امت مسلمہ کی تعمیر نو: فکری بیداری سے سیاسی آزادی تک مسلم دانشوروں کا کردار

تاریخِ انسانی کی سب سے بامقصد اور بابرکت تحریک "بعثت محمدیﷺ" تھی، جس نے غلام انسان کو آزاد، منتشر قوم کو متحد، اور گمشدہ انسانیت کو منزل آشنا کیا۔ تاہم آج، وہی امت مسلمہ جسے "خیر امت" کہا گیا، فکری زوال، سیاسی محکومی، معاشی انحطاط، سائنسی پسماندگی، اور عسکری کمزوری کا شکار ہے۔ سانحۂ غزہ جیسے المناک واقعات نہ صرف ہماری بے بسی کا آئینہ ہیں بلکہ اس بات کا تقاضا بھی کہ مسلم دانشور اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور امت کی فکری و عملی تعمیر نو کے لیے عملی جدوجہد کریں۔

1. فکری تجدید اور نظریاتی احیاء

1.1 اسلامی ورلڈ ویو کی تشکیل نو

مغربی فکر نے دنیا کو مادیت، فردیت، اور سیکولرازم کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ مسلم دانشوروں کا اولین فریضہ ہے کہ وہ قرآنی تصورِ انسان، توحیدِ ربوبیت، اور عدلِ اجتماعی کو ایک مربوط نظامِ فکر کے طور پر پیش کریں۔ اس فکر کا مرکز بندے اور رب کے تعلق کی بحالی اور "اُمۃ وسطاً" کی ذمہ داری کا شعور ہونا چاہیے۔

چین اور امریکہ کی خارجہ پالیسی اور مستقبل کی عالمی قیادت کا امکان ایک جامع تجزیاتی رپورٹ

عالمی سیاست کی موجودہ ہئیت میں سب سے زیادہ توجہ دو عظیم طاقتوں—امریکہ اور چین—کے درمیان جاری کشمکش پر مرکوز ہے۔ یہ صرف دو ریاستوں کا ٹکراؤ نہیں بلکہ دو متضاد نظریات، تہذیبی رجحانات، معاشی ماڈلز، اور سفارتی حکمت عملیوں کا مقابلہ ہے۔ یہ رپورٹ ان دونوں ممالک کی خارجہ پالیسیوں، طاقت کے ذرائع، اور مستقبل میں عالمی قیادت کے امکانات کا تقابلی جائزہ فراہم کرتی ہے۔

1. نظریاتی بنیاد:

  • امریکہ:

    • جمہوریت، آزادی، انسانی حقوق، اور قوانین پر مبنی عالمی نظام کا داعی۔

    • "امریکہ فرسٹ" (America First) سے لے کر "اتحاد کی بحالی" (Restoring Alliances)  تک پالیسی میں تسلسل کی کمی۔

  • چین:

    • عدم مداخلت، خودمختاری، اور باہمی مفاد پر مبنی اصولی موقف۔

    • مغربی بالا دستی کے متبادل کے طور پر کثیر قطبی دنیا (Multipolar World ) کا حامی۔

2. معاشی طاقت:

  • چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے اور 2040 تک PPP (Purchasing Power Parity) کے لحاظ سے اول بننے کی پیشگوئی ہے۔

  • امریکہ کا مالیاتی نظام، ڈالر کی بالادستی، اور ٹیکنالوجیکل اجارہ داری اب بھی قائم ہے۔

  • چین کی Belt and Road Initiative عالمی اثرورسوخ میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہے۔

نتیجہ: چین کی معاشی بالا دستی کا رجحان واضح ہے، خاص طور پر ترقی پذیر دنیا میں۔

مسئلہ فلسطین : انسانی حقوق کا مغربی بیانیہ بے نقاب

ہم اگر امریکہ کے کردار کا غیر جانب دار اور تجزیاتی انداز میں مطالعہ کریں تو کئی پہلو سامنے آتے ہیں جو نہ صرف اس کی پالیسیوں کی منافقت کو بے نقاب کرتے ہیں، بلکہ عالمی ضمیر، حقوقِ انسانی کے دعوے، اور اقوام متحدہ کے اداروں کی ساکھ کو بھی سوالیہ نشان بناتے ہیں۔

1. امریکہ کی واضح جانبداری:

 اسرائیل کی غیر مشروط حمایت:

  • امریکہ مالی، عسکری، سفارتی، اور سیاسی ہر میدان میں اسرائیل کا سب سے بڑا حامی ہے۔

