاد 1917ء کے اعلانِ بالفور اور پھر 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ رکھی گئی۔ برطانوی سامراج کی سرپرستی میں یہودی آبادکاری کے لیے فلسطینی سرزمین پر ظلم کی ایک منظم داستان رقم کی گئی۔ فلسطینیوں کی زمینیں، گھر، ثقافت اور وجود ایک منظم منصوبے کے تحت چھینے گئے۔ اس عمل نے صرف ایک ریاست کو جنم نہیں دیا، بلکہ مشرق وسطیٰ میں دائمی کشمکش کا بیج بویا۔

جغرافیائی اور اسٹریٹیجک ڈائنامکس

فلسطین محض ایک قوم یا زمین کا نام نہیں، بلکہ یہ خطہ بحیرہ روم، مصر، اردن، لبنان اور شام جیسے اہم ممالک کے سنگم پر واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیے ہوئے ہے۔

غزہ اور مغربی کنارے کی تقسیم، یہودی بستیوں کی مسلسل توسیع، القدس کی حیثیت کو بدلنے کی کوششیں — یہ سب جغرافیائی اور سیاسی ڈائنامکس کا حصہ ہیں جو زمین پر قبضے اور حقِ خود ارادیت کے درمیان جنگ کو مسلسل بڑھا رہے ہیں۔