  • حالیہ جنگ میں ہزاروں فلسطینیوں کے بے گناہ قتل، بچوں کی شہادت، اسپتالوں اور امدادی قافلوں پر حملے جیسے مظالم کے باوجود، امریکہ نے اقوام متحدہ کی سیزفائر قراردادوں کو ویٹو کیا۔

  • یہ واضح کرتا ہے کہ امریکہ کے نزدیک "اسرائیلی مفاد" ہی اصل ترجیح ہے، چاہے اس کی قیمت انسانیت ہی کیوں نہ ہو۔

مسئلہ فلسطین : یورپ امریکہ کی منافقت اور چین روس کی خاموشی حکمت یا مصلحت ؟

دنیا ایک بار پھر تاریخ کے اُس موڑ پر کھڑی ہے جہاں انصاف، حقوقِ انسانی، اور تہذیبِ انسانی کے دعوے دار بے نقاب ہو چکے ہیں۔ غزہ کی سرزمین پر بہنے والا ہر قطرۂ خون، صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ مغربی اخلاقی بیانیے کی شکست کا اعلان ہے۔ اور اس بحران میں، امریکہ کا کردار سب سے زیادہ متنازع، منافقانہ اور غیر اخلاقی نظر آ رہا ہے۔

مگر اس پوری صورتحال میں دو بڑی طاقتیں – چین اور روس – ایک خاص طرزِ سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے: کیا یہ خاموشی بزدلی ہے؟ یا حکمت؟ اور کیا واقعی یہ دونوں طاقتیں امریکہ کی زوال پذیر قیادت کے بعد دنیا کو ایک نئے عالمی نظام کی طرف لے جا سکتی ہیں؟

امریکہ: آزادی اور انصاف کا منافقانہ علمبردار

امریکہ جو خود کو عالمی "مسیحا"، جمہوریت کا پرچم بردار، اور حقوقِ انسانی کا محافظ کہتا ہے، اس وقت فلسطینی نسل کشی پر اسرائیل کا غیر مشروط حامی بنا کھڑا ہے۔

  • ہزاروں بچوں کی شہادت،

  • اسپتالوں، اسکولوں اور امدادی قافلوں پر حملے،

  • اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو ویٹو کرنا،

یہ سب کچھ دنیا کو بتا رہا ہے کہ امریکی اخلاقیات کی بنیاد طاقت، مفاد اور نسل پرستی پر کھڑی ہے۔

سیرت : روشنی کا سفر ( قسط ۶)

شعب ابی طالب — صبر کی گھاٹی

ایک تنگ گھاٹی… پہاڑوں میں گھری ہوئی… تیز دھوپ، خشک زمین، بھوکے پیاسے لب، اور آنکھوں میں امید کی نمی۔
یہ شعب ابی طالب تھا—جہاں پیغمبرِ رحمت ﷺ اور ان کے چاہنے والے محصور کر دیے گئے۔

یہ صرف معاشی بائیکاٹ نہ تھا، یہ دل توڑنے، بھوک سے مارنے، آواز دبانے، اور ایک پیغامِ حق کو ختم کرنے کی آخری کوشش تھی۔
لیکن… یہیں سے صبر کی وہ داستان شروع ہوئی جو قیامت تک ایمان والوں کو طاقت دے گی۔

 کفار کی آخری چال

جب قریش نے دیکھا کہ محمد ﷺ کی دعوت مکہ کی گلیوں، حج کے قافلوں، اور غیر ملکی مہمانوں تک پہنچ رہی ہے—
اور جب انہوں نے محسوس کیا کہ حبشہ کی سرزمین پر بھی پناہ مل گئی،
اور جب ابو طالب ہر موقع پر اپنے بھتیجے کے لیے ڈھال بنے کھڑے رہے…

تو دارالندوہ میں ایک اور فیصلہ ہوا:

"ہم محمد کو نہ مار سکیں، نہ خاموش کرا سکیں—اب بنی ہاشم کو ہی جھکا دیں۔ ان کو سماجی، معاشی، اور ازدواجی طور پر بائیکاٹ کر دو!"

تحریر شدہ معاہدہ:

کفارِ مکہ نے کعبہ کے اندر ایک تحریری معاہدہ لٹکایا، جس میں یہ اعلان تھا:

نور ایمان

(یہ کہانی ایک مومن کے روحانی سفر کو بیان کرتی ہے، جو اللہ کے نور سے منور ہو کر اپنے اندر کی حقیقت کو پہچانتا ہے اور پھر ایمان اور سچائی کے راستے پر چلنے لگتا ہے۔)

 شہر کے شور شرابے میں ایک چھوٹے سے کمرے میں، احمد اپنے گزرے ہوئے دنوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ ایک مومن تھا، لیکن اپنی زندگی میں ایک کمی محسوس کرتا تھا۔ وہ ہر روز قرآن پڑھتا، نماز ادا کرتا، مگر اس کا دل ہمیشہ بے چین رہتا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ کچھ غائب ہے، کچھ ایسا جسے وہ پانے کی کوشش کرتا رہتا ہے، مگر وہ اسے سمجھ نہیں پاتا۔

ایک دن، جب وہ قرآن کے مطالعے میں غرق تھا، ایک آیت نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی:
"اللّٰہُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ..."
"اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے..."
یہ الفاظ اس کے دل میں ایک گہرائی تک اُتر گئے۔ اس نے سوچا، "اللہ کا نور کیا ہے؟ اور میں اسے اپنے اندر کیسے جذب کر سکتا ہوں؟"

وہ رات بھر سوچتا رہا اور فیصلہ کیا کہ اب اسے ایک نئی راہ پر چلنا ہوگا۔ وہ اپنی زندگی کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کرے گا۔ احمد نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہر کام میں اللہ کی رضا کو اولیت دے گا، ہر عمل کو خلوص نیت سے کرے گا، اور ہر لمحے میں اس کے نور کو اپنے دل میں محسوس کرنے کی کوشش کرے گا۔

ٓمصنوعی ذہانت (AI ) کے دورمیں چند اہم سوالات جو ہر نوجوان کو خود سے پوچھنے چاہییں۔

مہارتیں یا مطابقت پذیری(Adaptability) ؟ — مستقبل کی دوڑ میں اصل ضرورت کیا ہے؟

دنیا ہمیشہ سے بدلتی رہی ہے، مگر آج کی دنیا کچھ زیادہ ہی تیز ہو گئی ہے۔ وہ دنیا جس میں ہم صبح آنکھ کھولتے ہیں، شام تک کچھ اور ہو چکی ہوتی ہے۔ نہ علوم وہی رہے، نہ تقاضے۔ ایسے میں سوال یہ نہیں کہ آپ کے پاس کون سی مہارت ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا آپ بدلنے کے لیے تیار ہیں؟

یہی وہ نکتہ ہے جسے ماہرین آج بار بار دہرا رہے ہیں:

"معیشت میں، سکلز سے زیادہ مطابقت پذیری (Adaptability) اہم ہو گی۔"

لیکن آخر یہ بات کہی کیوں جا رہی ہے؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟ آئیے، اس فکری دریا میں اترتے ہیں۔

مہارتیں: ایک بدلتی ہوئی حقیقت

آج سے کچھ دہائیاں پہلے، اگر کوئی شخص ٹائپنگ سیکھ لیتا، مشین چلانا جان لیتا، یا کسی فیکٹری میں ایک خاص ہنر میں ماہر ہوتا، تو وہ عمر بھر کے روزگار کا یقین رکھتا تھا۔ مہارت ایک طرح کی "نوکری کی گارنٹی" ہوتی تھی۔

مگر اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔

مسلم حکمران اور امت کی زبوں حالی — ایک تنقیدی تجزیہ


آج اگر ہم دنیا کے سیاسی نقشے پر نظر دوڑائیں، تو ایک حقیقت نہایت تلخ مگر واضح دکھائی دیتی ہے: امت مسلمہ، جسے کبھی دنیا کی قیادت کا شرف حاصل تھا، آج پستی، محکومی، اور بے بسی کی تصویر بن چکی ہے۔ معاشی بدحالی، سیاسی غلامی، فکری انحطاط اور معاشرتی بحران نے مسلم دنیا کو چاروں طرف سے جکڑ رکھا ہے۔ اور اگر ان زخموں کے ذمہ داروں کی فہرست مرتب کی جائے، تو سب سے اوّل نام خود مسلم دنیا کے حکمرانوں اور ارباب اختیار کا آتا ہے۔

یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار کو امانت کے بجائے دولت، طاقت اور ذاتی مفاد کا ذریعہ سمجھ بیٹھا ہے۔ ان کے اندر بددیانتی، علمی و فکری جہالت، اخلاقی پستی، ظلم و جبر، کرپشن، اقربا پروری، عوامی رائے کے استحصال، اور آزادی اظہار کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ قوموں کے لیے جو قیادت بصیرت، صداقت، عدل، خدمت اور قربانی کی علامت ہوتی ہے، مسلم دنیا میں وہی قیادت بدنامی، ظلم اور خوف کی علامت بن چکی ہے۔

آج جب فلسطین کے نہتے عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، جب ماؤں کی گود اجڑ رہی ہے، جب معصوم بچوں کی لاشیں زمین پر بکھری پڑی ہیں، تو ایسے میں ۵۵ سے زائد مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بے حسی، بزدلی اور منافقت امت کے لیے کسی زخم سے کم نہیں۔ زبانی مذمتوں، رسمی بیانات اور اقوام متحدہ کے کمرے میں چند لمحوں کی خاموشی سے نہ فلسطینیوں کے زخم بھر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے شہداء کو انصاف مل سکتا ہے۔

پروفیسر خورشید احمدؒ: ایک فکری قافلہ سالار، اسلامی دانش کا مینارِ نور

ملتِ اسلامیہ ایک اور فکری و روحانی ستون سے محروم ہو گئی۔ جماعت اسلامی کے بانی اراکین میں سے ایک، نامور اسلامی مفکر، ماہرِ معیشت، مدبر، معلم، محقق، اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی فکر کے سفیر، پروفیسر خورشید احمدؒ، رضائے الٰہی سے انتقال فرما گئے۔ ان کے انتقال سے اسلامی تحریک، فکر و دانش اور معاشی بصیرت کی ایک توانا آواز خاموش ہو گئی، مگر ان کا چھوڑا ہوا فکری سرمایہ تا قیامت چراغِ ہدایت بنا رہے گا۔

شخصیت 

پروفیسر خورشید احمدؒ 1932ء میں دہلی (برطانوی ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ نے کم عمری ہی میں علم، مطالعہ اور فکر کے ایسے جوہر دکھائے جو غیر معمولی تھے۔ آپ کی شخصیت میں علم و عمل، بصیرت و حکمت، تدبر و تدریس اور قیادت و خاکساری کا ایک حسین امتزاج تھا۔ آپ علامہ اقبالؒ کے فکری وارث اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے نظریاتی و تنظیمی رفیقِ خاص تھے۔

تعلیم و علمی پس منظر

خورشید احمدؒ نے معاشیات میں گریجویشن اور پھر ماسٹرز کیا۔ بعد ازاں، بین الاقوامی اسلامی معاشیات کے میدان میں آپ نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ آپ نے مغرب کی معیشت کا گہرا مطالعہ کیا، مگر اسے آنکھیں بند کر کے قبول نہ کیا بلکہ اسے اسلامی اصولوں کے آئینے میں پرکھا۔ لندن اسکول آف اکنامکس سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور اسلامی معاشیات کا ایک نیا بیانیہ پیش کیا، جس نے پوری دنیا کے علمی حلقوں میں اسلامی معاشی فکر کو ایک سنجیدہ اور مربوط نظام کے طور پر متعارف کروایا۔

میں کون ہوں؟

انسان کی کہانی کا پہلا ورق، پہلا سوال… اور شاید آخری بھی —

خاموشی میں کچھ سوال ہوتے ہیں، جو بولتے نہیں، مگر اندر کہیں گونجتے رہتے ہیں۔ یہ سوال کوئی آواز نہیں رکھتے، مگر زندگی کی ہر سانس میں اپنا عکس چھوڑ جاتے ہیں۔ انہی میں ایک سوال ہے — شاید سب سے پہلا، سب سے پُراسرار، اور سب سے قریب: "میں کون ہوں؟"

کیا میں فقط گوشت پوست کا ایک ڈھانچہ ہوں؟ یا وہ سوچ ہوں جو میرے دل میں پلتی ہے؟ کیا میں وہ چہرہ ہوں جو آئینے میں نظر آتا ہے؟ یا وہ احساس جو کسی کی آنکھوں میں جھانک کر بیدار ہوتا ہے؟

کبھی بچپن میں کھیلتے ہوئے، کبھی تنہائی میں چھت پر تکتے ہوئے، کبھی کسی موت پر لرزتے ہوئے، اور کبھی کسی محبت میں بھیگتے ہوئے… یہ سوال دبے پاؤں آتا ہے، دل کے اندر بیٹھ جاتا ہے، اور پھر کبھی پوری عمر وہاں سے جاتا ہی نہیں۔

لیکن اس سوال کا مطلب صرف خود کو پہچاننا نہیں، بلکہ اس پوری کہانی کو سمجھنا ہے جس میں میں ایک کردار ہوں، اور شاید مرکزی کردار — ایک مکمل داستان، جس کا ہر صفحہ میری سانسوں سے لکھا جا رہا ہے۔

قرآن کہتا ہے:

"وفی أنفسکم، أفلا تبصرون"
(اور تمہارے نفسوں میں بھی [ہماری نشانیاں ہیں]، کیا تم غور نہیں کرتے؟)